اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس کا اندازہ
اس بات سے کیجیے کہ اکتوبر ، نومبر سن 2012 میں ہونے والے اے لیول کے اردو
لٹریچر کے پرچے میں طلبہ کو 25 نمبر کا ایک سوال حل کرنے کے لیے دیا گیا۔
سوال حرف بہ حرف یہ تھا۔
’’اقبال کی نظموں میں مذہبی رحجان بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ بحث کیجیے۔‘‘
تجزیہ کیا جائے تو اس سوال کی نوعیت ایسی ہے جیسے کوئی کہے کہ سمندر میں بہت زیادہ پانی کیوں پایا جاتا ہے، بحث کیجیے۔ یا صحرا میں بہت زیادہ ریت کا کیا مفہوم ہے؟ روشنی ڈالیے۔ غور کیا جائے تو مذکورہ سوال قائم کرنے والے شخص کی تکلیف یہ ہے کہ اقبال کی شاعری مذہبی ہے مگر ان کی نظموں یا غزلوں کو نصاب سے باہر رکھنا ممکن نہیں۔ چنانچہ اس کی تمناّ یہ ہے کہ وہ اس طرح کا سوال قائم کرے کہ طلبہ کو محسوس ہو کہ واقعتا اقبال کی شاعری کچھ زیادہ ہی مذہبی ہے چنانچہ ان کے اندر اقبال اور ان کی شاعری کے خلاف ردعمل پیدا ہو۔ معلوم نہیں طلبہ کے سامنے مذکورہ سوال رکھنے والا اپنے مقاصد میں کتنا کامیاب ہوا مگر اس سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سیکولر اور لبرل لوگوں میں ایسے لوگ کثرت سے پائے جاتے ہیں جن کے لیے مذہب کسی جگہ قابل قبول نہیں ہے اور وہ مذہب کے خلاف ردعمل پیدا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ لیکن زیر بحث مسئلہ کی جڑیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔
اردو شاعری کی روایت اپنی نہاد میں مذہبی روایت ہے مگر ہمارے سیکولر کیا مذہبی لوگوں کو بھی اس کا شعور نہیں ہے۔ البتہ اس سلسلے میں سیکولر لوگوں کا معاملہ اکثر اوقات مضحکہ خیز ہوجاتا ہے۔ مثلاً ایک بار معروف افسانہ نگار اور کالم نویس زاہدہ حنا ٹیلی وژن کے ایک پروگرام میں کہہ رہی تھیں کہ میر ایک سیکولر شاعر تھے اور اس سلسلے میں وہ میر کا یہ شعر پیش کررہی تھیں۔
میر کے دین ومذہب کو تم پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
یہ شعر پیش کرکے زاہدہ حنا یہ بتانے کی کوشش کررہی تھیں کہ دیکھے میر تو خود اپنے ترک اسلام کا اعلان کررہے ہیں۔ مگر زاہدہ حنا کو اس شعر میں مفہوم کی ہوا بھی نہیں لگی۔ میر اس شعر میں اس امر پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ ہم برصغیر کے مسلمانوں کا اسلام اس حد تک ’’مقامی‘‘ ہوگیا ہے کہ اس کی عربی شان اور انفرادیت باقی نہیں رہی۔ اس شعر میں لفظ ’’میر‘‘ کسی فرد کا نہیں ایک گروہ بلکہ برصغیر کی پوری ملت اسلامیہ کی علامت ہے۔ زاہدہ حنا کو شاید یہ بات بھی معلوم نہیں تھی کہ جو ہندو میر کے زمانے میں قشقہ کھینچتے تھے وہ ’’توحید پرست‘‘ ہوتے تھے۔ قشقہ کھنچنے والے تو ہندوئوں میں آج بھی نظر آجاتے ہیں۔ مگر معلوم نہیں کہ وہ قشقہ کھنچنے کی ’’علامتی معنویت‘‘ سے آگاہ بھی ہوتے ہیںیا نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو میر کے اس شعر کا ایک مفہوم یہ ہے کہ برصغیر میں آکر ہماری توحید پرستی تو بچ گئی ہے مگر اس میں بھی مقامی رنگ پیدا ہوگیا ہے۔ زاہدہ حنا اور ان جیسے لوگوں کو معلوم نہیں کہ شعر کا مفہوم بسا اوقات شعر میں نہیں ہوتا بلکہ پوری تہذیبی روایت میں ہوتا ہے۔ البتہ میر کی شاعری کا معاملہ یہ ہے کہ میر کی شاعری میں مذہب سطح پر نہیں ہے بلکہ وہ شعروں کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے۔ مثلاً میر کے دو شعر ہیں۔
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
میر کے ان اشعار کی پشت پر مذہب کی پوری روایت کھڑی ہوئی ہے اور اس روایت کو جذب کیے بغیر یہ شعر کہے ہی نہیں جاسکتے۔ جرات کے بارے میں میر کا ایک تبصرہ مشہور زمانہ ہے۔ میر اور جرات ایک مشاعرے میں تھے۔ میر نے جرات کے شعر سنے تو انہوں نے کہا عشق وعاشقی رہنے دو تم اپنی چوما چاتی پر شعر کہہ لیا کرو۔ میر کا یہ تبصرہ اپنی نہاد میں ’’مذہبی‘‘ ہے۔ البتہ میر نے اس کے لیے فقہ کی اصطلاح استعمال نہیں کی ہے۔ لیکن اقبال کی شاعری میں مذہب سطح پر موجود ہے جس کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کی شاعری میں کچھ زیادہ ہی اسلام موجود ہے۔ ان کی شاعری میں اسلام کی فراوانی محسوس ہوتی ہے تو اس کے تہذیبی اور تاریخی اسبایں ہیں۔
اقبال نے اپنے شاعرانہ سفر کی ابتداء کی تو یہ وہ زمانہ تھا کہ برصغیر میں مسلمانوں کا سیاسی اقتدار ختم ہوچکا تھا اور زندگی کے ہر شعبے میں مغربیت کا غلبہ ہورہا تھا اور اسلام کو پس منظر میں دھکیلا جارہا تھا۔ اسلام کی فطرت ہے کہ اسے جتنا دبایا جاتا ہے وہ اتنا ہی ابھرتا ہے۔ اقبال کی شاعری اسلام کی اس فطرت کا اظہار ہے۔ اقبال نے شکوہ لکھا اور بعض لوگ شکوہ کو اقبال کا ذاتی مسئلہ سمجھتے ہیں لیکن اقبال نے شکوہ میں جو کچھ کہا ہے وہ ان کا ذاتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ وہ امت کے دل کا چور ہے جسے اقبال نے شکوہ میں زبان دے دی ہے۔ شکوہ کے بعد اقبال نے جواب شکوہ لکھی اور اس میں امت کو اس کے مرض کا علاج بتایا۔ ان دونوں نظموں کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ اقبال کے باطن میں جو پیکار برپا تھی اس کا اظہار ڈرامائی انداز ہی میں ہوسکتا تھا اور ڈراما پردے کے پیچھے نہیں ہوتا اسٹیج پر ہوتا ہے۔ چنانچہ اقبال کی شاعری میں مذہبی جذبہ اسٹیج پر نظر آتا ہے۔ اقبال کی شاعری میں اسلام کے سطح پر ہونے کا ایک سبب یہ ہے کہ اقبال کو وجدانی طور پر معلوم ہوچکا تھا کہ مغربی تہذیب مررہی ہے اور اسلام کا عالمگیر غلبہ قریب ہے۔ اس شعور نے اس کے وجود میں ایسی سرشاری پیدا کی کہ اقبال کا اسلوب بلند آہنگ ہوگیا اور ان کی شاعری میں ’’خود کلامی‘‘ سے زیادہ ’’ہم کلامی‘‘ کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ اقبال کے زمانے میں ایک مسئلہ یہ بھی پیدا ہوگیا تھا کہ اسلام کا موازنہ مغرب سے کیا جائے اور مغرب پر اسلام کی فوقیت اور بالادستی ظاہر کی جائے تاکہ امتِ مسلمہ باالخصوص برصغیر کی ملت اسلامیہ احساس کمتری سے نکلے اور اپنی اجتماعی قوت کا ادراک کرے۔ چنانچہ اقبال کو اپنی شاعری میں ایسی لغت ایجاد کرنی پڑی جو بہتے ہوئے دریا کے بجائے اپنے اندر بپھرے ہوئے سمندر کا انداز رکھتی ہے۔ اقبال نے ایک جگہ کہا ہے کہ میں نہ شاعر ہوں نہ شاعری میرا مسئلہ ہے۔ چنانچہ میرا موازنہ دوسرے شاعروں سے کرنا ٹھیک نہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ میرا مسئلہ میرا ’’پیغام‘‘ ہے اور چونکہ برصغیر کی ملت اسلامیہ شاعری کا گہرا ذوق اور شوق رکھتی ہے اس لیے میں شاعری کو اپنے پیغام کا ذریعہ بنانے پر مجبور ہوں۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کا مسئلہ پیغام ہو وہ ایسی زبان میں کلام کرنے کا خطرہ مول لے ہی نہیں سکتا جو شاعرانہ تو بہت ہو مگر شاعر کے پیغام کے ابلاغ سے قاصر ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اقبال کی شاعری میں ’’شاعرانہ عنصر‘‘ کم ہے۔ اقبال کی خلاقانہ قوت ایسی ہے کہ لکڑی کو شاعری بنادے لیکن بہرحال اقبال کے لیے اصل چیز ان کا پیغام ہے۔ دیکھا جائے تو یہ بات بجائے خود بہت شاعرانہ ہے مگر اس سے اسلام بہرحال شاعری کی سطح پر آجاتا ہے۔
تجزیہ کیا جائے تو اس سوال کی نوعیت ایسی ہے جیسے کوئی کہے کہ سمندر میں بہت زیادہ پانی کیوں پایا جاتا ہے، بحث کیجیے۔ یا صحرا میں بہت زیادہ ریت کا کیا مفہوم ہے؟ روشنی ڈالیے۔ غور کیا جائے تو مذکورہ سوال قائم کرنے والے شخص کی تکلیف یہ ہے کہ اقبال کی شاعری مذہبی ہے مگر ان کی نظموں یا غزلوں کو نصاب سے باہر رکھنا ممکن نہیں۔ چنانچہ اس کی تمناّ یہ ہے کہ وہ اس طرح کا سوال قائم کرے کہ طلبہ کو محسوس ہو کہ واقعتا اقبال کی شاعری کچھ زیادہ ہی مذہبی ہے چنانچہ ان کے اندر اقبال اور ان کی شاعری کے خلاف ردعمل پیدا ہو۔ معلوم نہیں طلبہ کے سامنے مذکورہ سوال رکھنے والا اپنے مقاصد میں کتنا کامیاب ہوا مگر اس سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سیکولر اور لبرل لوگوں میں ایسے لوگ کثرت سے پائے جاتے ہیں جن کے لیے مذہب کسی جگہ قابل قبول نہیں ہے اور وہ مذہب کے خلاف ردعمل پیدا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ لیکن زیر بحث مسئلہ کی جڑیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔
اردو شاعری کی روایت اپنی نہاد میں مذہبی روایت ہے مگر ہمارے سیکولر کیا مذہبی لوگوں کو بھی اس کا شعور نہیں ہے۔ البتہ اس سلسلے میں سیکولر لوگوں کا معاملہ اکثر اوقات مضحکہ خیز ہوجاتا ہے۔ مثلاً ایک بار معروف افسانہ نگار اور کالم نویس زاہدہ حنا ٹیلی وژن کے ایک پروگرام میں کہہ رہی تھیں کہ میر ایک سیکولر شاعر تھے اور اس سلسلے میں وہ میر کا یہ شعر پیش کررہی تھیں۔
میر کے دین ومذہب کو تم پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
یہ شعر پیش کرکے زاہدہ حنا یہ بتانے کی کوشش کررہی تھیں کہ دیکھے میر تو خود اپنے ترک اسلام کا اعلان کررہے ہیں۔ مگر زاہدہ حنا کو اس شعر میں مفہوم کی ہوا بھی نہیں لگی۔ میر اس شعر میں اس امر پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ ہم برصغیر کے مسلمانوں کا اسلام اس حد تک ’’مقامی‘‘ ہوگیا ہے کہ اس کی عربی شان اور انفرادیت باقی نہیں رہی۔ اس شعر میں لفظ ’’میر‘‘ کسی فرد کا نہیں ایک گروہ بلکہ برصغیر کی پوری ملت اسلامیہ کی علامت ہے۔ زاہدہ حنا کو شاید یہ بات بھی معلوم نہیں تھی کہ جو ہندو میر کے زمانے میں قشقہ کھینچتے تھے وہ ’’توحید پرست‘‘ ہوتے تھے۔ قشقہ کھنچنے والے تو ہندوئوں میں آج بھی نظر آجاتے ہیں۔ مگر معلوم نہیں کہ وہ قشقہ کھنچنے کی ’’علامتی معنویت‘‘ سے آگاہ بھی ہوتے ہیںیا نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو میر کے اس شعر کا ایک مفہوم یہ ہے کہ برصغیر میں آکر ہماری توحید پرستی تو بچ گئی ہے مگر اس میں بھی مقامی رنگ پیدا ہوگیا ہے۔ زاہدہ حنا اور ان جیسے لوگوں کو معلوم نہیں کہ شعر کا مفہوم بسا اوقات شعر میں نہیں ہوتا بلکہ پوری تہذیبی روایت میں ہوتا ہے۔ البتہ میر کی شاعری کا معاملہ یہ ہے کہ میر کی شاعری میں مذہب سطح پر نہیں ہے بلکہ وہ شعروں کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے۔ مثلاً میر کے دو شعر ہیں۔
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
میر کے ان اشعار کی پشت پر مذہب کی پوری روایت کھڑی ہوئی ہے اور اس روایت کو جذب کیے بغیر یہ شعر کہے ہی نہیں جاسکتے۔ جرات کے بارے میں میر کا ایک تبصرہ مشہور زمانہ ہے۔ میر اور جرات ایک مشاعرے میں تھے۔ میر نے جرات کے شعر سنے تو انہوں نے کہا عشق وعاشقی رہنے دو تم اپنی چوما چاتی پر شعر کہہ لیا کرو۔ میر کا یہ تبصرہ اپنی نہاد میں ’’مذہبی‘‘ ہے۔ البتہ میر نے اس کے لیے فقہ کی اصطلاح استعمال نہیں کی ہے۔ لیکن اقبال کی شاعری میں مذہب سطح پر موجود ہے جس کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کی شاعری میں کچھ زیادہ ہی اسلام موجود ہے۔ ان کی شاعری میں اسلام کی فراوانی محسوس ہوتی ہے تو اس کے تہذیبی اور تاریخی اسبایں ہیں۔
اقبال نے اپنے شاعرانہ سفر کی ابتداء کی تو یہ وہ زمانہ تھا کہ برصغیر میں مسلمانوں کا سیاسی اقتدار ختم ہوچکا تھا اور زندگی کے ہر شعبے میں مغربیت کا غلبہ ہورہا تھا اور اسلام کو پس منظر میں دھکیلا جارہا تھا۔ اسلام کی فطرت ہے کہ اسے جتنا دبایا جاتا ہے وہ اتنا ہی ابھرتا ہے۔ اقبال کی شاعری اسلام کی اس فطرت کا اظہار ہے۔ اقبال نے شکوہ لکھا اور بعض لوگ شکوہ کو اقبال کا ذاتی مسئلہ سمجھتے ہیں لیکن اقبال نے شکوہ میں جو کچھ کہا ہے وہ ان کا ذاتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ وہ امت کے دل کا چور ہے جسے اقبال نے شکوہ میں زبان دے دی ہے۔ شکوہ کے بعد اقبال نے جواب شکوہ لکھی اور اس میں امت کو اس کے مرض کا علاج بتایا۔ ان دونوں نظموں کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ اقبال کے باطن میں جو پیکار برپا تھی اس کا اظہار ڈرامائی انداز ہی میں ہوسکتا تھا اور ڈراما پردے کے پیچھے نہیں ہوتا اسٹیج پر ہوتا ہے۔ چنانچہ اقبال کی شاعری میں مذہبی جذبہ اسٹیج پر نظر آتا ہے۔ اقبال کی شاعری میں اسلام کے سطح پر ہونے کا ایک سبب یہ ہے کہ اقبال کو وجدانی طور پر معلوم ہوچکا تھا کہ مغربی تہذیب مررہی ہے اور اسلام کا عالمگیر غلبہ قریب ہے۔ اس شعور نے اس کے وجود میں ایسی سرشاری پیدا کی کہ اقبال کا اسلوب بلند آہنگ ہوگیا اور ان کی شاعری میں ’’خود کلامی‘‘ سے زیادہ ’’ہم کلامی‘‘ کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ اقبال کے زمانے میں ایک مسئلہ یہ بھی پیدا ہوگیا تھا کہ اسلام کا موازنہ مغرب سے کیا جائے اور مغرب پر اسلام کی فوقیت اور بالادستی ظاہر کی جائے تاکہ امتِ مسلمہ باالخصوص برصغیر کی ملت اسلامیہ احساس کمتری سے نکلے اور اپنی اجتماعی قوت کا ادراک کرے۔ چنانچہ اقبال کو اپنی شاعری میں ایسی لغت ایجاد کرنی پڑی جو بہتے ہوئے دریا کے بجائے اپنے اندر بپھرے ہوئے سمندر کا انداز رکھتی ہے۔ اقبال نے ایک جگہ کہا ہے کہ میں نہ شاعر ہوں نہ شاعری میرا مسئلہ ہے۔ چنانچہ میرا موازنہ دوسرے شاعروں سے کرنا ٹھیک نہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ میرا مسئلہ میرا ’’پیغام‘‘ ہے اور چونکہ برصغیر کی ملت اسلامیہ شاعری کا گہرا ذوق اور شوق رکھتی ہے اس لیے میں شاعری کو اپنے پیغام کا ذریعہ بنانے پر مجبور ہوں۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کا مسئلہ پیغام ہو وہ ایسی زبان میں کلام کرنے کا خطرہ مول لے ہی نہیں سکتا جو شاعرانہ تو بہت ہو مگر شاعر کے پیغام کے ابلاغ سے قاصر ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اقبال کی شاعری میں ’’شاعرانہ عنصر‘‘ کم ہے۔ اقبال کی خلاقانہ قوت ایسی ہے کہ لکڑی کو شاعری بنادے لیکن بہرحال اقبال کے لیے اصل چیز ان کا پیغام ہے۔ دیکھا جائے تو یہ بات بجائے خود بہت شاعرانہ ہے مگر اس سے اسلام بہرحال شاعری کی سطح پر آجاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment