Tuesday, March 26, 2013

جیل کے اندر جرائم

سینٹرل جیل کراچی، حیدرآباد کالونی کے قریب، بہادریارجنگ اور یونیورسٹی روڈ کے سنگم پر واقع ہے۔کراچی کی دیگر تاریخی عمارتوںکی طرح یہ بھی تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔1906ء میں تعمیر کی گئی اس جیل میں تحریکِ پاکستان کے عظیم رہنما مولانا محمد علی جوہر بھی قید رہے۔ یہ ستمبر 1921ء کی بات ہے جب انہیں تحریک آزادی کی پاداش میں دو سال قید کی سزا دی گئی۔ قید کے دوران انہوں نے اپنی سوانح حیات بھی تحریر کی۔ یہ جیل 1906ء میں شہر سے دور تھی، اُس وقت شہر صرف کھارادر سے صدر تک تھا۔ لیکن پھلتے اور پھولتے کراچی نے اسے اپنے بیچ میں کرلیا۔ سینٹرل جیل کراچی کو پاکستان کی پہلی باقاعدہ جیل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس جیل کی ایک خاص بات یہ ہے کہ کئی سال سے اس کی توسیع نہیں کی گئی۔ ابتدائی طور پر جیل میں 325 مرد اور 75 خواتین قیدیوں کی گنجائش تھی، سوا سو سال بعد اس کو چھ ہزار قیدیوں کی گنجائش کے قابل بنایا گیا، تاہم اس کے رقبے میں توسیع نہیں کی جاسکی البتہ جیل کے احاطے میں عملے کے لیے دفاتر اور مکانات تعمیر کیے گئے۔ اس جیل کا کل رقبہ 10,889 مربع گز ہے۔
جیل کی تاریخی حیثیت اپنی جگہ، لیکن جیل کے اندر جو تاریخ رقم ہورہی ہے اسے یہاں لکھنا ممکن نہیں ہے۔ جیل کے سپرنٹنڈنٹ سمیت پورے عملے کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ جیل کے قیدی ہیں۔ قیدی بھی وہ جن کی کوئی سیاسی وابستگی یا اثر و رسوخ نہ ہو۔ سیاسی اور بااثر قیدیوں کے لیے جیل، جیل نہیں رہتی بلکہ گھر بن جاتی ہے جہاں ان کو ہر طرح کی سہولیات دستیاب ہوتی ہیں۔ جبکہ عام قیدیوں کو قانونی سہولیات بھی روپے کے عوض حاصل کرنی پڑتی ہیں۔ حکومت کی جانب سے فون اور انٹرنیٹ کی سہولیات کے ساتھ تین وقت کھانے کی سہولت بھی موجود ہے، اس مد میں کروڑوں روپے حکومت مختص کرتی ہے، لیکن عام قیدیوں کے لیے یہ سب سہولتیں مفت حاصل کرنا ناممکن ہے۔ یہاں قیدیوں کو جو کھانا فراہم کیا جاتا ہے اسے بھوکے قیدی مجبوراً ہی کھاتے ہیں، ورنہ یہ خوراک کسی بھی طور پر معیاری نہیں ہوتی۔ بیشتر قیدی گروپ کی شکل میں خود ہی کھانا تیار کرتے ہیں، لیکن اس سہولت کے لیے انہیں علیحدہ پیسے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔
چند ماہ قبل صوبائی وزیر جیل خانہ جات نے نوید سنائی تھی کہ قیدیوں کو ناشتے میں انڈا دیا جائے گا۔ اس اعلان پر قیدی ہنس پڑے، اور اب اس اعلان کو یاد کرکے انہیں ہنسی آتی ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے دو سال قبل جیل کا دورہ کیا اور جیل مینوئل کے مطابق معاملات نہ پاکر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ ان کی برہمی کے باوجود کچھ بھی نہیں بدلا۔ قیدیوں سے ملاقات کے لیے آنے والوں سے رشوت لینا معمول کی بات ہے۔ اگر قیدی کے لیے کچھ اندر بھجوانا ہے تو اس کے علیحدہ چارجز ہیں۔ اگر کوئی حکومت یا حکومتی نظام ہوتا تو ایسا کبھی نہ ہوتا… قیدیوں کے لواحقین سے رشوت لینے والوں کو پکڑنا مقصود ہو تو محکمہ اینٹی کرپشن کسی بھی وقت اچانک کارروائی کرسکتا ہے، اور چاہے تو لواحقین سے تعاون حاصل کرکے بھی کرپٹ عناصر کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ کون کرے گا؟ ہزاروں قیدی اور ان کے لواحقین یہ سوال حکمرانوں سے پوچھتے ہیں۔
جیل کی صورت حال کے بارے میں ایک قیدی ایم اے ساغر نے اپنے ایک رقعہ میں جو بیان کیا ہے وہ بغیر کسی ترمیم کے قارئین کے لیے پیش خدمت ہے:
’’یہ سینٹرل جیل کراچی ہے جس میں تین ہزار سے زائد ملزم اور مجرم قید ہیں۔ یہاں کی ہر چیز ہی الگ ہے۔ یہاں کا نظام… اس کا تو خدا ہی حافظ ہے۔ مجھے یہاں چار سال سے زائد عرصہ گزرچکا ہے مگر یہاں مظالم روز بروز ہی بڑھتے جارہے ہیں۔ یہاں کے سپرنٹنڈنٹ صاحب کہنے کو تو انتہائی فعال قسم کے افسر ہیں، مگر شاید پیسے کی ہوس نے ان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اسی وجہ سے یہاں ظلم کی داستانیں ان کے ضمیر پر دستک دینے سے قاصر ہیں۔ میو وارڈ کی بیرک 47 میں نئے آنے والے قیدیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے کہ جرم بھی شرما جائے۔ انسانیت تو سرے سے موجود ہی نہیں۔ حیدر وارڈ میں بیرک نمبر پانچ ہے جہاں پر ضیاء الرحمن نامی قیدی ہے جو ہر قیدی سے مک مکا کرتا ہے۔ جو مان جائے اسے ایک سے چار روز کی مہلت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے گھر سے پیسے منگوالے، گھر والوں سے رابطے کے لیے چند لمحوں کی موبائل فون کی سہولت مل جاتی ہے۔ جب ملاقات آتی ہے تو وہ اس کے ساتھ جاکر پیسے وصول کرتا ہے۔ پیسے نہ دینے پر گھر والوں کے سامنے تشدد کیا جاتا ہے۔ پھر بعد میں اس سے جیل کی صفائی، دھلائی، کھدائی، اور پٹائی کی مد میں مشقت لی جاتی ہے۔ صفائی میں ان گٹروں کی صفائی بھی شامل ہے جو انسانی فضلے سے بھرے ہوتے ہیں۔ حالانکہ قیدی مسلمان ہوتا ہے، لیکن زیادہ سے زیادہ پیسے حاصل کرنے کا یہی سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ نئے آنے والے قیدیوں کو مختلف کٹیگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جو چور، ڈکیت اور غریب نظر آتے ہیں ان کو بھی درج ذیل بیرکوں میں بھیجا جاتا ہے۔ میو بیرک47، حیدر بیرک 5، اور تعلیم القرآن بیرک 5/15، جہاں کے ذمہ داران ان سے وصولیاں کرکے افسران تک پہنچاتے ہیں۔ جو قیدی اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں ان سے جیل کے ٹاور پر جوڑتوڑ کیا جاتا ہے، یہ جوڑ توڑ 25 ہزار سے شروع ہوکر دس لاکھ تک، اور بعض اوقات اس سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس جوڑ توڑ کے عوض قیدی کو اس کی من پسند جگہ پر رکھا جاتا ہے، وی آئی پی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، ان قیدیوں کو موبائل فون سے لے کر کام کرنے کے لیے نوکر تک فراہم کیا جاتا ہے۔ ایسے قیدیوں میں منشیات وغیرہ کے اسمگلرز، بینکرز اور بڑے جعلساز ہوتے ہیں۔ اس قسم کے قیدیوں سے وصولی کے لیے اکرم، زاہد اور اشوک کمار مامور ہیں۔ یہ بھی قیدی ہیں لیکن ان کی حیثیت کسی جیلر سے کم نہیں ہے۔ جیل کے تمام مظالم سے محفوظ ہیں تو صرف وہ قیدی جن کا تعلق سیاسی جماعتوں متحدہ، جئے سندھ، پیپلز پارٹی، اے این پی اور دیگر جماعتوں سے ہے، یا پھر جہادی تنظیموں سے۔ عبداللہ نامی شخص یہاں کم عمر قیدیوں سے زیادتی بھی کرتا ہے۔ اب آتے ہیں پرانے قیدیوں کی طرف… ان سے بھی بھتہ، رشوت لی جاتی ہے۔ جیل کے ٹاور پر تعینات شخص ایک وارڈ سے دوسرے وارڈ منتقل کرنے کے لیے دو سے بیس ہزار روپے تک لیتا ہے۔ جیلر کی موبائل شاپ جیل میں ہے۔ پہلے موبائل دیتے ہیں جس کے لیے پندرہ سے بیس ہزار روپے وصول کرتے ہیں، پھر ماہانہ پانچ سے دس ہزار وصول کیے جاتے ہیں، نہ دینے پر چھاپا مارکر موبائل برآمد کرلیا جاتا ہے۔ پھر مجبوراً 25 ہزار روپے بھی دیے جاتے ہیں۔ ان کا معاون ذیشان تھا جو اب سپرنٹنڈنٹ کے پاس ہے۔ جیل سے رہائی کا حکم ملنے کی صورت میں بھی قیدیوں کو چھوڑنے کے 20 سے 25 ہزارروپے وصول کیے جاتے ہیں۔ جیل کے رحیم وارڈ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جیل کے اندر جیل ہے۔ اس وارڈ کے انچارج چلبل پانڈے کہلاتے ہیں جو نوٹ دیکھ کر سب کچھ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ان کی اجازت سے جیل میں منشیات بھی فروخت ہوتی ہیں، ان کے وارڈ میں موبائل فون بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ چلبل پانڈے کو نوٹ دیتے رہیں۔ یہ صاحب کم عمر قیدیوں میں بھی غیر معمولی دلچسپی لیتے ہیں۔ جیل میں حکومت نے فون کی سہولت فراہم کی ہے تاکہ قیدی ہفتے میں ایک بار دس منٹ مفت بات کرسکیں، لیکن یہاں تین منت کے 30 روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ جیل کی کرپشن سے سب واقف ہیں لیکن کسی ایک میں خوفِ خدا نہیں ہے۔ کیا چیف جسٹس آف پاکستان جیل میں کیے جانے والے ظلم پر بھی کوئی ایکشن لے سکتے ہیں؟‘‘
فقط، ایم سی ساغر، سینٹرل جیل کراچی

No comments:

Post a Comment