Sunday, March 3, 2013

استاد اور طلبہ کی پٹائی


ہمارے زمانے کی ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ اکثر انسانوں کے پاس زیر بحث موضوع کے سلسلے میں ”درست معلومات“ نہیں ہوتیں۔ درست معلومات ہوتی ہیں تو لوگ اطلاع کو ”علم بنانے“ سے قاصر ہوتے ہیں۔ اس سے بھی بڑی مشکل یہ ہے کہ اکثر لوگوں کے پاس وہ چیز نہیں ہوتی جسے عرف عام میں ”تناظر“ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہماری اکثر گفتگوئیں خلا میں شروع ہوتی ہیں۔ خلا میں آگے بڑھتی ہیں اور خلامیں ختم ہوجاتی ہیں اور ہم اکثر درست تفہیم تک نہیں پہنچ پاتے۔ اب مثلاً ہمارے ابلاغ عامہ کے بعض ذرائع اس بات کو دھماکہ خیز بنانے میں لگے ہوئے ہیں کہ اساتذہ کو طلبہ کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آنے کا حق ہے یا نہیں۔؟ ان ذرائع کا اپنا خیال ہے کہ اساتذہ کو طلبہ کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آنے کا خاص طور پر ان کی پٹائی کا حق نہیں ہے اور اگر ماضی میں اساتذہ کو اس بات کا حق تھا بھی تو اب یہ حق نہیں ہونا چاہیے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ اساتذہ کو ماضی میں بھی طلبہ کی پٹائی کا حق نہیں تھا۔ لیکن یہ بات کہنے والوں کو اس بات کا شعور نہیں کہ ماضیٔ بعید اور ماضیٔ قریب میں اساتذہ اور طلبہ کے تعلق کی نوعیت کیا تھی۔
آج سے سو دو سو سال پہلے نہیں آج سے چالیس سال پہلے بھی ”بچے“ معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری تھے۔ پورا معاشرہ کھلے دل کے ساتھ انہیں اپناتا تھا یا انہیں Own کرتنا تھا۔ اس معاشرے میں گھر کے اندر ہی نہیں باہر بھی رشتے ہی رشتے تھے۔ کوئی بچوں کا چاچا تھا، کوئی ماموں تھا، کوئی بڑا بھائی تھا۔ چنانچہ گھر والے ہی نہیں باہر والے بھی بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ سکتے تھے اور بچے جس طرح ماں باپ اور حقیقی داد، دادی، نانا، نانی، چاچا، چاچی، ماموں، ممانی کی ڈانٹ ڈپٹ برا نہیں مانتے تھے، اسی طرح وہ باہر والے داد، دادی، چاچا، ماموں کی ڈانٹ ڈپٹ کا بھی برا نہیں مانتے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ ڈانٹ ڈپٹ توہین اور تضحیک کے لیے ہوتی بھی نہیں تھی۔ اس بات کا تعلق اصولی اعتبار سے اس خیال کے ساتھ تھا کہ بچوں کا علم اور تجربہ کم ہے اور وہ اپنے اچھے برے کو ٹھیک طرح نہیں پہنچانتے۔ چنانچہ ڈانٹ ڈپٹ انہیں صحیح اور غلط پر متوجہ کرنے کے لیے ہوتی تھی۔ جہاں تک اساتذہ کا تعلق تھا تو وہ ماں باپ کے کردار کی توسیع تھے۔ ان کا کام مٹی کو سونا بنانا اور پودے کو پیٹر میں ڈھا لنا تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ وہ اس کام کا یا تو کوئی معاوضہ ہی نہیں لیتے تھے یا لیتے تھے تو اتنا کم کہ اسے معاوضہ کہنا درست نہیں۔ وہ بچوں کو محبت اور علم عطا کرتے اور جواب میں عزت واحترام کے طالب ہوتے تھے۔ بلاشبہ مدارس اور اسکولوں میں پٹائی کسی نویت میں آتی تھی مگر اس پٹائی کا معاملہ ”اٹم بم“ والا تھا۔ ایٹم بم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ استعمال کے لیے نہیں ہوتا صرف خوف پیدا کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ اس زمانے میں اساتذہ کی پٹائی کا معاملہ بھی یہی تھا۔ وہ اصولی طور پر خوف پیدا کرنے کے لیے تھی اور اس کا استعمال شاذ ہی کیا جاتا تھا اور صرف ان طلبہ پر کیا جاتا تھا جو نالائق ہوتے تھے۔ اس پٹائی کے دو فائدہ تھے۔ ایک یہ کہ نالائق طلبہ بھی کچھ نہ کچھ لائق ہوجاتے تھے اور اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ نالائقی کی طرف مائل طلبہ کو نالائقی اختیار کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ یہاں دوہرائے جانے کے لائق بات یہ ہے کہ اس سارے عمل کی بنیاد ”گہرا تعلق“ تھا۔ ڈانٹنے یا مارنے والے تعلق کے ساتھ ڈانٹتے اور مارتے تھے وار ڈانٹ کھانے اور مار سہنے والے تعلق کے ساتھ ڈانٹ سنتے اور مار سہتے تھے۔
ہمارے زمانے کا مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ اس میں ”تعلق“ نہ صرف یہ کہ ٹوٹ گیا ہے بلکہ کہیں اس کی ”طلب“ بھی باقی نہیں رہی۔ چنانچہ اب استاد کیا ماں باپ بھی بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ مغرب میں ماں باپ کی مارپیٹ ”جرم“ بن چکی ہے۔ ہمارے یہاں ابھی ماں باپ کی مارپیٹ جرم تو نہیں بنی مگر اس میں جرم کا تاثر پیدا ہونا شروع ہوچکا ہے۔ ہمارے زمانے میں ایسے تعلیمی ادارے موجود ہیں جو اپنے اسکول کو اسکول نہیں ”کمپنی“ کہتے ہیں۔ ان اسکولوں کے مالکان کے لیے اساتذہ اساتذہ نہیں ہیں ان کے ”ملازم“ ہیں اور بچے طلبہ وطلبات نہیں ان کے ”گاہگ“ ہیں۔ ظاہر ہے کہ مالک، ملازم اور گاہگ کے مراسم میں ”تعلق“ پیدا ہو ہی نہیں سکتا اور جہاں تعلق نہ ہوں وہاں مارپیٹ کیا ڈانٹ بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ ہمارے زمانے میں اساتذہ کی اکثریت کے لیے ”استادی“ کوئی ذمہ داری اور کوئی روحانی واخلاقی منصب نہیں ہے بلکہ اس کے لیے درس وتدریس محض ایک ”پیشہ“ اور ”روزگار“ ہے۔ بدقسمتی یہ بات اب طلبہ کو بھی معلوم ہوچکی ہے۔ چنانچہ طلبہ اور ساتذہ کا تعلق اب تجارتی ہے اور یہ تعلق اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتا کہ ماضی میں اساتذہ طلبہ کو کیوں اور کیسے ڈانٹتے تھے یہاں تک کے مار بھی لیتے تھے اور طلبہ اس کا برا نہیں مانتے تھے؟
بلاشبہ درس وتدریس کے سلسلے میں ترغیب خوف سے زیادہ موثر ہے لیکن بعض انسانوں کی فطرت ایسی ہوتی ہے کہ اس کے لیے ترغیب موثر ہی نہیں ہوتی۔ ایسا نہ ہوتا تو دنیا میں جرم وسزا کا کوئی تصور ہی نہیں ہوتا۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بعض لوگ اس لیے ”جرم نہیں“ کرتے کہ وہ ”سلیم الفطرت“ ہوتے ہیں۔ لیکن دنیا میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو جرم سے محض اس لیے باز رہتے ہیں کہ انہیں سزا کا خوف ہوتا ہے۔ ہمارے دین میں انسانی عمل کی تین بنیادیں ہیں۔ یعنی کچھ لوگ اس لیے نیکی کرتے ہیں کہ وہ جنت کے طالب ہوتے ہیں اور جنت کی ترغیب ان کی فطرت کا غالب رحجان ہوتی ہے۔ اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نیکی اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں جہنم میں جانے کا خوف ہوتا ہے اور یہ خوف ان کی فطرت کا غالب رنگ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ترغیب اور خوف کے بجائے نیکی محض اس لیے کرتے ہیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں۔ ان محرکات میں سب سے اچھا محرّک اللہ کی رضا کا حصول ہے مگر ان محرکات میں بہرحال خوف کا محرّک بھی موجود ہے اور اس کی ضرورت سے کوئی صاحب شعور انکار نہیں کرسکتا۔ تاہم استاد اور طالب علم کے تعلق میں خوف کے عنصر کو ایک دو فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ خوف ہو یا محبت، ترغیب ہو یا تحریص اصل چیز تعلق ہے۔ تعلق ہو تو ہر چیز موثر ہوتی ہے تعلق نہ ہوتو خوف بھی غیر موثر ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اس مسئلے سے متعلق سب سے اہم سوال یہ ہے کہ استاد اور طلبہ کے روایتی تعلق کو غیر روایتی ماحول میں کیسے بحال کیا جائے؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے۔ پانی ہمیشہ فراغ سے نشیب کی جانب بہتا ہے۔ چنانچہ اصل بات یہ ہے کہ اساتذہ کو قربانی دیتے ہوئے طلبہ کے لیے خود کو نمونہ بنانا ہوگا۔ آج بھی یہ تجربہ ہمارے سامنے ہے کہ جو اساتذہ حقیقی معنوں میں استاد ہوتے ہیں برے سے برے طالب علم بھی نہ صرف یہ کہ ان کی عزت کرتے ہیں بلکہ ان سے زیادہ سیکھتے بھی ہیں۔

No comments:

Post a Comment