Sunday, March 3, 2013

امریکا کی موجودہ داخلی صورتحال

امریکاکے بارے میں ہر شخص خوش فہمی کا شکار ہے۔ پاکستان کیا ، کسی سے بھی اس کا تذکرہ کریں، اس کے ذہن میںناقابل شکست اور خوشحال ملک کی تصویر ابھرتی ہے جو اس وقت دنیا پر یک قطبی طاقت کے مزے کررہا ہے۔ جس کو چاہتا ہے اپنے قدموں تلے روند ڈالتا ہے، جب جی چاہتا ہے کسی بھی ملک پر لشکر کشی کردیتا ہے۔ اقوام متحدہ اس کے گھر کی لونڈی ہے اور یورپ اس کا باجگزار۔ کینیڈا اور آسٹریلیا اس کی طفیلی ریاستوں کے طور پر حرکت کرتے ہیں۔ ایک عام ملک تو کیا روس و چین کی بھی اس کے سامنے نہیں چلتی۔امریکا کے ساتھ ہی امریکیوں کے بارے میں بھی ایسے ہی تصورات ذہن میں آتے ہیں۔ ایک ایسے ملک کے باسی جن کو بنیادی انسانی حقوق سے بھی کچھ زیادہ ہی حقوق حاصل ہیں۔ ان کو اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے۔ سرکار ان کو روزگار فراہم کرنے کی پابند ہے۔ اگر روزگار نہیں دے گی تو بے روزگاری الاؤنس تو ملے گا ہی۔ بیمار ہوگا تو مفت علاج کی سہولت میسر ہے۔ امریکی کانگریس اور صدر ہر وقت لرزہ براندام رہتے ہیں کہ کہیں یہ عام امریکی ان سے ناراض نہ ہوجائیں۔ جہاں کہیں کسی نے ایسی ویسی حرکت کی، یہ عام امریکی فوری طور پر عدالت پہنچ جاتا ہے اور عدالت بھی سرکار کی وہ گوشمالی کرتی ہے کہ اس کو چھٹی کا دودھ یاد آجاتا ہے۔
امریکا میں امن و امان کا دور دورہ ہے۔ پاکستان کی طرح نہیں کہ جس کا جہاں جی چاہا ، ٹی ٹی دکھائی اور لوٹ لیا۔ وہاں پر بچے کو بھی آنکھ دکھاؤ تو پولیس حرکت میں آجاتی ہے۔ حتیٰ کہ شوہر بیوی کو بھی اپنی مرضی کا پابند نہیں بنا سکتا۔ مذہب کی آزادی ہے۔ چاہو تو خدا، دیوی ، دیوتا کو مانو اور چاہو تو کسی کو بھی نہ مانو۔اگر کوئی قدرتی آفت آجائے تو سرکار سر کے بل کھڑی ہوجاتی ہے۔ آبادی دور دراز تک بستی ہے۔ مجال ہے کہ کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے۔ان کی کرنسی انتہائی مضبوط ہے اور اشیائے ضرورت ارزاں۔ معیشت کی مضبوطی کا کیا کہنا۔ تعلیم کا یہ حال ہے کہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں امریکی ریاستوں میں ہی پائی جاتی ہیں۔ یہاں پر کوئی وی آئی پی سسٹم نہیں ہے۔ ہر شخص سسٹم کو ماننے پر مجبور ہے۔ عوام ہوں یا خواص، سب کو یکساں قطار میں بھی لگنا پڑتا ہے اور اپنا کام بھی خود ہی کرنا پڑتا ہے۔
یہ وہ تصویر ہے جو ایک عام پاکستانی کے ذہن میں ہے۔ تقریبا ایسا ہی تاثر خود ایک عام امریکی کا بھی اپنے ملک اور اپنے بارے میں ہے۔ اس تاثر یا تصور کا تمام تر کریڈٹ کنٹرولڈ امریکی ذرائع ابلاغ کو جاتا ہے۔مگر کیا سچ مچ ایسا ہی ہے۔ آئیے ان تمام نکات کو ایک ایک کرکے دیکھ کر ناقابل شکست امریکا کی درست تصویر کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
امریکا کی مجموعی معیشت پر تو بعد میں بات کرتے ہیں سب سے پہلے ایک عام امریکی کے نقطہ نظر سے صورتحال کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پورے متحدہ امریکا میں معاشی سرگرمیاں انحطاط کا شکار ہیں۔اسٹور کی بڑی بڑی چین روز اپنا ایک آؤٹ لیٹ بند کرنے کا اعلان کرتی ہیں۔ اب تک یہ چین سیکڑوں اسٹور بند کرچکی ہیں۔پٹرول کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور بڑے بڑے کارپوریٹ ادارے اپنے پاس موجود حصص کو تیزی سے فروخت کرنے پر مائل ہیں، جس کے نتیجے میں ان کو دیوالیہ ہونے کے خطرہ کا سامنا ہے اور اب تک کئی ادارے دیوالیہ ہوبھی چکے ہیں۔
اس صورتحال کو مثالوں سے سمجھتے ہیں۔ اس وقت امریکا میں شپنگ کی سرگرمیاں نہ ہونے کی بنائ پر فریٹ کی شرح 2008ئ کے بعد کم ترین سطح کو چھو رہی ہے۔ بعض مرتبہ تو جہاز راں اخراجات سے کم پر بھی مال لانے لے جانے پر مجبور ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تجارتی سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں۔ گزشتہ دو ماہ میں امریکا میں گیس (پٹرول) کی قیمتوں میں پچاس سینٹ کا اضافہ ہوا جس سے ہر چیز کی قیمت میں خود بہ خود اضافہ ہوگیا۔
مشہور زمانہ ریڈرز ڈائجسٹ نے دیوالیہ ہونے کے بعد دیوالیہ کے قانونی سرٹیفکٹ کے لیے عدالت میں درخواست دائر کردی ہے۔اٹلانٹک سٹی کے مشہور زمانہ جوا خانہ ریویل Revel بھی دیوالیہ ہوگیا ہے۔ ریویل کا اٹلانٹک سٹی کی معیشت میں بڑا حصہ تھا۔ ڈیٹرائٹ شہر کی بلدیہ کو بھی صورتحال بہتر نظر نہیں آرہی ہے اور اس کی انتظامیہ بھی عدالت میں دیوالیہ کی درخواست داخل کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ امریکا کی سب سے بڑی بلدیہ ہوگی جو اب تک دیوالیہ ہوچکی ہیں۔
مشہور زمانہ آئی فون کی فروخت اس کے اندازوں سے انتہائی کم ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے مشہور چینی کمپنی فوکس کون FoxConn نے بھی امریکا میں فی الحال اپنی کمپنی میں بھرتیوں پر پابندی عائد کردی ہے۔فوکس کون نے 2009ئ کے بعد پہلی مرتبہ بھرتی پر پابندی عائد کی ہے۔ امریکا میں پہلی مرتبہ موبائل فون سیٹ کی فروخت میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔وال مارٹ کا ایک اندرونی میمو، جو اخبارات میں لیک ہوگیاکے مطابق ماہ فروری کا آغاز اس کے ریکارڈ میں کسی بھی ما ہ کا بدترین آغاز تھا۔ وال مارٹ کی انتظامیہ نے فروری کی فروخت کو تباہی قرار دیا ہے۔
اگر بجٹ میں لازمی کٹوتی کرنی پڑی تو پورے ملک میں شدید ترین بے روزگاری کا عفریت سامنے آئے گا۔ صرف پنٹا گون کا کہنا ہے کہ آٹھ لاکھ سویلین افراد کو لے آف کرنا پڑے گا۔اس وقت امریکا کی مجموعی ترقی کا ریکارڈ خوفناک ہے۔ ریکارڈ کے مطابق 2012ئ میں مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ کی شرح صرف ڈیڑھ فیصد رہی۔اس وقت وال اسٹریٹ کے بیشتر سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ سال امریکی معیشت کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے۔
امریکا کی کہانی جاری ہے۔ دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔

No comments:

Post a Comment