Sunday, March 31, 2013

عشق اور علم

ہم نے خود نہیں سنا مگر ایک صاحب بتارہے تھے کہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو توہینِ رسالتؐ کے حوالے سے قتل کرنے والے ممتاز قادری پر تبصرہ کرتے ہوئے جاوید احمد غامدی ٹیلی وژن پر کہہ رہے تھے کہ اس کا عمل دیوانہ پن ہے۔ غامدی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ اس دیوانے پن کی وجہ یہ ہے کہ ہماری تہذیب یا ہماری فکر ’’عشق مرکز‘‘ ہے، اور جب تک ہماری تہذیب یا ہماری فکر ’’عشق مرکز‘‘ رہیگی اُس وقت تک ایسے واقعات ہوتے رہیں گے، یہی وجہ ہے کہ میں اپنی تہذیب یا فکر کو ’’عشق مرکز‘‘ کے بجائے ’’علم مرکز‘‘ بنانا چاہتا ہوں۔
ہمیں نہیں معلوم کہ غامدی صاحب کا بیان کتنی صحت کے ساتھ ہم تک پہنچا، لیکن اتنا ہم جانتے ہیں کہ غامدی صاحب یہ بات کہہ سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غامدی صاحب خواہ ہماری تہذیب میں عشق کے تصور کی معنویت کو پوری طرح نہ سمجھتے ہوں مگر وہ عشق اور علم کے فرق کو سرسری طور پر سہی، مگر جانتے ہیں۔ اگرچہ غامدی صاحب نے اپنے بیان میں علم کی اصطلاح استعمال کی، لیکن علم سے اُن کی مراد عقل کا ایک مخصوص اور محدود تصور ہے۔ اس تصور کے دائرے میں عشق اور عقل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اسلامی فکر اصولی اعتبار سے عقل کو عشق کی ضد نہیں سمجھتی، کیونکہ اس کے نزدیک عقل تفہیم کا ایک جائز یا Hegitimate آلہ ہے، لیکن اس کے جائز، ضروری اور اہم ہونے اور رہنے کی شرط یہ ہے کہ وہ وحی کی روشنی میں کام کرے۔ عقل جب تک وحی کی بالادستی کو تسلیم کرتی ہے اور اس کی روشنی میں کام کرنے پر آمادہ رہتی ہے اُس وقت تک وہ اپنی تخلیق کا فریضہ احسن طریقے سے ادا کرتی رہتی ہے، لیکن جیسے ہی عقل وحی کا انکار کرتی ہے اس کا کردار‘ عمل اور نتائج سب کچھ مشتبہ ہوجاتا ہے۔ اس بات کو آسان الفاظ میں اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ آنکھ ’’دیکھنے‘‘ کے لیے بنائی گئی ہے۔ مگر آنکھ دیکھنے کے لیے روشنی کی محتاج ہے۔ روشنی نہ ہو تو آنکھ اپنے سامنے رکھی ہوئی چیز کو بھی ٹھیک طرح نہیں دیکھ سکتی۔ چنانچہ اندھیرے کمرے میں ہمیں کوئی چیز اٹھانی ہو تو ہم پورے یقین کے ساتھ کوئی چیز نہیں اٹھاتے بلکہ ’’اندازے‘‘ اور ’’اٹکل‘‘ سے کام لیتے ہوئے چیز اٹھاتے یا چیز اٹھانے کے لیے ہاتھ کو حرکت دیتے ہیں۔ عقل کا حال بھی وحی کی روشنی سے محروم ہوکر ایسا ہی ہوجاتا ہے۔ چنانچہ وحی کی منکر عقل ہرگز بھروسے اور انحصار کے لائق نہیں۔ اس دائرے میں عقل عشق کیا، خود عقل کے حقیقی تصور کی ضد ہے۔ لیکن اسلامی فکر کے دائرے میں عقل کا ایک اور مفہوم بھی ہے، اور وہ یہ کہ تفہیم کے دائرے میں عشق اور عقل دو مقامات کے نام ہیں، اور عشق کا مقام عقل کے مقام سے بلند تر ہے۔ اس اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو غامدی صاحب کی تمنا کو اسلامی معاشرے میں بروئے کار نہیں آنا چاہیے، اور اسے معیار تو ہرگز نہیں بننے دینا چاہیے۔
ہماری تہذیب ہمیں علم کے تین مراتب کے تصور سے آشنا کرتی ہے:(1) علم الیقین، (2) عین الیقین، (3) حق الیقین۔
علم الیقین یہ اطلاع ہے کہ یہ جو ہمارے سامنے گھڑا رکھا ہوا ہے اس میں پانی ہے۔ عین الیقین یہ ہے کہ گھڑے کا ڈھکن اٹھا کر دیکھ لیا گیا کہ گھڑے میں واقعتاً پانی ہے۔ حق الیقین یہ ہے کہ گھڑے سے پانی نکال کر پی لیا جائے اور کامل یقین کرلیا جائے کہ گھڑے میں جس چیز کی موجودگی کی اطلاع دی گئی تھی وہ واقعتاً پانی ہے۔ ہماری تہذیب میں یہی مقام عشق ہے۔ اس مقام پر علم صرف ’’اطلاع‘‘نہیں رہتا، ’’تجربہ‘‘ بن جاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو غامدی صاحب کی خواہش یہ ہے کہ ہماری تہذیب صرف ’’اطلاع‘‘ پر گزارا کرنے والی تہذیب بن جائے۔ اس تہذیب میں اطلاع ’’مشاہدہ‘‘ نہ بنے، اور تجربہ تو ہرگز نہ بننے پائے، کیونکہ اُن کے بقول اطلاع کے تجربہ بن جانے سے ’’دیوانہ پن‘‘ پیدا ہوتا ہے۔ غامدی صاحب کی بات کو تسلیم کرلیا جائے تو ہماری تہذیب اور ہمارا معاشرہ علم کی پست ترین سطح پر مقیم ہوجائے گا۔ غامدی صاحب کے تصورِعلم اور تصورِ عقل کو مغربی حوالے سے دیکھا جائے تو اُن کا ’’علم الیقین‘‘ ایک ہولناک قیاس آرائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ ممکن ہے کہ جس گھڑے کے بارے میں یہ اطلاع دی جارہی ہے کہ اس میں پانی ہے اس میں پانی نہ ہو شراب ہو یا زہر ہو۔ چنانچہ اس دائرے میں ’’علم پرستی‘‘ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم ساری زندگی شراب یا زہر سے بھرے ہوئے گھڑے کو پانی کا گھڑا سمجھتے رہیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری تہذیب میں عشق کا تصور اپنی اصل میں کیا ہے؟
ہماری تہذیب میں ایک جانب عشق انسانی وجود کی کلیّت کی علامت ہے اور دوسری جانب عشق کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کے لیے محبوب کی محبت ہی کافی ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ محبوب مجازی بھی ہوسکتا ہے اور حقیقی بھی۔ مولانا روم کے یہاں عشق و علم کے الگ سرچشموں کے حوالے سے دونوں کے فرق کا اظہار موجود ہے۔ مولانا نے فرمایا ہے:
علم و حکمت زاید از نان حلال
عشق و رقت آید از نان حلال
مولانا کی شاعری اور ان کے فکری بندوبست میں عشق و رقت کو علم و حکمت پر فوقیت حاصل ہے اور مولانا نے اس شعر میں فرمایا ہے کہ عشق و رقت کی دولت انسان کو اُس وقت ہاتھ آتی ہے جب اس کے لیے نانِ حلال کافی ہوجاتا ہے، یعنی انسان صرف ضرورت کی حد تک دنیا سے تعلق رکھتا ہے لیکن دنیا اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس علم و حکمت ’’زاید از نان حلال‘‘ کا حاصل ہے۔ یعنی انسان جب دنیا کو برتنے کی طرف مائل ہوتا ہے تو ضرورت سے زیادہ کی خواہش پیدا ہوتی ہے، اور ضرورت سے زیادہ کی خواہش علم و حکمت کو پیدا کرتی ہے۔ پہلی صورت میں انسان کا مطلوب صرف خدا ہوتا ہے، اور دوسری صورت میں اس کا مطلوب بدلتا تو نہیں مگر اس میں دین کے تقاضوں سے ہم آہنگ دنیا بھی ایک عنصر کے طور پر درآتی ہے، اور یہ انسانی تہذیب کے فروغ کے لیے ناگزیر ہے۔ لیکن اسلامی معاشرے کا زیادہ بڑا مثالیہ یا Ideal عشق و رقت ہے۔ علم و حکمت بہت بڑی متاع اور بہت بڑے تصورات ہیں مگر ان کا مقام بہرحال عشق و رقت کے بعد آتا ہے۔ اردو شاعری میں اقبال کے یہاں عشق اور علم کا امتیاز ایک بہت بڑے علمی رجحان کی حیثیت رکھتا ہے۔ مثلاً اقبال کے چند اشعار ملاحظہ فرمایئے:
علم کا مقصود ہے پاکیٔ عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے پاکیٔ قلب و نگاہ
علم فقیہ و حکیم، فقر مسیح و کلیم
علم ہے جویائے راہ فقر ہے دانائے راہ
فقر مقامِ نظر، علم مقامِ خبر
فقر میں مستی ثواب، علم میں مستی گناہ
علم کا موجود اور، فقر کا موجود اور
اشہد و ان لاالہٰ اشھدو انا لاالہٰ
اقبال کے ان شعروں میں علم اور فقر کا موازنہ دراصل علم اور عشق کا موازنہ ہے، اس لیے کہ فقر عشق کی ایک صفت ہے، اس کا ایک حاصل ہے۔ اقبال کہہ رہے ہیں کہ علم کا مقصود عقل و خرد کی پاکی ہے۔یہاں پاکی کا مطلب عقل و خرد کی perfection ہے۔ اس کے برعکس فقر کا مقصود قلب و نظر کی پاکی ہے۔ قلب کی پاکی کیا ہے؟ قلب کی پاکی یہ ہے کہ دل خدا کا گھر بن جائے اور نظر کی پاکی یہ ہے کہ اسے ہر شے میں خدا کا جلوہ نظر آئے اور اس کے لیے مجاز بھی حقیقت تک رسائی کا ذریعہ بن جائے۔ یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ ہماری تہذیب میں قلب و نظر کے تصورات عقل و خرد کے تصورات سے زیادہ اہم ہیں۔ اقبال نے اپنے دوسرے شعر میں فقر اور علم کے فرق کو مزید کھولا ہے۔ کہتے ہیں کہ علم تو محض فقیہ اور حکیم پیدا کرتا ہے لیکن عشق مسیح اور کلیم کو جنم دیتا ہے۔ یعنی عشق پیغمبروں کی متاع ہے اور علم دین کی بنیادوں کو دلائل پر استوار کرتا ہے، اور ایسا وہ پیغمبروں کو میسر آنے والی وحی کی بنیاد پر کرتا ہے۔ یعنی عشق علم کو پالتاہے۔ اقبال نے تیسرے شعر میں دونوں تصورات کے سب سے بڑے امتیاز کو ظاہر کردیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ فقر مقامِ نظر اور علم مقامِ خبر ہے۔ یعنی علم جس چیز کو اطلاع سے جانتا ہے فقر یا عشق اس چیز کو براہِ راست دیکھ لیتا ہے‘ اس باعث اس کے لیے مستی حلال ہے اور علم کے لیے مستی گناہ ہے۔ یعنی اگر علم مستی کا اظہار کرے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شراب پی کر جھومنے کے بجائے شراب کا نام لے کر یا اس کی بوتل کا لیبل پڑھ کر جھومنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی موجودگی کی گواہی علم کی بنیاد پر بھی دی جاتی ہے اور فقر کی بنیاد پر بھی… مگر ان کے درمیان زمین آسمان کا فر ق ہے۔ خدا کی موجودگی کا علم محض ایک تصور ہے، اور فقر کا خدا ایک حقیقت ہے۔ اقبال نے ضربِ کلیم کی نظم ’’علم و عشق‘‘ میں ان تصورات کے کچھ اور پہلوئوں کی نشاندہی کی ہے۔ لکھتے ہیں:
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین وظن
بندۂ تخمین و ظن کرم کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور علم سراپا حجاب
اقبال کی اس نظم کا پہلا بند اسی بات سے شروع ہوتا ہے جس کا اظہار جاوید غامدی صاحب نے کیا ہے۔ یعنی علم کہتا ہے کہ عشق تو دیوانہ پن ہے۔ بظاہر یہ عشق کی ’’مذمت‘‘ ہے، مگر درحقیقت یہ عشق کی تعریف ہے۔ اس کے برعکس عشق کہتا ہے کہ علم ہے تخمین و ظن۔ یعنی علم قیاس آرائی کے سوا کیا ہے! اور یہ بات علم کی تعریف نہیں اس کی مذمت ہے، اس لیے کہ تخمین و ظن ہنر نہیں عیب کی علامت ہیں۔ اقبال نے اس بند میں صاف کہا ہے کہ اہلِ علم کتاب کے کیڑے بن کر رہ جاتے ہیں اور اس پر اتراتے ہیں‘ لیکن علم حقیقت کو عیاں نہیں کرتا بلکہ اس کا پردہ بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس عشق انسانوں کو حقیقت کے روبرو لے جاتا ہے۔ اقبال کی اس نظم کا دوسرا بند یہ ہے:
عشق کی گرمی سے ہے معرکۂ کائنات
علم مقامِ صفات، عشق تماشائے ذات
عشق سکون و ثباب، عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب
اقبال ہی نہیں، میرؔ کے نزدیک بھی یہ کائنات خالق کی مخلوق سے محبت کا حاصل ہے، اور اس کائنات میں حق و باطل کا جو معرکہ برپا ہے اس کی بنیاد بھی خدا کی محبت ہے۔

No comments:

Post a Comment