Sunday, March 31, 2013

اپریل فول آخر کیوں منائیں؟

کسی بھی قوم کی جداگانہ حیثیت اور امتیازی شان اس کے عقائد و نظریات اور تہذیب و تمدن میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ جب کوئی قوم ان میں سے کسی ایک سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تو اس کی امتیازی شان ختم ہوجاتی ہے۔ اس تناظر میں اگر ہم اپنے معاشرے پر غور کریں تو  حال یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کی نظریں غیروں کے تہذیب و تمدن کی جانب بڑے مرغوبانہ انداز میں اُٹھتی ہیں۔ اس کا اجتماعی مظاہرہ بسنت‘ نیو ایئر نائٹ اور ویلنٹائن ڈے وغیرہ کے مواقع پر عام طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ ہم مسلمان غیر وں کے تہذیب و تمدن پر مرے مٹے جارہے ہیں، حالانکہ مسلمانوں کے پاس تہذیب و تمدن کے ایسے روشن اور درخشندہ نمونے موجود ہیں جن کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے لیکن   ؎
مانگتے پھرتے ہیں اغیار سے مٹی کے چراغ
اپنے خورشید پہ پھیلا دیے سائے ہم نے!
ان تہواروں میں ایک تہوار ’’اپریل فول‘‘ہے۔ اپریل کی آمد آمد ہے اور دنیا بھر میں جھوٹ کے نت نئے ریکارڈ قائم کرنے، عوام الناس کو نت نئے جھوٹ بول کر اپنے مذاق کا نشانہ بنانے اور اس مذاق میں اپنے پیاروں کو نقصان پہنچانے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔
اگر اپریل فول کی تاریخ اور اس کی ابتدا پر نظر ڈالی جائے تو اس بارے میں مؤرخین کے بیانات مختلف ہیں:
٭بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترہویں صدی سے پہلے سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا، اور اس مہینے کو رومی لوگ اپنی دیوی وینس کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجھتے تھے۔ چنانچہ یکم اپریل کو لوگ جشن منایا کرتے تھے اور اسی جشن کا ایک حصہ ہنسی مذاق بھی تھا جو رفتہ رفتہ ترقی کرکے ’’اپریل فول‘‘ کی شکل اختیار کرگیا۔
٭انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق 21 مارچ سے موسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوجاتی ہیں۔ ان تبدیلیوںکو بعض لوگوں نے اس طرح تعبیر کیا کہ (معاذ اللہ) قدرت ہمارے ساتھ مذاق کرکے ہمیں بیوقوف بنارہی ہے، لہٰذا لوگوں نے بھی ان دنوں میں ایک دوسرے کو بیوقوف بنانا شروع کردیا۔
٭انسائیکلوپیڈیا آف لاروس کے مطابق یکم اپریل وہ تاریخ ہے جس میں رومیوں اور یہودیوں کی طرف سے حضرت عیسیٰ ؑ کو تمسخر اور استہزا کا نشانہ بنایا گیا۔ اناجیل میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح کو فیصلے کے لیے مختلف عدالتوں میں لے جایا گیا اور اس کا مقصد اُن کے ساتھ مذاق کرنا اور انہیں تکلیف پہنچانا تھا۔ چونکہ یہ واقعہ یکم اپریل کو پیش آیا تھا اس لیے اپریل فول کی رسم درحقیقت اسی شرمناک واقعے کی یادگارہے۔
اس تہوار کے حوالے سے یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اپریل فول کا لفظی معنی ’’اپریل کا دھوکا‘‘ ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ آج سے تقریباً ہزار سال پہلے جب مسلمان اسپین میں برسراقتدار تھے تو وہ ایک ایسی طاقت تھے جس کا توڑ ناممکن تھا۔ اہلِ مغرب نے اس قوت کے خاتمے کے لیے اسپین میں  شراب مفت بھیجنا شروع کردی۔ اس طریقے نے مغرب کو اچھے نتائج دیے اور اسپین میں مسلمانوں بالخصوص نوجوان نسل کا عقیدہ کمزور ہونے لگا، اور اس طرح اہلِ مغرب نے دھوکے سے سارے اسپین کو اپنے ماتحت کرلیا، اور یکم اپریل کو مسلمانوں کے آخری قلعہ غرناطہ کا سقوط ہوا۔ اہلِ مغرب اس ماہ کو اپریل فول یعنی اپریل کے دھوکے کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اسی کے جشن کے طور پر ہرسال اِس دن کو مناتے ہیں۔
دوسری طرف اگر اس تہوار کا اسلامی تعلیمات سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپریل فول کئی گناہوں اور بے شمار معاشرتی خرابیوںکا مجموعہ ہے۔ اس تہوار کی بنیاد ہی جھوٹ اور غلط بیانی پر مبنی ہے، جبکہ شریعتِ اسلامی میں جھوٹ کے بارے میں سخت ممانعت اور وعید آئی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو منافق کی نشانی قرار دیا اور اس کے بارے میں فرمایا: ’’آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے، (وہ جھوٹ بولتا رہتا ہے) یہاں تک کہ اس کا دل بالکل سیاہ ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ جھوٹوں میں لکھ دیا جاتا ہے‘‘(مؤطا امام مالک)۔ اس حوالے سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مزاح کے طور پر جھوٹ بولنا جائز ہے اور اسی کو نام نہاد اور جدت پسندی کے قائل مسلمان دلیل بناکر یکم اپریل یا دیگر ایام میں تفریحاً جھوٹ بولنے کو جائز سمجھتے ہیں، حتیٰ کہ وہ کسی کو خوش کرنے کو عبادت خیال کرتے ہیں، چاہے خوش کرنا جھوٹ بول کر ہی کیوں نہ ہو۔ حالانکہ یہ سراسرغلط ہے۔ جھوٹ بولنا، چاہے مذاق کے طور پر ہو یا کسی اور وجہ سے، ہرصورت میں حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزاح کے طور پر جھوٹ بولنے والے شخص پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:’’ہلاکت ہے ایسے شخص کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے ۔‘‘(سنن الترمذی)
اس تہوار میں دوسری برائی یہ ہے کہ اس سے معاشرے میں ذہنی وجسمانی اذیت کو فروغ ملتا ہے۔ اخبارات میں اکثریہ پڑھا گیا ہے کہ اپریل فول کی وجہ سے فلاں شخص کو دل کا دورہ پڑگیا،فلاں کی موت واقع ہو گئی اور فلاں کو فالج ہوگیا۔ ان واقعات سے واضح ہوتاہے کہ یہ تہوار خوشی کے بجائے ذہنی و جسمانی اذیت کا باعث ہے،جبکہ اسلام میں تو کسی انسان حتیٰ کہ جانور کو بھی اذیت دینے کی ممانعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مسلمان کی تعریف ہی ان الفاظ میں کی ہے:’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے‘‘(متفق علیہ)۔اس کے علاوہ اس تہوار میں کفار کی مشابہت بھی پائی جاتی ہے جس سے شریعتِ اسلامیہ نے نہایت سختی سے منع کیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا:’’جو غیروں کی مشابہت اختیار کرے وہ ہم میں سے نہیں۔نہ مشابہت اختیار کرو یہود کی اور نہ نصاریٰ کی۔‘‘ (سنن الترمذی)
اپریل فول کے بارے میں مندرجہ بالاتفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ تہواربے شمار گناہوں اور معاشرتی برائیوں کا مجموعہ ہے۔اب مسلمانوں کو خود یہ فیصلہ کرلینا چاہیے کہ آیا یہ تہواراس لائق ہے کہ اسے مسلمان معاشروںمیں فروغ دیا جائے؟اس کا جواب سچے مسلمانوں اور محب وطن پاکستانیوں کے ہاں یقینانفی کی صورت میں ہوگا۔

No comments:

Post a Comment