روحانیت کو عام طور پر لوگ اس عنصر سے متعلق سمجھتے ہیں جسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ”امر“ قرار دیا گیا ہے اور جو زندگی کا ”راز“ ہے۔ لیکن یہ روحانیت کا صحیح مفہوم نہیں ہے۔ اسلام میں روحانیت کا صرف ایک مفہوم ہے: قربِ الٰہی۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے جتنا قریب ہے وہ اتنی ہی روحانی شخصیت ہے۔ لیکن اسلام میں قرب ِ الٰہی کا تعلق قرآن و سنت پر عمل سے ہے۔ قرآن دین کا نظری علم ہے اور سنت اس علم کی تجسیم ہے۔ ایک حدیثِ قدسی کے مطابق دین کے تین درجے ہیں: یعنی اسلام، ایمان اور احسان۔ اسلام یہ ہے کہ انسان زبان سے لا الہٰ الااللہ محمد الرسول اللہ کہہ دے۔ ایمان یہ ہے کہ کلمہ طیبہ انسان کے قلب میں راسخ ہوجائے۔ احسان یہ ہے کہ اسلام اور ایمان انسان کے عمل میں حسن کے ساتھ ظاہر ہوں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ روحانیت کا تعلق مرتبۂ احسان میں مسلسل ترقی کرنے سے ہے۔ انسان کی زندگی جیسے جیسے مرتبۂ احسان میں آگے بڑھتی ہے انسان کی روحانیت میں ویسے ویسے اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے واضح کرنا ہو توکہا جائے گا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روحانیت کا ماہتابِ کامل ہیں اور ہم ان کے مقابلے میں زیرو واٹ کا بلب۔ اب ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ماہتاب پر نظر رکھیں اور اپنے ”واٹس“ میں مسلسل اضافہ کرتے رہیں۔ یعنی ہم زیرو واٹ سے 20واٹ کا بلب بن جائیں، 20واٹ سے 100واٹ کی طرف پیش قدمی کریں، اور 100واٹ سے 1000واٹ کی طرف رنجِ سفر کھینچیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس سفر کو کہیں رکنا نہیں چاہیے۔ لیکن روحانی سفر کے لیے توفیقِ الٰہی کی ضرورت ہے۔ لیکن توفیقِ الٰہی کا مطلب کیا ہے؟ توفیق الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ دین پر عمل کو آسان بنادیں۔ لیکن توفیق کوشش سے حاصل نہیں کی جاسکتی، البتہ اس کے لیے دعا کی جاسکتی ہے، اس کی تمنا کی جاسکتی ہے۔ روحانی سفر کی ایک منزل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اپنا ولی یا اپنا دوست بنالیں۔ لیکن جس طرح نبوت کوشش سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ وہ اوّل و آخر اللہ تعالیٰ کی عطا ہوتی ہے، اسی طرح ولایت بھی اکتسابی نہیں ہوتی، ولایت بھی اللہ تعالیٰ کا انعام ہے، وہ جس کو چاہتا ہے، دے دیتا ہے۔ لیکن ولایت کا حاصل ہوجانا بھی روحانیت کی تکمیل نہیں۔ دنیا میں جتنے ولی ہیں اتنے ہی ولایت کے مرتبے ہیں۔ دنیا میں ایسے ولی بھی ہوتے ہیں جو اپنی ولایت پر مطلع نہیں ہوتے۔ اس کی ایک مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشہورِ زمانہ واقعے میں موجود ہے۔ حضرت موسیٰؑ کے بارے میں آیا ہے کہ انہوں نے ایک دن اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسا شخص موجود ہے جسے آپ سے بہت محبت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ہاں ہے، فلاں مقام پر چلے جاﺅ۔ حضرت موسیٰؑ بتائی ہوئی جگہ پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص بیٹھا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرکے کہہ رہا ہے کہ اگر ت ±و مجھے مل جائے تو میں تیرے بالوں میں کنگھی کروں، تیرے بالوں سے جوئیں نکالوں۔ حضرت موسیٰؑ نے یہ سنا تو اس شخص پر ناراض ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا اول فول بک رہا ہے! اللہ تعالیٰ کا ان چیزوں سے کیا تعلق جو ت ±و اس سے منسوب کررہا ہے۔ وہ شخص ڈر کر خاموش ہوگیا۔ حضرت موسیٰؑ واپس لوٹے تو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ موسیٰ تم نے میرے بندے کو ڈرا دیا۔ حضرت موسیٰؑ نے کہا کہ یا اللہ وہ باتیں ہی ایسی کررہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ موسیٰؑ تم نے یہ تو دیکھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، مگر یہ نہ دیکھا کہ کتنی محبت اور خلوص سے کہہ رہا ہے۔
روحانیت کی تاریخ میں تین تصورات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں: ایمان، عمل اور اخلاص۔ حضرت آدمؑ سے گناہ ہوا تو وہ جنت میں اِدھر ا ±دھر چھپنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ آدمؑ یہ کیا کررہے ہو؟ کہا: آپ کے سامنے آتے شرم آتی ہے، اس لیے کہ میں نے وہ کام کیا جس سے آپ نے منع فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ آدمؑ تم اپنے فعل کے صدور کو خود سے منسوب کررہے ہو، تم افعال کے خالق کب سے ہوگئے؟ حضرت آدمؑ نے فرمایا: افعال کے خالق تو آپ ہی ہیں مگر مجھے آپ سے معصیت منسوب کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ حضرت آدمؑ کی اس مثال کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پاس ایمان بھی تھا، عمل بھی تھا، اخلاص بھی تھا، اسی لیے آپ اپنے کیے پر نادم تھے اور آپ کو توبہ سکھائی گئی اور توبہ کو قبول کیا گیا۔ اس کے برعکس مثال شیطان کی ہے۔ اس نے حضرت آدمؑ کو سجدے سے انکار کرکے اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی وجہ پوچھی تو کہا کہ آگ مٹی سے بہتر ہے اور بہتر کمتر کو سجدہ نہیں کرسکتا۔ لیکن بات یہیں تک محدود نہ رہی۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے ایک روایت کے حوالے سے لکھا ہے اور اقبال نے اسے اپنے ایک شعر میں استعمال کیا ہے کہ شیطان نے اپنی حکم عدولی کا الزام اللہ پر لگا دیا اور کہا کہ چونکہ ت ±و نے میری قسمت میں بھٹکنا لکھا تھا اس لیے میں بھٹک گیا۔ شیطان کی مثال بتاتی ہے کہ اس کے پاس ایمان بھی تھا اور عمل بھی… مگر اخلاص نہیں تھا۔ چنانچہ حضرت آدمؑ کی مثال ”روحانیت“ کی مثال بن گئی اور شیطان کی مثال ”نفسانیت“ کی مثال بن گئی۔
روحانیت اور نفسانیت کی ایک اور مثال ہابیل اور قابیل ہیں۔ ہابیل حق پر تھا، اس کی قربانی قبول کرلی گئی تھی، اور قابیل کے ظلم کے جواب میں اور کچھ نہیں تو ”انصاف“ کا علَم بردار ضرور بن سکتا تھا مگر ہابیل نے احسان کا راستہ اختیار کیا۔ اس نے قابیل کے ظلم سے بچنے کے لیے دفاعی اقدام کی زحمت بھی گوارا نہ کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ا ±س کے پاس ایمان بھی تھا، عمل بھی اور اخلاص بھی۔ قابیل کا معاملہ اس کے برعکس یہ تھا کہ ا ±س کے پاس ایمان تو تھا مگر نہ عمل تھا اور نہ اخلاص تھا۔
حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ تھے اور آپ کی روحانیت کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپ سے حضرت اسمٰعیلؑ کی قربانی طلب کی گئی۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ صرف حضرت ابراہیمؑ کی محبت کا امتحان تھا۔ ایسا نہیں تھا۔ یہ محبت کا امتحان بھی تھا اور اس سے آگے بڑھ کر یہ آپ کی طبیعت اور فطرت کا امتحان تھا۔ انسانی طبیعت اور انسانی فطرت محرکات کی اسیر ہوتی ہیں، لیکن حضرت اسمٰعیلؑ کے قتل کا اللہ کے حکم کے سوا کوئی محرک موجود نہ تھا۔ حضرت ابراہیمؑ اللہ کے ایسے ”مسلم“ اور ایسے ”مطیع“ تھے کہ ان کا شعور طبیعت اور فطرت کو بھی پھلانگ کر کھڑا ہوگیا۔ یہ دراصل مقام ”ابراہیمیت“ کو حقیقت بنانے یا اسے Actualize کرنے کا عمل تھا۔ یہی حضرت ابراہیمؑ کی روحانیت تھی۔ حضرت ابراہیمؑ کی روحانیت کا ایک پہلو یہ تھا کہ جب آپ کو آتشِ نمرود میں ڈالا جارہا تھا تو حضرت جبرائیلؑ آپ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کہیں تو میں آپ کی مدد کروں۔ حضرت ابراہیمؑ کو معلوم تھا کہ حضرت جبرائیلؑ جو کچھ کہتے اور کرتے ہیں اللہ کے حکم سے کہتے اور کرتے ہیں۔ مگر آپ نے ان کی مدد لینے سے انکار کردیا اور اس موقع پر جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ تھا کہ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ مجھے کس طرح کی مدد درکار ہے۔ روحانیت کے اکتسابی نہ ہونے کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت موسیٰؑ جیسے جلیل القدر نبی نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ میں آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ تم مجھے نہیں دیکھ سکتے۔ حضرت موسیٰؑ نے اس کے باوجود اصرار کیا تو اللہ تعالیٰ نے کوہِ طور پر ایک تجلی کی جس سے طور جل گیا اور حضرت موسیٰؑ بے ہوش ہوگئے۔ مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش نہ کی، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج پر بلا لیا اور خود کو دکھا دیا۔ یہ حضرت موسیٰؑ اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت کا ایک فرق ہے۔
بعض لوگ روحانیت کو تصرفات کا حامل سمجھتے ہیں، حالانکہ تصرفات خود روحانیت کا حاصل ہوتے ہیں اور ان کی حیثیت ”اضافی“ ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال حیرت انگیز، دلچسپ اور عبرت ناک ہے۔ حضرت فرید الدین عطارؔ ہمارے عظیم ترین صوفیائ میں سے ایک ہیں۔ تاتاری لشکر جس وقت مسلم علاقوں پر یلغار کررہے تھے، عطار نیشاپور میں تھے۔ تاتاری لشکر نیشا پور کے قریب پہنچا تو عطار نے اپنی خانقاہ میں رکھا ہوا پیالہ الٹ دیا اور نیشا پور تاتاری لشکر کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ تاتاری لشکر کا سپہ سالار یہ دیکھ کر حیران ہوا اور لوٹ گیا۔ اگلے دن وہ پھر آیا۔ عطار نے دوسرے دن بھی خانقاہ میں رکھے ہوئے پیالے کو الٹ دیا۔ نیشا پور پھر تاتاری لشکر کو نظر آنا بند ہوگیا۔ تاتاری لشکر کا سپہ سالار اس بار حیران بھی ہوا اور ڈرا بھی۔ اس روز وہ پھر لوٹ گیا۔ مگر تیسرے وہ پھر نیشا پور پر یلغار کے لیے پہنچا۔ عطار نے پیالہ الٹنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ آواز آئی ”اب بس کرو۔“ عطار کا ہاتھ رک گیا۔ تھوڑی دیر بعد تاتاری لشکر نے نیشا پور پر یلغار کردی۔ تاتاریوں کے ابتدائی حملوں میں جو لوگ شہید ہوئے ان میں عطار بھی شامل تھے۔ ایسے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح انبیائ کے معجزے حکم الٰہی کے پابند ہوتے ہیں اسی طرح اولیائ کی کرامات بھی حکم الٰہی ہی کا نتیجہ اور حکم الٰہی ہی کی پابند ہوتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment