Sunday, March 3, 2013

امریکا کی موجودہ داخلی صورتحال

امریکا کی معاشی صورتحال کا ایک عام فرد کے طور پر جائزہ تو ہم دیکھ چکے۔ اب ایک معاشی ماہر کے طور پر بھی اس کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت امریکا 16.4 ٹریلین ڈالر کے قرض کی حد کو پار کرچکا ہے۔ یہ حد امریکی پارلیمنٹ گزشتہ برس مقرر کی تھی۔ قانونی طور پر امریکی حکومت اب مزید قرض نہیں لے سکتی۔ مگر امریکی حکومت تو چلتی ہی قرض پر ہے۔ اس کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے یومیہ چار ارب ڈالر کا قرض درکار ہے۔ اگر امریکی حکومت مزید قرض نہیں لے گی تو ایک دن میں ہی دیوالیہ ہوجائے گی۔ اس افراتفری سے بچنے کے لیے امریکی پارلیمان نے قرض حاصل کرنے کی اس حد میں عارضی طور پر توسیع کردی ہے۔ اس توسیع کے بعد امریکی حکومت اپنے عوام پر مزید ساڑھے چار سو ارب ڈالر کے قرضوں کا بوجھ ڈال سکے گی۔ لیے گئے ان نئے قرضوں میں سے بیشتر پرانے قرضوں کے سود کی ادائیگی میں خرچ ہوں گے۔جو تھوڑی بہت رقم بچ پائے گی اس سے سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کی جائے گی۔ تھوڑی سی رقم سوشل سیکوریٹی پر بھی خرچ کی جائے گی تاکہ عوام الناس میں شور شرابا نہ ہو۔ قرضوںکی حد میں اس نئی توسیع کی بنائ پرامریکی حکومت کو مئی تک کی مہلت مل گئی ہے۔
امریکی کانگریس اور صدر اوباما میں قرض کی حد میں توسیع پر آخری جنگ جون 2011ئ میں ہوئی تھی۔ اس وقت امریکا ڈیفالٹ کرتا بال بال بچا تھا اور اسٹینڈرڈ اینڈ پورز نے اس کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کردی تھی جس سے امریکی معیشت کو زبردست دھچکا پہنچا تھا۔اب یہ جنگ پھر اس برس جون میں لڑی جائے گی۔یہ امریکی قرض آخر لیتے کس سے ہیں۔ یہ قرض دینے والے امریکی و بین الاقوامی بنکار ہیں۔ بنکار کہیں کا بھی ہو اس کا قرض دینے کا ایک اصول ہے۔ وہ بلا کسی ضمانت کے کسی کو بھی قرض نہیں دیتا۔ آپ سے دو ہزار روپے کی جائیداد گروی رکھے گا پھر آپ کو پانچ سو روپے قرض میں دے گا۔ اس کے بعد اس کی تمام تر کوشش ہوگی کہ آپ کسی طرح وقت پر قرض ادا نہ کرسکیں۔ اس طرح وہ سود در سود آپ پر چڑھاتا رہے گا۔ تاآنکہ یہ قرض بڑھتے بڑھتے اس کے پاس گروی رکھی ہوئی جائیداد کی قیمت کے برابرپہنچ جائے۔ اس کے بعد وہ اس جائیداد کو قرقی سے بچانے کے لیے مزید قرض کی پیشکش کرے گا۔ اور اس نئے قرض کی فراہمی کے لیے وہ آپ کی مزید جائیداد کو رہن رکھ لے گا۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک آپ کے پاس رہن رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ موجود ہے۔ جیسے ہی رہن رکھنے کے قابل جائیداد آپ کے پاس ختم ہوگی، بنک قرض کی ادائیگی کے نام پر آپ کی تمام جائیداد اپنے نام کرلے گا۔ بعینہ یہی کچھ یہ بنکار ملکوں اور حکومتوں کے ساتھ کرتے ہیں۔
اب امریکا کی صورتحال کا جائزہ لیجئے۔ اس پر قرضوں کی مالیت اس کی کل مجموعی قومی آمدنی کے برابر آچکی ہے۔ اس کے پاس اب مزید رہن رکھنے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب قرض کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے والا ہے اور وہ ہے جائیداد کی بنکوں کے نام منتقلی۔ظاہر بات ہے کہ یہ معاملات فوری طور پر تو ہوں گے نہیں۔ اس میں کئی برس کا عرصہ لگے گا۔اس عرصے میں امریکی عوام کی حریت کو لگام دی جائے گی، ان کی آزادی کو غلامی سے بدلا جائے گا اور خوشحالی کی جگہ مفلسی لے لے گی۔
امریکی حکومت کیا پوری امریکی قوم بھی ان بنکاروں کے ہاتھوں قرضدار ہے۔ چاہے وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لیا گیا قرض ہو، چاہے وہ گھر یا کار کی خریداری کے لیے لیا گیا قرض ہو، چاہے وہ روز مرہ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کریڈٹ کارڈ کی صورت میں لیا گیا قرض ہو یا کاروبار کے قیام کے لیے لیا گیا ہو۔ پوری امریکی قوم کسی نہ کسی عنوان سے مقروض ہے۔ امریکا میں قانون بھی ان ہی ساہوکاروں کا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عمل دخل بھی ان ہی ساہوکاروں کا ہے۔
اس پوری صورتحال کا ایک آسان سا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ امریکا ایک نئی سول وار کی طرف بتدریج دھکیلا جارہا ہے۔ دنیا پر ایک عالمگیر حکومت کے قیام کے داعی بھی یہی چاہتے ہیں۔ دنیا میں کسی بھی مقام پر کوئی بھی آزاد مملکت اور حریت پسند قوم ان کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی خبردار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی ہشیار رکھیے۔ ہشیار باش۔

No comments:

Post a Comment