Tuesday, May 31, 2016

اسلامی قانون میں بدکاری کی سزا

”احصان “سے مراد وہ شرائط ہیں جن کے پوراہونے پرزناکی سزادی جائے گی۔اور جو شخص ان شرائط کوپوراکرے گا اسے ”محصن“کہیں گے۔”محصن“ کے لےے سب سے پہلی شرط اسلام ہے کیونکہ غےرمسلم پر حد جاری نہیں کی جائے گی،دوسری شرط عقل و بلوغ ہے کیونکہ جملہ احکامات شرےعت عاقل اور بالغ شخص پر ہی عائد ہوتے ہیں،آزادی بھی ایک شرط تھی لیکن اب چونکہ دورغلامی گزرچکااس لےے یہ شرط اپنی عمر پوری کر چکی۔رجم کی سزا کے لےے شادی شدہ ہونا بھی شرط ہے اورضروری ہے ”محصن“اپنے زوج سے بطریق مباح مجامعت کر چکا ہو۔جو زانی شادی شدہ نہ ہو اسے سو کوڑے لگائے جائیں گے۔”احصان“ کی پہلی شرط مسلمان ہونے میں اکثر علماءکا اختلاف واقع ہوا ہے کیونکہ محسن انسانیت ﷺ نے ایک یہودی جوڑے پر بھی حد زنا جاری فرمائی تھی تاہم یہ بات زےادہ قرین قےاس معلوم ہوتی ہے کہ غےر مسلم چونکہ اسلامی احکامات کے مکلف نہیں ہیں اس لےے ان پر حدوداﷲٰ نافذ نہیں ہوں گی،جہاں تک یہودی جوڑے پر حد جاری کرنے کا تعلق ہے تو وہ آپ ﷺ نے توریت کے حکم کے مطابق فیصلہ صادر فرماےا تھا۔
سنت رسول اﷲٰ ﷺنے شادی شدہ زانی کے لےے رجم کی سزا مقرر فرمائی ہے ۔ایک حدیث نبویﷺکے مطابق کسی مسلمان کاخون تےن صورتوں کے علاوہ جائزنہیں،قتل ،ارتداداور محصن (شادی شدہ)زانی۔متعددواقعات بھی سنت رسول اﷲ ﷺ سے ثابت ہیں جن میں آپ ﷺ نے محصن زانی کو رجم کرنے کا حکم دےا اور مسلمانوں نے اسکو رجم کیا،ماعذ،غامدیہ اور یہودےوں کاجوڑا اسکی بہت مشہور مثالیں ہیں۔دورخلافت راشدہ میں بھی اسی پر تعامل رہا۔اگرچہ کچھ علماءصرف اتنی سختی کرتے ہیں کہ وہ محصن جو عادی زانی بن چکاہو اور کسی صورت باز نہ آتا ہو صرف اسی کو ہی رجم کیاجائے گالیکن یہ موقف جمہورعلماءکی رائے سے متصادم ہے اس لےے کہ تب تو کوئی ایسا پیمانہ نہیں رہے گا کہ کوئی کتنی دفعہ بدکاری کرے اور تب ہی اس کو عادی بدکار تصور کیاجائے۔کچھ علماءکرام نے رجم کی سزاکوسورة مائدہ کی آیت حرابہ سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ محض تکلف بے جا ہے۔جب شرےعت اسلامیہ میں خود کتاب اﷲ اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اﷲ تعا لی کے رسول ﷺ قانون سازی کر سکتے ہیں تو پھرنبوی فیصلوں کو ماننے میں کیامر مانع ہے؟؟اور منکرین حدیث کے پیچھے چلنے کی کیاضرورت ہے؟؟ایک حدیث مبارکہ میں غےرشادی شدہ زانی کے لےے سوکوڑوں کے ساتھ ایک سال کی جلاوطنی کی سزا بھی مذکور ہے لیکن علماءنے جلاوطنی کی سزاکو تعذےر کے ضمرے میں رکھاہے اس لےے کہ زانیہ کو جلاوطنی کی سزا دےنے میں کئی شرعی امور مانع ہیں۔
حدود کے معاملات کے لےے عدالت کاہونا ضروری ہے۔پنچائت،جرگہ،مسجدےا گلی محلے میں حدودکے فیصلے نہیں ہوسکتے۔عدالت میں جب بدکاری ثابت ہوجائے گی تو اسکی سزاکے انتظامات کےے جائیں گے۔سب سے پہلاانتظام جس کاقرآن نے حکم بھی دےا کہ سزاسرعام دی جائے گی۔چھپ کر کال کوٹھڑی میںسزائیں دےنا انگریزکاقانون ہے۔سزاکاایک مقصد جہاں مجرم کو تکلیف پہچاناہے وہاں اس سے بڑا مقصددوسروں کو اس فعل بد کے عبرت انگےزانجام سے آگاہ کرنا بھی ہے۔سزادےنے کاسب سے بڑامقصد اس قبیل کے جرائم کی بیخ کنی ہوتا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ایک زمانہ دیکھے اور اس مجرم کے انجام سے عبرت حاصل کرے اور آئندہ جس کسی کے دل میں اس جرم کے کرنے کاخیال بھی پیداہو تو اپنے پیش رو مجرم کا آنکھوں دیکھاحال اسے اس جرم سے بزورروک دے۔حدزنا سمیت شرےعت اسلامیہ نے جتنی بھی سزائیں مقررکی ہیں ان کے لےے مسلمانو کی ایک تعداد کے سامنے اس سزاکادینا لازم ٹہراےاہے۔کوڑوں کی سزا کی کیفےت اس طرح ہوگی:
1۔ گرمیوں میں ٹھنڈے وقت میں اور سردےوں میں گرم وقت ،سرعام درے لگائے جائیں گے۔
2۔سر ،منہ۔چہرہ اور نازک اعضا پر درے نہیں لگائے جائیں گے،اسے باندھا نہیں جا ئے گا۔
3۔درے اس طرح لگائے جائیں گے کہ انکے اثرات صرف جلد تک رہیں گے،گوشت تک نہیں پہنچ پائیں گے۔
4۔درہ ہلکی ضرب والا ہوگا،قرین قےاس ہے کہ ٹانگے والے جوچھانٹا استعمال کرتے ہیں وہ کافی ہے۔
5۔اگر جرم کا اثبات گواہوں سے ہوا ہے تو دروں کا آغاز گواہ کریں گے پھر قاضی ےاحاکم اور پھر جلاد سزا کی تکمیل کرے گا۔
6۔اگرجرم کا اثبات اقرارجرم ےا ظہور حمل سے ہوا ہے توسزاکاآغازقاضی ےاحاکم کرے گا، پھر جلاد اسے پایہ تکمیل تک پہنچائے گا۔
7۔کوڑے لگاتے وقت جلاد کا ہاتھ کندھے سے اوپر نہیں جائے گااور اسکی بغل بھی نظر نہیں آئے گی۔
8۔مریض کی صورت میں شفاکاانتظارکیاجائے گا۔
9۔حالت حمل میں سزا نہیں دی جائے گی۔
رجم کی سزا کی کیفےات اس طرح ہوں گی:
1۔اقرار کی صورت میں سزاکاآغاز قاضی یاحاکم کرے گااور پھر عوام۔
2۔گواہوں سے جرم ثابت ہونے کی صورت میں سزاکاآغاز گواہ پھر قاضی یاحاکم اور پھر عوام بھی شریک سزا ہوجائیں گے۔
3۔اوسط درجے کے پتھروں سے ماراجائے گااورچہرے پر پتھر نہیں مارے جائیں گے۔
4۔حاملہ کے لےے وضع حمل اور مدت رضاعت تک انتظار کیاجائے گا۔
5۔مجرم اگر بھاگنے لگے تو اسے گڑھے میں دباےا جاسکتاہے۔
حد جاری ہوچکنے کے بعد مقتول کوپورے ادب و احترام کے ساتھ غسل اور کفن دےاجائے گااور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیاجائے گا۔ایک عورت کو رجم کرنے کے بعدکسی مسلمان نے اس عورت کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے،اس پر آپ ﷺ ناراض ہوگئے اور ارشاد فرماےا کہ اس عورت کی توبہ اگر اہل مدینہ پرتقسیم کی جائے تو سب ہی معاف کردےے جائیں۔کیونکہ جسے کسی گناہ کی سزااس دنیامیں مل جائے تو روز قےامت اس سے بازپرس نہیں ہوگی اور جو گناہ کرنے کے باوجود اس دنیامیں سزاسے بچ گےااب اﷲ تعالی کی مرضی ہے کہ روزقےامت اسے سزادے ےامعاف کردے۔
حد جاری کرنے کے دوران کسی طرح کاترس کھانادرست نہیں۔ظالم پر ترس کھانا مظلوم کے ساتھ زےادتی ہوتی ہے،اور اس جرم کا مظلوم پورامعاشرہ ہے بلکہ انسانی نسل بھی ہے اس لےے کہ جس کے گھر میں پناہ گاہ موجود ہے اور پھر بھی وہ لوگوں کی عزتوں سے کھیلتاہے اورنسلوںکے نسب مشکوک کرتا ہے تو وہ صحیح معنوں میں اسی سزاکاہی مستحق ہے کہ اسکے ناپاک وجود سے اس دھرتی کو پاک کردےاجائے۔یہ بھی درست کہ زنا کی یہ سزا بہت شدےد ہے اس لےے کہ یہ جرم بھی اتنا ہی یا شاےد اس سے بھی زےادہ شدےدہے۔صرف زنا کی تہمت لگا دےنے سے ہی حد قذف کے اسی کوڑے انسان کی کمر پر لگنا ضروری ہو جاتے ہیں تو عملاََ یہ جرم کتناقبیح اور کتنا غلیظ ہوگا؟؟۔حضرت مریم علیہ السلام کو جب جبریل بیٹے کی خوشخبری دی اور انہوں نے پاکدامنی سے محض حکم ربی کی بناپر بچہ جناتو صرف بدکاری کی تہمت کے خوف سے انہوں نے فرماےا جس کو قرآن نے سورہ مریم آیت23میںنقل کیاہے کہ کاش میں اس سے پہلے ہی مرجاتی اور مےرانام و نشان تک نہ رہتا،حالانکہ وہ خود اپنی پاکدامنی سے آگاہ تھیںاورجبریل انہیں تسلی دے رہاتھااور اﷲ تعالی ان کی معصومیت پر گواہ تھا۔
زنا کی سزا سے پہلے دوائی زنا کو روکنا ضروری ہے،دوائی زنا سے مراد وہ راستے ہیں جہاں سے زناکے دروازے کھلتے ہیں۔ معاشرے میںزناکارانہ ماحول ختم ہو اور آزادانہ آشنائیاں بندکردی جائیں،مخلوط تعلیم اور مخلوط محفلوں سے احتراز کیاجائے ،معاشرے میں حجاب اور نقاب کارواج عام کیاجائے،نوجوانوں کو سخت کوشی کاعادی بناےاجائے اور انہیں فوجی اور نیم فوجی زندگی کاعادی بناکر عورتوں سے دوررکھنے کاانتظام کیاجائے اور سب سے زےادہ یہ کہ تقوی اور دینداری کو لوگوں کی عادات میں شامل کیاجائے تب ہی اس قباحت اور حرام کاری سے معاشرے کا بچناممکن ہے۔حکومت وقت اورمعاشرہ پہلے ایسے انتظامات کرے کہ زنا کے دروازے بند ہوتے چلے جائیں،لوگوں کی عزت و ناموس محفوظ ہوتی چلی جائے اور خواتےن اپنے فطری امورجن میں امور خانہ داری اور بچوں کی پیدائش و نگہداشت ہے اس میں مصروف رہیں ۔ جیسے جانوروں اور پرندوں کے بالغ ہوتے ہی فطرت انہیں جوڑاجوڑاکر دیتی ہے اسی طرح نوجوانوں کی بروقت شادےاں کردی جائیںتو اس جرم سے بہت کچھ بچت ہو سکتی ہے۔اسلامی شرےعت قطعاََنہیں چاہتی کہ معاشرے سے بدکاری کے دروازے بند کےے بغےرلوگوں پر کوڑے اور پتھر برسانے شروع کر دےے جائیںلیکن جب دوائی زنامسدود ہ ہوجائیں تو پھر کسی زانی کو معاف نہ کیاجائے کہ یہی منشائے خدا ہے اور اسی میں انسانیت کا بھلاہے
ڈاکٹر ساجد خاکوانی 



No comments:

Post a Comment