Wednesday, June 1, 2016

رمضان اور نزول قرآن

اللہ رب العالمین نے تخلیق آدم سے لے کر آخری انسان تک کی ہدایت و رہنمائی کے
 لئے ‘کہ انسان کو اس دنیا میں کس اسلوب پر اپنی حیات مستعار کی ساعتوں کو گزارنا ہے ۔اس کے لیل و نہار کس ڈھب پر گزرنے چاہئیں‘ انسان کا اپنے رب کے ساتھ تعلق کس انداز پر استوار ہونا چاہیے۔ اعتقادات ‘عبادات ‘باہمی تعلقات و معاملات کیسے ہوں ۔ اخلاق و آداب کے کیا سلیقے ہوں۔ اسی طرح انفرادی و اجتماعی زندگی کو دنیاوی و اخروی لحاظ سے کیونکر کامیاب بنایا جا سکتا ہے؟ ان تمام امور کو اللہ کی مرضیات کے مطابق خوشگوار انداز میں ڈھالنے کے لئے خالق کائنات نے حضرت انسان کے لئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءو رسل مبعوث فرمائے اور انسانی زندگی کو صحیح نہج پر گامزن رکھنے کے لئے کتب و صحائف بھی اتارے ۔جن میںہر قوم کے ماحول و ضروریات کے مطابق لائحہ عمل دیئے گئے تاکہ وہ قوم ‘بستی ‘علاقہ اور ملک کے عوام و خواص ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال کر دنیا و آخرت کی کامیابیوں کے مصداق بن جائیں۔
تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان خطا و نسیان کا مرقع ہے اور وہ بہت جلد پندونصائح کو بھول جاتا ہے۔ اسی طرح اس کی فطرت میںہٹ دھرمی و خود سری بھی بدرجہ اتم موجود ہے ۔ لہٰذا اپنی انہی فطری کمزوریوں اورجبلتوںکی بنا پر انسان مختلف النوع نظریات کا حامل رہا ہے ۔جن میںمنزل من اللہ افکار ونظریات اور انبیاءو رسل کی پیروی کرنے والے اللہ کے پسندیدہ بندے بھی ہیں اور خودساختہ فلسفہ ہائے زندگی پرجان چھڑکنے اورانبیاءو رسل کی دعوت حق اور آمدہ کتب وصحائف ربانی کی تکذیب کرنے والے اللہ کے دشمن ‘ نافرمان ‘کافر و مشرک ‘دیدہ دلیر بھی دنیا میں موجودہیں۔ سیدنا آدم علیہ لسلام سے لے کر جناب عیسیٰ علیہ السلام تک جتنے بھی اللہ کے فرستادہ انبیاءو رسل دنیا میں تشریف لائے ۔سب کا دین اسلام تھا اور سب کی دعوت کامحور و مرکز اللہ کی ذات والا صفات کا تعارف تھا۔ لیکن بدقسمتی سے انسان نے اپنے اپنے دور کے انبیاءکی جہاں تکذیب کی ‘وہیں معدودے چند لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے ان انبیاءکرام کی دعوت پر لبیک کہا اور ان کے معاون و مدگار بھی بنے۔ البتہ انہی ماننے والوںمیں سے اکثر نے یہ بھی ظلم ڈھایا کہ انہوںنے اپنے پیغمبروں کی تعلیمات کو یکسر بھلا دیا اوردعوت توحید کو شرک کی آمیزشوں سے آلودہ کر دیا اور اللہ کی نازل کردہ کتابوں و صحیفوں میں من مانی تحریفات کر کے انہیں اپنی مرضی کے تابع فرمان کرنے کی ناپاک جسارتیں کرتے رہے۔ یہاں تک اپنے ادیان و کتب سماوی کا حلیہ بگاڑ کر رکھدیا جو سراسر منشائے ربانی کے خلاف عمل تھا۔ نیز بعض شقی القلب افراد و اقوام ایسی بھی تھیں‘جنہوںنے ناحق اللہ کے برگزیدہ نبیوں ‘رسولوں کو نہ صرف ستایا بلکہ قتل بھی کر ڈالا۔ جن کی وجہ سے مختلف اقوام و ملل پر اللہ کے عذاب بھی آئے اور منکرین حق کی بستیوں کی بستیاں مالک الملک عزوجل نے خس و خاشاک کی طرح تباہ و برباد کر کے رکھ دیں اور انہیں آنے والوں کے لئے نشان عبرت بنا دیا۔ جن کے مظاہر آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ 
اسی طرح انسان اپنی فطرت و جبلت کے ماتحت خطا و نسیان میں غلطاں اپنی دنیا و آخرت برباد کئے چلاجا رہاتھا ۔ بالخصوص سرزمین عرب روئے زمین پر سب سے زیادہ ظلم و ستم سے بھر چکی تھی۔یہاں کے بسنے والے گرچہ ابو الانبیاءسیدنا ابراہیم علیہ السلام کی پیٹھ سے پیدا ہونے والے سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ کی نسل سے تعلق رکھتے تھے ‘ جنہوںنے توحید کی عظمت کے ترانے آتش نمرود میںبھی گنگنائے ۔جیساکہ اقبال نے کہا
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میںعشق
عقل تھی محو تماشائے لب بام ابھی
ان عظیم ہستیوںسے نسبت و تعلق رکھنے والے ان کے ہاتھوں تعمیر کردہ اللہ کے گھر کو تین سو ساٹھ معبودان باطلہ کے اصنام (کی نجاست) سے اس کی پاکیزگی و حرمت کو پامال کر چکے تھے۔ اللہ کے مقابل اپنے تراشیدہ بتوں کو اللہ کاہمسر قرار دے کر رب کے جاہ و جلال اور غضب کو دعوت دے رہے تھے۔ یہی نہیں بلکہ ان کی جہاں دینی حالت پستی کا شکار تھی وہیں اخلاقی ‘سیاسی ‘معاشی ‘معاشرتی‘ثقافتی اقداربھی زبوں حالی سے دوچار تھیں۔ قتل و غارت ‘چوری ‘ڈاکہ زنی ‘ظلم و تعدی ‘کمزوروں پر طاقت وروں کی دھونس دھاندلی‘ شراب خوری‘ جوا ‘ زناجیسے امور معاشرہ کا طرئہ امتیاز سمجھے جاتے تھے۔ غلاموں‘یتیموں بالخصوص عورتوں کا توکوئی پرسان حال ہی نہ تھا۔ پید اہوتے ہی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دینا غیرت کی علامت بن چکا تھا۔ عورت محض دل لبھانے کی شئے قرار دے دی گئی اور باپ کی کنیزیں ورثہ کی طرح بیٹوں میں تقسیم ہو جاتیں اور انہیں مباح سمجھا جاتا۔ بیت اللہ کی حرمت جہاں بتوں کی نجاست سے پامال ہو رہی تھی وہیں اس کا برہنہ طواف بھی اس کی پاکیزگی کو گدلا رہا تھا۔ ایک عجیب کیفیت طاری تھی کہ اس خطہ ارضی پر کوئی قوم حکومت کرنے کے لئے بھی تیار نہ تھی ۔ہر طرف فتنہ و فساد برپا تھا۔ اللہ کی بغاوت اور شرک کا دور دورہ تھا۔ اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا تھا۔ قبائلی تعصبات انتہائی عروج پر تھے۔ معمولی معمولی باتوں پر ایک دوسرے پر تلواریںنکل جانا کوئی معیوب نہ تھا۔ بیت اللہ کی موجودگی اور تولیت کی وجہ سے قریش کو دیگر قبائل پر فوقیت حاصل تھی اور انہیں احترام حاصل تھا۔کوئی قانون نہ تھا‘ بس جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ درپیش تھا۔
یوں کہا جا سکتاہے کہ کسی قوم کی تباہی و بربادی کے جس قدر اسباب ہوسکتے ہیں وہ سب کے سب اہل عرب میں اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ رچ بس چکے تھے اور قریب تھاکہ اللہ انہیںکسی عذاب میںمبتلا کر کے صفحہ ہستی سے مٹا دیتا کہ اس کی رحمت جوش میں آئی اور اس نے اپنی آخری دعوت حق اور آخری چہیتے رسول جناب سید ولد آدم امام الانبیاءرحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو مکة المکرمہ کے ایک معزز گھرانے میں عبدالمطلب سردارقریش کے فوت شدہ بیٹے عبداللہ کے گھر بی بی آمنہ کے بطن سے سن اعام الفیل میںپیدا فرمایا۔ یہ پاک باز بچہ نہ صرف بچپن بلکہ لڑکپن اور جوانی میںبھی سب سے ممتاز اور بلند مرتبت کا حامل تھا۔ یہاں تک کہ جب عمرشریف مائل بہ بزرگی و بڑھاپا ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر عجیب کیفیت غالب آنے لگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے پانی ‘کھجوریں اور ستو لے کرمکہ سے قریب غار حرا میں خلوت نشین ہو کر اپنے رب کی مناجات کرتے اور اس سے لو لگائے رہتے کہ ایک دن جبکہ آپ غار حرا میںمشغول عبادت تھے ‘ اللہ کا مقرب فرشتہ جبرئیل امین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کائنات کا سب سے عظیم بوجھ یعنی خلق کی رہبری و رہنمائی اور ہدایت کی ذمہ داریوں کا منصب جلیلہ بصورت آخری نبوت و رسالت اللہ رب العالمین نے رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرما دیا۔
یہ ماہ رمضان المبارک ہی تھا کہ جس کی مقدس ساعتوںمیں اللہ کا آخری پیغام ہدایت قرآن مجید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پرنازل کیا گیا۔ حالانکہ رمضان پہلے بھی آتا تھا لیکن نزول قرآن کی برکت سے ماہ رمضان کوجو تقدس حاصل ہوا وہ عظمت رمضان کو اس سے قبل حاصل نہ تھی۔چنانچہ خود قرآن کابیان ہے۔
شَھرُ رَمَضٓانَ ا ±لَّذی ± اُنِ ±زلَ فِیہِ اُل ±قُراٰنُ o ھُدًی لِلّنَاَسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ ال ±ھُدیٰ وَال ±فُرقان o فَمَن شَھِدَ مِن ±کُمُ ± الشَّھ ±رُ فَلُی ±صُم ±ہُ ط
ترجمہ! ماہ رمضان وہ ہے ‘ جس میں قرآن (اول اول) اتارا گیا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں ) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو ‘ چاہیے کہ پورے مہینہ کے روزے رکھے۔
 (البقرہ آیت : ۴۸۱ پارہ ۲)
گویا رمضان اور قرآن کا تعلق اس قدر گہرا اورپختہ ہو گیا کہ دونوں ایک دوسرے کا جزو لاینفک ہو گئے۔
رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مقدس کی تمام تر ساعتیں جو باعث برکت و رحمت اور مغفرت ہیں تو قرآن مجید پر کماحقہ عقیدہ و عمل کی بنیاد پر ہیں۔ چونکہ رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان کا عنوان قرآن ہے۔ ابتدا ہی میں قرآن کی عظمت یوں آشکاراکی گئی کہ
الٓم۔ذٰلِکَ ال ±کِتٰبُ لاَ رَی ±بَ فِی ±ہِ ہُدًی لِّل ±مُتَّقِی ±ن
ترجمہ! الم o یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ رب کا کلام ہے۔اللہ سے)ڈرنے والوں کے لئے سامان ہدایت ہے۔ (البقرہ‘ آیات۱‘۲ پارہ ۱)
دوسرے مقام پر یوں فرمایا!
وَمَاکَانَ ہٰ ©ذَا ال ±قُر ±اٰنُ اَن ± یُّف ±تَرٰی مِن ± دُو ±نِ اللّٰہِ وَلٰ ©کِن تَص ±دِی ±قَ الَّذِی ± بَی ±نَ یَدَی ±ہِ وَتَف ±صِی ±لَ ال ±کِتٰبِ لاَ رَی ±بَ فِی ±ہِ مِن ± رَّبِّ ال ±عٰلَمِی ±ن۔ اَم ± یَقُو ±لُو ±نَ اف ±تَرٰہُ قُل ± فَا ±تُو ±ا بِسُورَةٍ مِّث ±لِہ وَاد ±عُو ±ا مَنِ اس ±تَطَع ±تُم ± مِّن ± دُو ±نِ اللّٰہِ اِن ± کُن ±تُم ± صٰدِقِی ±ن
ترجمہ! اوریہ قرآن ایسانہیں کہ اللہ کے سوا کوئی ا س کو اپنی طرف سے بنا لائے۔ ہاں (ہاں یہ اللہ کا کلام ہے) جو (کتابیں) اس سے پہلے (کی) ہیں۔ انکی تصدیق کر تا ہے اور انہی کتابوں کی (اس میں) تفصیل ہے ۔اس میں کچھ شک نہیں (کہ) یہ رب العالمین کی طرف سے (نازل ہوا )ہے۔
کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا ۔کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورت بنا لاﺅ اور اللہ کے سوا جن کو بلا سکو (ان کو ) بلا بھی لو۔
(سورة یونس‘ آیات ۷۳‘ ۸۳ پارہ ۱۱)
 ان آیات مبارکہ میں قرآن مجید کے منزل من اللہ اور مبنی بر حق ہونے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ قرآن محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے ‘ تو تم بھی ایسی کوشش کر دیکھو اور اللہ کے سوا اپنے تمام مددگاروں کو بھی بلا لو اور اس جیسی ایک سورت بنا کر دکھادو۔یہ ایسا کھلا چیلنج ہے جو آج تک انسانیت قبول کرنے سے عاجزہے ‘ اور کیوں نہ ہو کہ اس جیسا کوئی بنا ہی نہیں سکتا ‘کیونکہ یہ رب رحمان کا کلام ہے۔ نزول قرآن مجید ماہ رمضان سے بالکل جڑا ہوا ہے۔ کہ رمضان آتا ہے تو قرآن بھی جابجا گلی گلی ‘بستی بستی‘ محلہ محلہ کثرت سے تلاوت کیاجانے لگتا ہے اور یہ اتنا عظیم کلام ہے کہ اس کے نزول کی رات کو کہ جس میں یہ نازل کیا گیااسے بھی اللہ رب العالمین نے عظمتیں اور رفعتیں عطا فرمادیں اورارشادفرمایا۔
اِنَّآ اَن ±زَل ±نٰہُ فِی ± لَی ±لَةِ ال ±قَد ±رِ۔وَمَآ اَد ±رٰکَ مَا لَی ±لَةُ ال ±قَد ±ر۔لَی ±لَةُ ال ±قَد ±رِ خَی ±ر µ مِّن ± اَل ±فِ شَہ ±ر۔تَنَزَّلُ ال ±مَلٰٓئِکَةُ وَالرُّوحُ فِی ±ہَا بِاِذ ±نِ رَبِّہِم ± مِّن ± کُلِّ اَم ±ر۔ سَلٰم µ ہِیَ حَتّٰی مَط ±لَعِ ال ±فَج ±رِ
ترجمہ! بے شک ہم نے اس( قرآن مجید) کو قدر (ومنزلت) والی رات میںنازل کیا۔ اور آپ کوکیا خبر کہ شب قدر کیا چیز ہے۔(سو) شب قدر (خیر وبرکت میں) ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ فرشتے اور جبرائیل اپنے پروردگار کے حکم سے ہر ایک انتظام کے لئے اس رات (زمین پر) اترتے ہیں۔ وہ امن و سلامتی کی رات ہے اور وہ فجر ہونے تک رہتی ہے۔(سوةالقدر‘آیات:۱ تا ۵ پارہ ۰۳)
غورفرمائیے کہ یہ کتاب قرآن مجید اس قدر اہمیت و فضیلت کی حامل ہے کہ اس کے نزول کی برکت سے وہ رات بھی عظمتوں اور برکتوں والی ہو گئی کہ اس ایک رات کی خیر و برکت اس قدر وسیع ہو گئی کہ جس قدر ایک ہزار مہینوں کی عبادت و ریاضت کوئی بندہ حاصل کر سکتاہے۔ اللہ نے قرآن کی برکت سے امت مسلمہ کو محض ایک رات کی عبادت کااجر و ثواب ایک ہزار مہینوں کی عبادت کے برابر عطا فرمانے کا اعلان کر دیا۔اندازہ کیجئے ہماری زندگی میں یہ رات کتنی مرتبہ آتی ہے۔ ہم اس کے فیوض و برکات سے کس قدر فیض یاب ہوسکتے ہیں۔
یہ قرآن مجید کی برکات کا نتیجہ ہے کہ روزہ جیسی عظیم عبادت میسر آئی کہ جس کے متعلق حدیث قدسی ہے کہ اللہ فرماتا ہے روزہ میرے لئے ہے اور میںہی اس کی جزا دوںگا(بخاری و مسلم)
قرآن مجید انسانی فوز و فلاح کا دائمی چارٹر ہے جس میںایک طرف حقوق اللہ کی پاسداری ہے تو دوسری طرف حقوق العباد کا التزام ہے۔ گویا یہ قرآن ہماری روحانی و جسمانی تسکین و شفا کا باعث ہے۔ اس میں پورا نظام حیات عطاکیا گیا ہے جس پر عمل پیراہو کر انسانیت اپنا کھویا ہوا وقار اور گمشدہ متاع عزیز یعنی جنت بھی حاصل کر سکتی ہے۔ قرآن راہ نجات ہے اورہمارے تمام دکھوں کا مداوا بھی ہے۔ چنانچہ ارشادفرمایا۔
وَنُنَزِّلُ مِنَ ال ±قُر ±اٰنِ مَا ہُوَ شِفَآئ µ وَّرَح ±مَة µ لِّل ±مُ ¶ ±مِنِی ±نَ
ترجمہ! اور ہم قرآن(کے ذریعے) سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا او ررحمت ہے۔(بنی اسرائیل ‘ آیت ۲۸ پارہ ۵۱)
نزول قرآن کا مقصد :اللہ خالق و مالک نے نزول قرآن کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا!
ہُوَ الَّذِی ± بَعَثَ فِی ال ±اُمِّیّنَ رَسُو ±لاً مِّن ±ہُم ± یَت ±لُو ±ا عَلَی ±ہِم ± اٰیٰتِہ وَیُزَکِّی ±ہِم ± وَیُعَلِّمُہُمُ ال ±کِتٰبَ وَال ±حِک ±مَةَ وَاِن ± کَانُو ±ا مِن ± قَب ±لُ لَفِی ± ضَلٰلٍ مُّبِی ±ن
ترجمہ! وہی تو ہے جس نے ان پڑھوں میں انہی میں سے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو) پیغمبر (بنا کر) بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے اور ان کو پاک کرتے اور (اللہ کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور ا س سے پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے ۔
(سورة الجمعہ‘ آیت:۲ پارہ ۸۲)
دوسرے مقام پر یوں فرمایا!
تَبٰرَکَ الَّذِی ± نَزَّلَ ال ±فُر ±قَانَ عَلٰی عَب ±دِہ لِیَکُو ±نَ لِل ±عٰلَمِی ±نَ نَذِی ±رًا۔ الَّذِی ± لَہ ¾ مُل ±کُ السَّمٰوٰتِ وَال ±اَر ±ضِ وَلَم ± یَتَّخِذ ± وَلَدًا وَّلَم ± یَکُن ± لَّہ ¾ شَرِی ±ک µ فِی ال ±مُل ±کِ وَخَلَقَ کُلَّ شَی ±ئٍ فَقَدَّرَہ ¾ تَق ±دِی ±رًا
ترجمہ! وہ اللہ تعالیٰ بہت برکت والا ہے جس نے قرآن مجید کو اپنے بندے (محمدصلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل فرمایا تاکہ وہ سب لوگوںکے لئے آگاہ کرنے والا ہو جائے۔ اسی اللہ (یکتا) کی حکومت و سلطنت ہے‘ آسمانوں اور زمین کی‘ اور اس نے کوئی اولاد نہیں بنائی اور نہ کوئی اس کی سلطنت میںشریک ہے۔ اس(اللہ) نے ہر چیز کو پیدا کیا اورمناسب اندازے پر رکھا۔(سورةالفرقان‘آیات۱‘۲ پارہ ۸۱)
اسی طرح ایک مقام پر قرآن کی عظمت کا یوں اظہار کیا گیا۔
فَلَآ اُق ±سِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُو ±مِo وَاِنَّہ ¾ لَقَسَم µ لَّو ± تَع ±لَمُو ±نَ عَظِی ±مo اِنَّہ ¾ لَقُر ±اٰن µ کَرِی ±م µo فِی ± کِتٰبٍ مَّک ±نُو ±نٍoلَّا یَمَسُّہ ¾ اِِلَّا ال ±مُطَہَّرُو ±نَoتَن ±زِی ±ل µ مِّن ± رَّبِّ ال ±عٰلَمِی ±نَo اَفَبِہٰذَا ال ±حَدِی ±ثِ اَن ±تُم مُّد ±ہِنُو ±نo وَتَج ±عَلُو ±نَ رِز ±قَکُم ± اَنَّکُم ± تُکَذِّبُو ±ن
ترجمہ! ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم۔ اگر تم سمجھو تویہ بڑی قسم ہے۔کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے۔ (جو) کتاب محفوظ میں (لکھا ہوا ہے)۔اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جوپاک ہیں۔پروردگار عالم کی طرف سے اتاراگیا ہے۔کیا تم اس کلام سے انکار کرتے ہو؟۔اور اپنا وظیفہ یہ بناتے ہو کہ (اسے)جھٹلاتے ہو۔(سورة الواقعہ‘ آیت۵۷ تا ۲۸ پارہ ۷۲)
مذکورہ بالا آیات قرآنی سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کا مقصد انسانیت کے عقائد و اعمال اور اخلاق کی تطہیر کر کے رب کے پسندیدہ بندے بنا کر اس کے اصلی مقام جنت اور رضائے الٰہی کی شاہراہ مستقیم پر گامزن کرانا ہے ۔ تاکہ انسانیت اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لے ‘ جو اس کی اشاعت اعمال کی بنا اس کے ہاتھوں سے جاتا رہا ہے۔یہ قرآن مجید اتنی عظمتوں اوررفعتوں کا حامل ہے کہ اگر ایمان کے جذبہ کے ساتھ محض اس کی تلاوت کر لی جائے تو وہ بھی مومن کے لئے انتہائی اجر و ثواب کا باعث ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ کے آخری محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے۔
ترجمہ! جس نے قرآن مجید کا ایک حرف پڑھا اس کو نیکی ملے گی اور ایک نیکی کا ثواب دس نیکیوں کے برابر ہے۔اَلَم ایک حرف نہیں ہے بلکہ الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے اورم ایک حرف ہے (ترمذی‘ دارمی)
گویا ان حرفوںکی تلاوت کے بدلے پڑھنے والے کو تیس نیکیاںملیںگی اور پورے قرآن مجید میں تین لاکھ بائیس ہزار چھ سو ستر (۰۷۶‘ ۲۲‘ ۳)حرف ہیں تو پورے قرآن مجید کی تلاوت کا ثواب بتیس لاکھ چھبیس ہزار سات سو (۰۰۷‘ ۶۲‘ ۲۳) نیکیاں ملیںگی۔ اندازہ کیجئے کہ محض تلاوت کرنے پر اس قدر اجر و ثواب ہے تو پھر سمجھ کر سیکھنے اور اس کے علوم کے حصول اور عمل پر کیا اجر و ثواب ہو گا۔ اس کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ ہم اپنے ناقص حسا ب کتاب سے صرف اتناکہہ سکتے ہیں کہ قرآن سیکھنے سکھانے اور اس پر عمل کرنے سے اللہ کاتقرب حاصل ہو سکتا ہے اور انشاءاللہ تعالیٰ ا س کی برکت سے جنت کے حصول اور جہنم کی ہولناکیوں سے محفوظ رہنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ جو اگر حاصل ہوگئی تو یقینا بڑی کامیابی ہے۔
یاد رکھیے! دنیا کی مختصر زندگی بہر صورت گزرہی جائے گی لیکن اگریہ زندگی رب کی رضا کے مطابق گزری تو دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی ہے ‘وگرنہ من چاہی ‘ شتر بے مہار کی زندگی یا اللہ کی بغاوت و نافرمانی ‘قرآ ن کی تکفیر و تکذیب میںگزری تو ایسی زندگی دنیاوی لحاظ سے شاید کامیاب ہوجائے ۔لیکن ابدی زندگی جہنم کی نذر ہو کر خسران کا باعث ثابت ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوط و مامون رکھے۔ آمین۔ قرآن مجید سے تعلق استوار اور مضبوط سے مضبوط تر رکھنا م ¶من کا شعار ہے۔ یہ نازل ہی اس لئے ہوا ہے کہ ہم اپنا تزکیہ کر لیں اور اپنے مربی و آقا ‘ پالنہار اللہ رب العالمین کے پسندیدہ بندے بن جائیں اوریہ قرآن معمولی چیز نہیں کہ ہم اسے محض ایک کتاب سمجھیں بلکہ اس میںہمارے لئے دنیا و آخرت کی کامرانیوں کا مکمل لائحہ عمل موجود ہے ۔ اس کے علاوہ قرآن دلوں کے زنگ دور کرکے صاف شفا ف بناتا ہے۔
تلاوت قرآن کی اہمیت: رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے۔
ترجمہ! دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے کو پانی لگ جانے سے زنگ لگ جاتا ے۔ لوگوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر ان کو کس طرح صا ف کیاجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا موت کو زیادہ یاد کیا کرو اور قرآن مجید کو بہت پڑھا کرو۔(بہیقی)
اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا!
ترجمہ! جو اپنے رب سے بات چیت کرنا چاہے تواسے چاہیے کہ قرآن مجید پڑھے ۔
(کنزالعمال)
ایک حدیث میں یوں ارشادفرمایا!
قرآن پڑھا کرو ۔ کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے شفیع بن کر آئے گا۔(مسلم)
ایک جگہ اس طرح قرآن کی عظمت بیان فرمائی!
ترجمہ! میری امت کی بہترین عبادت قرآن مجید کی تلاوت ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت کرنے والوں کے درجات: رسول رحمت امام الانبیاءصلی اللہ علیہ والہ وسلم کاا رشاد عالی شان ہے۔
ترجمہ! قرآن مجید پڑھنے والے سے کہا جائے گاکہ قرآن پڑھتا جا اور(جنت کے ) اونچے اونچے درجات پر چڑھتا جا اورٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیساکہ دنیا میں پڑھتے تھے تمہارا جنت میں آخری درجہ وہ ہو گا جہاں تم پڑھتے پڑھتے ٹھہر جاﺅ گے(ترمذی)
قرآن مجید میں چھ ہزاردو سو بتیس آیات ہیں تو قرآن مجید پڑھنے والے کو اسی قدر درجات حاصل ہوں گے ہر دو درجوں کے درمیان زمین اور آسمان کے برابر فاصلہ ہے۔(ترمذی)
حدیث قدسی میں ارشاد ہوا!
ترجمہ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت نے جس کو باز رکھا مجھ سے سوال کرنے سے یعنی قرآن مجید پڑھنے میں مشغول رہا‘ جس کی وجہ سے وہ مجھ سے سوال نہ کر سکا تو اس کو اس سے بہتر دوں گا جو مانگنے والے کو دیتاہوں ۔ یعنی مانگنے والوں سے زیادہ تلاوت قرآن مجید کرنے والوں کو دوں گا اور کلام الٰہی کی فضیلت تمام کلاموں پر ایسی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی فضیلت تمام مخلوقات پر ہے۔(ترمذی)
قارئین کرام! قرآن مجید سراسر خیر و برکت او رفوز و فلاح او رکامیابیوں و کامرانیوں کا نشان امتیاز ہے۔ اس پر ایمان لانا اس کی تلاوت کرنا اور اس کے احکامات یعنی اوامر ونواہی پر کماحقہ عمل پیر اہونا اور صاحب قرآن ‘ پیغمبر آخرالزماں سید ولدآدم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت یعنی قرآن و حدیث کی اتباع و فرمانبرداری کرنا دنیا و آخرت کی بھلائیوں اورنجات کا ذریعہ ہے۔ بصورت دیگر اگر ہم سرے سے انکار ہی کر دیں معاذ اللہ یاایمان تو لائیں مگر عمل نہ کریں یا قرآن سے استہزا کے مرتکب ہوں تو ایسی صورت میں کافر و مشرک تو جہنم کے حقدار ٹھہریں گے ‘ ہی ہمارا بھی کوئی پرسان حال نہ ہو گا۔محض اسلام اور قرآن سے تعلق کے دعوے کام نہ آئیں گے بلکہ قرآن خود شاہد ہے کہ بے حس اور قرآن سے لاتعلقی و بے رغبتی اختیار کرنے والوں کے متعلق رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے دربار میں شکایت کرتے ہوئے عرض کریںگے۔
 وَقَالَ الرَّسُو ±لُ یٰرَبِّ اِنَّ قَو ±مِی اتَّخَذُو ±ا ہٰذَا ال ±قُر ±اٰنَ مَہ ±جُو ±رًا
ترجمہ! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیں گے کہ اللہ میری قوم نے قرآن مجید کو چھوڑ دیا تھا (اور اس پر عمل نہیں کیا تھا میرا کیا قصور ہے)۔(سورةالفرقان آیت ۰۳ پارہ ۹۱)
ہم خود اندازہ لگا لیں کہ قرآن مجید کے ساتھ ہمارا تعلق کس قدر گہرا یا واجبی سا ہے یا اللہ نہ کرے کہیں لاتعلقی و تساہل کا تو نہیں۔اگر ہمارا تعلق قرآن سے گہرا ہے تو اسے مزید مضبوط سے مضبوط تر بنائیے اور اللہ کا شکر ادا کیجئے۔ اور اگر صورت حال مختلف ہے تو فکر کیجئے اور اللہ سے لو لگانے کے لئے قرآن سے اپنا رابطہ استوار کیجئے اور کثرت تلاوت سے اس کے ساتھ وابستہ ہو جائیے۔ انشاءاللہ تعالیٰ اس کے نزول کے مقاصد بھی پورے ہوں گے اور ہماری زندگیوں میں پاکیزہ اور صالح انقلاب برپا ہو جائے گا ۔جس کے معاشرے پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ نیز ہماری انفرادی و اجتماعی زندگیاں بہترین سانچے میں ڈھل جائیں گی اورتعلق بالقرآن کی وجہ سے انفرادی و اجتماعی کوتاہیاں ‘نیکیوں سے بدل جائیںگی اور اللہ کی زمین پر جہاں انتہائی پاکیزہ معاشرہ تشکیل پا جائے گا اور ہر طرف امن وسکون اطمینان حاصل ہوگا وہیں اخروی زندگی جو ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی ہے وہ بھی سنور جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنی اور اپنے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و تابعداری اور تعلق بالقرآن کے نتیجے میں جنت کے اعلیٰ و ارفع درجات پر بھی فائز فرما دے گا۔ 
یقینا وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہیں جو رمضان اور قرآن سے وابستگی اختیار کر کے اپنے رب کی رضا کے حصول میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ماہ رمضان اور قرآن لازم و ملزوم ہیں۔ رمضان المبارک میں جہاں روزے رکھ کر اللہ کو راضی کرنے والے کام کئے جاتے ہیں ‘ وہیں راتوں کو تراویح کا قیام کر کے قرآن سنایا اور سنا جاتا ہے۔ اسی طرح عام دنوں کی نسبت رمضان میں ذوق و شوق کے ساتھ ہر مسلمان تلاوت قرآن کی سعادت حاصل کرتاہے۔ کاش ہم سارا سال قرآن مجید کے ساتھ اسی طرح ربط و تعلق برقرار رکھیں اور تلاوت کے ساتھ ساتھ ترجمہ و تفسیر سے بھی آگاہی حاصل کریں تاکہ ہمیں صحیح معنوںمیں قرآن کے مفاہم و مطالب سمجھ میں آ جائیں اور ہم اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو قرآن کے اسلوب کے مطابق گزار کردنیا و آخرت کی لازوال نعمتوں کے حق دار بن جائیں۔
نزول قرآن اللہ کی عظیم نعمت ہے ‘ جو بھٹکی ہوئی انسانیت کے لئے زاد راہ اور جادئہ مستقیم ہے۔ اسی قرآن کے ذریعہ اللہ بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اور بہت سے لوگ اپنی شامت اعمال کے سبب گمراہی اختیار کر لیتے ہیں۔ 
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں میں قرآن کا فہم عطا فرمائے اور ہمارے عقائد و اعمال کی اصلاح فرما دے اورہماری انفرادی و اجتماعی زندگیوں میں قرآن کو نافذ فرما دے۔ ہماری لغزشوں اور خطاﺅں سے درگزر فرمائے ۔قرآن و صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی فرمانبرداری کے ذریعہ اپنی رضا کا حصول آسان فرمادے۔

No comments:

Post a Comment