شہری انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے ایک بار پھر درختوں کی تیزی سے کٹائی کا عمل جاری ہے، شہر میں کونوکارپس کے درخت بڑی تعدا د میں لگا ئے تو گئے لیکن یہ درخت سایہ دار نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے گرمی کی شدت میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔گزشتہ بلدیاتی دور میں ایم کیو ایم کے سابق سٹی ناظم کی جانب سے شہر میںشجرکاری کے دوران سایہ دار درخت نیم، برگد، جامن، شیشم اور ببول کے درختوں کو نظر انداز کر کے کو نو کا ر پس کے 25 لاکھ درخت بنا تحقیق ہی امپورٹ کر لیے گئے تھے، جس سے شہر کی آلودگی کم کرنے میں مدد نہیں ملی۔25 لاکھ کونوکارپس کے درخت لگوانے سے قومی خزانے کے کروڑوں روپے ضائع ہوئے، کونوکارپس کی وجہ سے شہری سانس اور دمہ جیسی بیماری میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ کونوکارپس درخت خوبصورتی کے سوا کسی کام نہیں آتا ، کراچی میں تیزی سے لگائے جانے والے درخت کونوکارپس میں گرمی کی شدت کو کم کرنے کی صلاحیت نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک نمکین درخت ہے اس کا پتا جہاں بھی گرتا ہے وہاں سیم پیدا کرتا ہے، اسے آبادی والے علاقوں میں نہیں اگانا چا ہیے ۔ ہرا بھر ا نظر آ نے اور جلد بڑھ جانے کی صلاحیت رکھنے کی و جہ سے شہر بھر میں کونوکارپس کے درخت کو تیزی سے لگایا جا رہا ہےجس کاخوبصورتی کے سوا اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ حالیہ گرمی کی لہر کے دوران لوگ اسی درخت کے سائے تلے جاکر بیٹھتے ہیں مگر اس میں ٹھنڈے سائے کی تاثیر نہ ہونے کی وجہ سے شہریوں کو کوئی فا ئدہ نہیں ہو تا۔ گز شتہ شب ملک کے سب سے بڑے شہر کی اہم ترین شارع فیصل پر متعدد درخت کاٹ دیے گئے جس کا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا۔کراچی میں اشتہاری بورڈز واضح کرنے کے لیے شارع فیصل پر رات گئے بے دریغ گھنے درخت کاٹے گئے۔جس وقت درخت کاٹے جا رہے تھے، کسی بھی سرکاری محکمے یا پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تاہم سوشل میڈیا پر اس اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور شہریوں نے گرم موسم میں درختوں کی کٹائی پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔درختوں کی کٹائی پر فلاحی تنظیموں کی جانب سے اس اقدام پر نہ صرف تنقید کی گئی بلکہ احتجاج بھی کیا گیا۔بعد ازاں درختوں کی کٹائی کا مقدمہ ائرپورٹ تھانے میں درج کیا گیا جس کے مدعی محکمہ باغات کے ڈی ڈی او تنویر احمد تھے تاہم ایف آئی آر نا معلوم افراد کے خلاف درج کی گئی اور مقدمے میں کسی کو نامزد نہیں کیا گیا۔مقدمے میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے سمیت دیگر دفعات شامل کی گئیں۔خیال رہے کہ سندھ حکومت نے درختوں کو کاٹنے پر سزا کا قانون تو بنا دیا ہے تاہم تحفظ کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔واضح رہے کہ گرین بس منصوبے کے لیے بھی نارتھ ناظم آباد میں بڑی تعداد میں درخت کاٹے گئے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک عام درخت سال میں تقریباً 12کلو گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے اور 4 افراد کے لیے سال بھر کی آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ مینٹیننس آف ٹری اور پبلک پارکس آرڈیننس 2002 ءکے تحت درخت کاٹنا جرم ہے جبکہ سندھ لوکل باڈیز آرڈیننس 2001 ءمیں بھی ایسی ہی پابندی لگائی گئی ہے، ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے ادارے بھی قائم ہیں، عدالتوں نے احکامات بھی جاری کیے لیکن بلڈرز، ڈیولپرز، ایڈورٹائزرز اور ٹرانسپورٹر سمیت مختلف شعبوں کے لوگ پھر بھی درخت کاٹ ڈالتے ہیں۔سندھ حکومت نے کچھ عرصہ قبل 'نیم' کو صوبے کا درخت قرار دے کر 85 لاکھ پودے لگانے کا اعلان کیا تھا جبکہ ملیر ندی کی 5ہزار ایکڑ اراضی پر مشتمل پارک کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا لیکن ان منصوبوں پر عملدر آمد نہیں ہوسکا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے شارع فیصل پر درخت کاٹنے کا نوٹس لے لیا جس پر کمشنر کراچی آصف حیدر شاہ کا کہنا تھا کہ درختوں کی کٹائی میں ملوث افراد کو نہیں چھوڑا جائے گا اور ساتھ ہی عوام سے اپیل کی ہے کہ ایسے واقعات کی نشاندہی کریں ۔یاد رہے کہ 3 ہفتے قبل بھی شہید ملت روڈ کے گرین بیلٹ پرلگے 70 گھنے درختوں کو کاٹنے کا مقدمہ ایک بلڈر کے خلاف درج کیا گیا تھا۔خیال رہے کہ گزشتہ سال جون 2015 ءکے آخری 10 روز میں شدید گرمی کے باعث کراچی میں2ہز ار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ماہرین ماحولیات کے مطابق شہر میں درختوں کی
بے دریغ کٹائی کے باعث درجہ حرارت میں اضافہ ہوا جبکہ بارشوں کا نہ ہونا بھی شجر کاری نہ ہونے کے باعث ہے۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے رفیع الحق کے مطابق درخت لگانے سے اس مسئلے پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔رفیع الحق کا کہنا تھا کہ کنکریٹ کی عمارتوں نے شہر کا دم گھونٹ دیا ہے اور ہمیں درخت لگا کر اسے بحال کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی کو نیم کے درختوں کی ضرورت ہے، جو اس سخت آب و ہوا کو جھیل سکیں، نیم کے درخت لگانے کا بہترین وقت 15 جولائی سے 15 ستمبر تک ہوتا ہے۔یاد رہے کہ جولائی 2015 ءمیں ہی سندھ کے ا ±س وقت کے وزیر بلدیات شرجیل انعام میمن نے محکمہ بلدیات اور ماتحت اداروں کی مدد سے 2 ماہ میں سندھ میں 30 لاکھ درخت لگانے کا اعلان کیا تھا، جس میں جولائی اور اگست میں صرف کراچی میں 10 لاکھ درخت لگائے جانے تھے لیکن شرجیل انعام میمن کی جانب سے اس اعلان پر کسی بھی قسم کا عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آیا۔ خیال رہے کہ شرجیل میمن سے دسمبر 2015 ءمیں محکمہ بلدیات کا قلمدان واپس لے لیا گیا تھا، وہ گزشتہ برس سے ہی بیرون ملک مقیم ہیں جبکہ ان کے خلاف کرپشن کی تحقیقات ہو رہی ہے، فروری 2016 ءمیں قومی احتساب بیورو (نیب) کے حکام نے سندھ ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے حکومتی اشتہارات کی مد میں سرکاری خزانے کو 5ارب روپے کا نقصان پہنچایاہے۔
منیر عقیل انصاری

No comments:
Post a Comment