Thursday, May 5, 2016

جنگی اور معاشی دہشت گردی



    9/11/2001 کو امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر دنیا پر جو جنگ مسلط کردی ہے۔اس وقت سے دہشت گردی کے نام کو بام عروج حاصل ہوا۔فرد اجتماعیت یا کسی ریاست پر بلا جواز حملہ آور ہونا اور انسانوں کی عزت ، مال اور جان و آبرو کو پامال کرنا یا کسی کو خوفزدہ کرنا دہشت گردی کی مختلف صورتیں ہیں۔انسانی زندگی سے جڑے ہوئے دیگر امو رمیں دہشت گردی کو وسعت حاصل ہے۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی صف بندی میں جمع قوتیں اس جنگ میں خود دوہرے معیار کا شکار ہیں۔اس وجہ سے بڑے پیمانے پر انسانی المےے نے جنم لیا ہے۔واضح طور پر خصوصاً مشرق وسطیٰ کا خطہ آگ اور خون کے دریا سے اس وقت دوچار ہے۔ظلم اور بربریت کا ایسا بازارگرم ہے کہ اگر جانوروں کو بھی سوچنے سمجھنے کا شعور حاصل ہو تاتو جانور بھی ان انسانوں کے مقابلے میں اپنے اوپر فخر محسوس کرتے۔دنیا کے منظر نامہ میں آج فلسطین کے لوگ اپنی زمین پر قابضین کے خلاف برسرپیکار ہیں۔اپنی آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیںلیکن پھر بھی یہ لوگ دہشت گرد کہلاتے ہیں۔اسی طرح کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑنے والے بھی اپنی آزادی اور بنیادی حقوق سے محروم ہیں جبکہ یہ لوگ بھی حریت پسندی کے شمار میں نہیں ہیں۔ان عالمی طاقتوں کی ترجیحات صرف اپنے مفادات کا حصول ہے۔ جنگی دہشت گردی کے ساتھ معاشی دہشت گردوں کو بھی ان قوتوں کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ ان کے ممالک کے بینک اکاﺅنٹس میں مال اور دولت کے انبار لگنے چاہئےں اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں کہ یہ غریب ممالک کے عوام کی خون اور پسینے کی لوٹی ہوئی ہی دولت ہی کیوں نہ ہو ان معاشی دہشت گردوں کے لئے کوئی ضابطہ مقرر نہیں ہے۔لیکن جب ان ممالک سے دولت باہر نکلنا شروع ہو تو اس کے لئے ان کے ضابطے مقرر ہیںاور اسی وقت دہشت گردی کے نام پر تحقیقات کا دائرہ کھل جاتا ہے۔ کرپشن ،لوٹ کھسوٹ میں ہمارے حکمران اور ان کے زیر سایہ طبقہ آج ان کے لئے سہولت کار بنے ہوئے ہیں جو اپنی قوم کو دونوں ہاتھوں سے کرپشن کے ذریعے لوٹ کر باہر ممالک میں دولت کے ذخائر جمع کر رہے ہیں۔پاکستان میں عوام عرصہ دراز تک سوئس بینکوں میں لوٹی ہوئی دولت کے منتظر تھے اور سرے محل جیسی آوازیں آج کانوں میں تازہ تھیں کہ پاناما لیکس نے حکمران طبقہ اور بہت سے مکروہ چہرے سے نقاب اتار دیا ہے۔اور بہت سے لوگ اب بے نقاب ہونے جا رہے ہیں۔ بلاشبہ 1988سے 2016تک جمہوریت کے نام پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ تین تین بار حکومتیں کر چکی ہیں۔جب قوم کے رہبر ہی رہزن بن جائیں۔ چوکیدار چور بن جائے ۔ان لٹیروں کے ہاتھوں آج وطن عزیز کا بچہ بچہ ورلڈ بینک اورIMFکا مقروض بنا ہوا ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان کا بیرونی قرض ستر ارب روپے جبکہ چار سو ارب ڈالر اس ملک کی بیرون ملک بینکوں میں موجود ہے۔ عوام کی صورتحال یہ ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ چار ہزار لوگ نمونیا اور ہیپاٹائیٹس سے ہلاک ہو رہے ہیں۔پریشانیوں کے انبار میں لوگوں کو نفسیاتی ،شوگر، قلب اور دیگر امراض میں مبتلا کر دیا ہے۔ کروڑوں لوگ آج صحت کی خراب صورتحال سے دوچار ہیں جن کے علاج معالجے کی کوئی خاطر خواہ سہولت موجود نہیں ہے۔تعلیم کے بنیادی حقوق سے محروم کروڑوں معصوم بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں۔بیروزگاری کی وجہ سے لوگ اپنے جسم کے اعضاء،بچے اور عزتیں بیچنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔ خودکشیوں پر مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ظلم ،دھوکہ دہی،جھوٹ اور منافقت اور امانت میں خیانت کے مرتکب عناصر جنھوں نے اس غریب عوام کو اس حالت سے دوچار کیا یہ ضرور دنیا اور آخرت میں رسوا ہو کر رہیں گے۔ اس دلدل سے نکلنے کے لئے قوم کو اپنا شعور بیدار کرنا ہو گا۔محرومیں کے شکار عوام کو چور ،اور لیٹروں اور ظالموں کے خلاف صف بندی کرنی ہوگی۔بلا کسی تفریق کے احتسابی عمل ہونا چاہئے جس میں سیاسی قیادت ہو، فوج اور عدلیہ، بیورو کریسی ،میڈیا،اور کرپٹ سرمایہ دار اور جاگیردار ہو سب کا بے لاگ احتساب ہو تاکہ آئندہ کسی کو قو م سے دھوکہ دہی، اور کرپشن کرنے کی ہمت نہ ہو ہم آئندہ آنے والی نسلوں کو ایک مضبوط اور خوشحال اور ترقی یافتہ ملک دے سکیں۔دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔
                                        تحریر: گل رحیم 


No comments:

Post a Comment