اعتکاف کے لغوی معنی ٹھہرنے کے ہیں۔ لیکن شرعی محاورہ میں دنیا کے تمام تر کاروبار و مصروفیات کو ترک کرکے عبادت الٰہی کی نیت اور رضائے الٰہی کے حصول کے جذبے کے تحت مسجدمیں ٹھہرکر عبادت ‘ ذکر و اذکار ‘تلاوت قرآن مجید وغیرہ میں مشغول رہنے کو اعتکاف کہتے ہیں۔ حالت اعتکاف میں کثرت سے نوافل کی ادائیگی اور تلاوت ‘دعا ‘ذکروتسبیح و تہلیل درود شریف وغیرہ کے ذریعہ اپنے رب سے تعلق استوار کرنا چاہیے۔اسی طرح مسجد میں قرآن و حدیث کا درس دینا اور وعظ و نصیحت کرنا بھی جائز و مستحسن ہے ۔کیونکہ یہ ذرائع عقائد و اعمال کی اصلاح میں بے حد ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اعتکاف کی بڑی فضیلت ہے چنانچہ رحمت کائنات علیہ الصلوٰة والتسلیم کا ارشاد گرامی ہے۔
ترجمہ! جوشخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں کوشا ں ہو اور اس مقصد میں کامیاب ہو جائے تو (یہ عمل) دس سال کے اعتکاف سے اس کے حق میں بہتر ہے ۔اور جس نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ایک دن کا اعتکاف کیا تو اللہ تعالیٰ اس بندہ اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کی دوری کر دیتاہے جو زمین و آسمان سے بھی زیادہ دورہیں۔(طبرانی۔ ترغیب)
اسی طرح ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا کہ
ترجمہ! جس نے رمضان المارک میں دس دن کا اعتکاف کر لیا ۔اسے دو حج اور دو عمرے کا ثواب عطا ہو گا۔ (بیہقی)
چونکہ ماہ رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے اور اس ماہ مقدس میں اللہ رب العالمین کی رحمتیں اور بخششیں اپنے بندوں کے لئے دیگر ایام کی نسبت بہت زیادہ بڑھی ہوتی ہیں اور خالق جن و بشرا پنے گناہ گار بندوں کو جو اپنی شامت اعمال کی بدولت اللہ کے غضب اور جہنم کے مستحق ٹہر چکے ہوتے ہیں۔ مالک کائنات اس ماہ مبارک میں انہیں اصلاح کا موقع عطا فرما دیتاہے ۔تاکہ اس کے بندے سارا سال کئے گئے گناہوں اور نافرمانیوں پر شرمندہ ہو کر اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر اور اپنی جبین نیاز کو خم کر کے اپنے خالق و مالک سے توبہ و استغفار کر لیں ۔اور وہ مہربان آقا اپنی مخلوق کو جہنم سے آزادی کا پروانہ جاری فرمادے ۔ماہ رمضان المبارک کی تمام تر عبادات کا محور رضائے الٰہی کا حصول ہی ہوتاہے۔ اعتکاف بھی رمضان المبارک میں انجام پانے والے ایسے ہی پاکیزہ اعمال میں سے ایک ہے۔ البتہ اس عبادت کی ادائیگی کے چند آداب ہیںجنہیں ملحوظ خاصر رکھنا از حد ضروری ہے۔ وگرنہ لاپرواہی یا عدم آگاہی کی بناءپر خدانخواستہ ہماری یہ عظیم عبادت ضائع نہ ہوجائے اور ہمیں سوائے مشقت کے کچھ بھی حاصل نہ ہو۔
معتکف کا عاقل ‘ مسلمان ہونا اور عورتوں کا حیض و نفاس سے پاک ہونا نیز معتکفین کاجنابت سے پاک و صاف ہونا اور اعتکاف کی نیت کرنا اور مسجد کا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح اعتکاف کی حالت میں مسجد سے باہر جانا جائز نہیں ۔البتہ بو ل و براز ‘ فرض نماز اور نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے اپنے اعتکاف کے مقام سے باہر جا سکتے ہیں۔اعتکاف کی حالت میں بیوی سے مباشرت و ہمبستری درست نہیںہے۔ فرمان رب العالمین ہے۔
وَاَن ±تُم ± عٰکِفُو ±نَ فِی ال ±مَسٰجِدِ تِل ±کَ حُدُو ±دُ اللّٰہِ فَلاَ تَق ±رَبُو ±ہَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہِ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُم ± یَتَّقُو ±ن
ترجمہ! اورجب تم مسجدوںمیں اعتکاف کے لئے بیٹھے ہو تو ان (بیویوں) سے مباشرت نہ کرو۔ یہ اللہ کی حدود ہیں ان کے پاس نہ جانا۔ اسی طرح اللہ اپنی آیتیں لوگوں کے (سمجھانے کے ) لئے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیزگار بنیں۔(البقرہ ‘ آیت:۷۸۱ پارہ ۲)
اعتکاف کی اقسام:
اعتکاف کی دو اقسام ہیں( ۱) فرض(۲) سنت
(۱) فرض اعتکاف یہ ہے کہ کوئی نذر یا منت مان کر اسے اپنے لازم کر لے ۔ یعنی یوں کہے کہ میں اللہ کے واسطے اعتکاف کروں گا تو اس کا ادا کرنا فرض ہے ۔کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَل ±یُو ±فُو ±ا نُذُو ±رَہُم ±
ترجمہ! اپنی نذروں کو پورا کرو(سورة الحج ‘ آیت۹۲ پارہ ۷۱)
سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے دور جاہلیت میں اعتکاف کی نذر مانی تھی ۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا تم اپنی نذر پوری کرو ۔ (بخاری)
(۲) سنت اعتکاف یہ ہے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں دس روز کا اعتکاف کیا جائے۔جو کہ سنت م ¶کدہ ہے۔ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاحیات رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا۔ چنانچہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔
ترجمہ! نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شریف کے آخری عشرہ میں پوری زندگی اعتکاف فرمایا ۔ایک مرتبہ ایک سال رمضان میں نہیں کیا تھا تو شوال کے مہینے میں اس کو ادا فرمایا۔ (اس سے معلوم ہوتاہے کہ اعتکاف کرنا سنت م ¶کدہ کے درجہ میں داخل ہے) اسی طرح عورتیں بھی اعتکاف کر سکتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کیا کرتی تھیں۔(بخاری و مسلم)
اسی طرح جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاانتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا ۔(ترمذی‘ ابو داﺅد)
اعتکاف کا طریقہ :
اعتکاف کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ صبح کی نماز پڑھ کر اعتکاف کی جگہ (جو خاص طو پر معتکفین کے لئے مساجد میں چادروں وغیرہ کے ذریعہ متعین کر کے بنائی جاتی ہے) میں داخل ہونا چاہیے۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو صبح کی نماز پڑھ کر اپنے معتکف میں داخل ہوتے۔(ابن ماجہ)
ترجمہ ! چنانچہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا چاہیے ۔تو بیسویں تاریخ کی صبح کو بعد نماز فجر مسجد میں آجانا چاہیے اور پھر عید الفطر کا چاند دیکھ کر ہی باہر نکلنا چاہیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب رمضان کا اعتکاف چھوٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال المکرم کے پہلے دس دنوں میں اس کی قضا کی۔(بخاری)
اس سے معلوم ہوتاہے کہ اعتکاف کی عبادت کس قدر اہمیت و فضیلت کی حامل ہے کہ باامر مجبوری رہ جانے والے اعتکاف کی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے قضا فرمائی ‘لیکن نظر انداز نہیں فرمایا۔ اعتکاف ایسی عظیم عبادت ہے کہ انسان اپنی جائز دنیاوی ضروریات سے دستبردار ہوجاتا ہے اور خالصتاً اللہ تعالیٰ سے لو لگا کر مسجد کے ایک کونے میں پڑا رہ جاتاہے۔ اس لئے اس عبادت کو اعتکاف کہا جاتاہے کہ اس بندے نے اپنے آپ کو ایک خاص مقصد (یعنی رضائے الہٰی کے حصول) کے لئے ایک خاص مقام (یعنی مسجد کے کونے) میںمحدود کر لیا ہے اور وہ دنیا کے جائز معاملات سے بھی لاتعلق ہو کر مشغول عبادت ہو گیا ہے۔
معتکف کا حالت اعتکاف میں سونا ‘جاگنا ‘یا خالی بیٹھنا بھی عبادت ہے۔ لیکن حالت اعتکاف میں‘ جہاں تک ممکن ہو سکے اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اعتکاف کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جہاں معتکف محض اعتکاف کے اجر وثواب میں دو حج دو عمرے کا ثواب ملتا ہے جو وہ حالت اعتکاف میں یکسوئی کے ساتھ ادا کرتا ہے۔ تاہم ان خوش نصیب لوگوں کو اعتکاف کی برکت سے شب قدر کی فیوض و برکات سے بھی مستفید ہونے کا سنہری موقع مل جاتاہے ،جس کی ایک رات کی عبادت کا ثواب ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے۔ لہٰذا دوران اعتکاف لایعنی باتوں اور مشاغل سے مکمل پرہیز کرنا چاہیئے۔
بعض حضرات اعتکاف میں بھی موبائل فون لئے کاروباری یا خاندانی معاملات نمٹاتے رہتے ہیں یا دوستوں کی محفل لگا کر خوش گپیوں میںمصروف رہتے ہیں ۔یہ امور اعتکاف کے اجر و ثواب کو ضائع کرنے والے ہیں ۔ لہٰذا ان سے اجتناب کرتے ہوئے مکمل یکسوئی کے ساتھ اپنے رب سے تعلق استوار کر کے اپنی بخشش کا سامان مہیا کرنا چاہیے۔ حالت اعتکاف میں تیل ‘خوشبو وغیرہ لگانا‘ غسل کرنا جائز ہے۔ البتہ جنازہ کے ساتھ جانا یاکسی بھی ضرورت کے تحت مسجد سے باہر جانا ممنوع ہے۔ اسی طرح خواتین بھی مسجد میں اعتکاف کر سکتی ہیں۔ گھروں پر اعتکاف کرنا صحیح نہیںہے ‘ کیونکہ اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ اعتکاف کی شرائط میں سے ہے کہ اعتکاف کے لئے مسجد کا ہونا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اعتکاف کو سنت مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے تاکہ ہمیں صحیح معنوںمیں اس کی فیوض و برکات حاصل ہوسکیں۔
آمین یا رب العالمین

No comments:
Post a Comment