Monday, June 6, 2016

نزول قرآن ‘عبادتوں کی رات

ترجمہ ! حم ! اس کتاب روشن کی قسم کہ ہم نے اس کو (یعنی قرآن مجید ) مبارک رات میںنازل فرمایا ہم تو رستہ دکھانے والے ہیں۔ اسی رات میں تمام حکمت کے کام فیصل کئے جاتے ہیں (یعنی ) ہمارے ہاں سے حکم ہو 89کر۔بے شک ہم ہی (پیغمبر کو) بھیجتے ہیں۔ (یہ ) تمہارے پروردگار کی رحمت ہے۔ وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (سورةالدخان‘آیت:۱ تا ۶ پارہ ۵۲ )
لیلةالقدجسے عرف عام میں شب قدر کہا جاتا ہے ۔ اس رات کو اسلامی عبادات میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ رمضان المبارک اورقرآن مجید کا گہراتعلق ہے اوریہ عظمتوں والی رات اسی ماہ مقدس کے آخری عشرے کی طاق راتوںمیں سے کوئی ایک ہے۔ رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا انسانیت کی فوز وفلاح ‘دنیا و آخرت کی کامیابی اور آخری پیغمبر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آخری پیغام ہدایت عطا کیا گیا۔ گویا اس ماہ مبارک میں جمیع خصائل سمو دیئے گئے۔ جس شب یہ قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کیا گیااسے لیلةالقدر کہتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر یوں توساڑھے تیئیس برس میںموقع با موقع قرآن کریم نازل ہوتا رہا یہاں تک کہ تکمیل قرآن ہوا۔ البتہ لوح محفوظ سے مکمل قرآن ایک رات میں ہی آسمان دنیا پر نازل کیاگیاجہاں سے جبریل امین بحکم ربی لالا کر صاحب قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے رہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک یہ رات نزول قرآن کی وجہ سے انتہائی مبارک قرار پائی اور خود کتاب مقدس میں اس کی عظمت و فضیلت کا اظہار فرمادیا۔ مندرجہ بالا آیات کریمہ میں اسی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ واضح طور پر بتایا کہ جس شب اسے نازل کیا گیا بظاہر تو وہ بھی ایک رات ہی ہے تاہم نزول قرآن کی برکت نے اس رات کو تمام راتوں پر فضیلت عطا کر دی اور ہم نے اس رات کو انتہائی مبارک بنا دیا ہے۔ اس رات ہمارے تمام امور حکمت کے ساتھ فیصلہ کئے جاتے ہیں یعنی موت و حیات سے لے کر گردش لیل و نہار میںوقوع پذیر ہونے والے تمام تر حوادث وواقعات کے احکامات متعلقہ فرشتوں کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں۔چنانچہ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ
ترجمہ! شب قدر کو اللہ تعالیٰ مغرب سے ہی آسمان دنیا پر اجلال فرماتا ہے اور اعلان کیا جاتا ہے۔
(۱) ہے کوئی مجھ سے مغفرت کا طلب گار کہ میں اس کے گناہوں کو معاف فرماﺅں۔
( ۲) ہے کوئی بیماریوں سے شفا و تندرستی کا طلب گار کہ میں اسے شفا عطا فرماﺅں۔
(۳) ہے کوئی روزی کا طلب گارکہ میں اس کی روزی میں برکت عطا فرماﺅں۔ تمام شب یہ اعلان ہوتا رہتا ہے۔
ناظرین کرام!شب قدر کو نزول قرآن کی برکت سے اس قدر فضیلت و بزرگی حاصل ہو گئی کہ خود قرآن مجید اس پر دلالت اس انداز میں کرتا ہے۔
اِنَّآ اَن ±زَل ±نٰہُ فِی ± لَی ±لَةِ ال ±قَد ±ر۔وَمَآ اَد ±رٰکَ مَا لَی ±لَةُ ال ±قَد ±رِ۔لَی ±لَةُ ال ±قَد ±رِ خَی ±ر µ مِّن ± اَل ±فِ شَہ ±رٍ۔تَنَزَّلُ ال ±مَلٰٓئِکَةُ وَالرُّوحُ فِی ±ہَا بِاِذ ±نِ رَبِّہِم ± مِّن ± کُلِّ اَم ±رٍ۔سَلٰم µ ہِیَ حَتّٰی مَط ±لَعِ ال ±فَج ±ر
ترجمہ! ہم نے(اس قرآن مجید) کو انتہائی قدر و منزلت والی رات میںنازل(کرنا شروع) کیا۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدرکیا ہے؟ شب قدر(عبادت و فضیلت کے لحاظ سے) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں روح (الامین جبریل ؑ) اور فرشتے ہر کام کے (انتظام) کے لئے اپنے پروردگارکے حکم سے اترتے ہیں۔ یہ (رات) طلوع فجر تک (امان اور) سلامتی ہے۔ (سورة القدر‘ آیت:۱ تا ۵ پارہ ۰۳)
ان آیات کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ یہ شب کس قدراہمیت و فضیلت والی ہے۔ ایک رات کی عبادت اہل ایمان کے لئے تراسی برس کی عبادتوں سے بھی افضل و برتر ہے۔ یہ تو صرف کم از کم حد بیان ہوئی ہے۔ ہزارمہینوں سے کس قدر افضل ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کی عبادت و ریاضت کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشادفرمایا کہ اس نے اسی برس سے زیادہ عمر کا حصہ اللہ تعالیٰ کی بے ریا عبادت میں گزار دیا ۔جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو سخت ملال ہوا کہ ہماری تو اتنی عمریں بھی نہیں اور عمر کا بیشترحصہ کفر و شرک میں گزاردیا‘ ہمیں تو وہ اعزاز وا کرام حاصل ہی نہیں ہو سکتا جو پچھلی امتوں کے صلحاءکو حاصل ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے اس اضطراب اور جنت کی طلب و جستجو کو دیکھتے ہوئے قیامت تک کے آنے والے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ منفرد اعزاز عطا فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن کی برکت سے اس ایک رات کو ہزار مہینوں سے افضل قرار دے دیا کہ مومن آزردہ خاطر نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے کمال مہربانی سے اس رات کی عبادت کا اجر و ثواب بڑھا چڑھا کرعطا فرمادیا اور لطف کی بات یہ ہے کہ ایک بندئہ مومن کی زندگی میںیہ عظیم رات کتنی مرتبہ آتی ہے۔ رب تعالیٰ کی رحمتوں کا کوئی حساب ہی نہیں کیاجا سکتا۔ سبحان اللہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔
ترجمہ! جس شخص نے لیلةالقدر میں ایمان اور ثواب کی حیثیت سے عبادت کی تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام پچھلے گناہ معاف فرما دے گا(بخاری) 
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی علیہ الصلوٰة والسلام رمضان کے اخری عشرے میںخوب عبادت فرماتے ۔ لیلة القدر میں شب بیداری فرماتے ۔اور اپنے اہل و عیال کو بھی جگاتے۔(مشکوٰة)
اب اس بات کا تعین کرنا کہ کون سی رات ہی لیلةالقدر ہے۔ بعض محققین کے نزدیک ستائیسویں شب ہی لیلة القدر ہے ۔جبکہ ایک راویت میںنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں یعنی ۱۲‘ ۳۲‘ ۵۲‘ ۷۲ اور ۹۲ ویں میںلیلة القدرکو تلاش کرو۔ گویا پورا عشرہ ہی خوب ریاضت و جدوجہد والا ہے ۔ جبکہ ہمارا طرز عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔ آخری عشرے میں بازاروں کی رونقیں اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہیں اور ہم خواب غفلت کا شکار ہو کر انہیں ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ کون جانے آئندہ برس ہمیں یہ سعادت نصیب بھی ہوتی ہے کہ نہیں ‘ لہٰذا انتہائی ذوق و شوق اورخشیت الٰہی کے ساتھ ان راتوںکی عبادتوں کااہتمام کرنا چاہیے۔ تاکہ ہم اپنے رب سے جہنم سے آزادی کے پروانے حاصل کر سکیں جبکہ ہمارا ازلی دشمن شیطان ہمیں دیگر امور میںالجھا کر برباد کرنا چاہتا ہے۔
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے امام کائنات علیہ الصلوٰةوالسلام سے دریافت کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں ا س رات کو پالوں تو اللہ سے کیا دعا کروں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ سے یہ دعاکرو۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّک عَفُوُّ تُحِبُّ العَفوُ فَاعفُ عَنِیّ۔
ترجمہ! اے اللہ آپ معاف کرتے ہیں معافی کومحبوب رکھتے ہیں پس مجھے معاف کردیجئے۔
قارئین کرام! کس قدر جامع دعا ہے جو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمائی۔ ہمیں بھی اس عظیم رات کی فضیلتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کی جستجو کرنی چاہیے۔ کثرت سے مذکورہ دعا پڑھیے۔ اپنے رب کے حضور راتوںکی تنہائی میں اشک ندامت بہا کرمغفرت و بخشش کے پروانے حاصل کیجئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوںمیں اس کی معرفت اور برکتیں عطا فرمائے۔ 
آمین یارب العالمین


No comments:

Post a Comment