Monday, June 27, 2016

حیات آفریں جنازے


معروف مصرع ہے کہ ”شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے“اورائمہ امت میں سے کسی کا قول ہے کہ تم ہمیں ہمارے جنازوں سے پہچاننا....اور....صدیوں پہلے جب امام ابن تیمیہ کا جناز ہ حکومتی جیل سے اٹھا تھا تو اس میں آٹھ لاکھ انسان امڈ پڑے تھے “۔گزشتہ صدی کے ایک شاعت نے کہا تھا ”مسلم کو حقیقت میں کمزور نہ تم سمجھو۔اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا دبادیں گے“۔غرض یہ سب کچھ کراچی کی تاریخ کے سب سے بڑے جنازے نے یاد دلایا کہ رسولِ رحمت کی نعت خوانی سے نام پانے والا امجد صابری جب نصیب کے اندھوں ومحروموں کی گولیوںکا نشانہ بنا تو اللہ کریم نے انسانوں کے دل اس کی محبت سے بھر دیئے اوراس کا جنازہ قومی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل بن گیا جس نے اندرون وبیرونِ ملک یہ پیغام دیا کہ پاکستان اپنی روح کے لحاظ سے امتِ محمدیہ( علی صاحبہا الصلٰوةوالسلام) کا گھر ہے۔چاہے کروڑوں ڈالر اورہزاروں این جی اوز اسلامیانِ وطن کی راہ کھوٹی کرنے کی ناپاک کوششوں میں مگن رہیں مگر قادری کا پنڈی کی تاریخ کا عظیم ترین جنازہ ہو یا صابری کا کراچی کی تاریخ کا ¾ یہ کفار ومنافقین کی ناپاک چالوں کے پرخچے اڑا کر رکھ دیتے ہیں۔ عامر شہید چیمہ نے یوروپ سے ایک گستاخِ رسول کو جہنم رسید کیا تو اس وقت کے مغرب پرست حکمران نے اس کا جنازہ کسی شہر میں نہیں ہونے دیا بلکہ جنازے کا پروگرام تک ظاہر نہ ہونے دیا مگر عشاق کا قافلہ لاکھوں کی تعداد میں پچاس ڈگری کی دھوپ کا مقابلہ کرکے اس کے مدفن گاﺅں میں جمع ہوگیا اوریہ ناچیز راقم جو اس وقت گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کا پرنسپل تھا وہاں بے ہوش ہوجانے والے خوش نصیبوں میں شامل تھا اوراپنی پریس جانے والی کتاب کا انتساب شہید کے نام پر کردیا تھا۔ذرا علامہ اقبال کا شعر دہرا کر تو دیکھئے:
کی محمد سے وفا تُو نے تو ہم تےرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا ¾ لوح وقلم تیرے ہیں
تو جناب یہ عشق ومحبت ِ رسول کی وہ دنیا ہے جو مسلمان کا اصل جہاں ہے ۔ اللہ کریم اپنے محبوب سے محبت واطاعت کا تعلق رکھنے والوں کو کبھی محرومی ورسوائی کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتا اورعشق ومحبت کی ان وادیوں میں جب کوئی خاک وخون میں ”لبڑ“جاتا ہے تواسے”خدا رحمت کندایں عاشقانِ پاک طینت را“کی دعائےں نذر کی جاتی ہے۔ کراچی ملک کا اوّلیں دارالخلافہ ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر القومی نوعیت کی تشکیل رکھتا ہے اورگزشتہ چند عشروں میں شرق وغرب کے دین وملت اوروطن پاک کے دشمنوں نے یہاں گہری جڑیں قائم کررکھی ہیں خصوصاً مشرقی ہمسائیگی کے عداوت سے بھرپور افعال واطوار کسی کینگاہ سے اوجھل نہیں اورایسے ایسے پیچیدہ مہامافیے جنم لے چکے ہیں جن کی گنتی کرنا بھی کارِ دار ہے۔ یہاں سیاست جرائم یوں بغل گیر اوریکجان دوقالب کا منظر ہیں کہ بس ”آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں“اورمحوِ حیرت ہیں کہ کراچی کو کیا سے کیا کرڈالا اوربناڈالاگیا ہے۔ امجد صابری پر گولیاں برسیں اورعقیدتوں کی بہار سامنے آئی تو ایسے لگا کہ غازی علم الدین شہید کے قافلے میں ایک اورشہید شامل ہو کر اپنے دور کے اہلِ محبت کی گواہی دے کر شامل ہوگیا ہے۔پشاور کے مولانا حسن جان اوربلوچستان کے ایمل کانسی کے جنازے بھی ایسی شان کے حامل تھے ۔ لگتا ہے دشمن کے ڈالروں اورپونڈوں اوربھتوں وغیرہ خزانوں کے انبار کھپت جاتے ہیں تو ربِّ کائنات ایسے مناظر سامنے لاتے ہیں کہ پریشانیوں اورمایوسیوں میں ڈوبی ملت کو میناروں کے قطب مینار روشنی مہیا کرتے ہیں کہ اس جہانِ آزمائش کی مشکلات دل توڑ بیٹھو۔شیطانی لشکروں( حزب الشیطان )نے تو اپنا کام کرناہے مگر بندگانِ ربِّ (حزب اللہ) اپنی نگاہِ بصیرت سے حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہیں۔دیکھئے پون صدی قبل جب اقبال اورجناح جیسی قیادتوں کے تحت کلمہ توحید کی بنیاد اورعشقِ رسول کے سرمایہ پر وطن پاک وجود میں آیا تھا تو اسی روز سے یہود وہنود نے اسے اپنی ناپاک نگاہوں کا ہدف بنا رکھا ہے مگر یہ دنیا تو حق وباطل کی معرکہ آرائیوں اوراہلِ ایمان کی آزمائش کی دنیا ہے ۔ حقیقی راحتیں تو جنت یا بہشت سے وابستہ ہیں جہاں کفار کے لیے جہنم کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ مدت وحیات کی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا مگر حیات بعد از موت ہی تو اصل زندگی ہے ۔ قرآن پاک نے واضح طور پر یہ بتا دیا کہ ”آکرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے“۔یہ وہ فلسفہ ہے جسے اسلام دشمن اورمسلمان دشمن طاقتیں سمجھنے سے محروم ہیں ۔ اسی لاہور شہر کے مولانا مودودیؒ کو جب پھانسی کی سزاسنائی تھی توآنے والی رات کو ان کے خراٹے پوری جیل میں سنائی دیتے رہے مگر اس مرد مو ¿من کا جب فطری موت کے نتیجے میں ستمبر انیس اناسی میں جنازہ اٹھا تو یہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا اورقذافی سٹیڈیم کی وسعتیں تنگ پڑ گئی تھیں۔ چھ لاکھ انسانوں نے عزت وشان کے ساتھ اس بندہ ¿ ربّ کو آخرت کے سفر پر روانہ کیا تھا اوریہ راقم اچھر سے قذافی سٹیڈیم تک مولانا کے تابوت والے ٹرک کے ساتھ ساتھ دوڑتا رہا اوردل گواہی دیتا رہا کہ مرد قلندر کا جنازہ یوں اٹھتا ہے ¾ اورعلامہ یوسف قرضاوی نے امامت کے بعد فرمایا تھا کہ ”یہ جنازہ اسلامی نظامِ قانون کے حق میں ریفرنڈم کا درجہ رکھتا ہے“ اوریہ فرمان آج بھی برحق ہے۔ قادری وصابری کے جنازے ”خدائی ریفرنڈم “کا درجہ رکھتے ہیں ۔ عاشقانِ رسول نے تاریخ کے صفحات پر یہ گواہی رقم کردی ہے کہ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کی سب سے اولیں پہچان اسلام ہے اوریہاں ہرقسم کی دھاندلی اورجھُرلُو سے پاک صاف ستھرا جمہوری نظام قائم کیا جائے جس کا بنیادی نقطہ اکثریتی ووٹ لینے والے امیدواروں کی کامیابی ہو یعنی ہر حلقے کے رجسٹرڈ ووٹوں کے پچاس فی صد سے زائد ووٹ لینے والا ہی کامیاب قرار پائے۔یقینا ایسا نہیں ہورہا اوبقول ٹی وی دانش ور ”لوگوں کے ووٹ چھینے جاتے ہیں“۔قادری وصابری شہداءکے جنازوں نے ملک کی غالب اکثریت کے جذبوں کی ترجمانی کی ہے اوریہی جذبے جب تک پارلیمان پر نافذ نہیں ہوتے ”جعلی اوررسہ گیر جمہوریت“ رہے گی ۔ جھُرلُو ہماری انتخابی سیاست کا مرکزی نکتہ ہے اوربڑے بڑے جغادری وکیل اس ”اقلیتی جمہوریت“کے محافظ بن کر نظام جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ دعا ہے کہ شہدائے اسلام(عسکری وغیر عسکری)کی قربانیاں رنگ لائےں اورقائد واقبال کا پاکستان اورانہی جیسے قائدین ہمیں نصیب نہ ہوں۔یادرکھئے قرآن پاک ¾ حکمران کی دو کم ازکم صفات یہ بیان کی ہےں کہ وہ علمی طورپر اورجسمانی صحت کے لحاظ سے دوسروں سے برتر ہوں(بسطةً فی العلم والجسم)۔قوم کی ذمہ داری ہے کہ کم علم اورکم صحت والوں کی بجائے علمی وجسمانی فضیلت رکھنے والوں کو قیادت کے مناسب دے جو سچے بھی ہوں اورامانت ودیانت کے حامل بھی۔اختتانم قائدِ قافلہ شہداءغازی علم الدین شہید کے جنازے کے تذکرے پر کہ میانوالی جیل میں انگریز کے قانون کے تحت پھانسی ہوئی اورپھر تحریک پاکستان کے عظیم جرنیل ¾ بابائے صحافت اورقائدِ اعظم کے توانا بازو مولانا ظفر علی خان نے میانوالی سے جنازے کے جلوس کی قیادت فرمائی اورمیانی صاحب میں قبرمیں اتارنے کے لیے علامہ اقبال بنفسِ نفیس قبر میں اترے اوریوں شہید کو رخصت کرنے والے یہ ہاتھ اورجذبات علامہ اقبال کے ہی تھے ۔ وہ رشک بھری نگاہوں سے شہید کو دیکھ کر لازوال تبصرہ فرمارہے تھے کہ”اسی گلاں کردے رہ گئے تے ترکھاناں دا پتر بازی لے گیا“۔اللہ نے علم الدین شہید کو عشقِ رسول پر قربان ہونے والے اہل ایمان کا امام بنادیا ہے کہ اب ایسے ہر واقعے پر اس کی یاد تازہ ہوتی ہے ۔ اللہ کریم شہداءکے خون کی برکت سے ہماری مشکلات دور فرمائے اوریہ حیات آفریں جنازے ہمیں اپنی منزل تک پہنچنے میں مُمِدو معاون ثاب ہوسکیں۔ 
پروفیسر رشید احمد انگوی

No comments:

Post a Comment