Tuesday, June 28, 2016

ماہِ رمضان میں بندہ مومن کے معمولات


تلاوت قرآن مجید
ماہِ رمضان میں سب سے اچھا عمل روزے کی حالت میں بھی اور افطار کے بعد بھی تلاوت قرآن مجید ہے۔ماہِ رمضان میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جبریل ؑکے ساتھ قرآن مجیدکا دور کیاکرتے تھے ۔قرآن کو حفظ کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہےے۔جتنے حصے ےاد ہو جائیں سینے کے نور،دل کی بہار اور قرار،غموں سے نجات اور پریشانیوں سے خلاصی کا ذریعہ بنیں گے۔ قرآن مجید کو مستند تفاسیر سے سمجھ کر پڑھنا زےادہ مفید ہوتا ہے۔اعتکاف کے دوران تو بالخصوص مطالعہ ¿ قرآن وحدیث کا اہتمام بہت ضروری ہے۔سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہ بھی اس موسمِ بہار میں بہترین زادِ سفر ہیں۔
عبادات و معاملات
’اسلام‘ ایک مکمل ضابطہ حےات ہے۔عربی زبان کے اس لفظ کے مفہوم میں سلامتی بھی شامل ہے اور سرتسلیم خم کردینا ےعنی خود سپردگی بھی اس کا ایک معنٰی ہے۔اسلام کی ایک اور تعریف جو اپنی معنوےت کے لحاظ سے بہت جامع ہے،ےوں کی جاتی ہے”اسلام عبادات اور معاملات کا مجموعہ ہے“۔ےعنی اسلام میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دو اہم ترین شعبے ہیں۔ان دونوں کے درمےان توازن بھی اسلام کے حسن کو نماےاں کرتا ہے۔روزے میں ان دونوں پہلووں کی نمایندگی ہے۔اللہ سے تعلق روزے کا منشا ہے اور محروم طبقات کی بھوک،احتےاج اور مشاکل کا احساس اور اس حوالے سے اپنی ذمہ دارےوں کی ادایگی روزے کا لازمی تقاضا ہے۔اسلام میں افراط و تفریط کو غیر پسندیدہ قرار دےا گیا ہے۔رمضان کے روزے تو فرض ہیں،نفلی روزوں میں اعتدال کا حکم دےا گیا ہے۔
اعتکاف
رمضان کے دوران ایک اہم ترین عبادت اعتکاف ہے۔اعتکاف میں تو بندہ اپنے مالک کے بہت قریب پہنچ جاتا ہے۔اسلام میں جتنی عبادات ہیں،وہ انسان کی زندگی کا تزکیہ کرنے،اس کی سوچ کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھالنے اور اس کے قدموں کو طے شدہ منہج پر چلانے کا ذریعہ ہیں۔اعتکاف ایک ایسی عبادت ہے جس میں ایک محدود مدت کے لےے بندہ دنیوی مصروفےات سے وقت نکال کر مکمل طور پر خود کواللہ کی عبادت ،اپنی اصلاح اور فکر آخرت میں مشغول کرلیتا ہے۔ اعتکاف کے دوران لیلة القدر کی تلاش اور اس کے ذرےعے اللہ کی رضا بندہ ¿ مومن کا مطمحِ نظر ہوتاہے۔اعتکاف کا لفظی معنٰی خود کو روکے رکھنا،کسی چیز کو مضبوطی سے قائم رکھنا اور کسی مقصد سے مکمل وابستگی اختےار کرناہے۔
اعتکاف پر عمل پیر اہونے کا بہت زےادہ اجر ہے۔اعتکاف کے دوران ایک مومن مسجد میں ٹھہرا رہتا ہے اور اللہ سے لو لگائے اس بات کا ہر لمحے بزبانِ حال اعلان کرتا ہے کہ اس نے خواہشات نفس کی اکساہٹوں کو روک دےا ہے اور اللہ سے مضبوط تعلق قائم کرلیا ہے۔روزے کے دوران صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک مومن خود کو کھانے پینے اور جنسی تعلقات سے روکے رکھتا ہے۔روزہ افطار ہونے کے وقت سے لے کر اگلی صبح صادق تک وہ کھانے پینے اور اپنے شریکِ حیات سے تعلقاتِ زن و شو قائم کرنے میں آزاد ہوتاہے مگر اعتکاف کے دوران دن اور رات کے کسی بھی حصے میں جنسی تعلقات قائم کرنا حرام قرار پاتا ہے۔قرآن و حدیث میں اسے ’تبتل‘ کے جامع لفظ سے واضح کیا گیا ہے۔اگرچہ اس لفظ ’تبتل‘ کا مکمل مفہوم تو کسی دوسری زبان میں ایک لفظ میںبےان نہیں کیا جا سکتامگر تفہیم کے لےے کہا جا سکتا ہے کہ سب سے کٹ کرایک(اللہ )کا ہو رہنا۔اس لحاظ سے اعتکاف تبتل کا بہترین مظہر ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کی بڑی فضیلت بےان فرمائی ہے اور مدینہ منورہ میں قےام کے دوران اس پر عمل کیا ہے۔سید مودودی ؒتحریر فرماتے ہیں۔
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں مسجد میں قےام فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ےہ معمول عمر بھر رہا۔ظاہر ہے کہ اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ معمول ہے جو مدینہ طیبہ میں رہا کیونکہ رمضان کے روزوں کاحکم مدینہ طیبہ میں آےا تھا۔دوسرے ےہ کہ مکہ میں اس وقت تک سرے سے کوئی مسجد ہی نہ تھی اور مسجد حرام(خانہ کعبہ)میں اعتکاف کرنے کا کوئی موقع نہیں تھا۔اس لےے اس سے مراد ےہی ہے کہ قےامِ مدینہ طیبہ میں آخر وقت تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ےہ معمول رہاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرماےا کرتے تھے۔(کتاب الصوم، ص267-268)
ےہ اس حدیث کی تشریح ہے جو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے اور جو متفق علیہ احادیث میں سے ہے۔رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کی حکمتوں میں سے ایک بڑی حکمت ےہ ہے کہ قرآن مجید کی سورة القدر کے مطابق رمضان میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا تھا اور ہر سال جب ےہ رات آتی ہے تو جبریلِ امین اللہ کی رحمتیں لے کر فرشتوں کے جھرمٹ میں آسمان سے زمین پر اترتے ہیں۔اس رات کو عبادت میں مصروف اہل ایمان کورحمتِ خداوندی میں سے وافر حصہ عطا ہوتا ہے اور وہ دوزخ سے خلاصی پاتے اور جنت کے مستحق بن جاتے ہیں۔
لیلةالقدر
لیلة القدر کے بارے میں سیدہ عائشہؓ بےان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرماےا:”لیلة القدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں بالخصوص طاق راتوں(ےعنی 21، 23، 25، 27 اور 29)میں تلاش کرو“(بحوالہ بخاری)۔
لیلةالقدر کے بارے میں ےہ رواےت بھی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے اس رات کے بارے میں بتا دےا گیاتھا مگر پھر وہ علم واپس لے لیا گیا۔غالباً اس کی حکمت ےہ ہوگی کہ لوگ ایک ہی رات پر تکیہ کرنے کے بجائے پورے رمضان اور بالخصوص آخری عشرے میں زےادہ سے زےادہ ذوق وشوق کے ساتھ خود کو اللہ کی عبادت کے لےے وقف کردیں۔جس حدیث کا اوپر ہم نے ذکر کیا ہے،وہ بھی صحیح بخاری میں حضرت عبادہ بن صامتؓ کی زبانی نقل کی گئی ہے ۔ اس حدیث کے الفاظ کا ترجمہ ذیل میں درج ہے:
”حضرت عبادہ بن صامتؓ سے رواےت ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجدِ نبوی سے(ےا اپنے خانہ ¿ مبارک سے)نکلے تاکہ ہمیں لیلة القدر کی خبر دیں۔اتنے میں دو مسلمان آپس میں جھگڑنے لگے۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرماےا کہ میں تو تمہیں لیلة القدر کی خبر دینے نکلا تھا مگر فلاں اور فلاں آپس میں جھگڑ پڑے اور اس دوران وہ اٹھا لی گئی(اس کا علم مجھ سے رفع کر لیا گیا)۔شاےد تمھاری بھلائی اسی میں تھی۔لہٰذا اب تم اسے اکیسیوں ےا تئیسویں ےاپچیسویں رات کو تلاش کرو۔“
سید مودودیؒ لیلةالقدر کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: 
”اب تک جتنی احادیث گزری ہیں ان سب پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ےہ کوئی خاص حکمت اور مصلحت ہے کہ لیلة القدر حتمی طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں بتائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات پر مامور نہیں کیا کہ آپ لوگوں کو ےہ بتائیں کہ فلاں رات لیلة القدر ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوزےادہ سے زےادہ جو بات بتانے کی اجازت دی گئی وہ ےہ ہے کہ لیلة القدر رمضان کے آخری عشرے میں ہے اور تم طاق راتوں میں اسے تلاش کرو۔اس حدیث میں طاق راتوں میں سے بھی تین کا ذکرکیا گیا ہے،ےعنی۱۲،۳۲اور۵۲۔ بعض رواےات میں اکیس سے انتیس تک کی طاق راتیں ہیں اور بعض رواےات میں آخری سات دنوں کی راتیں ہیں۔احادیث کی رواےت کرتے وقت چونکہ ےہ وضاحت نہیں کی گئی کہ کون سی حدیث کس تاریخ کی ہے اس لے ےہ کہنا مشکل ہے کہ کون سی حدیث ابتدائی دور کی ہے اور کون سی بعد کے دور کی۔علمائے امت میں جو بات معروف ہے وہ ےہی ہے کہ لیلة القدر آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہے“۔( کتاب الصوم،ص264-265)
بعض احادیث میں تئیسویں اور ستائیسویں رات میں لیلة القدر کا احتمال بھی بےان کیا گیا ہے۔ اسی لےے لوگ ان راتوں بالخصوص ستائیس کو بطور لیلة القدر مناتے ہیں۔دراصل جشن منانے اور رواےتی انداز کے جوش و خروش سے وہ حقیقی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا جس کے لےے لیلة القدر کا تحفہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو عطا فرماےا۔ اس کا درست اور مناسب طریقہ ےہ ہے کہ اہل ایمان خود کو تلاوت و عبادت،ذکر و فکر اور نوافل،غوروفکر، خوداحتسابی اور قےام اللیل کے ذریعے اللہ کے تقرب کا مستحق بنائیں۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ مبارک ےہی تھا۔
لیلة القدر کی دعا
اگر کسی شخص کو لیلة القدر نصیب ہوجائے تو اس کی خوش بختی میں کوئی شک و شبہ نہیں،مومن کو ہر دعا پورے ےقین کے ساتھ مانگنی چاہیے اور ہر عبادت پورے خلوص اور حضوری ¿ قلب کے ساتھ حضورِ حق میں پیش کرنی چاہیے۔حضرت عائشہ صدیقہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ےارسول اللہ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کون سی رات لیلة القدر ہے تو مجھے اس میں کیا کہنا چاہیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماےا:ےہ دعا مانگنی چاہیے”اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُو µ تُحِبُّ ال ±عَف ±وَ فَاع ±فُ عَنِّی“اے میرے مولا تو بڑا معاف کرنے والا ہے،تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے،پس مجھے (بھی)معاف فرما دے (بحوالہ مسند احمد، ابن ماجہ،جامع ترمذی)۔



No comments:

Post a Comment