امام کائنات علیہ الصلوٰة والتسلیم نے فاران کی چوٹیوں سے جب توحید باری تعالیٰ کا نعرہ مستانہ لگایا ۔ تب سے کفر و شرک کے ایوانوں میں زلزلہ طاری ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثارساتھیوں کو مسلسل ایذائیں دی جانے لگیں ۔یہاں تک کہ تیرہ برس تک مکہ مکرمہ میںمصائب و آلام برداشت کرتے ہوئے دعوت و تبلیغ کا فریضہ اداکرنے والے پیغمبراعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ ہجرت کا حکم ہوا اور آپ اپنے ساتھیوں سمیت‘ مدینہ منورہ ہجرت فرما گئے تاہم یہاں بھی کفار مکہ ‘ یہودیوں اورمنافقین نے سکون نہ لینے دیا بلکہ آئے دن نت نئی سازشیں کھڑی کر تے اور جنگوں میں الجھا کر سمجھتے رہے کہ شاید اللہ کے آخری دین اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم و جماعت حقہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر کے رکھدیں گے۔ تاہم اللہ کی مشیت غلبہ اسلام اور اہل ایمان کو عظمت و شوکت عطا فرمانا تھی۔
چنانچہ تمام تر سازشوں اور جنگوں کے باوجود۸ ھ میں وہ عظیم واقعہ رونماہوا جس کے متعلق اہل مکہ کبھی گمان بھی نہ کر سکتے تھے ۔ صلح حدیبیہ میں امن کا معاہدہ طے پا چکاتھا اور قبائل مسلمانوں اور کفار مکہ کے حلیف بن گئے اور اس طرح بنو خزاعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصہ بنے جبکہ بنی بکر قریش کے حصہ دار بن گئے ۔ معاہدہ کے تحت اگر کوئی قبیلہ دوسرے پرحملہ کرے گا تو وہ حملہ دوسرے فریق پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ شعبان۸ ہجری میںموقع غنیمت جانتے ہوئے قریش کے حلیف بنی بکر نے رات کی تاریکی میں بنو خزاعہ پر حملہ کر کے اپنی پرانی عداوت کااظہار کیا تاکہ پرانا بدلہ چکالیں۔ بس یہی واقعہ اللہ کے گھرکو قیامت تک کے لئے بتوں کی نجاست سے پاک کرنے کا سبب بنا ۔ یہاں تک کہ بنی خزاعہ حرم میں پناہ گزین ہوئے۔ ان حالات میں عمرو بن سالم خزاعی نے فوراً مدینہ کی راہ لی اور خدمت اقدس میںحاضر ہو کر منظوم انداز میں دہائی دی اور اس عہد کی طرف اشارہ کیاجو بنوخزاعہ اور بنو ہاشم کے درمیان عبدالمطلب کے زمانے سے چلا آ رہا تھا۔ اس وقت امام کائنات علیہ الصلوٰة والسلام صحابہ کرام کے جھرمٹ کے درمیان مسجد نبوی میںتشریف فرماتھے۔ بنو خزاعہ کے وفد نے رقت آمیز اندازمیں عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنو بکر نے رات میں ہم پر ایسی حالت میںحملہ کیا کہ ہم رکوع و سجود میں تھے (یعنی مسلمان تھے) اور ہمیں قتل کیا۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے عمرو بن سالم تیری مدد کی گئی۔ اس کے بعدآسمان میں بادل کا ایک ٹکڑا دکھائی دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بادل بنوکعب کی مددکی بشارت سے چمک رہا ہے۔
اس واقعہ نے جہاںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان میں قریش کی بدعہدی اور ظلم کے خلاف غم و غصہ پیدا کیا ‘ وہیں قریش مکہ میںبھی بدعہدی کااحساس پیدا کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو بتایا کہ قریش کیا کرنے والے ہیں۔گویا میں ابوسفیان کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ عہد کو پھر سے پختہ کرنے اور مدت صلح کو بڑھانے کے لئے آگیا ہے۔ دوسر ی جانب قریش نے یہی کیا اور ابوسفیان صلح کے لئے مدینہ منورہ خدمت نبوی میںحاضر ہوا تاہم مایوس و نامراد ہوا ۔ بعد ازاں سیدنا ابوبکر صدیق ؓ ؓ‘ عمر بن خطاب ؓ ‘ علی بن ابی طالب سے ملا مگر سب جگہ سے مایوس ہو کر ناکام واپس لوٹا۔ ادھرجرنیل اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی راز داری سے جنگی تیاریاں شروع فرمائیں یہاں تک کہ۰۱رمضان المارک ۸ ہجری میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار جانثاروں کے ساتھ مکہ مکرمہ کے لئے رخت سفر باندھا ۔ راستے میں ابوسفیان بن حارث اور سیدنا عباسؓ اہل و عیال کے ساتھ ملے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کالشکر مّرالظہران کے مقام پر پہنچ گیا اورآپ نے روزہ افطارفرمالیا۔ صحابہ کرام ؓ نے بھی آپ کی اتباع میں روزہ توڑ لیا۔ رات کو وادی فاطمہ میں نزول فرمایا۔ یہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر صحابہ کرام نے الگ الگ آگ جلائی۔ اس طرح دس ہزار چولہوں میں آگ جلائی گئی جو اسلامی لشکر کی قوت و ہیبت طاری کرنے کے لئے بڑی معاون ثابت ہوئی۔
حضرت عباسؓ اس موقع پر ابو سفیان کو لے کر خدمت اقدس میںحاضر ہوئے ۔جہاں ابو سفیان نے اسلام قبول کیا۔ ۷۱ رمضان المبارک کو اسلامی لشکر اچانک قریش کے سروں پرپہنچ گیا۔ اہل مکہ حیران و سرگرداں اس افتاد سے نمٹنے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ انہیں رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں پر روا رکھے جانے والے تمام تر مظالم یاد آنے لگے اور وہ دستور زمانہ کے مطابق توقع کرنے لگے کہ آج ہماری خیرنہیں۔ ہماری گردنیں کاٹ کر فاتح اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں طشتوںمیں سجا کر پیش کر دی جائیں گی۔
دوسری جانب امام الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین جنگی تدابیر اختیار کرتے ہوئے لشکر کو ترتیب فرمایا۔ سیدنا خالد بن ولید ؒ کی زیر قیادت دستہ ترتیب دے کر ارشاد فرمایا کہ وہ مکہ مکرمہ کے زیریںحصے سے داخل ہوں اور اگرقریش مقابل آئیں تو کاٹ کر رکھ دیں۔ یہاں تک کہ صفا پر آپ سے آ ملیں۔ اسی طرح سیدنا زبیر بن عوام ؓ کو بائیں پہلو پر رکھا ۔ ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم تھا جنہیںحکم دیا گیا تھاکہ مکہ میں بالائی حصہ یعنی کداءسے داخل ہوں اور حجون میں جھنڈا گاڑکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد تک وہیں ٹھہرے رہیں۔ سیدنا ابو عبیدہؓ پیادے پر مقرر کئے گئے اور انہیں حکم دیا گیا کہ وہ بطن وادی کا راستہ اختیارکریںیہاں تک کہ مکہ مکرمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے اتریں۔ اس طرح اسلامی لشکر مکہ میں بغیر کسی بڑے خون خرابے کے داخل ہو گیا البتہ خالد بن ولید ؓ کی راہ میں جو مشرک آڑے آیا وہ مارا گیا ۔ جب کہ دو صحابہ کرام زینؓ بن جابر فہری اور خنیسؓ بن خالد نے جام شہادت نوش کیا ۔ جس کی وجہ یہ ہوئی کہ وہ لشکر سے بچھڑ کر دوسرے راستے پر چل پڑے اور اس دوران انہیں شہید کر دیا گیا۔ جبکہ خالد بن ولیدؒ اور ان کے رفقاءکے ہاتھوں بارہ اوباش مارے گئے۔اور وہ گلی کوچوں کوروندتے ہوئے کوہ صفا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے۔ سیدنا زبیرؓ نے حجون میںمسجد فتح کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا گاڑا اور آپ کے لئے ایک قبہ نصب کیا اور پھر مسلسل وہیں ٹھہرے رہے‘ یہاں تک کہ امام کائنات علیہ الصلوٰة واتسلیم تشریف لے آئے۔
بعد ازاں آ پ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گرد و پیش موجود انصار و مہاجرین کے جلو میں مسجدالحرام کے اندر تشریف لائے ۔ حجر اسود کو بوسہ دیا اوربیت اللہ کا طواف فرمایا۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود مکہ فتح کرنے کے اعلان فرمایا کہ جو بیت اللہ میں پناہ لے‘ اس کے لئے امان ہے ۔ جوابوسفیان کے گھر میں پناہ لے ،اسے بھی امان ہے یہاں تک کہ جو اپنے گھر کے اندر بیٹھا رہے اور مقابل نہ آئے ‘ اسے بھی امان ہے۔ طواف کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ گھر جسے مشرکوں نے تین سو ساٹھ بتوں کی نجاست سے آلودہ کررکھا تھا ‘ اپنی کمان سے ٹھوکر مارکر ہمیشہ کے لئے نیست و نابود فرمائے۔ ساتھ ہی قرآن مجید کی تلاوت فرماتے۔
وَقُل ± جَآئَ ال ±حَقُّ وَزَہَقَ ال ±بَاطِلُ اِنَّ ال ±بَاطِلَ کَانَ زَہُو ±قًا
ترجمہ!حق آ گیا اور باطل چلا گیا‘ باطل توجانے ہی والا ہے۔(سورة بنی اسرائیل آیت ۸۱ پارہ ۵۱ )
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا دروازہ اندر سے بند کر لیا اور نماز ادا کی اور اندرونی حصے کا چکر لگایا اور تکبیرات بلند کیں۔ اس دوران قریش صحن حرم میں کھچا کھچ بھرے ہوئے اپنی قسمتوں کے منتظرتھے۔ قربان جائیے رحمةللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عظمت پر کہ آپ نے یوں خطاب فرمایا کہ اللہ کی حمد و ثناءبیان کرکے قریش کی نخوت و فخر کاخاتمہ فرمادیا اور فرمایا
یٰٓاَ یُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَق ±نٰکُم ± مِّن ± ذَکَرٍ وَاُن ±ثٰی وَجَعَل ±نٰکُم ± شُعُو ±بًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُو ±ا اِنَّ اَک ±رَمَکُم ± عِن ±دَ اللّٰہِ اَت ±قٰکُم ± اِنَّ اللّٰہَ عَلِی ±م µ خَبِی ±ر µ
ترجمہ ! اے لوگو! ہم نے تمہیںایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو ۔ تم میں اللہ کے نزدیک سب سے باعزت وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔ بے شک اللہ جاننے والا اورخبردارہے ۔ (سورة الحجرات آیت ۳۱ پارہ ۶۲ )
دین اور جان کے دشمنوں کو معافی کا اعلان فرماتے ہوئے ارشاد ہوا۔ میں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی یعنی آج تم پر کوئی پکڑنہیں ،تم سب آزادہو۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلید بردار کعبہ عثمان بن طلحہ جس نے آپ کو بیت اللہ میں نماز کی ادائیگی سے روک دیا تھا انہیں بلا کر کعبے کی کنجی عطا فرمائی اور ارشادفرمایا اسے ہمیشہ کے لئے لو‘تم لوگوں سے اسے وہی چھینے گا جو ظالم ہو گا۔ آج تک اسی خاندان کے پاس کعبے کی چابی ہے۔ کعبہ پر چڑھ کے چھت پربلالؓ نے اذان دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ہانی ؓ کے گھرجا کر غسل فرمایا اورگھرمیںہی آٹھ رکعت شکرانے کی نماز پڑھی اور ان کے دو دیوروں کو بھی امان عطا فرمائی ۔ البتہ بعض بڑے مجرمین جن کی تعداد نو تھی ‘کے بارے میں حکم دیا کہ اگر کعبے کے غلاف سے بھی چمٹے ہوں تو قتل کر دیئے جائیں۔ ان میں سے بھی بعض نے امان طلب کی یا اسلام قبول کر لیا‘ ان کی جان بخشی کی گئی۔
اس طرح رب کائنات نے بیت اللہ الحرام کو قیامت تک کے لئے شرک کی نجاست سے پاک فرمایا اور اس واقعے نے اسلام کے پھیلاﺅ کی راہیں کھول دیں ۔ یہاں تک کہ جزیرہ نماعرب میں سوائے اسلام کے اور کچھ باقی نہ رہا۔ کفرکے اندھیرے کافور ہوئے اور نوراسلام گھرگھر پہنچ گیا۔
اَللَّھُمَّ زِد ھٰذَا البَیت تَعظِیماً وَّتَشرِیفاً وَّتَکِر ±یماً.آمین

No comments:
Post a Comment