Sunday, July 10, 2016

مالم جبّہ اور جہاں آباد


پاکستان کے شمال کے بارے میں ایک انگریز نے کہا تھا کہ اگر میرا بیٹا مجھ سے یہ سوال کرے کہ دنیا اپنی پیدائش کے وقت کس حالت میں تھی تو میں ا سکی ا نگلی پکڑ کر اکستان کے شمال میں لے جاؤنگا-اور یہ حقیقت بھی ہے- اگر کسی کو د ±نیا کی خوبصورتی اسکی اصلی حالت میں دیکھنی ہو تو ا سکو پاکستان کے شمالی علاقے ضرور دیکھنا چاہئیں. ہم بھی پاکستان کے شمال کے دیوانے ہیں اور ہر سال ایک انجانی کشش ہمیں وہاں کھینچ کر لے جاتی ہے۔
مینگورہ سے مالم جبّہ کا فاصلہ کوئی پینتیس، چالیس کلومیٹر ہے- فضاءگھٹ سے نکلے تو دریا ساتھ تھا- یہاں دریا ک چھ زیادہ خوش گوار نہیں- بہت جلد ہمارا اور دریا کا ساتھ چھوٹ گیا اور ہائی ایس نے ب لندی پکڑ لی- گاڑی کی رفتار کم ہوگئی، تب ہی اچانک، ’جہاں آباد‘ کا بورڈ نظر آیا-ذہن میں ایک بجلی سی کوندی اور میں نے خیر دین سے پوچھا ”یہ جہاں آباد ہی ہے نا- ہمیں یہاں اترنا ہے۔“افضل کہنے لگے، جہاں آباد میں ا ترنے کا ہمارا تو کوئی پروگرام نہیں تھا اور یہاں ہے کیا- چند کھیت اور ک چھ پانی- ایسے منظر تو آپکو یہاں قدم قدم پر ملیں گے-
“نہیں میری جان نہیں- یہ ایک تاریخی م قام ہے- جہاں مہاتما گوتم بدّھا نے اپسراؤں کو درس دیا تھا اور اپسراؤں نے ا نکے مجسمے کو ایک چٹّان پر امر کردیا تھا“
افضل نے ک چھ یقین اور ک چھ بد گ مانی کی نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر انکی نظریں خیردین کی طرف ا ٹھیں- ”یس سرَ، میڈم ٹھیک کہتی ہیں- لیکن ہم ابھی نہیں واپسی میں یہاں پر اتریں گے- میں آپکو عین مہاتما کے قدموں پر لا کھڑا کرونگا- میں نے کئی غیر م لکیوں کو وہاں تک پہنچایا ہے-“ خیردین ایک اچھا، ہنس م کھ ڈرائیور تھا-
گاڑی اب انتہائی ب لندی پر پہنچ چ کی تھی- خیردین نے اعلان کیا، ہم یہاں پر چائے پی کر آگے بڑھیں گے- سنبھل کر قدم اٹھائیے، یہاں ہوائیں شوریدہ سر اور برفیلی تھیں- چائے پینے کے بعد ہم دوبارہ اپنی منزل کی طرف چل پڑے-
اچانک ہی منظر بدل گیا- سڑک کے دونوں جانب، برف کے ڈھیر نظر آنے لگے اور کہیں کہیں یہ برف ریشمی روئی کی طرح درختوں پر اٹکی پڑی تھی- ہوا میں ایک خوش گوار خ نکی کا احساس ہو رہا تھا- یہاں ہمیں کئی لوگ نظر آئے- سواتی بچّے اپنے ہاتھوں میں چپس اور چیونگم کے پیکٹ لئے فروخت کر رہے تھے- وہ صرف ایک سوتی شلوار قمیض میں ملبوس تھے اور ا نکے گال سیب کی مانند س رخ تھے-
گاڑی کی رفتار اور دھیمی ہونے لگی- ہمیں دور ہی سے پی ٹی ڈی سی کا ہوٹل نظر آنے لگا، جہاں ہمیں قیام کرنا تھا- گرچہ کہ خیر دین نے بہت چاہا کہ ہم ا سکے تجویز کردہ ہوٹل میں ٹھہر جائیں، مگر یہ ہمیں منظور نہ تھا-اسکی ایک وجہ تو صاف ظاہر تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ یہاں لفِٹ چئیر اور اسِکیٹنگ کی سہولت تھی-
ایک بات دل چسپی سے خالی نہیں کہ یہاں ایک پہاڑ کو جنگل سے صاف کر کے اسِکیٹنگ کے قابل بنایا گیا ہے اور اسِ میں روسی حکو مت کا تعاون شامل ہے- ہر سال یہاں اسِکیٹنگ کے بین الاقوامی م قابلے ہوتے ہیں اور دور دور سے لوگ ان م قابلوں میں شرکت کے لئے آتے ہیں-
ہمارے جیسے جہاں دیدہ خال خال ہی تھے- سامان کمرے میں رکھ کر ہم ہوٹل کے باہر آئے کہ ذرا جائزہ لیا جائے-
ہوٹل کے چاروں طرف برف کے ڈھیر تھے- افضل نے برف پر قدم رکھا تو ا نکے پیر برف میں دھنس گئے- برف تازہ تازہ گری تھی اور نرم تھی- اب شام کا دھندلکا، ہوٹل پر ا تر آیا تھا- ہم بھی لوٹ آئے- دوسری ص بح، ہم کو لفِٹ چئیر پر بیٹھنا تھا-
لفِٹ چئیر، جیسے جیسے ب لندی پر چڑھتی گئی، نظارے دلکش ہوتے گئے- م قامی لڑکے برف کے پہاڑ پر اسِکیٹنگ کے کرتب دکھا رہے تھے اور خوب ماہر تھے-
ہمارا گائیڈ ہم کو اب مالم جبّہ کی ترائیوں میں لے گیا- ا س نے اسِ ترائی کا موازنہ سوئیٹزرلینڈ کی چراگاہوں سے کیا- اسکا کہنا تھا کہ اسِ ہریالی کے آگے سوئیٹزر لیند بھی ہیچ ہے- ہم نے کبھی سوئٹزر لینڈ نہیں دیکھا- اسِ لئے ہم چپ رہے-
رات آئی- افضل نے اس رات کے لئے ایک خاص اہتمام کیا تھا- انکی یہ شدید آرزو تھی کہ وہ چاندنی رات میں یہاں چاند کو نکلتا دیکھیں- یہ سفر ہی اسطرح ترتیب دیا گیا تھا اور وہ رات آہی گئی تھی- ہم دعا مانگتے رہے کہ آج کی رات آسمان صاف ہو اور اللہ نے ہماری سن لی-یہ ایک شفاف رات تھی- ہم چاند نکلنے کے انتطار میں جاگتے رہے اور نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی- اچانک افضل کی آواز نے م ±جھے نیند کی وادیوں سے حقیقت کی د ±نیا میں لا کھڑا کیا- ”میرے خ ±دا! یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں- ابنِ انِشا تو رات بھر چودھویں کے چاند کو دیکھ کر گیت گاتے رہے کہ شب بھر رہا چرچا ترا- مگر یہاں کس کو ہوش تھا- کیا میں خواب دیکھ رہی ہوں، میں کس جگہ ہوں؟”
کوہِ قاف میرے سامنے تھا- درخت، برفانی لباس میں ملبوس آسمانی لگ رہے تھے- چاندنی، برف پر یوں چمک رہی تھی جیسے چاندی بکھری ہوئی ہو- چاند اپنی تمام تر تابناکیوں کے ساتھ، آسمان پر جگمگ جگمگ کر رہا تھا- سارا ماحول سحر ذدہ لگ رہا تھا- وقت نے ہمیں اپنی گرفِت میں لے رکھا تھا- رات بھر ہم اس سحر کے قیدی رہے-
آج تیسرا دن تھا- ہم کو جنگل جانا تھا- ایسی کوئی خاص بات نہ تھی- مگر ہر جنگل کا اپنا ایک خاص ح ±سن ہوتا ہے- سو ہم بھی گئے- وہاں چند پٹھّانوں کو دیکھا کہ وہ جنگل میں جڑی بوٹی ڈھونڈ رہے تھے- پتہ چلا کہ وہ خاص طور پر یہاں آتے ہیں کہ جڑی بوٹی تلاش کریں- اور پشاور میں اسکو فروخت کر دیتے ہیں جہاں اسکو دوائیوں میں اسِتعمال کیا جاتا ہے-
ہم نے مالم جبّہ کی برف پوش وادیوں میں تین دن گ زارے- واپسی میں خیردین نے گاڑی کے پہیوں پر زنجیر باندھی کہ اب ہم کو ب لندی پر نہیں چڑھنا تھا بلکہ نیچے ا ترنا تھا اور گاڑی کے پھسلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے- میں نے حسب عادت ایک سکّہ مالم جبّہ کی وادی میں اسِ آرزو میں پھینکا کہ میں دوبارہ یہاں آو ¿ں-
اب ہم کو جہاں آباد پر ر کنا تھا- جہاں آباد سے وابستہ لوک کہانیاں بڑی ہی دل آویز اور دل چسپ ہیں اور م جھے ہمیشہ سے ان میں دل چسپی رہی ہے- ب دھا کے م جسمے تک پہنچنے کے لئے پہلے تو ہم کو اس تیز بہتے ہوئے یخ آبشار کے پانی کو عبور کرنا تھا جو دور پہاڑوں سے آرہا تھا-
قدم ڈال ہی دیئے- سنگریزے بہت نوکیلے تھے اور پیروں میں بے طرح چبھ رہے تھے- وہ تو ش کر ہے کہ ہم نے جوگرز پہن رکھے تھے ورنہ ہمارے پیر ہمارے نہ رہتے- کئی بار تو ہم اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے- اور اب ہم مہاتما گوتم ب دھ کے م جسمے کے بالک ل رو برو کھڑے تھے-یہ ایک بہت بڑی چٹاّن تھی، جس پر ب دھا کو امر کردیا گیا تھا- اسِ کو دیکھ کر ا ن لوگوں کی ا س عقیدت اور محبّت کا قائل ہونا پڑتا ہے جو ا ن کو تھی- ا س زمانے میں اسِ قدر ب لندی پر کسی م جسمے کو تراشنا آسان نہ تھا- ہم نے انِ لوگوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور قریبی بنی پن چکّی کا رخ کیا-سوات میں ایسی چکّیاں بہت پائی جاتی ہیں- یہاں پر ایک سفید برف جیسے بالوں والی ب ڑھیا موجود تھی- اس میں اور چاند کی بڑھیا میں فرق یہ تھا کہ چاند کی بڑھیا چرخہ کات رہی تھی اور ہماری پہنچ سے دور تھی جبکہ یہ بڑھیا آٹا پیس رہی تھی اور ہمارے بالکل سامنے موجود تھی- ہم نے تصویر بنانی چاہی تو ا س نے شرما کر اپنا م نھ چھ پا لیا-مالم جبّہ کا یہ سفر انتہائی یاد گار تھا اور بعد میں اور بھی یاد گار بن گیا- ک چھ ہی دن بعد انتہائی ب ری خبر س ننے میں آئی کہ طالبان نے مالم جبّہ میں نہ صرف پی ٹی ڈی سی کا ہوٹل تباہ کردیا، بلکہ ا نھوں نے لفِٹ چئیر کے بھی پرخچّے ا ڑا دیئے- انھوں نے جہاں آباد میں گوتم ب دھ کے م جسمے کو بھی ڈھا دیا- اب س نا ہے کہ جاپان نے اس م جسمے کی مرّمت کے لیے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔

No comments:

Post a Comment