9۔جولائی کو ۔ ایدھی ویلج سنٹرکراچی کے احاطے میں ہمیشہ کے لئے۔لحد۔ میں اتر گیا ، ملک بھر میں ہر آنکھ اشکبار کو چھوڑتے ہوئے،21توپوں کی سلامی لیتے ہوئے وہ خود دور چلا گیا مگر جو کچھ وہ کر گیاوہ تا قیامت جاری اور اسی نسبت سے لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ و جاوداں رہے گا،بھارتی ریاست گجرات کے شہر ۔بانٹوا۔میں پیدا ہونے والا 11سال کی عمرمیںیتیم ہونے والا قیام پاکستان کے 6روز بعد اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی ہجرت کر آیا،بیمار والدہ کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی یہیں سے جذبہ انسانیت پروان چڑھتا گیاجو بلندیوں کی معراج کو چھو گیا،اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا بالکل خالی ہاتھ مگر ہمت نہ ہاری ،اپنے جواں اور بہترین جذبوں کو پروان چڑھانے کے لئے کبھی اس نے ٹھیلا لگایا،کبھی دودھ بیچا،کبھی اخبار فروش بن گیا،کبھی رات کو جا کر شادیوں کے برتن دھوئے،کبھی کپڑے کے تھان ڈھوئے اور بالآخر ایک کھٹارا سی ایمبولینس نما گاڑی لینے میں کامیاب ہو گیا ،اس نے اسی گاڑی میں ڈرائیونگ سیکھی اور 48سال تک خود اس ایمبولینس کو عوامی خدمت کے لئے اسے چلاتے رہے،یوں میمن برادری سے تعلق رکھنے والا عبدالستار ایدھی انسانی خدمت کے حوالے سے ایک مسیحا کا روپ دھار گیا،اس کا منظم،مربوط اور قومی و بین الاقوامی سطع پر پھیلا یہ سلسلہ اس کے اس دنیا فانی سے کوچ کرنے ،جنازے اور تدفین کے روز اور وقت بھی جاری رہا۔دوسروں کا کام آنا ہی انسان کی حقیقی عظمت ہے در حقیقت وہی انسان عزت پاتا ہے جو اوروں کے کام آئے،ان دنیا میں اربوں افراد آئے زندگی پوری کی اور چلے گئے لیکن وہ لوگ جنہوں نے انسانوں کی خدمت کی ،دوسروں کے کام آئے،خلق خدا کو نفع پہنچایا ان کا ذکر کبھی ختم نہیں ہوتا وہ تا قیامت اچھے نام سے یاد رکھے جائیں گے،عبدالستار ایدھی دین سلام کی اساس اور اقدار کے عین مطابق شخصیت تھے،حکم خداوندی ہے ۔اللہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو،ماں باپ کے ساتھ نیک برتاﺅ کرو،رشتہ داروں ،یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرو(النسا۔36)،حضور اکرم و وجہ تخلیق کائنات ﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپﷺ گھبرائے گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کہا مجھے اپنی جان کا خوف ہے،انہوں نے فرمایا۔ہرگز نہیں ؛اللہ تعالیٰ کی قسم ؛اللہ تعالیٰ آپﷺ کو کبھی ضائع نہیں ہونے دے گا کیونکہ آپﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں،لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں ،غریبوں کو کما کر کھلاتے ہیں ،مہمانوں کی خاطر مدارت کرتے ہیں اور ناگہانی مصیبتوں میں لوگوں کے کام آتے ہیں۔رسول اکرمﷺ کا معمول تھا کہ آپﷺ دوسروں کے کام کر دیتے اور معمولی کام کرنے میں میں بھی کوئی عار نہیں سمجھتے،رسول اکرم ﷺ کا ارشاد پاک ہے ۔لوگوں میں بہترین وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے۔ایک اور جگہ ارشاد فرمایا۔زمین پر بسنے والی اللہ کی مخلوق پر تم رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ،حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے بعد خداوند عظیم تر نے خطہ پاکستان کو دو عظیم شخصیات سے نوازا جن میں ڈاکٹر عبدلقدیر خان اور عبدالستار ایدھی شامل ہیں،یہ تمام شخصیات ریاست پاکستان کے لئےGOD GIFTEDہیں،جن کا نام کوئی نہ بھلا پائے گا،عبدالستار ایدھی نے اپنی زندگی کو اپنے آقا دو جہاںﷺکی تعلیمات کے مطابق انتہائی سادہ طریقے سے گذارا، ان کے پاس صرف دو سوٹ تھے،اپنی جوتی انہوں نے 40سال قبل خریدی ،عبدالستار ایدھی کراچی کے بدترین حالات سے بھی ذرہ نہ گھبرائے ،کشت وخون کی ندیاںبھی ان کا راستہ نہ روک سکیں،انہوں۔ توکل خدا۔ اپنا کام جاری رکھا اور ملک بھر کے بڑے شہروں میں 117ایدھی سنٹر قائم کر ڈالے،ایدھی شیلٹرز،ایدھی ویلیج ،ایدھی چائلڈ ہوم،بلقیس ایدھی میرنٹی ہوم،ایدھی اینیمل ہاسٹل،ایدھی فری لیبارٹری،ایدھی فری لنگر،فری کلینکس،پاگل خانے،معذوروں کے لئے گھر،بلڈ بینک ،یتیم خانے اور دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس جاری ہے،ان کے قائم کئے گئے مراکزمیں کوئی بھی فلاحی سرگرمی آج تک ایک پل کے لئے بھی نہیں رکی ،ایدھی انٹرنیشنل فاﺅنڈیشن کی شاخیں دنیا بھر کے مختلف ممالک جن میں افغانستان،عراق،چنچیا،بوسنیا،سوڈان،ایتھوپیا وغیرہ شامل ہیں وہاںقائم ہیں اسی طرح ایدھی ایمبولینس سروس امریکہ ،برطانیہ،اسرائیل،شام،عراق،ایران،بھارت،بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک میں جاری ہے،قیا م پاکستان سے اب تک 13شخصیات عہدہ صدارت پر براجمان ہوئیں،23افراد وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے،سندھ کے گورنر ہاﺅس میں29افراد کا اب تک بسیرا ہوا ۔پنجاب کے گورنرز کی تعداد28تک پہنچ چکی ہے،خیبر پختنونخواہ میں 29گورنرز،اسی طرح پنجاب میں 17۔سندھ میں 28،بلوچستان میں16،خیبر پختوننخواہ میں16 بڑے بطور وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں،آزاد کشمیر کے 21صدور اور11افراد وزیر اعظم ہاﺅس میں رہے ،دیگر سدا بہار وفاقی وزراء،سیاستدانوں ،مذہبی رہنماﺅں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے مگر ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ ان میں ایک بھی اس عظیم ترین شخصیت کے ہم پلہ نہیں ۔ان میں سے اکثریت کے نا اموں کا بھی قوم کو علم نہیں اورجن کے نام یاد ہیں وہ بھی ان کے کسی نہ کسی طرح کے کرتوتوں کی وجہ سے،ان کے حوالے سے قوم بری طرح تقسیم ہے مگر ایدھی کے سب ۔ایک۔ ہیںساری قوم یکجا ہے کیونکہ آج تک اس قوم کو ایک بھی ایسا لیڈر نہیں ملا جو عبدالستار ایدھی کی طرح انسانیت کے درد دل رکھتا ہو،اگر ایک مزدور سے اپنی رفاحی زندگی کی شروعات کرنے والا اس مقام تک پہنچ سکتا ہے تو اہل اقتدار کو کیا کمی تھی؟دنیا بھر میں جائداد یں رکھنے والوں کو ایسی توفیق کیوں نہ ہوئی،کیونکہ وہ صرف اپنا پیٹ بھرنا جانتے تھے اور عبدالستار ایدھی غریبوں ،یتیموں ،بے کسوں اوربھوکوں کا پیٹ بھرنے میں مگن رہا،پاکستان بھر میں جہاں کہیں بھی مصیبت کی گھڑی نے عوام کو دبوچا ادیدھی وہیں پہنچ گیا۔ایدھی لے پاس کیا تھا سوائے انسانیت کے جو اسے قیامت کے روز بھی سر خرو کرے گی پاکستان اور بیرون ملک انہیں کئی اعزازات سے نوازا گیا اگر لوگ کہتے ہیں انہیں Nobel Prizeملنا چاہئے تھا ایسوں کو کون سمجھائے نوبل انعام عبدالستار ایدھی کے آگے کیا چیز تھا ؟جو شاید ہوتا ہی ان کے لئے جو مغربی گماشتے ہوں،ان کی رحلت کی خبر بجلی کی طرح ساری قوم پر آن گری، پاکستان کا بچہ بچہ آبدیدہ ہو گیا ،وہ بھی ہیں جن کے پاس اقتدار،اختیار،دولت سرمایہ سب کچھ ہے مگر ان کے اس جہاں سے جانے پر لوگ شکرانے کے نوافل ادا کرتے ہیں یہی لمحہ فکریہ ہے اگر کوئی فکر کرے تو۔اصل انسان وہ ہوتے ہیں جن کے لئے یتیم بچے روئیں،بے آسرا خواتین کراہتی پھریں،غریب یوں محسوس کریں جیسے ان کا باپ ان سے چھن گیا ہے، زمین کیا آسمان بھی ان پر ناز کرے۔ایدھی تیری عظمت کو سلام ۔۔۔

No comments:
Post a Comment