ڈاکٹر عبدالستار ایدھی جاتے جاتے اپنی آنکھوں کا عطیہ بھی دے گئے ،لاکھوں لوگوں کو اُجلا کفن دینے والا خود پرانے کپڑوں میں اللہ کے حضور حاضر ہو گیا اور غریب لوگوں کو پیغام دے گیا اب ایدھی نہ ہو گا تو پرانے کپڑوں میں بھی دفنایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ایدھی کی یہ معصوم سی لیکن دورس اثرات کی حامل خواہش پر فیصل ایدھی نے اسی روح کے تحت عمل کر کے ثابت کیا کہ Edhiism اسی طرح چلے گاجیسے ان کے جلیل القدر، فرشتہ صفت والد کی زندگی میں چلتا رہا ہے۔
آہ! ایدھی صاحب! وہ کون سے عوامل ہیں جنہوں نے آپ کو ہم سے جدا کر دیا آپ تو ہمارے زخموں پر مرہم رکھنے والے مسیحا تھے جب کراچی لہو لہو تھا آپ حوصلہ تھے، امید تھے اور غریبوں کی آس تھے۔ یہ اعلان تو ہو چکا تھا کہ آپ کی نماز جنازہ میمن مسجد میں پڑھائی جائے گی یہ کون لوگ تھے جنہوں نے عوام کو اپنے ہیرو کو اپنے کندھوں پر اٹھانے کی سعادت سے محروم کر دیا۔ اوہ خدا کے بندوں! ایدھی نے تو کبھی نیشنل اسٹیڈیم کو دیکھا بھی نہ ہو گا وہ غریب پرور تھا، غریب دوست تھا، غریب علاقے کا رہنے والا تھا۔ تم نے اس کے جنازے کو کھارادر، میٹھادر، ککری گراﺅنڈ کے عوام کو اپنے محبوب کے دیدار کرنے سے کیوں محروم کردیا۔ ان کی نمازجنازہ اس کے علاقے کی مسجد میں کیوں نہ ادا کی گئی وہ تو اپنی قبر پہلے ہی تیار کر گئے ورنہ اس پر بھی اپنی اپنی ڈفلی بجائی جاتی۔
ایدھی پورے ملک کا بے تاج شہنشاہ تھا لیکن ساتھ ہی وہ کھارادر، میٹھادر اور لیاری کا دلہا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان کی نماز جنازہ ککری گراﺅنڈ اور اس سے ملحقہ علاقوں کی گلیوں میں پڑھائی جاتی اور پھر کراچی کے عوام اس کو اپنے کندھوں پر اس کی آخری آرام گاہ تک پہنچا دیتے نہ کہ شہر کی ناکہ بندی کی جاتی۔ VIP کلچر تو وہ جانتے بھی نہیں تھے پروٹوکول کس چڑیا کا نام ہے چاق و چوبند دستے استغفراللہ !
ایدھی صاحب نے آخری وقت تک SIUT میں علاج کروایا جہاں پاکستان کے غریب عوام کا علاج مفت کیا جاتا ہے۔
کہاں ایدھی صاحب یتیموں، بیواﺅں، لاوارثوں کا ساتھی کہاں غرور سے تنے ہوئے عربی چوغے میں ملبوس شاہانہ ٹوپی پہنے ہوئے سرکاری مولانا جن کے چاروں طرف محافظ ہی محافظ موجو د تھے۔ ایدھی صاحب کی تو نماز جنازہ بکرا پیڑھی ،کھڈہ مارکیٹ، موسیٰ لین کے کسی مولوی سے پڑھائی جانی تھی
جب جسد خاکی توپ پر اٹھایا جا رہا تھا تو مجھ کو ایدھی صاحب کی وہ ہاتھ گاڑی ےاد آ گئی جس پر انہوں نے لاوارث لاشوں کو لانے لے جانے کا کام شروع کیا تھااور چھوٹی سی کوٹری میں غسل دیا کرتے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم نے ایدھی صاحب کی روح کو صدمہ پہنچایا ہے اقتدار میں موجود چند درجن لوگوں نے اپنے شو کے لیئے نہ صرف ان کے خاندان کو آزردہ کیا بلکہ کراچی کے عوام خصوصا لیاری ،کھارادر ،میٹھادر کی گلیاںچلاچلا کر کہہ رہی ہیں کہ اب ہمارے جنازوں کو بھی چھیناجا رہا ہے
جن لوگوں کے لیئے ایدھی صاحب جیتے تھے وہ نیشنل اسٹیڈیم میں لائن لگاتے تلاشی دیتے رہے اور حاکم اپنی مرضی سے ، اپنے منتخب وقت پر ،اپنی منتخب جگہ پر سلام کر کے چلے بھی گئے ۔فیصل ایدھی ٹریفک میں پھنسے رہے یہ سب کیا تھا وائے سر ائے صاحب ٹیپو سلطان کا جنازہ توپوں کی سلامی میں دفنانے لے گئے جب کہ وہ خود ٹیپو کے سب سے بڑے دشمن تھے۔
ایدھی صاحب کو خراج عقیدت ضرورت مند ،سفید پوش ،غریب اور لاچاردھاڑی دار مزدور old laneمیں رہنے والے بزرگ عام شہری ،یتیم بچے ،بے روزگار ،لاکھوں عوام دینا چاھتے تھے یہ ان کا حق تھا کہ وہ اپنے ہیرو کے جنازے کو دنیا کا سب سے بڑا جنازے کا جلوس بنا کے لیاری میں یا شہر کے کسی حصے میں ان کے جسد خاکی کو کسی سکیورٹی کی ضرورت نہ تھی وہ بدامنی کے زمانے میں امن کا نشان تھا اس کی آواز امن ،آشتی کی آواز تھی ۔اس نے زندگی بھر عوام کی خدمت کی مصیبت زدوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑا۔اس کو صدرمملکت ،گورنر وں ،وزیراعلیٰ اور جرنلوں،کرنلوں کی ضرورت نہیں تھی،وہ صنعت کاروں ،جاگیر داروں ،مال داروں سے دور بھاگتا تھاvip کلچر کے خلاف جہاد کرتا تھا اور ہم نے اس کی آخری رسومات VIP کلچر کے سپرد کر دیں۔ وہ ظالمانہ سوچ،فرقہ واریت ،مذہبی نفرت،علاقائی تعصب سے بالاتر تھا اس کے اقتدار مافیا کے نمائندوں سے کیا ربط ۔وہ طبقاتی اونچ نیچ کے خلاف علمبردار تھا
باعث شرم ہیں وہ لوگ جنہوں نے ایدھی صاحب جیسے عوام کے خادم کو ، غریبوں کے دیوتا کو ،لاوارث بچوں کے باپ کو بھی اپنے مذموم اقتدارکے لیئے کھیلے جانے والے کھیل میں استعمال کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ مستقبل قریب میں ہونے والی تبدیلیوں، پیش بندیوں اور حسب سابق اقتدار کے حصول میں اپنے زیادہ سے زیادہ عوام میں مقبول ہونے کا دعویٰ کر سکیں۔
ایدھی صاحب آپکی عطیہ شدہ آنکھیں آج بھی دیکھ رہی ہیں کہ آپ کے چاھنے والے آپ کے ہیں یہ شہر یہ ملک یہ جہاں آپ کا ہے چاھے ہم دنیا کی سب سے بڑی Ambulance سروس کے بانی کا جنازہ دنیا کا سب سے بڑا جلوس نہ بنا سکے چاہے مفتی شہر نے کوئی عذر کر کے آپ کے جنازے کو پڑھانے سے انکار کیاہو، شاید آپ کے میلے کفن پرکوئی شرعی مسلئہ ہو چاہے Royal/Elite Class نے کیمروں کی آنکھوںسے آپ کی نماز پڑھی لیکن ڈاکٹرو ادیب کہیں پچھلی صف میں غریب اور مسکین عوام کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر تھے اور ایسے ہی ہزاروں لوگ تلاشیاں دیتے رہ گئے لیکن آپ مطمئن رہیںتلاشیاں آپ کی وجہ سے نہ تھیں وہ توRoyal/Elite Class کی مجبوری تھی۔آپ کہیں گے یہ کیا لفڑا ہے اتنے پیسوں میں تو بہت سے غریبوں کی مدد ہو سکتی تھی۔
ایدھی صاحب آپ کی بیٹی آپ سے معافی مانگتی ہے شرمندہ ہے اپنی بیٹی کو معاف کر دیںکہ ہم بے حسی کے اس دور کے مسیحا کو حاکموں کی خود غرضانہ سوچ اور vip کلچر و پروٹوکول سے نہیں بچا سکے جو اس شہر،ملک کا رول ماڈل تھا اور عوام کی ایک بڑی تعداد چاہتے ہوئے بھی اسے کندھا دینے سے محروم رہی۔

No comments:
Post a Comment