گذشتہ ستر سال سے فاٹا کے عوام FCRکے غیر انسانی غیر اسلامی نظام کے تحت غلامو ں جیسے زندگی گزارنے پر مجبو ر ہیں ۔جہاں تعلیمی پسماندگی ،غربت ،بے رزگاری نے فا ٹا کے عوام کی زند گی اجبیران کر رکھی ہے ۔فاٹا میں پینے کے لئے صا ف پانی لو گوں کو میّسر نہیں ۔اور علاج کے لئے کو ئی سہو لت نہیںہے ۔FCRکے تحت فاٹا بفر زون ہے جہا ں اند ھیر نگر ی اور چوپٹ راج کی حکمرانی ہے ۔بیورروکریسی سے کو ئی پو چھنے ولا نہیں ہے ۔احتساب کاکو ئی پروگرام ہے اور نہ کوئی چک اینڈ بینلس سسٹم ہے ۔FCRکے تحت بیوریکریسی کی ہر بات حرف آخر اور قانون ہے ۔جبکہ عوام سو فیصد بے اختیار اور حکمران اختیارات کے بے تاج باد شاہ بنے بیٹھے ہیں ۔فر د واحد پو لیٹیکل ایجنٹ کے ساتھ انتظامیہ مقننہ اور عدلیہ کے اختیارات ہے جہاں پو لیٹیکل ایجنٹ م ±ختارِکل بن کر بیٹھا ہے ۔جنہو ںنے فا ٹا کے عوام کی ضمیرکوغلام بنا رکھا ہے ۔FCRدراصل انگریز سامراج کی جنگی حکمت عملی اور ایمر جنسی کا قانو ن ہے ۔جس کی وجہ سے پاکستان کاآئین لا گو نہیں ہے ۔فا ٹا کے عوام کی اعلیٰ عدالتوں تک رسائی نہیں ہے ۔FCRکے تحت فاٹا کے عوام کے آئینی ،قانونی ،سیاسی و جمہوری اور بنیادی انسانی حقوق پا مال ہیں اور فاٹا کاتقریباً 27000 ہزار مربع کلومیٹر علاقہ سر زمین بے آئین ہے۔فاٹا افغان وار اور مسلسل جنگ و جدل کی وجہ سے کھنڈر بن گیا ۔جہاں سکول ،ہسپتال ،سڑک اور گھر ویران ہیں ۔اور انفراسٹر کچر مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے لا کھوں افراد گھر بار چھوڑکر متاثر ہوگئے ہیں ۔اب فاٹا کے عوام کی قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے میں اصلا حات کی ہو ا چل پڑی ہے ۔وزیر اعظم کی ریفامز کمیٹی بن گئی ہے ۔جس نے مکمل فاٹا کا دورہ کیا اور رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کیا جس میں کہا گیا ہے کہ فاٹا کے عوام مو جودہ نظام سے تنگ ہیں اور 71فی صد عوام تبدیلی چاھتے ہیں ۔
فا ٹا اصلا حات نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بن گیا ہے ۔اور یہ رپورٹ قومی اسمبلی میںبھی پیش کی گئی ہے ۔ہمار ا ایجنڈا ملک اور فا ٹا کے عوام کے لئے امن ،ترقی اور خوشحالی کا ہے ۔ہم چا ہتے ہیں کہ فاٹا کے27ہزار مر بع کلومیٹر علاقہ صو بہ خیبر پختونخوا کیساتھ شامل کر یں اور ایک کر وڑ فاٹا کے عوام کے لئے علا قہ غیر اور بفر زون کے اصطلاحات ختم کئے جائیں اسی طرح فاٹا غیر ملکی دشمن کے سازشوں سے محفوظ ہو جائے ۔ہمارا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم ریفامز کمیٹی کے سفارشا ت پر عملد رآمد کو یقینی بنائیں ۔FCRکو ختم کر کے فاٹا کو 2018ءکے
جنر ل الیکشن سے پہلے KPKمیں ضم کیا جائے اور فاٹا میں بھی صوبائی الیکشن کا انعقاد کیا جائے ۔پہلی فرصت میں فاٹا میں مر دم شماری کرائیں جائیے ۔2017ءمیں فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کرائیں جائیں ۔
(1) ائین کے ار ٹیکل1میں ترمیم کر کے فاٹا کا نام آئین سے نکال دیا جائے اور فاٹا کو با قاعدہ KPKکا حصہ بنا یا جائے ۔
(2)آرٹیکل 106میں ترمیم کر کے KPKمیں صوبائی سیٹوں کا اضافہ کیا جائے
(3)آرٹیکل247میں ترمیم کر کے مکمل آئین یہاں نافذ کیا جائے اور سپریم کو رٹ و ہا ئی کو ر ٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ کا دائرہ اختیار فاٹا تک بڑھایا جائے اور یہاں کے عوام کو شریعت پر فیصلے کر نے اورجرگہ سسٹم کو بر قرار رکھنے کا اختیار دیا جائے ۔
لیویزاور خاصہ دا ر کو منظم فورس بنا یا جائے اور مزید تیس ہزار فورس کوبھر تی کرائے جائے ۔
متاثرین کی بحالی اور انفراسٹر کچر ،سکول ،ہسپتال ۔سڑک کی دوبارہ بحالی کے لئے 500ارب روپے کی مالیاتی پیکج کا اعلان کیا جائے ۔فاٹا اصلا حات نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے اورجنرل راحیل شریف کا ایجنڈا ہے۔جبکہ فاٹا میں بیوروکریسی اصلاحات کے خلاف سازشوں میںمصروف ہے اور اصلاحات کو ناکام بنانے کئے لئے فنڈینگ کر رہی ہے ۔خفیہ ادارے اس پر نظررکھے اور ایسے افسران کے خلاف کاروائی کرکے قرار واقعی سزا دے اور ا ±ن کو گھر بھیج دیں ۔
(4)قیام پاکستان سے اب تک فاٹا کو NFCایوارڈ میں نظر انداز کر نے کے بعد اب اس کی تلافی کے جائے اور ایک خطیر رقم فاٹا کی ترقی کے لئے مقر ر کی جائے
(5)سی پیک میں فاٹا کو شامل کیا جائے۔اسی سے فاٹا کے حالات بدل جائیں گے اور فاٹا ترقی کی راہ پر گامز ن ہو جائے گا ۔
( 6)فا ٹا میں بد ترین لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا جائے اور اس کے لئے جامع منصوبہ بندی کی جائے
(7)تعلیمی پسماندگی دور کر نے کے لئے سکولز اور مدارس کے نیٹ ورک قائم کی جائے اس کے ساتھ ساتھ فاٹا میں یونیورسٹی ،میڈیکل کالج اوراینجینرنگ یو نیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے ۔
(8)فا ٹا میں گیس پیٹرولیم اور دیگر قیمتی معدنیات کے ذخائر موجود ہیں ۔ا ± ن کوتلاش کرنے اور بر وئے کار لانے کے لئے جامع منصوبہ تشکیل دیا جائے ۔
(9)تجار ت کو ترقی دینے کے لئے اقدامات کئے جائےںاور افغانستان کے ستاھ تجارت کے لئے بھی منصوبہ بندی کی جا ئے ۔
(10)11دسمبر 2016ءکو FCRنامنظور جرگہ ہو گا جس کی قیادت امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم جنا ب سراج الحق صا حب کر ئینگے اور قومی لیڈر پش کو دعوت دینگے
No comments:
Post a Comment