-ہماری زندگی میں عمل کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ اقبال کے یہاں عمل ایک
مستقل تصور اور مسلسل اصرار بن گیا ہے۔ اقبال نے کہا ہے کہ ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے تُو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
………
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
………
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بناکے تقدیر کا بہانہ
لیکن اسلامی فکر صرف عمل پر نہیں بلکہ فکر و عمل کی یکجائی پر اصرار کرتی ہے۔ اسلام میں صحیح عمل کی بنیاد صحیح فکر ہے۔ فکر صحیح ہوگی تو عمل بھی صحیح ہوگا۔ فکر خام ہوگی تو عمل خام ہوجائے گا۔ فکر میں گمراہی ہوگی تو عمل میں بھی گمراہی در آئے گی۔ فکر میں ابہام ہوگا تو عمل بھی ابہام سے نہیں بچ سکے گا۔ اسی لیے حدیث شریف میں آیا ہے کہ عمل کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ لیکن اسلام صرف مجرد فکر کو پسند نہیں کرتا۔ قرآن مجید فکر کے حوالے سے بنیادی سوال اٹھاتا ہے اور کہتا ہے کہ اے اہلِ ایمان تم جو کہتے ہو وہ کرتے کیوں نہیں؟ یعنی اسلام میں صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ہم ایک خدا کے ماننے والے ہیں۔ مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اس دعوے کے مطابق عمل بھی کرکے دکھائے تاکہ عملاً ثابت ہوسکے کہ وہ واقعتاً توحید پر ایمان رکھتا ہے۔ فکر و عمل کی یکجائی کو حاصل کرنے کے لیے اسلام نے عقائد کے ساتھ عبادات کا نظام تشکیل دیا ہے، اور عبادات میں سب سے بڑا ’’عمل‘‘، سب سے بڑی روحانی ’’جدوجہد‘‘ نماز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے سال کے ایک مہینے میں آتے ہیں۔ حج عموماً زندگی میں ایک بار کیا جاتا ہے اور صرف اُن لوگوں پر فرض ہے جو اس کی مالی استطاعت رکھتے ہیں۔ زکوٰۃ کے لیے صاحب ِنصاب ہونا ضروری ہے۔ صدقہ و خیرات کے لیے بھی مالی وسائل کی موجودگی لازم ہے، لیکن نماز ہر روز پانچ بار ادا کرنا فرض ہے۔ اس لیے عبادات میں نماز کی مشقت سب سے زیادہ ہے۔ عبادات کی طرح اسلام نے اخلاقیات کا بھی ایک نظام وضع کیا ہے۔ اس نظام سے بھی ایک بڑا عمل پیدا ہوتا ہے۔ کوئی شخص مسلمان ہو مگر وہ اسلام کے عبادات اور اخلاقیات کے نظام سے باہر کھڑا ہو تو اس کے مسلمان ہونے کا کوئی مفہوم نہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اسلام فکر اور عمل کی یکجائی پر کیوں اصرار کرتا ہے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ فکر اور عمل اپنی اپنی جگہ آدھی حقیقت ہیں۔ اگر انسان کی زندگی صرف فکر سے آراستہ ہو مگر عمل سے محروم ہو تو وہ ادھوری زندگی ہے، اور اگر کسی شخص کی زندگی میں ایسا عمل ہو جو اصل فکر یا اصل علم سے کٹ گیا ہو تو وہ بھی آدھی حقیقت ہے۔ پوری حقیقت فکر و عمل کی یکجائی سے وجود میں آتی ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ نے اس حوالے سے ایک دلچسپ بات کہی ہے، اس نے کہا ہے کہ بعض لوگ محنت کے نتیجے میں پسینہ پسینہ ہوکر رہ جاتے ہیں۔ یعنی ان کی محنت، ان کا عمل، ان کی جدوجہد انہیں صرف ’’پسینہ‘‘ فراہم کرتے ہیں۔ یہ انسان کی توہین ہے، اس کی تذلیل ہے، اور اسلام انسان کو ایسی محنت، ایسی مشقت، ایسے عمل اور ایسی جدوجہد میں نہیں الجھاتا جس میں اس کے ہاتھ پسینے کے سوا کچھ نہ آئے۔ اسلام انسان کو ایسے عمل پر مائل کرتا ہے جو اسے مجسم خیر بنادے۔ جو اسے جہنم سے نجات دلادے۔ جو اسے جنت کا مستحق بنادے۔ جو اسے اللہ تعالیٰ کی رضا سے ہمکنار کردے۔ تاریخ میں سب سے بڑے عمل کی مثال انبیاء و مرسلین نے پیش کی۔ مثلاً حضرت نوحؑ نے ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کی لیکن ایک روایت کے مطابق صرف 40 اور دوسری روایت کے مطابق لگ بھگ 70 افراد اسلام لائے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تبلیغ کی مدت اور اس کے نتائج میں کوئی نسبت ہی نہیں۔ لیکن یہ حضرت نوحؑ کے عمل کی ناکامی نہیں۔ یہ حضرت نوحؑ کی قوم کی ناکامی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت نوحؑ کی قوم کو حق کے لیے حساس یا Receptive نہ ہونے کی پاداش میں فنا کردیا گیا۔ انبیاء و مرسلین کی تاریخ میں حق کو قبول نہ کرنے کے حوالے سے جب بھی حجت تمام ہوئی ہے اللہ تعالیٰ نے امتوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا ہے۔ لیکن حجت تمام ہونے کی نوبت انبیاء و مرسلین کے غیر معمولی ’’عمل‘‘ یا ان کی غیر معمولی جدوجہد کی وجہ سے آئی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت نبوت کی تاریخ کا خلاصہ بھی ہے اور اس پر اضافہ بھی۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’عمل‘‘ کو بہت ہی بڑا ہونا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں بے پناہ تنوع بھی ہے، وسعت بھی اور گہرائی بھی۔ اس عمل کے اثرات انسانی تاریخ کا سرمایہ ہیں۔ ان اثرات کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسلام کسی بھی دوسرے مذہب سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلا۔ ان اثرات کا ایک زاویہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ قیامت تک کے انسانوں کے لیے رہنمائی کا فریضہ انجام دے گی۔ مطلب یہ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی برکت سے اسلام لازمانی، لامکانی ہوگیا، اور اتنا ہمہ پہلو ہوگیا کہ انسانوں کو اس کے حوالے سے کبھی تنگ دامنی اور تشنگی کی شکایت نہ ہوگی۔
یہ گھڑی محشر کی ہے تُو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
………
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
………
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بناکے تقدیر کا بہانہ
لیکن اسلامی فکر صرف عمل پر نہیں بلکہ فکر و عمل کی یکجائی پر اصرار کرتی ہے۔ اسلام میں صحیح عمل کی بنیاد صحیح فکر ہے۔ فکر صحیح ہوگی تو عمل بھی صحیح ہوگا۔ فکر خام ہوگی تو عمل خام ہوجائے گا۔ فکر میں گمراہی ہوگی تو عمل میں بھی گمراہی در آئے گی۔ فکر میں ابہام ہوگا تو عمل بھی ابہام سے نہیں بچ سکے گا۔ اسی لیے حدیث شریف میں آیا ہے کہ عمل کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ لیکن اسلام صرف مجرد فکر کو پسند نہیں کرتا۔ قرآن مجید فکر کے حوالے سے بنیادی سوال اٹھاتا ہے اور کہتا ہے کہ اے اہلِ ایمان تم جو کہتے ہو وہ کرتے کیوں نہیں؟ یعنی اسلام میں صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ہم ایک خدا کے ماننے والے ہیں۔ مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اس دعوے کے مطابق عمل بھی کرکے دکھائے تاکہ عملاً ثابت ہوسکے کہ وہ واقعتاً توحید پر ایمان رکھتا ہے۔ فکر و عمل کی یکجائی کو حاصل کرنے کے لیے اسلام نے عقائد کے ساتھ عبادات کا نظام تشکیل دیا ہے، اور عبادات میں سب سے بڑا ’’عمل‘‘، سب سے بڑی روحانی ’’جدوجہد‘‘ نماز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے سال کے ایک مہینے میں آتے ہیں۔ حج عموماً زندگی میں ایک بار کیا جاتا ہے اور صرف اُن لوگوں پر فرض ہے جو اس کی مالی استطاعت رکھتے ہیں۔ زکوٰۃ کے لیے صاحب ِنصاب ہونا ضروری ہے۔ صدقہ و خیرات کے لیے بھی مالی وسائل کی موجودگی لازم ہے، لیکن نماز ہر روز پانچ بار ادا کرنا فرض ہے۔ اس لیے عبادات میں نماز کی مشقت سب سے زیادہ ہے۔ عبادات کی طرح اسلام نے اخلاقیات کا بھی ایک نظام وضع کیا ہے۔ اس نظام سے بھی ایک بڑا عمل پیدا ہوتا ہے۔ کوئی شخص مسلمان ہو مگر وہ اسلام کے عبادات اور اخلاقیات کے نظام سے باہر کھڑا ہو تو اس کے مسلمان ہونے کا کوئی مفہوم نہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اسلام فکر اور عمل کی یکجائی پر کیوں اصرار کرتا ہے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ فکر اور عمل اپنی اپنی جگہ آدھی حقیقت ہیں۔ اگر انسان کی زندگی صرف فکر سے آراستہ ہو مگر عمل سے محروم ہو تو وہ ادھوری زندگی ہے، اور اگر کسی شخص کی زندگی میں ایسا عمل ہو جو اصل فکر یا اصل علم سے کٹ گیا ہو تو وہ بھی آدھی حقیقت ہے۔ پوری حقیقت فکر و عمل کی یکجائی سے وجود میں آتی ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ نے اس حوالے سے ایک دلچسپ بات کہی ہے، اس نے کہا ہے کہ بعض لوگ محنت کے نتیجے میں پسینہ پسینہ ہوکر رہ جاتے ہیں۔ یعنی ان کی محنت، ان کا عمل، ان کی جدوجہد انہیں صرف ’’پسینہ‘‘ فراہم کرتے ہیں۔ یہ انسان کی توہین ہے، اس کی تذلیل ہے، اور اسلام انسان کو ایسی محنت، ایسی مشقت، ایسے عمل اور ایسی جدوجہد میں نہیں الجھاتا جس میں اس کے ہاتھ پسینے کے سوا کچھ نہ آئے۔ اسلام انسان کو ایسے عمل پر مائل کرتا ہے جو اسے مجسم خیر بنادے۔ جو اسے جہنم سے نجات دلادے۔ جو اسے جنت کا مستحق بنادے۔ جو اسے اللہ تعالیٰ کی رضا سے ہمکنار کردے۔ تاریخ میں سب سے بڑے عمل کی مثال انبیاء و مرسلین نے پیش کی۔ مثلاً حضرت نوحؑ نے ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کی لیکن ایک روایت کے مطابق صرف 40 اور دوسری روایت کے مطابق لگ بھگ 70 افراد اسلام لائے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تبلیغ کی مدت اور اس کے نتائج میں کوئی نسبت ہی نہیں۔ لیکن یہ حضرت نوحؑ کے عمل کی ناکامی نہیں۔ یہ حضرت نوحؑ کی قوم کی ناکامی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت نوحؑ کی قوم کو حق کے لیے حساس یا Receptive نہ ہونے کی پاداش میں فنا کردیا گیا۔ انبیاء و مرسلین کی تاریخ میں حق کو قبول نہ کرنے کے حوالے سے جب بھی حجت تمام ہوئی ہے اللہ تعالیٰ نے امتوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا ہے۔ لیکن حجت تمام ہونے کی نوبت انبیاء و مرسلین کے غیر معمولی ’’عمل‘‘ یا ان کی غیر معمولی جدوجہد کی وجہ سے آئی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت نبوت کی تاریخ کا خلاصہ بھی ہے اور اس پر اضافہ بھی۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’عمل‘‘ کو بہت ہی بڑا ہونا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں بے پناہ تنوع بھی ہے، وسعت بھی اور گہرائی بھی۔ اس عمل کے اثرات انسانی تاریخ کا سرمایہ ہیں۔ ان اثرات کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسلام کسی بھی دوسرے مذہب سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلا۔ ان اثرات کا ایک زاویہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ قیامت تک کے انسانوں کے لیے رہنمائی کا فریضہ انجام دے گی۔ مطلب یہ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی برکت سے اسلام لازمانی، لامکانی ہوگیا، اور اتنا ہمہ پہلو ہوگیا کہ انسانوں کو اس کے حوالے سے کبھی تنگ دامنی اور تشنگی کی شکایت نہ ہوگی۔
عام انسانی زندگی میں بھی عمل اور جدوجہد کے نتائج کی مثالیں حیرت انگیز ہیں۔ برصغیر کی ملت ِاسلامیہ کی مزاحمتی تاریخ ایک بہت بڑا عمل ہے۔ اس عمل میں ٹیپو سلطان کی ناکام مزاحمت ہے، اس عمل میں 1857ءکی جنگ ِ آزادی کی مایوسی ہے، اس عمل میں خلافت تحریک کی ناکامی کا تجربہ ہے، اس عمل میں سید احمد شہید سمیت کئی جہادی تحریکوں کے بے نتیجہ رہ جانے کا المیہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود برصغیر کی ملت ِاسلامیہ عمل سے بے زار اور مایوس نہیں ہوئی۔ چنانچہ بظاہر ناکام رہنے والا مزاحمتی عمل پاکستان کی صورت میں ایک بہت ہی بڑی ”کامیابی“ پر منتج ہوا۔ برصغیر کی ملتِ اسلامیہ عمل سے مایوس ہوجاتی تو برصغیر کے مسلمان پاکستان کا مطالبہ ہی نہیں کرسکتے تھے۔ کر بھی دیتے تو مطالبہ صرف مطالبہ رہ جاتا، اس سلسلے میں جدوجہد کی نوبت نہ آتی۔ لیکن برصغیر کی ملت ِاسلامیہ نے عمل کے تسلسل اور اس کے سلسلے میں استقامت کا مظاہرہ کیا، اور دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی اسلامی ریاست کا ظہور ممکن ہوگیا۔
حالیہ تاریخ میں عمل کے نتائج کی بہترین مثالیں افغانستان سے فراہم ہوتی ہیں۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد دس سال جاری رہا۔ اس دوران دس لاکھ افراد شہید اور 5 لاکھ معذور ہوئے۔ 50 لاکھ سے زیادہ افغانی ہجرت پر مجبور ہوئے۔ ان حقائق نے افغان جہاد کو اتنا بڑا عمل بنادیا کہ جدید تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ چونکہ اس عمل میں فکر اور عمل کی کامل یکجائی موجود تھی اس لیے سوویت یونین کو اس کی تمام تر طاقت کے باوجود شکست ہوگئی۔ افغانستان میں امریکا کے خلاف جہاد سوویت یونین کے خلاف جہاد سے کہیں زیادہ بڑا عمل ہے، اس لیے کہ اِس بار فریقین کے درمیان طاقت کا عدم توازن پہلے سے کہیں زیادہ تھا۔ دوسری جانب اِس بار قربانیوں کا دائرہ صرف افغانستان تک محدود نہ رہا بلکہ پاکستان بھی قربانی کے عمل میں شریک ہوگیا۔ چنانچہ مزاحمت کے عمل کی وسعت اور شدت دونوں بڑھ گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وقت کی واحد سپر طاقت اپنے اتحادیوں سمیت ہزیمت سے دوچار ہے۔ بعض لوگ کشمیر اور فلسطین کی جدوجہدِ آزادی کے اب تک سامنے آنے والے نتائج کو دیکھتے ہیں تو مایوس ہوتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ان دونوں مقامات پر مسلمانوں کی جانیں، وقت اور مال ”ضائع“ ہوگیا۔ لیکن کشمیر اور فلسطین کی جدوجہد حق کی جدوجہد ہے، یہاں فکر و عمل کی یکجائی موجود ہے۔ چنانچہ اب دونوں مقامات پر مسلمانوں کا ”عمل“ آج نہیں تو کل نتیجہ پیدا کرکے رہے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انسان عمل میں کمزور کیوں ہوتا ہے؟
ہمارے عہد کا المیہ یہ ہے کہ غلط فکر و عمل نے صحیح فکر و عمل کی جگہ لے لی ہے۔ دنیا کے انسانوں کی اکثریت حق سے آگاہ ہی نہیں ہے۔ وہ صرف باطل پر مطلع ہے اور اسی کے فکر و عمل کو اختیار کیے ہوئے ہے۔ لیکن جہاں حق موجود ہے وہاں صحیح فکر تو ہے مگر صحیح عمل ناپید ہے۔ مثلاً مسلمان دین پر آگاہ ہیں مگر ان کی زندگی پر مادیت کا غلبہ ہے، چنانچہ ان کے وقت، توانائی اور اہلیت کا بڑا حصہ مادیت کی نذر ہوجاتا ہے۔ روحانی زندگی کے لیے نہ ان کے پاس وقت ہے نہ توانائی اور نہ اہلیت.... اور اگر ہے بھی تو ”مری بھیڑ اللہ نام کی“ کے مصداق وہ روحانی زندگی کو اپنے بدتر وقت، توانائی اور اہلیت سے نوازتے ہیں۔ چنانچہ فکر کی سطح پر ان کے ہاتھ میں سورج ہوتا ہے اور عمل کی سطح پر ان کے ہاتھ میں موم بتی بھی نہیں ہوتی۔ یہ فکر و عمل کے درمیان ایک ناقص تعلق کی صورت ہے۔ لیکن ہماری دنیا میں نقص کے لیے جواز جوئی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہم اپنے عیوب کو حسین و جمیل بنا کر پیش کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ لیکن اس کی ایک زیادہ گہری وجہ یہ ہے
ہم ادھورے پن کے عادی لوگ ہیں
خوف آتا ہے ہمیں تکمیل سے
عمل سے ہماری بیزاری کی ایک وجہ ہماری نتیجہ پرستی ہے۔ ہم اپنے عمل کا فوری نتیجہ چاہتے ہیں، اور فوری نتیجہ برآمد نہیں ہوتا تو ہم صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے عمل ہی کو ترک کردیتے ہیں۔ ہمارے عمل سے دور ہونے کی ایک بنیادی وجہ اقبال نے یہ کہہ کر بیان کی ہے کہ مسلمان تقدیر پرست ہوگئے ہیں۔ لیکن تقدیر پرستی کا مفہوم کیا ہے؟
تقدیر پرستی کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد غلامی کے چیلنج سے ڈرگئی۔ انہوں نے اس چیلنج کو اپنی بساط سے بہت زیادہ سمجھا اور حالات کو تقدیر کہہ کر انہیں جوں کا توں قبول کرلیا۔ لیکن انسان کی تقدیر کیا ہے، یہ بات بھی عمل یا تدبیر ہی سے معلوم ہوتی ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ نتیجہ پیدا کرنا انسان کا کام ہی نہیں۔ نتیجہ پیدا کرنا اللہ کا کام ہے۔ انسان کا کام زیادہ سے زیادہ علم اور شعور کے ساتھ مستقلاً عمل کیے چلے جانا ہے۔ عمل مستقل ہو تو اللہ تعالیٰ کے یہاں چھوٹا عمل بھی بہت بڑا ہوجاتا ہے۔
حالیہ تاریخ میں عمل کے نتائج کی بہترین مثالیں افغانستان سے فراہم ہوتی ہیں۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد دس سال جاری رہا۔ اس دوران دس لاکھ افراد شہید اور 5 لاکھ معذور ہوئے۔ 50 لاکھ سے زیادہ افغانی ہجرت پر مجبور ہوئے۔ ان حقائق نے افغان جہاد کو اتنا بڑا عمل بنادیا کہ جدید تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ چونکہ اس عمل میں فکر اور عمل کی کامل یکجائی موجود تھی اس لیے سوویت یونین کو اس کی تمام تر طاقت کے باوجود شکست ہوگئی۔ افغانستان میں امریکا کے خلاف جہاد سوویت یونین کے خلاف جہاد سے کہیں زیادہ بڑا عمل ہے، اس لیے کہ اِس بار فریقین کے درمیان طاقت کا عدم توازن پہلے سے کہیں زیادہ تھا۔ دوسری جانب اِس بار قربانیوں کا دائرہ صرف افغانستان تک محدود نہ رہا بلکہ پاکستان بھی قربانی کے عمل میں شریک ہوگیا۔ چنانچہ مزاحمت کے عمل کی وسعت اور شدت دونوں بڑھ گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وقت کی واحد سپر طاقت اپنے اتحادیوں سمیت ہزیمت سے دوچار ہے۔ بعض لوگ کشمیر اور فلسطین کی جدوجہدِ آزادی کے اب تک سامنے آنے والے نتائج کو دیکھتے ہیں تو مایوس ہوتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ان دونوں مقامات پر مسلمانوں کی جانیں، وقت اور مال ”ضائع“ ہوگیا۔ لیکن کشمیر اور فلسطین کی جدوجہد حق کی جدوجہد ہے، یہاں فکر و عمل کی یکجائی موجود ہے۔ چنانچہ اب دونوں مقامات پر مسلمانوں کا ”عمل“ آج نہیں تو کل نتیجہ پیدا کرکے رہے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انسان عمل میں کمزور کیوں ہوتا ہے؟
ہمارے عہد کا المیہ یہ ہے کہ غلط فکر و عمل نے صحیح فکر و عمل کی جگہ لے لی ہے۔ دنیا کے انسانوں کی اکثریت حق سے آگاہ ہی نہیں ہے۔ وہ صرف باطل پر مطلع ہے اور اسی کے فکر و عمل کو اختیار کیے ہوئے ہے۔ لیکن جہاں حق موجود ہے وہاں صحیح فکر تو ہے مگر صحیح عمل ناپید ہے۔ مثلاً مسلمان دین پر آگاہ ہیں مگر ان کی زندگی پر مادیت کا غلبہ ہے، چنانچہ ان کے وقت، توانائی اور اہلیت کا بڑا حصہ مادیت کی نذر ہوجاتا ہے۔ روحانی زندگی کے لیے نہ ان کے پاس وقت ہے نہ توانائی اور نہ اہلیت.... اور اگر ہے بھی تو ”مری بھیڑ اللہ نام کی“ کے مصداق وہ روحانی زندگی کو اپنے بدتر وقت، توانائی اور اہلیت سے نوازتے ہیں۔ چنانچہ فکر کی سطح پر ان کے ہاتھ میں سورج ہوتا ہے اور عمل کی سطح پر ان کے ہاتھ میں موم بتی بھی نہیں ہوتی۔ یہ فکر و عمل کے درمیان ایک ناقص تعلق کی صورت ہے۔ لیکن ہماری دنیا میں نقص کے لیے جواز جوئی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہم اپنے عیوب کو حسین و جمیل بنا کر پیش کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ لیکن اس کی ایک زیادہ گہری وجہ یہ ہے
ہم ادھورے پن کے عادی لوگ ہیں
خوف آتا ہے ہمیں تکمیل سے
عمل سے ہماری بیزاری کی ایک وجہ ہماری نتیجہ پرستی ہے۔ ہم اپنے عمل کا فوری نتیجہ چاہتے ہیں، اور فوری نتیجہ برآمد نہیں ہوتا تو ہم صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے عمل ہی کو ترک کردیتے ہیں۔ ہمارے عمل سے دور ہونے کی ایک بنیادی وجہ اقبال نے یہ کہہ کر بیان کی ہے کہ مسلمان تقدیر پرست ہوگئے ہیں۔ لیکن تقدیر پرستی کا مفہوم کیا ہے؟
تقدیر پرستی کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد غلامی کے چیلنج سے ڈرگئی۔ انہوں نے اس چیلنج کو اپنی بساط سے بہت زیادہ سمجھا اور حالات کو تقدیر کہہ کر انہیں جوں کا توں قبول کرلیا۔ لیکن انسان کی تقدیر کیا ہے، یہ بات بھی عمل یا تدبیر ہی سے معلوم ہوتی ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ نتیجہ پیدا کرنا انسان کا کام ہی نہیں۔ نتیجہ پیدا کرنا اللہ کا کام ہے۔ انسان کا کام زیادہ سے زیادہ علم اور شعور کے ساتھ مستقلاً عمل کیے چلے جانا ہے۔ عمل مستقل ہو تو اللہ تعالیٰ کے یہاں چھوٹا عمل بھی بہت بڑا ہوجاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment