Sunday, April 8, 2012

مارشل لا کیوں لگتاہے ؟

-پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ایک فقرے میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ پاکستان کی آدھی تاریخ مارشل لا کی، اورآدھی تاریخ مارشل لا کے اثرات سے نجات حاصل کرنے کی تاریخ ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کی پوری تاریخ پر مارشل لا کا غلبہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مارشل لا کیوں لگتا ہے؟ مسلم دنیا کی تاریخ نوآبادیات کی تاریخ ہے، اور نو آبادیاتی تجربے کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ نوآبادیاتی طاقتوں نے اپنے غلبے اور تسلط کو مستحکم کرنے کے لیے مسلم دنیا میں سیاہ فام یورپی لوگوں کا ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جس کا ظاہر مقامی اور باطن یورپی تھا۔ یہ طبقہ اگرچہ معاشرے کے بالائی طبقات سے برآمد ہوا تھا، لیکن سول لوگوں کے پاس صرف یورپی ذہنیت تھی، ان کے پاس طاقت نہیں تھی۔ لیکن نوآبادیاتی طاقتوں نے فوج پیدا کی۔ اس کے پاس یورپی ذہنیت بھی تھی اور اسے حقیقت بنانے کے لیے طاقت بھی تھی۔ چنانچہ مسلم دنیا میں ہر جگہ فوج کے ادارے نے دیکھتے ہی دیکھتے مرکزیت حاصل کرلی۔ پاکستان میں یہ مسئلہ اس لیے اور بھی سنگین ہوگیا کہ پاکستان جن علاقوں پر مشتمل تھا ان کے لوگوں کی بڑی تعداد برطانوی فوج کا حصہ تھی۔ اصولی اعتبار سے فوج کی قوت کو معاشرے کی طاقت ہونا چاہیے تھا۔ لیکن فوج کی طاقت معاشرے کی کمزوری بن گئی۔ اس کی بنیادی وجہ پاکستانی فوج کے جرنیلوں کی حاکمانہ ذہنیت تھی۔ یہ جرنیل انگریزوں سے مستعار لی گئی ذہنیت کے زیراثر خودکو آقا اور عام افراد کو اپنا غلام سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ حکومت کرنے کا حق صرف ہمارا ہے، اس لیے کہ ہم زیادہ اہل، زیادہ تعلیم یافتہ اور بہتر تربیت کے حامل ہیں۔ ہمارے مقابلے پر عوام کی اکثریت جاہل اور غیر منظم ہے۔ انہیں کیا معلوم کہ دنیا اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟ جنرل ایوب خان نے اگرچہ 1958ء میں مارشل لا لگایا، مگر پاکستان میں تعینات امریکی سفارت کاروں کے مراسلوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ جنرل ایوب 1954ء سے امریکیوں کے رابطے میں تھے۔ مراسلوں کے مندرجات کے مطابق وہ امریکا کے سفارت کاروں کو بتارہے تھے کہ سول حاکم ریاست اور معاشرے کے بندوبست کو تباہ کررہے ہیں، اور فوج انہیں ہرگز ملک کی تقدیر سے کھیلنے کا حق نہیں دے سکتی۔ یہ خیالات ہر اعتبار سے غلط تھے۔ ملک کی آزادی میں جرنیلوں اور فوج کا کوئی کردار نہیں تھا۔ جنرل ایوب کو اپنے تجزیے کے لیے کسی اخلاقی اصول کی مدد فراہم نہ تھی، انہیں اپنے اس تجزیے کے لیے کوئی آئینی بنیاد مہیا نہ تھی۔ وہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتے تھے کہ اپنے عزائم اور منصوبوں کے سلسلے میں انہیں عوام کی عظیم اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن ان حقائق کے باوجود جنرل ایوب صرف تجزیہ کرکے نہیں رہ گئے، انہوں نے چار سال انتظار کے بعد 1958ء میں مارشل لا لگادیا۔ یہ عام لوگوں کے مقابلے پر فوجی ذہن کی برتری کو ٹھوس بنانے کی پہلی مثال تھی۔ لیکن مسئلہ صرف فوجی ذہن کے احساسِ برتری کا نہیں ہے۔ یورپی طاقتوں کے زوال کے بعد امریکا دنیا کی بڑی طاقت بن کر ابھر آیا تھا اور اسے مسلم دنیا میں ہر جگہ اپنے ایجنٹ درکار تھے، چنانچہ امریکا نے جنرل ایوب کے اقتدارکا نہ صرف یہ کہ خیرمقدم کیا بلکہ ان کی مکمل حمایت بھی کی۔ اس مرحلے پر یہ صرف جنرل ایوب کی ’’شخصی حمایت‘‘ تھی۔ لیکن جنرل ایوب دس سال تک اقتدار میں رہے اور فوجی آمریت کے اتنے طویل تجربے نے شخصی حمایت کو اداراتی حمایت یا Institutional Support بنادیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی تاریخ مارشل لا کی تاریخ بن کر رہ گئی۔ ایسا نہیں تھا کہ امریکا کو سول حکمرانوں میں ایجنٹ فراہم نہیں تھے، مگر سول حکمران فوجی حکمرانوں کی طرح طاقت ور اور بے باک نہیں تھے۔ ان پر عوامی دبائو کسی نہ کسی حد تک مؤثر ہوتا تھا، اور یہ بات امریکا کے مفاد میں نہیں تھی۔ چنانچہ پاکستان میں جو مارشل لا لگا، امریکا کی حمایت سے لگا۔ امریکا اور دیگر مغربی ملکوں کی حمایت کے بغیر بھی ملک میں مارشل لا لگ سکتے تھے، لیکن ایسی صورت میں مارشل لا ’’طویل‘‘ اور ’’مکرم‘‘ نہیں ہوسکتے تھے۔ لیکن معاملہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔ بھارت ہمارے ساتھ آزاد ہوا۔ اُس کے پاس فوج بھی ہم سے بڑی تھی۔ اس فوج کا بھی ایک نوآبادیاتی پس منظرتھا، لیکن اس کے باوجود بھارت میں کبھی مارشل لا نہیں لگا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ بھارت میں بڑی سطح کے قائدین طویل عرصے تک زندہ رہے۔ چنانچہ بھارت میں بھارت کا مطلب گاندھی تھا، نہرو تھا، سردار پٹیل تھا۔ پاکستان میں قائداعظم چند سال بھی زندہ رہ جاتے تو یہی ہوتا۔ لیکن قائداعظم قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی رخصت ہوگئے اور پاکستان کی تعریف متعین کرنے والی کوئی شخصیت موجود نہ رہی۔ بھارت کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم زاویہ یہ تھا کہ کانگریس صرف شہروں میں نہیں قصبوں اور دیہات میں بھی منظم تھی، لیکن پاکستان میں مسلم لیگ پہلے دن سے ایک ’’سرکاری جماعت‘‘ تھی، اس کی عوام میں جڑیں ہی نہیں تھیں۔ چنانچہ کسی آمرکو کبھی عوامی مزاحمت کا خوف لاحق نہ ہوسکا، اور جنرل ایوب سے جنرل پرویزمشرف تک جس آمر نے جو چاہا، کیا۔ بلاشبہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف جنرل پرویزمشرف کے بڑے ناقد ہیں، مگر وہ خود فوجی آمروں کی پیداوار ہیں اور جنرل پرویزکے مارشل لا سے قبل انہوں نے کبھی فوجی آمریت کی مذمت نہیں کی تھی۔ آج بھی ان کا یہ معاملہ ہے کہ ان کے گھر کی ایک کھڑکی عوامی سیاست اور دوسری کھڑکی جرنیلوں کی خوشنودی کے آنگن میں کھلتی ہے۔ اگرچہ آئین کبھی بھی فوجی آمروں کا راستہ روکنے میں کامیاب نہیں ہوا، لیکن پاکستان کے ابتدائی برسوں میں موجود آئینی خلا نے جنرل ایوب کے حوصلوں کو بلندکیا اور اس طویل مارشل لا کی راہ ہموارکی جو باقی فوجی آمروں کے لیے ایک مثال بن گیا۔ آئین اگرچہ ایک کاغذی دستاویز ہوتا ہے، لیکن آئین اپنی نہاد میں کسی قوم کی آرزوئوں اور تمنائوں کا اظہار ہوتا ہے۔ آئین اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ کسی قوم کے لیے کیا قابلِ قبول ہے اور کیا قابلِ قبول نہیں ہے۔ لیکن پاکستان کو 1947ء سے 1954ء تک آئین ہی فراہم نہ ہوسکا، چنانچہ سات سال تک قوم کو معلوم ہی نہ ہوسکا کہ اس کی اجتماعی آرزوئیں اور تمنائیں کیا ہیں؟ اس کی سمتِ سفر کیا ہے؟ اس کی منزل کیا ہے؟ 1954ء میں ملک کو آئین فراہم ہوا مگر یہ عبوری آئین تھا جو 1956ء میں جاکر مستقل آئین بنا۔ لیکن اس کے صرف دو سال بعد جنرل ایوب آگئے اور انہوں نے 1956ء کے آئین کو اٹھاکر ایک طرف پھینک دیا اور قوم کی اجتماعی آرزوئیں ایک بار پھر ابہام کی دھند میں کھوگئیں۔ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ بھی ملک میں فوجی آمریت کے لیے نفسیاتی اور جذباتی فضا مہیا کرتی رہی ہے۔ بھارتی حکمرانوں کے رویوں نے پاک بھارت تعلقات کو تنازعات اور تصادم کی تاریخ بنادیا، اور اس فضا میں جرنیلوں کو آسانی کے ساتھ ’’ہیرو‘‘ اور ’’محافظِ پاکستان‘‘ کا تشخص عطا کردیا۔ اتفاق سے 1965ء کی جنگ قوم اور فوج نے یکجان ہوکر لڑی، اور اس جنگ میں بھارت پاکستان سے کئی گنا زیادہ طاقت رکھنے کے باوجود پاکستان کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ اس صورت حال نے اس خیال کو تقویت دی کہ بھارت کا مقابلہ فوجی قیادت ہی کرسکتی ہے۔ ہماری قومی نفسیات میں اس خیال کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھٹو صاحب لبرل تھے، سوشلسٹ تھے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے بھارت مخالف جذبات کو ہوا دی اور ایک نئی فوجی آمریت کے لیے نفسیاتی فضا تیارکی۔ ہماری قومی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ ہماری عدلیہ نے نہ صرف یہ کہ مارشل لا کو قبول کیا بلکہ اس کو آئینی جواز بھی مہیا کیا۔ اس صورت حال نے پورے معاشرے میں مارشل لا کے حوالے سے ایک بے حوصلگی پیدا کی، اور ملک میں یہ خیال عام ہوا کہ جب ملک کا سب سے طاقت ور ادارہ مارشل لا کی مزاحمت نہیں کرسکتا تو پھر کسی اور کی کیا بساط ہے! اس کے باوجود بھی ملک میں فوجی آمریتوں کی جتنی مزاحمت ہوئی وہ حیران کن ہے، اور اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستانی معاشرے کی مزاحمتی قوت کتنی زیادہ تھی۔ اس مزاحمت سے کوئی مارشل لا ختم تو نہ ہوسکا لیکن اس مزاحمت نے یہ کمال ضرورکیا کہ پاکستان کا کوئی فوجی آمر دس سال سے زیادہ نہ ٹک سکا۔ یہ مزاحمت نہ ہوتی تو پاکستان میں بھی حسنی مبارک اور کرنل قذافی جیسے کردار طلوع ہوکر رہتے۔ 

No comments:

Post a Comment