Saturday, April 14, 2012

حکمران اورعوام

بادشاہت کا ادارہ مطلق العنانی اور عوام دشمنی کے لیے بدنام ہے لیکن بادشاہت کی تاریخ بتاتی ہے کہ بادشاہوں پر بیک وقت تین دبائو ہوتے تھے۔ بادشاہت کا زمانہ مذہب پر ایمان کا زمانہ تھا اور بہت سے بادشاہ خوف خدا سے لرزتے تھے اور عوام پر ایک حد سے زیادہ ظلم نہیں کرتے تھے اور ان کا جہاں تک ممکن ہوتا تھا خیال رکھتے تھے۔ بادشاہوں کا دوسرا مسئلہ تاریخ تھی۔ تاریخ دنیا ہی میں بادشاہوں کا ’’یوم حساب‘‘ تھی۔ چنانچہ ہر بادشاہ کی خواہش اور کوشش ہوتی تھی کہ تاریخ اس کو اچھے لفظوں میں یاد کرے اور اس سے ظلم و ناانصافی منسوب نہ کرے۔ چنانچہ بادشاہ اپنے زمانے کے مورخوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے تھے لیکن تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے صرف مورخین کو خوش کرنا کافی نہیں ہوتا تھا۔ بادشاہوں کو کچھ نہ کچھ کام بھی ایسے کرنے پڑتے تھے جو انہیں تاریخ میں جگہ دلاسکیں کہنے کو بادشاہت سو فیصد شخصی اور غیرعوامی طرز کی حکمرانی تھی لیکن تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بادشاہ ’’رعایا کی رائے‘‘ کو بھی اہمیت دیتے تھے اور کبھی ایسے حالات نہیں پیدا ہونے دیتے تھے کہ عوام بغاوت پر آمادہ ہوجائیں۔ چنانچہ بادشاہ عدل کا مناسب بندوبست کرتا تھا۔ امن وامان کو یقینی بناتا ایسے محصولات عائد نہیںکرتا تھا کہ عوام پس کررہ جائیں اور ان کی آمدنی سکڑ کر رہ جائے۔ بادشاہ ہونے کے باوجود اورنگزیب عالمگیر اور ناصر الدین کی خدا خوفی کا یہ عالم تھا کہ وہ گھر کا خرچ چلانے کے لیے خزانے سے کچھ نہیں لیتے تھے اورنگ زیب گھرکا خرچ چلانے کے لیے قرآن مجید کے نسخوں کی کتابت کرتا تھا اور ناصر الدین ٹوپیاں سی کر فروخت کرتا تھا۔ جہانگیر کے زمانے میں بادشاہت کی کئی خرابیاں صاف نظر آتی ہیں مگر جہانگیر کا عدل تاریخ میں مثال بن گیا ہے۔ اس نے قلعے کے باہر ایک زنجیر لگا رکھی تھی جسے کوئی شخص کسی بھی وقت آکر کھینچ سکتا تھا اور عدل کے لیے بادشاہ کو آواز دے سکتا تھا۔ یہ کوئی ’’نمائشی اقدام‘‘ نہیں تھا۔ اس پر عمل بھی ہوتا تھا۔ التمش کے عدل اور عوام دوستی کا یہ عالم تھا کہ اس نے ایک عام ہندو کی شکایت پر اپنے بیٹے کو سخت سزا دی۔ یہاں تک کہ ایک مقدمے میں اس نے خود کو سزا کے لیے پیش کیا۔ التمش کے بیٹے حکمرانی کے اہل نہیں تھے اور التمش کو عوام کی فلاح وبہبود عزیز تھی۔ چنانچہ اس نے اپنے کسی بیٹے کو بادشاہ بنانے کے بجائے اپنی بیٹی رضیہ سلطانہ کو ریاست کا سربراہ بنا دیا اور رضیہ کے دور کو تاریخ اچھا دور کہتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے دور کو ’’عوامی دور‘‘ کہا جاتا ہے مگر اس دور میں نہ حکمرانوں پر خوف خدا اثرانداز ہے۔ نہ حکمران تاریخ میں اپنے ’’ذکر خیر‘‘ سے ڈرتے ہیں۔ نہ انہیں عوام کی ناراضی کی کوئی فکر ہے۔ جہاں تک خوف خدا کا تعلق ہے تو خود عصر حاضر کے حکمرانوں میں سے کسی کو یاد بھی نہیں۔ دنیا کے اکثر حکمران لامذہب‘ سیکولر ہیں۔ مسلم ملکوں میں حکمرانوں کے لیے خدا محض ایک ’’تصور‘‘ ہے اور یہ تصور ان کی سیاست پر کہیں اثرانداز نہیں۔ تاریخ کا معاملہ یہ ہے کہ عہد حاضر کے حکمران تاریخ کا شعور ہی نہیں رکھتے۔ چنانچہ ان کے لیے تاریخ کا وجود ہی نہیں ہے۔ یہ لوگ صرف ’’آج‘‘ میں زندہ ہیں۔ انہیں فکر ہے تو صرف یہ کہ آج کو کیسے گزارا جائے؟ ان کے لیے ’’آج کی زندگی ہی اصل زندگی ہے‘‘ تاریخ کے بارے میں سوچنا ان کے نزدیک ایک فضول بات ہے۔ تاریخ سے ان کے اس تعلق کی نوعیت کا ایک سبب یہ ہے کہ انہیں لاشعوری طور پر معلوم ہے کہ وہ پانچ سات سال کی سیاسی زندگی لے کر آئے ہیں۔ اس کے بعد ان کا نام بھی لوگوںکو ٹھیک طرح سے یاد نہیں رہے گا۔ جہاں تک ’’عوام‘‘ کا تعلق ہے تو عوام ہمارے زمانے کے حکمرانوں کے لیے نعرہ ہیں۔ تقریریں ہیں۔ پمفلٹ ہیں‘ پوسٹر ہیں‘ بینر ہیں‘ جلسہ ہیں‘ جلوس ہیں‘ ووٹر ہیں‘ ٹیکس دہندہ ہیں‘ اس کے سوا ان کے نزدیک عوام کی کوئی حیثیت نہیں اور اگر ہے تو اس کا مفہوم ذرائع ابلاغ کے موثر استعمال یا ’’میڈیا منیجمنٹ‘‘ سے سارے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ یعنی فی زمانہ عوام کی خدمت میں ناکامی حکمرانوں کے نزدیک ذرائع ابلاغ کے محاذ پر ناکامی ہے۔ ذرائع ابلاغ قابو میں ہوں تو عوام کی خدمت کی ایک بوند کو سمندر ثابت کیا جاسکتا ہے۔ مغربی دنیا کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ وہاں عوامی رائے کی اہمیت بے پناہ ہے۔ لیکن عراق میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی مداخلت کے خلاف مغربی دنیا میں لاکھوں لوگوں نے مظاہرے کیے لیکن مغرب کے حکمرانوں نے ان مظاہروں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اس حوالے سے کہا بھی تو یہ کہا کہ تاریخ ثابت کرے گی عراق میں ہماری مداخلت درست تھی لیکن ٹونی بلیئر نے عراق کے خلاف جارحیت کا مقدمہ تاریخ کے فیصلے کی بنیاد پر مرتب نہیںکیا تھا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں ایک ہاری ہوئی جنگ لڑرہا ہے اور امریکا کے 69 فیصد لوگ چاہتے ہیں کہ امریکا فوراً افغانستان چھوڑدے لیکن امریکا کے حکمران 2014ء سے پہلے افغانستان سے نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ پاکستان میں حکمرانوں اور عوام کے تعلق کی نوعیت اور بھی مخدوش ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو عوام کے سب سے بڑے ہمدرد تھے لیکن انہوں نے عوام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ انہوں نے صنعتوں کو قومیا کر ملک میں نجی شعبے کے فروغ کے امکانات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ بھٹو صاحب سرکاری اور نجی شعبے کے ہم آہنگ ارتقا کی راہ ہموار کرتے تو ملک میں روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہوتے اور ملک کی معیشت مستحکم بنیادوں پر کھڑی ہوجاتی۔ بھٹو صاحب دیہی سندھ کے حقوق کے سب سے بڑے علمبردار تھے مگر انہوں نے کوٹہ سسٹم کے فروغ اور استحکام کے ذریعے (دیہی) سندھ کے نوجوانوں کے ہاتھ میں ’’نااہلیت کی سند‘‘ تھما دی۔ انہیں محسوس ہونے لگا کہ جب ہر چیز کوٹے سے مل سکتی تو پھر اہلیت پیدا کرنے اور محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ میاں نوازشریف کے زمانے میں نجکاری کا طوفان آیا اور میاں صاحب نے اندھا دھند نجکاری کی راہ ہموار کرکے پانچ سال میں چھ لاکھ سے زیادہ لوگوں کی بیروزگاری کی راہ ہموار کردی۔ اور اس وقت آصف علی زرداری اور گیلانی مہنگائی کو انتہا پر پہنچا کر ملک کے 80 فیصد لوگوں کو اقتصادی اور مالی تشدد سے گزار رہے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک کی کم وبیش 40 فیصد آبادی ایک ڈالر یومیہ یا اس سے کم پر گزارہ کررہی ہے۔ مزید 40 فیصد لوگ ایک اور دوڈالر کے درمیان پڑی سسک رہی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ان پر 50 روپے ماہانہ اضافی بوجھ پڑجائے تو ان کے لیے زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ چنانچہ ان لوگوں کے لیے پیٹرول اور بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ بم دھماکے سے کم نہیں۔ لیکن حکمران ان اضافوں کو پھولوں کے ہار بنا کر پیش کررہے ہیں۔ یہی وہ منظرنامہ ہے جس میں عوام محض ایک نعرہ ‘ ایک تقریر اور ایک پوسٹر بن کر رہ جاتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment