Saturday, September 24, 2011

کچھ بنیادی حقائق

کسی ملک اورکسی تہذیب کی طاقت کا حقیقی اندازہ اس بات سے ہوتاہے کہ وہ ملک اور وہ تہذیب اپنے ”کمزورافراد“ کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے اس اعتبارسے دیکھاجائے تو امریکا کیا پوری مغربی تہذیب کامعاملہ افسوسناک ہے۔ بوڑھے معاشرے کا کمزورحصہ ہیں اورمغربی معاشرے اپنے بوڑھوں کو ”اولڈ ہاﺅسز“ میں بھیج دیتے ہیں۔ بچے معاشرے کا ایک اورکمزور طبقہ ہیں اورمغربی معاشرے میں کروڑوں بچے معمول کے بچپن سے محروم ہیں۔ انہیں کہیں باپ فراہم نہیں۔ اور کہیں ماں مہیا نہیں اور کہیں دونوں ہی ان کی زندگی سے غائب ہیں۔ عورتیں ”صنف نازک“ ہیں لیکن مغربی معاشروں نے صنف نازک کو جنسی بازاربنادیاہے۔ جولوگ ان حقائق کا ادراک نہیں رکھتے وہ زیادہ گہرائی میں اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ امریکا نے ڈاکٹرعافیہ صدیقی کے ساتھ جوکچھ کیاہے اس کا سبب اور اس کی معنویت کیاہے۔ لیکن امریکا اور ڈاکٹرعافیہ کے تعلق کا ایک پہلو ان حقائق کے باوجود حیران کن ہے۔
امریکا دنیاکی واحد سپرطاقت ہے اور ڈاکٹرعافیہ صدیقی محض ایک فرد ہیں اور ان کی طاقت کاکوئی موازنہ ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ امریکا کے لیے ہرمرحلے پر یہ ممکن تھا کہ وہ ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو پھلانگ کر کھڑا ہوجائے لیکن امریکا ہرمرحلے پرڈاکٹرعافیہ کے سامنے اس طرح کھڑا ہوگیا جیسے ڈاکٹر عافیہ ایک فرد نہ ہوں امریکا کے مساوی یا اس سے بڑی طاقت ہوں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکا ڈاکٹرعافیہ کے ساتھ کیا کرسکتاتھا؟
امریکا کے حکمران طبقے نے امریکا کو عالم اسلام کے لیے ایک آدم خور مشین بنادیاہے۔ امریکا نے 1990ءکی دہائی میں عراق پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں اور ایک سال میں 10 لاکھ افراد غذا اور دواﺅں کی قلت کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔ ان میں 5 لاکھ بچے بھی شامل تھے۔ لیکن اس صورتحال کا امریکا پر رتی برابر اثر نہ ہوا۔ امریکا نے نائن الیون کے بعد سے اب تک عراق میں6 لاکھ لوگوں کو موت کے منہ میں جانے پر مجبورکردیا۔ مگر اس حقیقت نے امریکا کو چونکایا تک نہیں۔ امریکا 10برسوں میں افغانستان کے اندر ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افغانوں کا خون بہاچکا مگر امریکا اس پر ایک آہ سرد کھینچنے کا بھی روا دارنہیں۔ چنانچہ امریکا اگر ڈاکٹر عافیہ کوگرفتارکرکے شہیدکردیتا تو امریکا کے نزدیک اس کی اہمیت ایک بارپلک جھپکنے کے برابر بھی نہ ہوتی۔ البتہ امریکا کے ہاتھوں ڈاکٹرعافیہ کی شہادت سے ثابت ہوتاہے کہ امریکا کچھ نہ کچھ”حساس“ ہے۔ لیکن امریکا نے ڈاکٹرعافیہ کو شہیدکرنے کے بجائے انہیں ایک بے کنار اذیت میں برسوں سے زندہ رکھاہواہے۔ 
امریکا کے لیے ممکن تھا کہ وہ ڈاکٹرعافیہ کو ”انصاف “فراہم کرے۔ لیکن امریکا نے ڈاکٹرعافیہ کو انصاف بھی فراہم نہ ہونے دیا۔ انہیں جرم ثابت کیے بغیر 86 سال کی سزاسنادی گئی۔ 
امریکا کے لیے ممکن تھا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کو ایک عورت سمجھتے ہوئے انہیں معاف کردے۔ لیکن امریکا نہ ڈاکٹرعافیہ کے لیے ”حساس “ثابت ہوا۔ نہ ”منصف “ ثابت ہوا اور نہ ”معاف کرنے والا“ ثابت ہوا۔ ایک فرد باالخصوص ایک عورت کے لیے وقت کی واحد سپرپاور کی ایسی تنگ دلی حیران کن ہے۔ لیکن اس کی وجوہ ہیں۔ 
مسلم دنیا خواب خرگوش کے مزے لوٹنے والوں کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں شعور ایک بن بلائے مہمان کی طرح ہے جس سے کوئی سیدھے منہ بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ اس دنیا میں عورتیں کیا مرد تک صاحب شعور نہیں ہیں۔ اس منظرنامے میں ڈاکٹر عافیہ عالمی سطح پر برپا نظریاتی کشمکش کے شعور کی علامت بن کر ابھریں۔ امریکا کے لیے ڈاکٹرعافیہ کی شخصیت کا پہلا نا پسندیدہ پہلو یہ ہے۔ امریکا کے لیے ڈاکٹرعافیہ کی شخصیت کا دوسرا ناپسندیدہ زاویہ یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کا شعور صرف شعور نہیں رہ گیا بلکہ اس نے انہیں فکری وعملی مزاحمت پر آمادہ کیا۔ اس منظرنامے میں یہ اندیشہ موجودتھا کہ ڈاکٹر عافیہ مسلم خواتین کے لیے شعور اور مزاحمت کی ایک علامت بن جائیں۔ چنانچہ گربہ کشتن روزاول کے مصداق انہیں مسلم خواتین کے لیے ”نشان عبرت“ بنانے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن ڈاکٹرعافیہ کے خلاف امریکا کے غصے کی اصل بنیاد یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی اعلیٰ تعلیم کا محور امریکا ہے۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے میدان میں جوکارنامے انجام دیے امریکا ان کا مرکزی حوالہ ہے۔ چنانچہ امریکا کے غصے کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ڈاکٹر عافیہ نے امریکا کی طاقت کو اس کے خلاف استعمال کیا۔ اور امریکا سے متاثر اور مرعوب ہونے کے بجائے اس کی مزاحمت کا راستہ اختیارکیا۔ 
بعض لوگوں کو شکایت ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے ڈاکٹرعافیہ کی رہائی کے لیے کچھ نہیںکیا۔ یہ شکایت 100 فیصد درست ہے لیکن اس شکایت کی کوئی اخلاقی اور تاریخی بنیاد موجود نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ ڈاکٹر عافیہ کاکیا جنرل ضیاءالحق کا مقدمہ لڑنے پر بھی آمادہ نہ ہوا ۔ جنرل ضیاءالحق پاکستان کے صدرتھے۔ پاک فوج کے سربراہ تھے۔ ان کے طیارے کو دن دہاڑے تباہ کردیا گیا۔ یہ ایسا کام تھا جو فوج کی اعلیٰ قیادت اور ملک کے خفیہ اداروں کے بعض اہلکاروں کے تعاون کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔ لیکن ریاست پاکستان نے جنرل ضیاءالحق کے حادثے کو ”گودلینے“ سے صاف انکارکردیا اور اس حادثے کی مناسب تحقیق تک نہ ہوسکی۔ جنرل پرویزمشرف نے نائن الیون کے بعد ایک ٹیلی فون کال پرپورا ملک امریکا کے حوالے کردیا اوراعلان کیا کہ انہوں نے کشمیرکازاور ملک کے ایٹمی اثاثوں کا دفاع کرلیاہے۔ لیکن پاکستان کا حکمران طبقہ نہ کشمیرکاز کا دفاع کرسکا اور نہ امریکا کو ایٹمی اثاثوں کے خلاف سازشوں سے روک سکا۔ البتہ یہ ضرور ہواکہ نائن الیون کے بعد ملک کی آزادی مذاق بن گئی۔ ملک کی خودمختاری خیالی شے میں ڈھل گئی۔ملک کا وقاربچوں کا کھیل قرارپایا۔ اس صورتحال کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ خود پاکستان کا دفاع اور تحفظ کرنے میں ناکام ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے طبقے کے بارے میں یہ کہنا کہ اس نے ڈاکٹرعافیہ کے لیے کچھ نہیں کیا کہاں تک معقول بات ہے؟ لیکن سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کی وجہ کیاہے؟۔
غورکیاجائے تو ڈاکٹرعافیہ صدیقی اوران کے متعلقین کی تکلیف بے پناہ ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ انسانوں پر اتناہی بوجھ ڈالتاہے جتنا کہ وہ برداشت کرسکیں۔ اس تکلیف کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان کی جیسی آزمائش ہوتی ہے ویسا ہی اس کا مقام اور مرتبہ ہوتاہے۔ اس تکلیف کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تکلیف دیتاہے اور وہی تکلیف پر صبردیتاہے۔ اللہ تعالیٰ صبر نہ دے تو انسان ایک کانٹے کی چبھن بھی برداشت نہیں کرسکتا اور اللہ تعالیٰ صبر دے تو انسان تکلیف کے سمندرکو جذب کرکے کھڑا ہوجاتاہے اور تاریخ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کہلاتاہے۔

No comments:

Post a Comment