Monday, October 24, 2011

مشرق وسطیٰ میں طاقت کا بندر ناچ

مشرق وسطیٰ کے آمروں کو قدرت نے تیل کی سیّال دولت سے اس قدر مالامال کردیا تھا کہ وہ چاہتے تو اپنے ملکوں کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا کو جنت کا نمونہ بنادیتے۔ ان کی دولت شہزادوں کے ہاتھوں لندن، پیرس اور نیویارک کے بازاروں، سوئٹزرلینڈ کے بینکوں اور یورپ کی جھیلوں، ساحلوں اور عشرت کدوں میں رُلتی اور لُٹتی رہی۔ اس ساری دولت کا محور اپنے لوگوں کو محض اس بنا پر آسودہ، مسرور و مطمئن رکھنا تھا کہ کہیں وہ تنگ آکر انہی پر نہ چڑھ دوڑیں۔ سڑکوں، پلوں، ہسپتالوں، تعلیمی اداروں پر جو بھی رقم خرچ ہوئی اس کا مرکزو محور ان کا شخصی اقتدار تھا۔ وہی اقتدار اور وہی جانِ عزیز جس کے چھن جانے کا لمحہ آیا تو وہ اس شعر کی عملی تصویر بن کر رہ گئے تھے:
وہ زور ور جوان جنہیں کہیے پہاڑ تھے
جب آئی موجِ حادثہ تنکے سے بہہ گئے
ان میں سے بیشتر کا اقتدار سرد جنگ کے بعد بننے والے نقشے کا نتیجہ تھا۔ ان میں جو اشتراکی نظریات سے متاثر تھا وہ روس کے کیمپ میں چلا گیا، اور کوئی اپنے ملکی حالات اور ذہنی سوچ و ساخت کے مطابق امریکا اور یورپی بلاک کا حصہ بن گیا۔ دونوں کیمپ اپنے آقاﺅں کو خوش کرنے میں مگن رہے۔ ایک کیمپ نے اپنے دروازے سوویت یونین کی تیل کمپنیوں پر وا کردیے، تو دوسرا امریکی کمپنیوں پر مرمٹا۔ اپنے علاقے میں مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کا کام ”اسٹیٹس کو“ کا تحفظ تھا، اور اس خطے میں ”اسٹیٹس کو“ کا مطلب اسرائیل کے وجود اور اس کی بقا کی ضمانت اور حفاظت کے سوا کچھ نہ تھا۔ ان کی دوسری ذمہ داری ٹھیکوں اور مراعات کے وقت امریکی اور یورپی کمپنیوں کو ترجیح دینا تھا۔ ان دو کاموں کے عوض وہ اپنے معاشروں میں جو چاہیں کرگزریں۔ مغرب اور مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کے اس تعلق میں جمہوریت کا گزر تھا اور نہ شہری آزادیوں، حقِ رائے دہی، انسانی حقوق کا کوئی معاملہ۔ اس عرصے میں یہ حکمران اپنے اقتدار کے خلاف اُٹھنے والی آوازوں کو اس بے رحمی سے دباتے رہے کہ شاید ہٹلر کی روح بھی شرمندہ ہورہی ہوگی۔ جمہوریت ان کے فرمان کا نام تھا اور حکومت خاندان کا.... انسانی حقوق کا مطلب کچھ بنیادی سہولتوں کی فراہمی تھا اور آزادی شاید ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کو سمجھا گیا تھا، جبکہ اسلام چند دیدہ زیب مساجد کا نام تھا۔ مشرق وسطیٰ کے مسلمان روح اور فکر کی آزادی اور بلند پروازی سے محروم تھے۔
جس معاشرے میں زبان و بیان اور قلم و قرطاس کے حامل سید قطب جیسے بے بدل دانشور کو پھانسی کے پھندے پر لٹکادیا جائے وہاں جلد یا بدیر بندوق کی زبان میں بات کرنے والے اسامہ بن لادن کا اُبھرنا عین تقاضائے فطرت ہوتا ہے۔ عالم عرب کے اشتراکی اور امریکا نواز دونوں طرح کے آمر فطرت کے اسی قانون کی زد میں آگئے۔ انہوں نے مدتوں تک اپنے زیراثر پُرامن اختلاف ِرائے اور دانشورانہ مکالمے کا راستہ ریاستی طاقت کے بل پر روکے رکھا جس کے نتیجے میں وقت اور حالات نے اسامہ بن لادن کی پرورش کی، نائن الیون ہوا اور امریکا نے مشرق وسطیٰ کے ان ازکارِ رفتہ اور کرم خوردہ و سن گزیدہ حکمرانوں کو زائد المیعاد ہوجانے والی کسی دوائی کی طرح ٹھکانے لگاکر ملکوں ملکوں جمہوریت کی پھیری لگانے کا راستہ اپنالیا۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا، دنیائے عرب کے قطب مینار ایک ایک کرکے زمیں بوس ہوتے چلے گئے۔ حد تو یہ کہ جن لوگوں کو اچھی زندگی دے کر مطمئن رکھنے کی کوشش میں ان حکمرانوں نے ساری توانائی صرف کی، جب جمہوریت اور آزادیوں کی صورت میں اس سے زیادہ اچھی زندگی کا سراب دکھائی دیا تو وہ ان کے مجسموں کو پیروں کی ٹھوکروں پر رکھتے ہوئے دوسری طرف چل دیے۔ اور یہ حکمران معمر قذافی کی طرح حیران و ششدر آخری وقت میں یہ پوچھتے پائے گئے کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ مجھے کیوں مار رہے ہو؟
بے مقصد اقتدار اور سیاست کا یہی انجام ہوتا ہے۔اگر یہ آمر اپنے اقتدار کا دورانیہ ہی کم رکھتے تو شاید عزت کے ساتھ چار دن گزار کر رخصت ہوتے۔ لیکن یہ اپنی آنکھوں میںنسل در نسل حکمرانی کے خواب سجائے بیٹھے تھے۔اگر پاکستان کے لوگ اپنے حکمرانوں سے اکتا کر سال ڈیڑھ سال بعد نئے چہرے کی خواہش کرنے لگتے ہیں تو لیبیا کے عوام کے اس حق سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ وہ بیالیس سالہ اقتدار کے خلاف اُٹھ کھڑے نہ ہوں! ان لوگوں کے حوصلوں اور صبر و ہمت کو داد ہی دی جاسکتی ہے جن کے دادا حضور نے بیالیس برس پہلے برطانیہ پلٹ دھان پان سے کرنل قذافی کے اقتدار سنبھالنے پر جشن منایا تھا، آج ان کے پوتے یعنی تیسری نسل اس جشن کو فسخ کرکے قذافی کی رخصتی پر ایک نیا جشن منارہی ہے۔ سو پاکستان کے حوالے سے قذافی اسٹیڈیم، قذافی چوک اور قذافی فاﺅنڈیشن والے معمر قذافی بھی رخصت ہوگئے۔قذافی سمیت مشرق وسطیٰ کے ان حکمرانوں کے نامہ ¿ عمل میں مسلم دنیا کے حوالے سے کوئی کارنامہ ہو تو انہیں اس کی نسبت سے یاد رکھا جائے۔
بستر مرگ پر لیٹا حسنی مبارک ہو، یا بے گورو کفن ایک تختے پر پڑی معمر قذافی کی لاش.... یہ سب کچھ مغربی تہذیب کو کچھ اور برہنہ کرگیا۔ ایک مدت تک مشرق وسطیٰ میں آمریت کا سرپرست مغرب اب ان ملکوں میں جمہوریت کا سودا بیچنے چلا ہے۔حقیقتاً اسے آمریت سے دلچسپی تھی نہ جمہوریت کا غم.... اس کی دلچسی کا سارا محور تیل کے ذخائر تھے، یا پھر مشرق وسطیٰ کے لوگوں میں اُبھرنے والے شعور ِفردا کا خوف۔ مغرب نے دہائیوں تک اسی شعور کو دبائے اور سُلائے رکھنے کے لیے پہلے آمریت کا سہارا لیا، اب جمہوریت کا انجکشن لگاکر یہی کام کیا جائے گا۔ مگر یہ کھیل کب تک چلے گا؟ کھیل ہی کھیل میں ایران جیسا تابع مہمل ملک امریکا کے ہاتھوں سے نکل گیا تھا، پاکستان جیسا کاسہ لیس ملک بند مٹھی سے ریت کی مانند پھسلتا جارہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کا نوجوان کب تک بندر ناچ کا حصہ بن کر رہ سکتا ہے؟ شعور کی لہروں کو ہمیشہ کے لیے قید نہیں رکھا جاسکتا۔ بیتے ہوئے کل کے آمروں کے مامے آنے والے کل جمہوریت کے چاچوں کے لبادے میں خود کو کب تک چھپا پائیں گے؟ کبھی تو عرب نوجوانوں کا شعور انہیں جا لے گا!

No comments:

Post a Comment