پاکستان کی سیاست میں ”مظلومیت“ ایک فلسفہ اور ایک نظام بن گئی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بھٹو صاحب سے آصف زرداری تک مظلومیت اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے مظلومیت کے فلسفے میں کوئی جان ہے نہ مظلومیت کے نظام میں کوئی کشش اور معنویت ہے۔
پاکستان میں مظلومیت کی سیاست کی ابتداءذوالفقار علی بھٹوسے ہوئی۔ بھٹو صاحب سقوط ڈھاکا کے بعد اقتدار میں آئے تھے اور سقوط ڈھاکا نے پاکستان کی فوج بالخصوص جرنیلوں کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا تھا۔ اس لیے کہ ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے بھارت کے آگے ہتھیار ڈالے تھے چنانچہ جرنیل پاکستان کی سیاست میں مداخلت کے قابل نہیں رہ گئے تھے۔ اس کے باوجود بھٹو صاحب فوج کے حوالے سے انتہائی محتاط تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جنرل ضیاءالحق کو فوج کے سربراہ مقرر کرنے سے قبل اعلیٰ فوجی افسروں کی حد درجہ چھان پھٹک کی گئی تھی۔ اس چھان پھٹک سے یہ حقیقت سامنے آئی تھی کہ ضیاءالحق اگرچہ جونیئر افسر ہیں مگر ان کا رجحان مذہب کی طرف زیادہ ہے اور ان کے سیاسی عزائم سرے سے ہیں ہی نہیں۔ چنانچہ ان سے بھٹو صاحب کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ تاہم بھٹو صاحب نے اتنی چھان پھٹک کے بعد جس ضیاءالحق کو فوج کا سربراہ بنایا تھا۔ اُسی ضیاءالحق نے موقع ملتے ہی بھٹو صاحب کا تختہ اُلٹ دیا۔ بدقسمتی سے تختہ الٹنے کا ”موقع“ بھی بھٹو صاحب نے خود جنرل ضیاءالحق کو فراہم کیا۔
بھٹو صاحب مقبول تھے اور اگر وہ انتخابات میں دھاندلی نہ کراتے تو بھی وہی اکثریت حاصل کرتے لیکن ان کے Total, full اور Complete اقتدار کے فلسفے نے انہیں دھاندلی کی جانب راغب کیا۔ اس دھاندلی نے ان کے خلاف حزب اختلاف کو متحد‘ منظم اور متحرک کیا۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ بھٹو صاحب نے حزب اختلاف کی تحریک کی طاقت اور اس کے مضمرات کا بروقت اندازہ نہ کیا اور ان کو جب اس کا اندازہ ہوا تو بہت دیر ہوچکی تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھٹو صاحب کی مظلومیت میں افسانہ زیادہ ہے حقیقت کم ہے۔
بھٹو صاحب کی پھانسی پاکستان کی سیاست کا ایک المیہ تھی۔ لیکن اس المیے نے بھٹو خاندان اور پیپلزپارٹی کی مظلومیت کی سیاست کو مزید گہرا کردیا۔ بھٹو صاحب جیسے کچھ بھی تھے فکر وخیال کے آدمی تھے۔ وہ اپنی خطابت کو قومی یا علاقائی اور بین الاقوامی رنگ دینے کے لیے کوشاں رہتے تھے مگر ان کے سیاسی وارثوں نے بھٹو صاحب کی لاش کو کافی سمجھ لیا اور ان کے لیے فکر وخیال‘ نظر اور نظریات بالکل ہی غیرضروری ہوگئے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بھٹو صاحب کے سیاسی وارثوں نے ان کی لاش ہی کو فکر بنا لیا۔ اسی کو فلسفہ سمجھ لیا۔ اسی کو پارٹی قرار دے دیا۔ اسی کو نعرے میں ڈھال لیا۔ مظلومیت کی اس سیاست سے پیپلزپارٹی کو انتخابی فائدہ ہوا۔ لیکن ملک وقوم کو اس سے فائدے کے بجائے اُلٹا نقصان ہوا۔ پیپلزپارٹی کے متاثرین کا ذہن اور نفسیات مظلومیت پر مرتکز ہو کر رہ گیا اور اس میں ارتقا کا امکان معدوم ہوگیا۔
بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت برطرف ہوئی تو پیپلزپارٹی ایک بار پھر مظلومیت کی چادر اوڑھ کر کھڑی ہوگئی اور اس نے اسٹیبلشمنٹ کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔ لیکن وہ ایسا کرتے ہوئے یہ بھول گئی کہ بے نظیر بھٹو نے اقتدار میں آنے کے لیے جنرل مرزا اسلم بیگ کے سات مطالبات تسلیم کیے تھے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بے نظیر بھٹو کی مظلومیت میں المیہ پہلو نہ ہونے کے برابر تھا۔ وہ جس طرح اقتدار میں آئی تھیں اسی طرح اقتدار سے رخصت ہوگئی تھیں۔
بے نظیر بھٹو کی حادثاتی موت نے پیپلزپارٹی مظلومیت کی سیاست کو ایک بار پھر چار چاند لگا دیے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ آصف زرداری جو عام حالات میں خود پیپلزپارٹی کے لیے قابل قبول نہ ہوتے پیپلزپارٹی سے اسٹیبلشمنٹ تک ہر ایک کے لیے قابل قبول ہوگئے۔ تاہم مظلومیت کی سیاست کے اس ”نئے عہد“ نے پیپلزپارٹی کی حکومت کرنے کی رہی سہی اہلیت بھی چھین لی۔ سندھ میں ایک بار نہیں دوبار سیلاب آیا مگر دونوں مرتبہ پیپلزپارٹی اپنی سیاسی طاقت کے مرکز میں بھی عوام کی خدمت نہ کرسکی۔ اور اب پیپلزپارٹی ایک بار پھر مظلومیت کے لباس کے کالے پن کو مزید بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وزیراعظم گیلانی نے ایک انٹرویو میں فرمایا ہے کہ فوج کے سربراہ جنرل کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا نے میمو کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جو بیان ریکارڈ کرایا ہے اس کے لیے متعلقہ مجاز اتھارٹی سے اجازت نہیں لی گئی۔ اس کا مطلب واضح ہے۔ آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی اقتدار سے اپنی ممکنہ رخصتی کے واقع کو سازش بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن مظلومیت کی سیاست صرف پیپلزپارٹی کا معاملہ نہیں۔
میاں نواز شریف بھی گزشتہ دس بارہ سال سے مظلومیت ہی کی سیاست کررہے ہیں۔ بھٹو صاحب کی طرح میاں صاحب نے بھی بہت دیکھ بھال کر فوج کے سربراہ کا تقرر کیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف بھی جنرل ضیاءالحق کی طرح جونیئر تھے۔ مگر میاں صاحب کو اطلاع دی گئی تھی کہ سینئر افسروں میں سب ہی ان کے لیے خطرناک ہوسکتے ہیں۔ البتہ پرویز مشرف چونکہ مہاجر ہیں اس لیے ان کی فوج میں ”لابی“ نہیں ہے اور وہ میاں صاحب کے لیے ضرر رساں نہیں ہوں گے ۔ مگر بے ضرر سمجھے گئے۔ جنرل پرویزمشرف نے میاں صاحب کو اقتدار سے نکال باہر کیا۔ اس کے ذمہ دار اگر جنرل پرویز تھے تو میاں صاحب بھی اس ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں تھے۔ میاں صاحب کے پاس ”بھاری مینڈیٹ“ تھا مگر اس کے باوجود وہ اپنی برطرفی کی عوامی سطح پر مزاحمت نہ کرسکے۔ اس ناکامی کے ذمہ دار بھی خود میاں صاحب ہی تھے۔ میاں صاحب کو سعودی عرب جنرل پرویز نے نہیں بھیجا تھا۔ میاں صاحب ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب گئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اور ان کے اہل خانہ نے مظلومیت کی جو سیاست کی اس کی اخلاقی بنیاد موجود نہ تھی۔ بلاشبہ اس سے میاں صاحب کو سیاسی فائدہ ہوا لیکن اس سے ملک وقوم کی سیاسی تعلیم وتربیت میں کوئی مدد ملی نہ اس سے قوم کے ذہنی ارتقا کی راہ ہموار ہوئی۔
الطاف حسین اور ان کی تنظیم سیاسی مظلومیت کی ایک اور بڑی مثال ہیں۔ ایم کیو ایم کے خلاف جو فوجی آپریشن ہوا اس کا جواز خود ایم کیو ایم نے تخلیق کیا۔ ایم کیو ایم نے کراچی میں طاقت کے استعمال کی ایسی مثالیں قائم کیں جن کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ایم کیو ایم نے تشدد کو اصول اور قتل کو معمول بنا دیا۔ اتفاق سے میجرکلیم بھی اس کی زد میں آگئے۔ جنرل آصف نواز نے اسے فوج کے ادارے پر حملہ بآور کیا اور ایم کیو ایم کے خلاف اس آپریشن کی راہ ہموار ہوئی جس نے چند ہی ماہ میں ظالم کو مظلوم بنا دیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ایم کیو ایم نے اس آپریشن سے نمودار ہونے والی مظلومیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اسی سیاست سے ایم کیو ایم کو بہت فائدہ ہوا لیکن شہری سندھ کے لوگوں کے فکر ونظر پر اس سیاست سے کئی پردے پڑگئے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ مظلومیت کی سیاست سے ہماری قومی زندگی کو کیا نقصان ہوا۔
اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ مظلومیت کی سیاست نے قومی زندگی میں افراد اور اداروں کے درمیان تعلقات کو کبھی مثبت بنیادوں پر استوار نہیں ہونے دیا۔ مظلومیت کی سیاست نے عوام میں ردعمل کی سطحی نفسیات پیدا کی اور اسے پروان چڑھایا۔ اس سیاست نے قومی زندگی میں اجتماعی جذبات کو جذباتیت کی دلدل میں تبدیل کردیا اور ایک بڑی قومی طاقت کو کمزوری بنادیا۔
پاکستان میں مظلومیت کی سیاست کی ابتداءذوالفقار علی بھٹوسے ہوئی۔ بھٹو صاحب سقوط ڈھاکا کے بعد اقتدار میں آئے تھے اور سقوط ڈھاکا نے پاکستان کی فوج بالخصوص جرنیلوں کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا تھا۔ اس لیے کہ ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے بھارت کے آگے ہتھیار ڈالے تھے چنانچہ جرنیل پاکستان کی سیاست میں مداخلت کے قابل نہیں رہ گئے تھے۔ اس کے باوجود بھٹو صاحب فوج کے حوالے سے انتہائی محتاط تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جنرل ضیاءالحق کو فوج کے سربراہ مقرر کرنے سے قبل اعلیٰ فوجی افسروں کی حد درجہ چھان پھٹک کی گئی تھی۔ اس چھان پھٹک سے یہ حقیقت سامنے آئی تھی کہ ضیاءالحق اگرچہ جونیئر افسر ہیں مگر ان کا رجحان مذہب کی طرف زیادہ ہے اور ان کے سیاسی عزائم سرے سے ہیں ہی نہیں۔ چنانچہ ان سے بھٹو صاحب کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ تاہم بھٹو صاحب نے اتنی چھان پھٹک کے بعد جس ضیاءالحق کو فوج کا سربراہ بنایا تھا۔ اُسی ضیاءالحق نے موقع ملتے ہی بھٹو صاحب کا تختہ اُلٹ دیا۔ بدقسمتی سے تختہ الٹنے کا ”موقع“ بھی بھٹو صاحب نے خود جنرل ضیاءالحق کو فراہم کیا۔
بھٹو صاحب مقبول تھے اور اگر وہ انتخابات میں دھاندلی نہ کراتے تو بھی وہی اکثریت حاصل کرتے لیکن ان کے Total, full اور Complete اقتدار کے فلسفے نے انہیں دھاندلی کی جانب راغب کیا۔ اس دھاندلی نے ان کے خلاف حزب اختلاف کو متحد‘ منظم اور متحرک کیا۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ بھٹو صاحب نے حزب اختلاف کی تحریک کی طاقت اور اس کے مضمرات کا بروقت اندازہ نہ کیا اور ان کو جب اس کا اندازہ ہوا تو بہت دیر ہوچکی تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھٹو صاحب کی مظلومیت میں افسانہ زیادہ ہے حقیقت کم ہے۔
بھٹو صاحب کی پھانسی پاکستان کی سیاست کا ایک المیہ تھی۔ لیکن اس المیے نے بھٹو خاندان اور پیپلزپارٹی کی مظلومیت کی سیاست کو مزید گہرا کردیا۔ بھٹو صاحب جیسے کچھ بھی تھے فکر وخیال کے آدمی تھے۔ وہ اپنی خطابت کو قومی یا علاقائی اور بین الاقوامی رنگ دینے کے لیے کوشاں رہتے تھے مگر ان کے سیاسی وارثوں نے بھٹو صاحب کی لاش کو کافی سمجھ لیا اور ان کے لیے فکر وخیال‘ نظر اور نظریات بالکل ہی غیرضروری ہوگئے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بھٹو صاحب کے سیاسی وارثوں نے ان کی لاش ہی کو فکر بنا لیا۔ اسی کو فلسفہ سمجھ لیا۔ اسی کو پارٹی قرار دے دیا۔ اسی کو نعرے میں ڈھال لیا۔ مظلومیت کی اس سیاست سے پیپلزپارٹی کو انتخابی فائدہ ہوا۔ لیکن ملک وقوم کو اس سے فائدے کے بجائے اُلٹا نقصان ہوا۔ پیپلزپارٹی کے متاثرین کا ذہن اور نفسیات مظلومیت پر مرتکز ہو کر رہ گیا اور اس میں ارتقا کا امکان معدوم ہوگیا۔
بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت برطرف ہوئی تو پیپلزپارٹی ایک بار پھر مظلومیت کی چادر اوڑھ کر کھڑی ہوگئی اور اس نے اسٹیبلشمنٹ کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔ لیکن وہ ایسا کرتے ہوئے یہ بھول گئی کہ بے نظیر بھٹو نے اقتدار میں آنے کے لیے جنرل مرزا اسلم بیگ کے سات مطالبات تسلیم کیے تھے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بے نظیر بھٹو کی مظلومیت میں المیہ پہلو نہ ہونے کے برابر تھا۔ وہ جس طرح اقتدار میں آئی تھیں اسی طرح اقتدار سے رخصت ہوگئی تھیں۔
بے نظیر بھٹو کی حادثاتی موت نے پیپلزپارٹی مظلومیت کی سیاست کو ایک بار پھر چار چاند لگا دیے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ آصف زرداری جو عام حالات میں خود پیپلزپارٹی کے لیے قابل قبول نہ ہوتے پیپلزپارٹی سے اسٹیبلشمنٹ تک ہر ایک کے لیے قابل قبول ہوگئے۔ تاہم مظلومیت کی سیاست کے اس ”نئے عہد“ نے پیپلزپارٹی کی حکومت کرنے کی رہی سہی اہلیت بھی چھین لی۔ سندھ میں ایک بار نہیں دوبار سیلاب آیا مگر دونوں مرتبہ پیپلزپارٹی اپنی سیاسی طاقت کے مرکز میں بھی عوام کی خدمت نہ کرسکی۔ اور اب پیپلزپارٹی ایک بار پھر مظلومیت کے لباس کے کالے پن کو مزید بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وزیراعظم گیلانی نے ایک انٹرویو میں فرمایا ہے کہ فوج کے سربراہ جنرل کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا نے میمو کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جو بیان ریکارڈ کرایا ہے اس کے لیے متعلقہ مجاز اتھارٹی سے اجازت نہیں لی گئی۔ اس کا مطلب واضح ہے۔ آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی اقتدار سے اپنی ممکنہ رخصتی کے واقع کو سازش بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن مظلومیت کی سیاست صرف پیپلزپارٹی کا معاملہ نہیں۔
میاں نواز شریف بھی گزشتہ دس بارہ سال سے مظلومیت ہی کی سیاست کررہے ہیں۔ بھٹو صاحب کی طرح میاں صاحب نے بھی بہت دیکھ بھال کر فوج کے سربراہ کا تقرر کیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف بھی جنرل ضیاءالحق کی طرح جونیئر تھے۔ مگر میاں صاحب کو اطلاع دی گئی تھی کہ سینئر افسروں میں سب ہی ان کے لیے خطرناک ہوسکتے ہیں۔ البتہ پرویز مشرف چونکہ مہاجر ہیں اس لیے ان کی فوج میں ”لابی“ نہیں ہے اور وہ میاں صاحب کے لیے ضرر رساں نہیں ہوں گے ۔ مگر بے ضرر سمجھے گئے۔ جنرل پرویزمشرف نے میاں صاحب کو اقتدار سے نکال باہر کیا۔ اس کے ذمہ دار اگر جنرل پرویز تھے تو میاں صاحب بھی اس ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں تھے۔ میاں صاحب کے پاس ”بھاری مینڈیٹ“ تھا مگر اس کے باوجود وہ اپنی برطرفی کی عوامی سطح پر مزاحمت نہ کرسکے۔ اس ناکامی کے ذمہ دار بھی خود میاں صاحب ہی تھے۔ میاں صاحب کو سعودی عرب جنرل پرویز نے نہیں بھیجا تھا۔ میاں صاحب ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب گئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اور ان کے اہل خانہ نے مظلومیت کی جو سیاست کی اس کی اخلاقی بنیاد موجود نہ تھی۔ بلاشبہ اس سے میاں صاحب کو سیاسی فائدہ ہوا لیکن اس سے ملک وقوم کی سیاسی تعلیم وتربیت میں کوئی مدد ملی نہ اس سے قوم کے ذہنی ارتقا کی راہ ہموار ہوئی۔
الطاف حسین اور ان کی تنظیم سیاسی مظلومیت کی ایک اور بڑی مثال ہیں۔ ایم کیو ایم کے خلاف جو فوجی آپریشن ہوا اس کا جواز خود ایم کیو ایم نے تخلیق کیا۔ ایم کیو ایم نے کراچی میں طاقت کے استعمال کی ایسی مثالیں قائم کیں جن کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ایم کیو ایم نے تشدد کو اصول اور قتل کو معمول بنا دیا۔ اتفاق سے میجرکلیم بھی اس کی زد میں آگئے۔ جنرل آصف نواز نے اسے فوج کے ادارے پر حملہ بآور کیا اور ایم کیو ایم کے خلاف اس آپریشن کی راہ ہموار ہوئی جس نے چند ہی ماہ میں ظالم کو مظلوم بنا دیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ایم کیو ایم نے اس آپریشن سے نمودار ہونے والی مظلومیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اسی سیاست سے ایم کیو ایم کو بہت فائدہ ہوا لیکن شہری سندھ کے لوگوں کے فکر ونظر پر اس سیاست سے کئی پردے پڑگئے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ مظلومیت کی سیاست سے ہماری قومی زندگی کو کیا نقصان ہوا۔
اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ مظلومیت کی سیاست نے قومی زندگی میں افراد اور اداروں کے درمیان تعلقات کو کبھی مثبت بنیادوں پر استوار نہیں ہونے دیا۔ مظلومیت کی سیاست نے عوام میں ردعمل کی سطحی نفسیات پیدا کی اور اسے پروان چڑھایا۔ اس سیاست نے قومی زندگی میں اجتماعی جذبات کو جذباتیت کی دلدل میں تبدیل کردیا اور ایک بڑی قومی طاقت کو کمزوری بنادیا۔
No comments:
Post a Comment