Saturday, January 14, 2012

گریہ

کسی زمانے میں بادشاہوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ رویا نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رونے کو غیر مردانہ کام سمجھا جاتا تھا اور بادشاہ ”مردانگی“ کی انتہا اور اس کا کمال سمجھے جاتے تھی، چنانچہ بادشاہ کیسے رو سکتے تھی! فی زمانہ بادشاہ تو نہیں ہوتے لیکن مردوں کے بارے میں یہ تصور آج بھی موجود ہے کہ مردوں کو رونا نہیں چاہیے کیونکہ رونا یا تو بچوں کا کام ہے یا پھر عورتوں کا۔ لیکن یہ تصور جتنا عام ہے اس سے زیادہ غلط ہے۔
اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم افضل البشر ہی نہیں افضل الانبیا تھی، لیکن آپ گریہ کرنے والے تھے۔ آپ رات کے وقت نفلی عبادت کے لیے کھڑے ہوتے تو آپ پر ایسا گریہ طاری ہوتا کہ ضبط کی شدت سے آپ کے سینے سے ایسی آوازیں آنے لگتیں جیسے کہ ہانڈی کے ابلنے سے آتی ہیں۔ آپ کے فرزند حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تو آپ کا چہرہ ¿ انور شدتِ جذبات سے سرخ ہوگیا اور آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ آپ کے ایک ارشاد کا مفہوم ہے کہ آنسو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور آنسووں کے ساتھ اگر چیخنا چلاّنا ہو تو وہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس کی وجہ ہے۔ آنسو صبر اور ضبط کی علامت ہیں، اور یہ دونوں چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس چیخنا چلاّنا صبر اور ضبط کی ضد ہے۔ آنسو انسانی وجود کے اظہار کی وہ صورت ہیں جس میں انا کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ تاہم چیخنا چلاّنا انانیت کے اظہار کی ایک صورت ہی، اور انانیت شیطان کی شخصیت کا مرکزی حوالہ ہے۔ یہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ مبارک سے اردو کے دو لفظوں کی معنویت بھی عیاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ ہماری زبان میںآہ و زاری کے لیے ”گریے“ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہی، اور ”رونے“ کا لفظ بھی۔ غور کیا جائے تو ”گریہ“ رونے کی وہ صورت ہے جس میں انسان کی آنکھوں سے صرف آنسو رواں ہوتے ہیں، ان کے ساتھ چیخنا چلاّنا نہیں ہوتا۔ اور ”رونا“ وہ کیفیت ہے جس میں چیخنے چلاّنے کا عمل غالب ہوتا ہے۔ ہماری تہذیب میں گریہ مطلوب ہے اور رونا نامطلوب۔ گریہ محمود ہے اور رونا نامحمود۔ تاہم ہماری شاعری میں بسا اوقات رونے کا لفظ بھی گریے کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ مثلا میر کا شعر ہے:
رونے نے رات اُس کے جو تاثیر کچھ نہ کی
ناچار میر منڈکری سی مار سوگیا اس شعر میں رونے کے لفظ میں گریے کی ”کیفیت“ پائی جاتی ہے اس لیے ہم میر کے رونے کو بھی گریہ ہی کہیں گے۔ ایک اور شعر ہے:
تھمتے تھمتے تھمیں گے آنسو
رونا ہے یہ ہنسی نہیں ہے
یہاں بھی ”رونے“ میں ”گریے“ کی کیفیت نمایاں ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ لفظ کے معنی کے تعین میں لفظ کا سایہ یا اس کا Shade اور اس میں مضمر کیفیت بھی اہم کردار ادا کرتی ہی، لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ہماری تہذیب میں گریے کو کیوں اہمیت حاصل ہے؟
اس کا ایک جواب تو یہی ہے کہ جو چیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہو اس کو کسی اضافی دلیل کی ضرورت نہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے جس کا حوالہ گزشتہ سطور میں آچکا، یہ بھی ظاہر ہے کہ گریہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا عکس ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل انسان ہیں اور ان کے بارے میں روایات میں آیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی جگہ حضرت ابوبکرؓ کو نماز کے لیے امام مقرر فرمایا تو حضرت عائشہؓ نے کہا کہ آپ انہیں کیوں امام مقرر کرتے ہیں، ان کا حال تو یہ ہے کہ وہ جب تلاوت کرتے ہیں تو بہت گریہ کرتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ کے بارے میں مذکور ہے کہ وہ رات گئے بستر پر لیٹ کر خدا کو یاد کرتے اور گریہ کرتی، لیکن ان کے برابر میں لیٹی ہوئی ان کی بیویوں کو بھی معلوم نہ ہوپاتا کہ وہ رو رہے ہیں، لیکن ہماری تہذیب میں گریے کی بنیادی اہمیت اس شعر میں بیان ہوئی ہے:
واعظ کسے ڈراوے ہے یومِ حساب سے
گریہ مرا تو نامہ ¿ اعمال دھو گیا
ہماری غزلیہ شاعری میں ”واعظ“ ظاہر پرست شخص کی علامت ہے۔ ایسے ظاہر پرست شخص کی علامت، جو باطن اور اس کی کیفیات کی طرف دیکھتا ہی نہیں۔ وہ بس ظاہری اعمال کو دیکھتا رہتا ہے اور انہی کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے کہ کون اچھا ہے اور کون برا۔ جنت کس کے لیے ہوگی اور جہنم کس کے لیے۔ اس شعر کے تناظر میں دیکھا جائے تو گریہ ایک ایسا باطنی عمل ہے جس میں انسان کا پورا وجود مجسم دعا بن جاتا ہے۔ ایسی دعا جو ماورائے لفظ ہی، جس کے آگے دنیا کی تمام زبانوں کی لغتیں ہیچ ہیں۔ گریہ بندے کو خدا کے روبرو اس طرح ”حاضر“ کردیتا ہے کہ کوئی حجاب ان کے درمیان حائل نہیں ہوتا۔ گریے کا ایک آنسو توبہ کے لیے کی جانے والی تمام دعاوں پر بھاری ہے۔ گریہ گناہوں کو اس طرح مٹاتا ہے کہ ان کا نام و نشان باقی نہیں رہتا۔ مگر یہ بات واعظوں یا ظاہر پرستوں کو نظر نہیں آتی اور وہ گناہ گاروں کو یوم حساب سے ڈراتے رہتے ہیں۔ انہیں یہ تک یاد نہیں رہتا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی یاد میں بہنے والا ایک آنسو اتنا پسند ہے کہ یہ آنسو جس چہرے پر بہہ جاتا ہے وہ چہرہ جہنم کے لیے حرام ہوجاتا ہے۔
گریہ محبت کا سب سے بڑا اظہار اور سب سے خوب صورت اشتہار ہے، بقول شاعر:
محبت سے اگر پیارے تعلق کچھ نہیں اس کا
تو تیری آنکھ میں آنسو نہیں ہے صرف پانی ہے
کہنے کو آنسو پانی ہی ہے لیکن یہ محبت ہے جو پانی کو آنسو بناتی ہے۔ محبت موجود نہ ہو تو آنسو کہلانے والی شے پانی بن جاتی ہے۔ محبت کی ایک صفت وارفتگی ہی، اور وارفتگی اکثر آنسووں کی زبان میں کلام کرتی ہے۔ محبت کا ایک پہلو یہ ہے کہ محبت دکھ دیتی ہی، اور دکھ آنسووں کے زم زم سے روح اور دل کو غسل کراتا ہے۔ محبت بسا اوقات شوق کا جشن بن جاتی ہے اور اس جشن کے لیے آنسووں کا چراغاں پسند کرتی ہے۔ محبت محبوب کو اتنا اہم بنادیتی ہے کہ انسان خود اپنے لیے غیر بن جاتا ہے۔ یہ بے بسی کی انتہا ہے اور اس سے ایک ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کے لیے آنسو حروفِ تہجی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
انسان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ ”بڑا“ ہوجاتا ہے۔ بڑا ہونے میں کوئی برائی نہیں، بلکہ بڑا ہونا مطلوب ہی، لیکن انسانوں کی عظیم اکثریت کی نمو یا Growth منفی ہوتی ہے۔ انسان کی عمر جیسے جیسے بڑھتی ہے وہ خودپسند ہوجاتا ہے۔ اسے اپنی شخصیت کے بت سے محبت ہوجاتی ہے۔ وہ ایسی نفسیات پیدا کرلیتا ہے جو انانیت کے سہارے کام کرتی ہی، یا انانیت سے Govern ہوتی ہے۔ وہ ایسی سماجیات کا حصار پیدا کرلیتا ہے جس میں سماجی مقام اور مرتبے کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہی، وہ ایسی معاشیات کو پوجنے لگتا ہے جس میں دولت ہی سب کچھ ہوتی ہی، اس کا علم اسے تکبر سکھاتا ہی، یہاں تک کہ اس کا تقویٰ بھی احساسِ برتری میں مبتلا کردیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کی وہ معصومیت زائل ہوجاتی ہے یا بری طرح مجروح ہوجاتی ہے جو اس کی ذات کا جوہر ہی، جو اس کی اصل ہے۔ گریہ اگر گریہ ہی ہو، رونا نہ ہو تو اس کا کمال یہ ہے کہ وہ چند لمحوں میں انسان کے تمام مذکورہ بتوں کو پاش پاش کرکے انسان کو اس کی اصل کی طرف لوٹا دیتا ہے۔ بدقسمتی سے اکثر لوگ اصل کی طرف واپسی کے اس عمل کو پہچان نہیں پاتے اور تھوڑی ہی دیر یا چند دنوں میں پھر اپنی منفی نمو کی راہ پر چلنے لگتے ہیں اور اپنی سماجیات اور معاشیات کے بتوں کی پوجا میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
گریے کے حوالے سے فراق نے بھی ایک خوبصورت شعر کہہ رکھا ہے۔ انہوں نے کہا ہے:
فرصت ضروری کاموں سے پاو تو رو بھی لو
اے اہلِ دل یہ کارِ عبث بھی کیے چلو
انسان کی ایک مشکل یہ ہے کہ اس کی تمام سرگرمیوں کا محور اس کا ”حال“ بن جاتا ہے۔ یہاں تک کہ انسان حال کا اسیر ہوجاتا ہے اور وہ ماضی اور اس کی یادوں کے سرمائے سے کٹ جاتا ہے۔ فراق کے اس شعر میں اہلِ دل کو رونے کے مشورے کا مفہوم یہ ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے حال کے قید خانے سے نکل کر ماضی کو یاد کرلو، اس لیے کہ ماضی کو یاد کرنے سے جو آنسووں کا خزانہ تمہیں میسر آئے گا وہ تمہارے حال کو ماضی سے مربوط کرکے ان کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو پاٹ دے گا۔ اس کے نتیجے میں تمہاری پوری شخصیت متوازن ہوجائے گی اور تمہارے لیے تمہارا ماضی، حال اور مستقبل ایک اکائی بن جائے گا۔ ایسی اکائی جس کے بغیر انسان نہ انسان کہلانے کا مستحق بنتا ہی، نہ اس کے بغیر اس کی مثبت نشوونما ممکن ہوپاتی ہے۔

No comments:

Post a Comment