مقدمات اس طرح بنائے گئے ہیں کہ 1971ئ میں مشرقی پاکستان پر بھارت کی فوج کشی کے دوران اسے بنگلہ دیش بنانے کی کوشش کرنے پر مولانا دلاور حسین سعیدی کو جنگی جرائم کے الزام میں سزا سنائی گئی ہے۔ اگرچہ ان پر عدالت کوئی الزام ثابت نہیں کرسکی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بھارت نے مشرقی پاکستان پر فوج کشی کی تھی کیا اس وقت بھارتی فوج پر دراندازی کا کوئی الزام لگا تھا۔ ممکن ہے مولانا سعیدی پر یہ الزام ثابت ہوجائے کہ انہوں نے پاکستان کے حق میں مہم چلائی تھی… تو اس پر انہیں سزا تو نہیں ہوسکتی۔ 16 دسمبر 1971 کو بھارتی جنرل اروڑا کے سامنے جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے تک اور اس کے بعد بھی اس وقت تک پاکستان وجود میں تھا جب تک بنگلہ دیش کے قیام کا باقاعدہ اعلان نہیں ہوگیا تھا۔
بنگلہ دیش کی موجودہ قیادت میں صرف حسینہ واجد ہی نہیں بہت سے ایسے لوگ بھی حیات ہیں جن کے خلاف حکومت پاکستان جنگی جرائم میں مقدمہ چلا سکتی ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے جو کچھ ہوا وہ پاکستان میں ہوا تھا بنگلہ دیش میں نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان تو شاید مذمت کا ایک لفظ بھی نہیں لکھ سکے گی سفارتی مجبوریاں آڑے آجائیں گی لیکن 16 دسمبر اور مارچ 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے مشرقی پاکستان میں پاکستان کے حامیوں کا اغوائ، قتل اور ان پر تشدد بھارتی فوج کے ساتھ مل کر پاکستانیوں پر حملے کروانا ان کی نشاندہی کرنا اور املاک لوٹنا یہ سب جنگی جرائم میں شامل ہیں اور پاکستان پر بھارتی حملے سے لے کر بنگلہ دیش کے قیام تک ہونے والے تمام واقعات جنگی جرائم میں شامل ہیں جن کا بیشتر حصہ مکتی باہنی اور بھارتی فوج کے ذمہ ہے۔ مقدمہ چلنا چاہیے تو بھارتی فوج اور مکتی باہنی یا حسینہ واجد کے خلاف چلنا چاہیے۔ حسینہ واجد کے باپ نے جو جنگی جرائم کیے اور جو مظالم پاکستانیوں کے ساتھ کیے ان کا مقدمہ کہاں چلے گا… ہمارے خیال میں پاکستان میں اگر بال ٹھاکرے جیسا کوئی لیڈر ہوتا تو آج بنگلہ دیش سفارت خانے پر حملہ ہوچکا ہوتا۔ ایڈ وانی جیسا کوئی انتہا پسند ہوتا تو حسینہ واجد شیخ مجیب اور عوامی لیگ کے دیگر رہنماﺅں کے خلاف پاکستانی عدالتوں میں بغاوت کے مقدمات درج ہوتے۔
جماعت اسلامی کے رہنما کی گرفتاری اور تشدد کی تازہ ترین تصویر میں بھی عوامی لیگی کارکن (مکتی باہنی) بنگلہ دیش پولیس کے سامنے جماعت اسلامی کے رہنما پر حملہ کررہا ہے۔ گویا مکتی باہنی اور بھارتی فوج کا گٹھ جوڑ اب بھی جاری ہے مکتی باہنی والے اب بھی نشاندہی کررہے ہیں اور بنگلہ دیشی پولیس اور فوج بھارتی فوج کا کردار ادا کررہی ہے۔ اصل ہدف چونکہ اسلام ہے اور اسلام کو براہ راست نشانہ بنانے کی ہمت اب بھی اسلامی ممالک کے حکمرانوں میں نہیں ہے اس لیے جو لوگ اسلام کی علامت یا اسلام کے سپاہی ہیں ان کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دل کا غبار نکالا جاتا ہے اور عوام کو اسلام سے قریب آنے کا نتیجہ دکھایا جاتا ہے۔
پاکستان کے اندر بھی ذہنیت تو یہی کار فرما ہے لیکن انہیں براہ راست اس قسم کی فوجی مدد نہیں مل رہی جس قسم کی بنگلہ دیش یا مشرقی پاکستان میں ملی تھی لیکن کراچی میں یہ مناظر سر عام دیکھے جاسکتے ہیں کہ اس ذہنیت کے پروردہ لوگ پولیس کو اسلام پسندوں کی نشاندہی کرتے ہیں ان کے گھر بتاتے ہیں اسلام کا نام لینے والوں کو مارتے ہیں اور میڈیا ان کی سرپرستی کرتا ہے۔ بنگلہ دیشی میڈیا بھی اس وقت بھارت نواز حکمرانوں کی کاسہ لیسی میں مصروف ہے یا وہاں بھی پاکستان کی طرح کا اسلام بیزار میڈیا ہے اس لیے ساری کہانی کے اصل واقعات اور باتوں کو چھپا کر جنگی جرائم کے جعلی ٹریبونل کی خبروں کو اچھال رہا ہے۔ مولانا دلاور حسین سعیدی کوئی معمولی آدمی نہیں۔ اس بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کے 3 مرتبہ رکن بنے وہ مفسر قرآن ہیں ان کے کیسٹوں کو پورے بنگلہ دیش میں قبولیت حاصل ہے سیکڑوں ہندو اسے سن کر مسلمان ہوئے ہیں۔ شاید بنگلہ دیش کینگرو کورٹ انہیں موت کی سزا دلوا بھی دے اور وہ پھندہ چوم بھی لیں لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ جس اسلامی لہر کے خوف سے یہ سب کچھ ہورہا ہے وہ اور تیز ہوجائے گی۔
No comments:
Post a Comment