Sunday, March 3, 2013

آسان راستہ

محبت کے دن کے پس پشت کام کرنے والے کردار اور اس حوالہ سے چند سال پہلے پاکستان اور دیگر مسلم ممالک پر ایک خصوصی یلغار جس کے تحت بظاہر جو بات سامنے آئی وہ کچھ یوں تھی کہ اس سے زیادہ پیارا دن کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ اس اچانک حملہ اور پھر اس کے ذریعہ پورے ملک کو اس طرح گھیر لینا کہ کراچی تاخیبر ایک ہی کہانی ایک ہی آواز اخبارات ورسائل جگمگاتی تصاویر کے مزین، چھوٹی دکان سے آگے بڑے تجارتی مراکز سجاوٹ وبناوٹ میں ایک دوسرے سے بازی لے جاتے ہوئے، مشہور اخبارات کی عام دعوت کہ محبت کے پیغامات شائع کرنے کے لیے ہمارے صفحات حاضر ہیں۔ ساتھ میں یہ دعویٰ بھی کہ ہم تو وہ ہیں جس کی بنیاد قائد اعظم نے رکھی۔ رہی الیکٹرونک میڈیا تو اس کی تو بات ہی اور ہے اس تمام صورتحال کے پیچھے جو مقاصد ہیں اور جن کے چشم ابرو سے ان مقاصد کی تکمیل ہورہی ہے وہ کچھ ایسے بھی ڈھکے چھپے نہیں اور نہ ہی انہوں نے اسے کبھی چھپانے کی کوشش کی۔ ذرا ذہن پر زور ڈالنے بات کچھ پرانی بھی نہیں۔ امریکا کی خفیہ ایجنسی C.I.A کے سرچ ونگ کی ”گلوبل ٹرینڈ رپورٹ 2020ئ“ کیا کہہ رہی ہے۔ ابتدا ان مستقبل کے اندیشوں سے جو مغرب کی تباہی کا سامان بننے جارہے ہیں اور جن کے پیچھے صرف ایک ہی طاقت کار فرما ہے انتہا پسند مسلمان ”پھر ساتھ ہی وہ تجاویز جوان خطرات کے تدارک کے لیے ضروری ہیں۔“ ذکر خوفناک ترین ہتھیاریوں کا جن کی تیاری کے لیے تمام ترصلاحتیں اور وسائل ہمہ وقت استعمال ہو رہے بلکہ صرف وہ بظاہر چھوٹے چھوٹے نکات جو کسی بھی قوم کو اندر سے تباہ کردیں اور جو قوم اندر سے تباہ ہوجائے اس کے پاس رہ ہی کیا جاتا ہے۔ نکات کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہمیں اپنے معاشرے میں ہر طرف سب کچھ نظر آرہا ہے جس کی ایک چھوٹی سی جھلک یہ ”پیارا دن“ ہے۔ پھر بات صرف اس ایک دن ہی کی نہیں ہے۔ ہر تہوار اپنا ہویا پرایا۔ ہر دن جو کسی بھی اہمیت کا حامل اس کا جس انداز سے اہتمام کیا جارہا ہے اور جس طرح کچّے ذہنوں کو ہر نوعیت کی برائی میں ملوث کیا جارہا ہے وہ تشویشناک ہی نہیں حیران کن بھی ہے کہ اسلام کی نام لیوا یہ قوم کہاں سے کہاں نکلتی جارہی ہے۔ حساس دل رکھنے والے الیکٹرونک میڈیا کے خلاف چند الفاظ نکال کر اپنی راہ لیتے ہیں لیکن اس میڈیا کے پسِ پست کار فرما عناصر کو عموماً نظر انداز ہی کردیا جاتا ہے جن میں سب سے اہم عضر کاروباری ذہنیت اور تجارتی مفادات ہیں۔ منصوبہ کوئی بھی ہو اس کو روبہ عمل لانے میں متعدد عناصر کار فرما ہوتے ہیں۔ وہ جو ایک سوچ پیدا کرکے اس کو سامنے لانے والے ہیں۔ پھر وہ جو اس کو عملی جامہ پہنانے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ مزید وہ جو پیش کرتے ہیں بہترین صلاحیتوں کے ساتھ بے حیائی، بے غیرتی، عریانی وفحاشی، بے بسی کا بدترین مظاہرہ اور اس ساری تگ وتاز کا مقصد صرف دولت اور جھوٹی شہرت کا حصول قرار پاجاتا ہے تو لازماً زور تو کاروباری ذہن کے ہاتھ میں ہی ہوگا وہ خواہ ملٹی نیشنل ہو یا نیشنل۔
گلاب کا پھول بڑھ کر لال آنکھوں والے خرگوش تک، ہلکے پھلکے دوستی کے پیغامات، خوش رنگ ڈراموں، ناچ گانوں، ٹیبلوز، تک گھروں سے باہر تک بلکہ بہت زیادہ باہر تک، عالیشان ہوٹل، آراستہ باغات اور بہت کچھ۔ حصول زر کی ہوس نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا اور پہنچوا دیا۔ لیکن کاروباری دنیا کی خوش قسمتی کہ ان کی پہچان اس حوالہ سے محدود ہی رہی کہ اس معصوم قوم کی نظریں اصل ذمہ داروں تک کم ہی پہنچتی ہیں۔ لیکن اس عنصر کی اہمیت کو انہوں نے ٹھیک طرح لپک لیا جو بہت بڑے خطرے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے تھے۔ صرف سیاسی ہتھکنڈے ہی تو کافی نہیں ہوتے۔ لبرلزم اس طرح بھی فروغ پاسکتا ہے۔ ان کے قدم بڑھتے گئے۔ خواتین کی بھر پور آزادی، جنس زدگی کا فروغ، ڈسکو کلب جوئے خانے، نوجوانوں کی ذہنی تطہیر، تفریحات کا سیلاب، مخلوط محفلیں اور سب کچھ ہے۔ سچ ہے ہتھیاروں سے لائی ہوئی تباہی تو پھر بھی عارضی ہی ہوتی ہے اصل تباہی تو معاشرے کے اندر کی تباہی ہے کہ اس کا مداوا آسان نہیں ہوتا۔

No comments:

Post a Comment