Sunday, March 3, 2013

چک ہیگل کی گواہی کے بعد

جب سے پاکستان موجودہ بحران میں پھنسا ہے ایک طبقہ چیخ چیخ کر کہتا چلا آرہا ہے کہ پاکستان کی موجودہ بحرانی کیفیت میں ایک بیرونی ہاتھ بھی موجود ہے مگر یار لوگ ہیں کہ اسے افسانہ قرار دے کر دنیا کی ہر خرابی کا ذمہ دار جنرل ضیائ الحق کو قرار دے رہے ہیں۔جنرل ضیائ الحق کی حکمرانی کے انداز کی بات تو دور اس کا جواز ہی کسی کتاب میں تلاش نہیںکیا جا سکتا۔فی زمانہ کسی شخص کو یہ حق دیا ہی نہیں جا سکتا کہ وہ ایک قوم کے دستور العمل اور عمرانی معاہدے کو پاﺅں کی ٹھوکر پر رکھ کر اپنے فرمان کو قوم کا دستور العمل قرار دے۔مگر یہ کہنا بھی ایک منفی نفسیاتی رویہ ہے کہ ضیائ الحق کے اقتدار سے پہلے پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں،شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پی رہے تھے۔چہار سو محبتوں کی برکھا برس رہی تھی۔خوش حالی اور قومی یکجہتی کی قوس ِقزح ماحول پر سایہ فگن ہوا کرتی تھی۔جب بھی ان لوگوں کو بتایا جاتا تھا کہ پاکستان میں تشدد کی لہر میں بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی ہاتھ ہے تو یہ حضرات قسم کھا کر اس میں ضیائ الحق کا ہاتھ تلاش کرتے تھے۔اب کہیں سے نومنتخب امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کی دو برس پرانی تقریر ہاتھ آگئی ہے۔تقریر کیا ہے پاکستان میں بحرانوں اور دہشت گردی کے محرک کی نشاندہی اورمعتبر گواہی ہے۔
چک ہیگل نے اپنی اس تقریر میں کہاہے کہ بھارت پاکستان میں مسائل پیدا کرنے کے لیے افغانستان کو سیکنڈ لائن کے طور استعمال کرنے کے علاوہ اور بہت کچھ کر رہا ہے۔جو لوگ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کی کلنٹن کی اس گواہی کو معتبر جان کرکہ بھارت پاکستان کا بہترین دوست ہے جس سے دوستی کر کے پاکستان کی معیشت راکٹ کی رفتار سے ترقی کر سکتی ہے اور چین و ایران خطرناک ممالک ہیں ان سے دوستی سے بی چوہیا لنڈوری ہی بھلی،سردھنتے تھے خدامعلوم اب اسی امریکا کے وزیر دفاع کی گواہی کو معتبر کیوں نہیں مانتے؟ چک ہیگل کی بات کو درست مان لیا جائے تو سمجھ جانا چاہیے کہ پاکستان نے بھارت کی ریشہ دوانیوں سے تنگ آکر افغانستان کو اپنی سیکنڈ ڈیفنس لائن بنانے کا خواب دیکھا تھا وہ سارا منصوبہ بھارت نے اسی پر ا ±لٹ دیا ہے۔اب بھارت افغانستان کو ایک بار پھر پاکستان کے خلاف اپنی سیکنڈ ڈیفنس لائن بنانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ اسٹریٹیجک ڈیپتھ کا تصور کسی شوق کشور کشائی اور شوق حاکمیت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ تنگ آمد بجنگ آمد کا ہی شاخسانہ تھا۔
تین سال قبل میں اسلام آباد کے ایک تحقیقی ادارے کے لئے” دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پاکستان “کے عنوان سے ایک ریسرچ اسٹڈی تیار کررہا تھا تو تحقیق اور کئی باخبر لوگوں سے تبادلہ ٔ خیال کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ پاکستان کو موجودہ حالات سے دوچار کرنے میںمحض جہادی مائنڈ سیٹ ،ضیائ الحق کے انداز حکمرانی اور افغان جہاد کا نہیں بلکہ نائن الیون کے بعد ا ±بھرنے والی کئی نئی سیاسی حرکیات کا گہرا عمل دخل ہے۔البتہ جہادی مائنڈ سیٹ کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ نہایت صفائی اور مہارت کے ساتھ بھڑا دیا گیا ہے۔لال مسجد آپریشن اس کانقطۂ عروج تھا۔یہ فیصلہ کن موڑ پاکستان کے لیے ایک عجیب مشکل کا آغاز ثابت ہوا جب اس کے انسانی اثاثے پورس کے ہاتھیوں کی طرح خود اسی کو کچلنے لگ گئے۔جب اپنے ہی دوستوں کی بندوقیں پیچھے مڑ کر خود اپنوں ہی کے خلاف تن گئیں۔اپنے ہاتھوں کے سنگ اپنے ہی سر پر برسنے لگ گئے۔اب لال مسجد کمیشن کی رپورٹ سامنے آئے گی تو توقع کی جانی چاہیے اس میں ان” ماہرین“ کا ذکر ضرور ہوگا جنہوں نے پاکستان کو اس نئی صورت حال سے دوچار کر دیا تھا۔ چک ہیگل کی گواہی کی گونج سنائی ہی دے رہی ہے کہ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے گوادر کی بندرگاہ چین کے حوالے کرنا مناسب فیصلہ نہیں اس سے بلوچوں کا احساس محرومی مزید بڑھ جائے گا۔جب سے گوادر پورٹ کا کنٹرول چینی کمپنی کے حوالے کیا گیا ہے اس سلسلے میں مخالفانہ آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں ہیں۔میاں نوازشریف کی آواز بھی انہی میں شامل ہے۔چائنا اوورسیز پورٹ کو ایسٹ انڈیا کمپنی قرار دینے کی آوازیں بھی بلند ہو رہی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ گوادر پر چین کاکنٹرول امریکا اور بھارت کو ناگوار ہے۔یہ دنوں ملک دوستی اور ہمسائیگی کا کوئی اعلیٰ معیارپیش کرنے سے قاصر رہے ہیں۔امریکا نے پاکستان کو ہر لمحہ استعمال کرکے پھینک دیا جبکہ بھارت نے بھی دباﺅ کے لمحوں میں پاکستان کی منت ترلے اور دباﺅ سے نکلنے کے بعد آنکھیں دکھانے سے گریز نہیں کیا۔نائن الیون کے بعد دونوں ملک یک جان و دو قالب ہو کر رہ گئے۔امریکا نے پاکستان اور کشمیر کے بارے میں بھارت کی فلاسفی اور اصطلاحات کو اپنا لیا۔حد تو یہ کہ کشمیریوں کی جائز اور قانونی جنگ آزادی کو بھی القاعدہ کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔اس کے برعکس چین پاکستان اور کشمیریوں کاآزمودہ دوست ہے۔امریکا یہ سمجھتا ہے کہ گوادر بندرگاہ کی صورت میں مشرق وسطیٰ کے وسائل میں چین ایک نیا اور طاقتور حصہ دار بن کر سامنے آئے گا۔بھارت کو یہ غم کھائے جا رہاہے کہ چین اس کی معاشی اور بحری ناکہ بندی کرنے کی پوزیشن میں آجائے گا۔اس غم میں دونوں ملک ہلکان ہو رہے ہیں اور دونوں پاکستان کو تشدد کی آگ میں جلا رہے ہیں۔سی آئی اے اور را مل کر پاکستان میں بدترین دہشت گردی کروار رہی ہیں۔اس کے لیے کہیں تحریک طالبان کو استعمال کیا جا تا ہے تو کہیں بلوچ مزاحمت پسندوں کو۔المیہ یہ ہے کہ بلوچ مزاحمت پسند وسائل کی چھینا جھپٹی میں اسی طرح ایندھن بن رہے ہیں جس طرح افغان عوام سوویت یونین اور امریکا کی کشمکش میں راہ کی گھاس بنے تھے۔بندرگاہ اگر چین کے حوالے نہ ہوتی تو کیا یہ کسی سردارکے کنٹرول میں دی جاتی ؟اتنے بڑے ادارے ذاتی تصرف میں نہیں دیے جاتے۔ اسے پاکستان کے وفاقی اداروں نے ہی چلانا تھا اسے کسی بلوچ سردار یا صوبائی حکومت نے تو نہیں چلانا تھا مگر مین میکھ نکالنے والوں نے اس صورت میں بھی اپنا کام کرنا تھا۔قدرتی گیس کے ذخائر تو چینی کمپنی کو نہیں دیے گئے یہ تو آج بھی پاکستانی اداروں کے پاس ہی ہیں پھر ہر سال دو سال بعد رائیلٹی کا تنازع تصادم کی شکل کیوں اختیار کرتا رہا ؟نواب اکبر بگٹی اور عطائ اﷲ مینگل بہت صاف گو لوگ رہے ہیں انہوں نے اس معاملے میں اگر کبھی کھل کر اقرار نہیں کیا تو انکار بھی نہیں کیا۔نواب اکبر بگٹی نے اپنے آخری آخری ٹی وی انٹرویو میں یہ برملا کہا تھا کہ اگر شیطان بھی ان کی مدد کرے تو وہ اسے قبول کریںگے۔اسی طرح سردار عطا ئ اﷲ مینگل نے بلوچ مزاحمت پسندوں کو بھارت کی امداد حاصل ہونے کے سوال کے جواب میں ایک سرد آہ بھر کر کہا کہ ”کاش ایسا ہوتا“۔اس لیے بلوچ سرداروں کو بندرگاہ کو کھیل تماشا بنانے کی بجائے اس سے پیدا ہونے والے مواقع اور امکانات سے فائدہ ا ±ٹھانا چاہیے۔بلوچستان کے ساحل پر اس قدر بڑی معاشی سرگرمی اس خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔اسی طرح بعض لوگ اقصائے چن کا علاقہ چین کے کنٹرول میں دینے پر بھی اعتراض کرتے ہیں مگر پاکستان نے اس فیصلے سے چین کو تنازع کا ایک اور فریق بنا کر بھارت کی پوزیشن کوکمزور کیا تھا۔کمزور لوگ کسی مضبوط دشمن کے مقابلے میں اپنے ہاںکسی دوسری مضبوط طاقت کے لیے مفاد اور کشش پیدا کرتے ہیں۔یہ سیاست کے کھیل ہوتے ہیں۔ چک ہیگل کی گواہی کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے کرداروں کو جنرل ضیائ الحق کے نام اور سائے کے پیچھے چھپانے والوں کو اپنی اداﺅں پر ایک بار غور ضرور کرنا چاہیے۔

No comments:

Post a Comment