آخرکار وہی ہوا جس کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔ کانگریس کی
سربراہی والی یو پی اے سرکار نے ایک بار پھر بی جے پی اور آرایس ایس کے
سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے ہندتو دہشت گردی کے کھلے ہوئے باب کو بند کردیا اور
پورے ملک ہی نہیں دنیا کو پیغام دے دیا کہ ہندوستان میں دہشت گردی کو صرف
مسلمانوں سے جوڑا جائے گا، خواہ اس کے لیے انڈین مجاہدین جیسی کتنی ہی نام
نہاد اور من گھڑت تنظیموں کا سہارا لینا پڑے۔ گزشتہ ماہ جے پور میں منعقدہ
کانگریس کے چنتن شیور میں مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کے بیان اور
مرکزی داخلہ سیکریٹری آر کے سنگھ کے تائیدی بیان کو ایک طرف رکھا جائے اور
دوسری طرف بجٹ اجلاس سے قبل بی جے پی کے ساتھ میٹنگ میں مسٹر شندے کی معافی
تلافی، پھر سابقہ بیان کو واپس لینا، اس پر افسوس کا اظہار کرنا اور بی جے
پی کی طرف سے ان کی تاویل کا خیرمقدم اور پارلیمنٹ میں اس ایشو کو نہ
اٹھانے اور ان کے خلاف ہنگامہ نہ کرنے کا اعلان صاف بتارہا ہے کہ اندرون
خانہ کانگریس اور بی جے پی میں کوئی سازباز ہوئی ہے، ورنہ جس ہندتو دہشت
گردی کو مسٹر شندے نے اتنے زور و شور سے اٹھایا، مسلسل اپنے بیان پر قائم
رہے، پھر داخلہ سیکریٹری کی یہ وضاحت کہ تحقیقاتی ایجنسیوں کے ایسے آٹھ دس
افراد کے خلاف پختہ ثبوت موجود ہیں جنہوں نے بم دھماکوں کے لیے ٹریننگ آر
ایس ایس کے کیمپوں میں حاصل کی تھی، اس کے بعد ڈرامائی انداز میں بیان واپس
لینے اور اظہارِ افسوس کرنے کی کوئی تک سمجھ میں نہیں آتی۔ کوئی نہ کوئی
سازباز ضرور ہوئی جس کو صیغہ راز میں رکھا جارہا ہے۔
یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ کانگریس اگرچہ اپنے آپ کو سیکولر اور بی جے پی کو فرقہ پرست کہتی ہے، بظاہر دونوں کے نظریات اور پالیسی میں فرق بھی نظر آتا ہے، لیکن عملی طور پر یہ فرق ظاہر نہیں ہوتا، اس لیے کانگریس کو کچھ لوگ بی جے پی کی بی ٹیم بھی کہتے ہیں۔ کبھی کبھی تو کانگریس ہندتو طبقے کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بی جے پی سے آگے بھی نکل جاتی ہے، اور کبھی دونوں ساتھ ساتھ یہ کام انجام دیتے ہیں۔ جیسا کہ دیکھا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ مسلم کش فسادات کانگریس کی حکومت والی ریاستوں میں ہوتے ہیں۔ اجودھیا ہی کی بات لیجیے‘ فرقہ پرست قوتوں نے بابری مسجد کی اراضی کو متنازع قرار دیا تھا لیکن اس کو بند کانگریس کی حکومت نے کرایا۔ پھر اسی کی حکومت میں چوری چھپے اس میں مورتیاں رکھی گئیں اور پوجا پاٹ کے لیے اس کا تالا بھی کانگریس نے کھلوایا۔ بابری مسجد سے متصل اراضی پر کانگریس کی حکومت نے رام مندر کا شیلا نیاس کرایا۔ بی جے پی نے صرف رتھ یاترا نکالی تھی اور اجودھیا میں کارسیوکوں کو جمع کیا تھا، جبکہ کانگریس کی حکومت نے بابری مسجد شہید کرائی تھی۔ اب اگر ہندتو دہشت گردی پر پردہ ڈالنے کے معاملے پر کانگریس اور بی جے پی میں کوئی سمجھوتا ہوتا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ تو عین پالیسی اور سوچ کے حساب سے ہوا ہے۔ اس پر اُن لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو کانگریس کو سیکولر کہتے ہیں۔ بی جے پی کا ظاہر و باطن کم از کم یکساں ہے، جبکہ کانگریس کا باطن کچھ اور ہے، اوپر سے صرف سیکولرازم کا مکھوٹا چڑھا ہوا ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کتنی آسانی سے یہ بات کہہ دی کہ ہندتو دہشت گردی سے متعلق ان کے بیان سے غلط فہمی پیدا ہوئی اور ان کا مقصد کسی مذہب سے دہشت گردی کو جوڑنا نہیں تھا، اور نہ ہی کسی سیاسی تنظیم پر دہشت گردی کے کیمپوں کے انعقاد میں شامل ہونے کا الزام لگانا مقصود تھا، اس لیے اگر کسی کو ان کے بیان سے تکلیف پہنچی ہے تو اس پر انہیں افسوس ہے۔ شاید مسٹر شندے بھول گئے کہ اس سے قبل انہوں نے اسی طرح کا ایک بیان مسلمانوں کو سامنے رکھ کر دیا تھا اور کہا تھا کہ انڈین مجاہدین کے 50-40 دہشت گرد تحقیقاتی ایجنسیوں کے نشانے پر ہیں اور جلد ہی ان کی گرفتاری عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کا نام تو واضح طور پر نہیں لیا تھا لیکن یہ بات ہر کوئی جانتا اور سمجھتا ہے کہ انڈین مجاہدین کے نام پر صرف بے قصور مسلم نوجوان گرفتار کیے جاتے ہیں، کوئی اور نہیں۔ اب یہ کیا ہے کہ مسلمانوں سے دہشت گردی کو جوڑا جائے تو وہ صحیح ہے‘ اس پر کوئی وضاحت اور کوئی افسوس نہیں ہے۔ کیا ایسا کہنے سے مسلمانوں کو تکلیف نہیں ہوتی؟ صرف ہندتو قوتوں کو تکلیف ہوتی ہے؟ ابھینو بھارت‘ سناتن سنستھا‘ بجرنگ دل اور کتنی تنظیموں کے نام دہشت گردی کے معاملے میں آئے اور ان کے خلاف ٹھوس ثبوت بھی ہیں، بلکہ بعض تنظیموں پر پابندی کی سفارش حکومت ِ مہاراشٹر نے بھی کی تھی، لیکن یو پی اے سرکار نے ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی‘ اور ایس آئی ایم آف انڈیا پر پابندی کو ٹریبونل کورٹ کی جسٹس گیتا متل نے غیر قانونی قرار دے دیا، پھربھی یو پی اے سرکار پابندی میں توسیع پر توسیع کرتی گئی۔ مہاراشٹر میں فرضی انکائونٹر میں اکثریتی فرقے کا ایک فرد مارا جائے تو سیاسی پارٹیوں کے ہنگامے کے بعد وزیراعظم فوراً ہی اس کی انکوائری کا حکم صادر کردیں اور بٹلہ ہائوس میں فرضی انکائونٹر کی تحقیقات کی کتنی ہی مانگ کرلی جائے اور اس کے خلاف کتنا ہی ہنگامہ کرلیا جائے‘ حالات و واقعات اور ثبوت بھی اس کے فرضی ہونے کی گواہی دیں لیکن یو پی اے سرکار نے اس کی انکوائری سے انکار ہی نہیں کیا بلکہ فرضی انکائونٹر کرنے والوں کو انعام و اکرام سے بھی نوازا۔
بتایا جاتا ہے کہ مسٹر شندے کی طرف سے وضاحتی بیان اور اظہارِ افسوس اچانک نہیں آیا ہے بلکہ اس بیان کو پارلیمانی امور کے وزیر کمل ناتھ اور بی جے پی کی لیڈر سشما سوراج اورایل کے ایڈوانی کی میٹنگ میں تیار کیا گیا۔ یعنی جے پور میں مسٹر شندے نے اپنی طرف سے بھی حقائق کی روشنی میں وہ بیان دیا تھا جیسا کہ اس کے فوراً بعد داخلہ سیکریٹری کے بیان سے ظاہر ہوا، اور اِس بار بی جے پی کے کہنے پر اس کی مرضی سے بیان دیا ہے، اس لیے کوئی بعید نہیں کہ یو پی اے سرکار اجودھیا کی طرح ایک بار پھر ہندتو دہشت گردی کے معاملے کو ہمیشہ کے لیے دفن کردے اور اس کے مقدمات کو سرد خانے میں ڈال دے اور دہشت گردی کو صرف مسلمانوں سے جوڑے رکھنے کی پالیسی پر عمل کرے۔ بی جے پی کے ساتھ مرکزی حکومت کا معاہدہ صرف وقتی طور پر نہیں ہوا ہوگا بلکہ جب دونوں پارٹیاں ایک ہی سکے کے دورُخ ہیں‘ تو دور رس نتائج کا حامل کوئی معاہدہ ہوا ہوگا۔ کانگریس کو اقتدار سے مطلب ہے ،اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتی ہے اور اب تک وہ یہی کرتی رہی ہے۔ حساس مسائل میں سیاسی قوتِ ارادی کے بجائے وہ سیاسی مصلحت سے کام لیتی ہے۔ مسٹر شندے کی صفائی کو بھی اسی تناظر میں لینا چاہیے۔
(’’دعوت‘‘… دہلی)
یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ کانگریس اگرچہ اپنے آپ کو سیکولر اور بی جے پی کو فرقہ پرست کہتی ہے، بظاہر دونوں کے نظریات اور پالیسی میں فرق بھی نظر آتا ہے، لیکن عملی طور پر یہ فرق ظاہر نہیں ہوتا، اس لیے کانگریس کو کچھ لوگ بی جے پی کی بی ٹیم بھی کہتے ہیں۔ کبھی کبھی تو کانگریس ہندتو طبقے کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بی جے پی سے آگے بھی نکل جاتی ہے، اور کبھی دونوں ساتھ ساتھ یہ کام انجام دیتے ہیں۔ جیسا کہ دیکھا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ مسلم کش فسادات کانگریس کی حکومت والی ریاستوں میں ہوتے ہیں۔ اجودھیا ہی کی بات لیجیے‘ فرقہ پرست قوتوں نے بابری مسجد کی اراضی کو متنازع قرار دیا تھا لیکن اس کو بند کانگریس کی حکومت نے کرایا۔ پھر اسی کی حکومت میں چوری چھپے اس میں مورتیاں رکھی گئیں اور پوجا پاٹ کے لیے اس کا تالا بھی کانگریس نے کھلوایا۔ بابری مسجد سے متصل اراضی پر کانگریس کی حکومت نے رام مندر کا شیلا نیاس کرایا۔ بی جے پی نے صرف رتھ یاترا نکالی تھی اور اجودھیا میں کارسیوکوں کو جمع کیا تھا، جبکہ کانگریس کی حکومت نے بابری مسجد شہید کرائی تھی۔ اب اگر ہندتو دہشت گردی پر پردہ ڈالنے کے معاملے پر کانگریس اور بی جے پی میں کوئی سمجھوتا ہوتا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ تو عین پالیسی اور سوچ کے حساب سے ہوا ہے۔ اس پر اُن لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو کانگریس کو سیکولر کہتے ہیں۔ بی جے پی کا ظاہر و باطن کم از کم یکساں ہے، جبکہ کانگریس کا باطن کچھ اور ہے، اوپر سے صرف سیکولرازم کا مکھوٹا چڑھا ہوا ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کتنی آسانی سے یہ بات کہہ دی کہ ہندتو دہشت گردی سے متعلق ان کے بیان سے غلط فہمی پیدا ہوئی اور ان کا مقصد کسی مذہب سے دہشت گردی کو جوڑنا نہیں تھا، اور نہ ہی کسی سیاسی تنظیم پر دہشت گردی کے کیمپوں کے انعقاد میں شامل ہونے کا الزام لگانا مقصود تھا، اس لیے اگر کسی کو ان کے بیان سے تکلیف پہنچی ہے تو اس پر انہیں افسوس ہے۔ شاید مسٹر شندے بھول گئے کہ اس سے قبل انہوں نے اسی طرح کا ایک بیان مسلمانوں کو سامنے رکھ کر دیا تھا اور کہا تھا کہ انڈین مجاہدین کے 50-40 دہشت گرد تحقیقاتی ایجنسیوں کے نشانے پر ہیں اور جلد ہی ان کی گرفتاری عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کا نام تو واضح طور پر نہیں لیا تھا لیکن یہ بات ہر کوئی جانتا اور سمجھتا ہے کہ انڈین مجاہدین کے نام پر صرف بے قصور مسلم نوجوان گرفتار کیے جاتے ہیں، کوئی اور نہیں۔ اب یہ کیا ہے کہ مسلمانوں سے دہشت گردی کو جوڑا جائے تو وہ صحیح ہے‘ اس پر کوئی وضاحت اور کوئی افسوس نہیں ہے۔ کیا ایسا کہنے سے مسلمانوں کو تکلیف نہیں ہوتی؟ صرف ہندتو قوتوں کو تکلیف ہوتی ہے؟ ابھینو بھارت‘ سناتن سنستھا‘ بجرنگ دل اور کتنی تنظیموں کے نام دہشت گردی کے معاملے میں آئے اور ان کے خلاف ٹھوس ثبوت بھی ہیں، بلکہ بعض تنظیموں پر پابندی کی سفارش حکومت ِ مہاراشٹر نے بھی کی تھی، لیکن یو پی اے سرکار نے ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی‘ اور ایس آئی ایم آف انڈیا پر پابندی کو ٹریبونل کورٹ کی جسٹس گیتا متل نے غیر قانونی قرار دے دیا، پھربھی یو پی اے سرکار پابندی میں توسیع پر توسیع کرتی گئی۔ مہاراشٹر میں فرضی انکائونٹر میں اکثریتی فرقے کا ایک فرد مارا جائے تو سیاسی پارٹیوں کے ہنگامے کے بعد وزیراعظم فوراً ہی اس کی انکوائری کا حکم صادر کردیں اور بٹلہ ہائوس میں فرضی انکائونٹر کی تحقیقات کی کتنی ہی مانگ کرلی جائے اور اس کے خلاف کتنا ہی ہنگامہ کرلیا جائے‘ حالات و واقعات اور ثبوت بھی اس کے فرضی ہونے کی گواہی دیں لیکن یو پی اے سرکار نے اس کی انکوائری سے انکار ہی نہیں کیا بلکہ فرضی انکائونٹر کرنے والوں کو انعام و اکرام سے بھی نوازا۔
بتایا جاتا ہے کہ مسٹر شندے کی طرف سے وضاحتی بیان اور اظہارِ افسوس اچانک نہیں آیا ہے بلکہ اس بیان کو پارلیمانی امور کے وزیر کمل ناتھ اور بی جے پی کی لیڈر سشما سوراج اورایل کے ایڈوانی کی میٹنگ میں تیار کیا گیا۔ یعنی جے پور میں مسٹر شندے نے اپنی طرف سے بھی حقائق کی روشنی میں وہ بیان دیا تھا جیسا کہ اس کے فوراً بعد داخلہ سیکریٹری کے بیان سے ظاہر ہوا، اور اِس بار بی جے پی کے کہنے پر اس کی مرضی سے بیان دیا ہے، اس لیے کوئی بعید نہیں کہ یو پی اے سرکار اجودھیا کی طرح ایک بار پھر ہندتو دہشت گردی کے معاملے کو ہمیشہ کے لیے دفن کردے اور اس کے مقدمات کو سرد خانے میں ڈال دے اور دہشت گردی کو صرف مسلمانوں سے جوڑے رکھنے کی پالیسی پر عمل کرے۔ بی جے پی کے ساتھ مرکزی حکومت کا معاہدہ صرف وقتی طور پر نہیں ہوا ہوگا بلکہ جب دونوں پارٹیاں ایک ہی سکے کے دورُخ ہیں‘ تو دور رس نتائج کا حامل کوئی معاہدہ ہوا ہوگا۔ کانگریس کو اقتدار سے مطلب ہے ،اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتی ہے اور اب تک وہ یہی کرتی رہی ہے۔ حساس مسائل میں سیاسی قوتِ ارادی کے بجائے وہ سیاسی مصلحت سے کام لیتی ہے۔ مسٹر شندے کی صفائی کو بھی اسی تناظر میں لینا چاہیے۔
(’’دعوت‘‘… دہلی)
No comments:
Post a Comment