Sunday, December 6, 2020

پاکستان سیٹیزن پورٹ

 پاکستان سٹیزن پورٹل اسلامی فلاحی ریاست مدینہ کے نمونہ پر مبنی ایک ایسا منصوبہ ہے جہاں لوگوں کی شکایات کو سننے اور انہیں بروقت حل کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے اسلامی فلاحی ریاست کے وڑن کے تحت عوام کی شکایات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے پاکستان سٹیزن پورٹل کا آغاز 28 اکتوبر 2018ئ کو کیا گیا۔ پاکستان سٹیزن پورٹل اس وقت 87 ممالک کی سروس ڈیلیوری کیٹیگری میں 4646 ایپس میں سرفہرست تین ایپس میں شامل 

ہےاور اس پورٹل سے اندرون ملک شہری، بیرون ملک پاکستانی اور غیر ملکی افراد مستفید ہو رہے۔ 2018ئ میں پاکستان سٹیزن پورٹل کے آفیسرز ڈیش بورڈز کی کل تعداد 3796 تھی جو 2020میں 8913 ہو گئی ہے۔ 2018ئ میں شکایات کی کیٹیگریز 473 تھیں جو 2020ئ میں بڑھ کر 1151 ہو گئیں۔ اسی طرح 2018ئ میں یہ پورٹل صرف ایک موبائل ایپ کے ذریعے کام کر رہا تھا جبکہ 2020ئ میں اب یہ چار مختلف ذرائع سے کام کر رہا ہے جن میں موبائل ایپ، ویب رسائی، کھلی کچہری، شکایت درج کرانے کا مینوئل طریقہ شامل ہے۔ اس کے علاوہ 2020ئ میں ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے اور اب شکایات سیل بھی اس پورٹل سے منسلک ہے۔ اس طرح دو سالوں کے دوران پاکستان سٹیزن پورٹل کی کامیابی اور اس میں شہریوں کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے نمایاں تبدیلیاں کی گئیں۔ اب یہ پورٹل عوام کیلئے ان کی شکایات کے ازالہ کا ایک بہترین پلیٹ فارم بن چکا ہے۔اس پورٹل پر عوام اپنی ذاتی اور سماجی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے شکایات درج کرا سکتے ہیں۔ پورٹل پر شکایت درج کرانے کے بارے میں رہنمائی بھی فراہم کی گئی ہے جبکہ تجاویز بھی دی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ گمشدہ بچوں کی تلاش، بچوں سے بدسلوکی کے واقعات کو رپورٹ کرنے کے لئے زینب الرٹ ایپ کو بھی اس پورٹل کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔پورٹل پر موصول ہونے والی شکایات اور ان پر ہونے والی کارروائی سے متعلق رپورٹ باقاعدگی سے وزیراعظم عمران خان کو فراہم کی جا رہی ہے جس میں نہ صرف ازالہ شدہ شکایات کے حجم کی نشاندہی کی جاتی ہے بلکہ عوام کی جانب سے فراہم کردہ فیڈ بیک بھی اس میں شامل ہوتا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان سٹیزن پورٹل پر اب تک موصول ہونے والی شکایات کی مجموعی تعداد 27 لاکھ سے زائد ہے۔شکایات کو نمٹانے کے لئے خصوصی ڈیش بورڈز ملک بھر میں قائم ہیں۔ اس وقت پنجاب میں ڈیش بورڈز کی مجموعی تعداد 3102 ہے جن میں سے وفاق کے 161 اور صوبائی حکومت کے 2941، خیبر پختونخوا میں ڈیش بورڈز کی مجموعی تعداد 2331 ہے جن میں سے صوبائی حکومت کے 2237 اور وفاقی حکومت کے 94، وفاقی دارالحکومت میں کل ڈیش بورڈز کی تعداد 1516 جبکہ صوبائی حکومت کے 32 اور وفاق کے 1484 ڈیش بورڈز ہیں۔ سندھ میں ڈیش بورڈز کی مجموعی تعداد 1229 ہے جن میں سے صوبائی حکومت کے 1174 اور وفاق کے 55، بلوچستان میں ڈیش بورڈز کی مجموعی تعداد 444 ہے جن میں سے صوبائی حکومت کے 428 اور وفاق کے 16، آزاد جموں و کشمیر میں 174 ڈیش بورڈز ہیں جن میں سے آزاد کشمیر حکومت کے 29 اور وفاق کے 145 ڈیش بورڈز ہیں۔ گلگت بلتستان میں مجموعی ڈیش بورڈز کی تعداد 117 ہے جن میں سے گلگت بلتستان حکومت کے113 اور وفاق کے 4 ہیں۔ اس طرح مجموعی ڈیش بورڈز کی تعداد 8913 ہے جن میں سے صوبائی حکومتوں بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے ڈیش بورڈز کی تعداد 6954 ہے اور وفاق کے ڈیش بورڈز کی تعداد 1959 ہے۔ اس وقت پورٹل پر رجسٹرڈ مجموعی افراد کی تعداد 28 لاکھ 19 ہزار ہے جن میں اوورسیز پاکستانیوں کی تعداد ایک لاکھ 70 ہزار جبکہ غیر ملکی رجسٹرڈ افراد کی تعداد 11ہزار ہے۔ اس طرح پورٹل پر رجسٹرڈ مرد حضرات کی مجموعی تعداد 26 لاکھ 26 ہزار ہے جو پورٹل پر رجسٹرڈ مجموعی تعداد کا 87 فیصد ہے۔ اس پورٹل پر دو لاکھ ایک ہزار خواتین رجسٹرڈ ہیں مجموعی تعداد کا 7 فیصد ہیں، پورٹل پر 4 ہزار مختلف افراد کے علاوہ ایک لاکھ 69 ہزار ایسے ممبران ہیں جنہوں نے شناخت ظاہر نہیں کی۔ پاکستان سٹیزن پورٹل پر پنجاب سے رجسٹرڈ افراد کی تعداد 16 لاکھ 96 ہزار، کے پی کے میں 5 لاکھ 16 ہزار، سندھ میں 4 لاکھ 6 ہزار، بلوچستان میں 39 ہزار، اسلام آباد میں 37 ہزار، آزاد جموں و کشمیر میں 29 ہزار اور گلگت بلتستان میں 1425 افراد رجسٹرڈ ہیں۔ پورٹل پر 10 سرفہرست رجسٹرڈ پروفیشنل افراد میں طلبائ کی تعداد 2 لاکھ 3 ہزار 959 ہے، کاروباری شخصیات کی تعداد 1 لاکھ 18 ہزار 789، انجینئرز کی تعداد 82 ہزار 200، سول سرونٹس کی تعداد 60 ہزار 66، اساتذہ کی تعداد 53 ہزار 703، سماجی ورکرز کی تعداد 53 ہزار 479، کارپوریٹ سیکٹر سے 32 ہزار 638 افراد، فورسز سے 23 ہزار 483، میڈیکل کے شعبہ سے 14 ہزار 619 اور وکلائ کی تعداد 12 ہزار 768 ہے۔عمر کے لحاظ سے 20 سال تک کی عمر کے 1 لاکھ 80 ہزار 587 افراد پورٹل پر رجسٹرڈ ہیں جو مجموعی تعداد کا 6 فیصد ہیں۔ اسی طرح 20 سے 29 سال کی عمر کے رجسٹرڈ افراد کی تعداد 13 لاکھ 64 ہزار 196 ہے جو مجموعی تعداد کا 49 فیصد ہے۔ 30 سے 39 سال کی عمر کے افراد کی تعداد 8 لاکھ 12 ہزار 676 ہے جو مجموعی تعداد کا 29 فیصد ہے۔ اسی طرح 45 سال سے 49 سال تک کی عمر کے رجسٹرڈ افراد کی تعداد 2 لاکھ 86 ہزار 123 ہے جو مجموعی تعداد کا 10 فیصد ہے۔ 50 سال سے 65 سال تک کی عمر کے 1 لاکھ 34 ہزار 351 افراد پورٹل پر رجسٹرڈ ہیں جو مجموعی تعداد کا پانچ فیصد جبکہ 65 سال سے زائد عمر کے 22 ہزار 753 افراد پورٹل پر رجسٹرڈ ہیں جو مجموعی تعداد کا ایک فیصد ہیں۔تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے بیچلر ڈگری کے حامل 1 لاکھ 2 ہزار 522 افراد پورٹل پر رجسٹرڈ ہیں۔ ماسٹر ڈگری کے حامل 1 لاکھ 35 ہزار 792 افراد، ایم ایس، پی ایچ ڈی ڈگریوں کے حامل 37 ہزار 488 افراد پورٹل پر رجسٹرڈ ہیں۔ اسی طرح پوسٹ ڈاکٹرز کی تعداد 1852 ہے۔ پورٹل پر رجسٹرڈ اقلیتوں کی تعداد ایک لاکھ 1 ہزار 32 ہے۔ سٹیزن پورٹل پر بیرون ممالک مقیم تارکین وطن بھی رجسٹرڈ ہیں جن کی مجموعی تعداد تقریباً 1 لاکھ 70 ہزار ہے جن میں سے متحدہ عرب امارات سے رجسٹرڈ پاکستانیوں کی تعداد 41 ہزار 439، سعودی عرب سے 37 ہزار 311، برطانیہ سے 13 ہزار 614، امریکہ سے 5 ہزار 876، قطر سے 4 ہزار 657، آسٹریلیا سے 4 ہزار 591، کینیڈا سے 4 ہزار 232، اومان سے 4 ہزار 205، ملائیشیا سے 3 ہزار 516، اٹلی سے 3 ہزار 75، کویت سے 2 ہزار 758، بحرین سے 2 ہزار 655، چین سے 2 ہزار 538 ہیں۔ سٹیزن پورٹل پر مجموعی طور پر 27 لاکھ 64 ہزار 410 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 25 لاکھ 95 ہزار 828 شکایات کو نمٹایا گیا۔ اس طرح شکایات کو نمٹانے کی شرح 94 فیصد ہے۔ وفاقی دارالحکومت سے موصول ہونے والی شکایات کی تعداد 13 لاکھ 41 ہزار 601 ہے جن میں سے 12 لاکھ 71 ہزار 614 شکایات کو حل کیا گیا، پنجاب سے 9 لاکھ 45 ہزار 784 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 8 لاکھ 92 ہزار 638 شکایات کو نمٹایا گیا۔ شکایات کو نمٹانے کی شرح 94 فیصد رہی۔ خیبر پختونخوا سے 2 لاکھ 62 ہزار 917 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 2 لاکھ 49 ہزار 399 شکایات کو حل کیا گیا۔ اس طرح شکایات کو حل کرنے کی شرح 95 فیصد رہی۔ سندھ سے 1 لاکھ 67 ہزار 691 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 1 لاکھ 43 ہزار 473 شکایات کو حل کیا گیا۔ شکایات کو حل کرنے کی شرح 86 فیصد رہی۔ وفاقی دارالحکومت سے موصول ہونے والی شکایات کی تعداد 22 ہزار 759 ہے جن میں سے 17 ہزار 764 شکایات کو نمٹایا گیا، شکایات حل کرنے کی شرح 78 فیصد رہی۔ بلوچستان سے 19 ہزار 618 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 17 ہزار 551 شکایات کو حل کیا گیا۔ شکایات کو حل کرنے کی شرح 89 فیصد رہی۔ گلگت بلتستان سے 3 ہزار 421 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 2 ہزار 863 شکایات کو حل کیا گیا جبکہ آزاد جموں و کشمیر سے موصول ہونے والی شکایات کی تعداد 619 رہی جن میں سے 526 شکایات کو حل کیا گیا۔مجموعی طورپر موصول ہونے والی 27 لاکھ 64 ہزار شکایات میں سے 13 لاکھ 41 ہزار 601 شکایات کا تعلق وفاقی حکومت کے محکموں سے تھا۔ 4 لاکھ 97 ہزار 758 شکایات توانائی اور پاور سے متعلق، 1 لاکھ 26 ہزار 667 شکایات کا تعلق تعلیم اور 83 ہزار 426 شکایات کا تعلق انسانی حقوق سے متعلق تھا۔ پنجاب سے موصول ہونے والی 9 لاکھ 45 ہزار 784 شکایات میں سے 2 لاکھ 94 ہزار 735 شکایات کا تعلق میونسپل سروسز سے، 1 لاکھ 11 ہزار 178 شکایات کا تعلق امن و امان سے جبکہ 1 لاکھ 402 شکایات کا تعلق تعلیم سے تھا۔ خیبر پختونخوا سے موصول ہونے والی 2 لاکھ 62 ہزار 917 شکایات میں سے 61 ہزار 559 شکایات کا تعلق میونسپل سروسز سے، 50 ہزار 386 شکایات کا تعلق ایجوکیشن سے جبکہ 28 ہزار 584 شکایات کا تعلق صحت کے شعبہ سے تھا۔ سندھ سے موصول ہونے والی 1 لاکھ 67 ہزار 691 شکایات میں سے 73 ہزار 575 شکایات کا تعلق میونسپل سروسز سے، 1 لاکھ 71 ہزار 196 شکایات کا تعلق تعلیم سے، 15 ہزار 358 شکایات کا تعلق امن و امان سے تھا۔اسی طرح وفاقی دارالحکومت سے موصول ہونے والی 22 ہزار 759 شکایات میں سے 7 ہزار 587 شکایات کا تعلق میونسپل سروسز، 4 ہزار 268 شکایات کا تعلق انسانی حقوق سے جبکہ 2 ہزار 567 شکایات کا تعلق لینڈ ریونیو سے تھا۔ بلوچستان سے موصول ہونے والی 19 ہزار 618 شکایات میں سے 4 ہزار 573 شکایات کا تعلق میونسپل سروسز، 3 ہزار 233 شکایات کا تعلق تعلیم اور 2 ہزار 279 شکایات انسانی حقوق سے متعلق تھیں۔ گلگت بلتستان سے 3421 جبکہ آزاد جموں و کشمیر سے 619 شکایات مختلف قسم کے شعبوں سے متعلق تھیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے موصول ہونے والی مجموعی شکایات کی تعداد 1 لاکھ 36 ہزار 392 ہے جن میں سے 1 لاکھ 28 ہزار 372 شکایات کو نمٹایا گیا۔ اس پورٹل پر پسماندہ طبقہ کی شکایات پر ترجیحی بنیادوں پر کارروائی کی جاتی ہے۔ پاکستان سٹیزن پورٹل پر خصوصی افراد کی شکایات کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کیا گیا۔ دو سال کے دوران خصوصی افراد کی جانب سے 1 لاکھ 55 ہزار 177 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 1 لاکھ 42 ہزار 365 شکایات کو حل کیا گیا۔ اقلیتوں کی جانب سے 56 ہزار 627 شکایات موصول ہوئیں اور 52 ہزار 789 شکایات کو حل کیا گیا۔ پورٹل پر خواتین کی جانب سے 1 لاکھ 80 ہزار 673 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 1 لاکھ 68 ہزار 299 شکایات کا ازالہ کیا گیا۔ بزرگ شہریوں کی طرف سے 34 ہزار 570 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 31 ہزار 466 شکایات کو حل کیا گیا۔ پورٹل پر خیبر پختونخوا کے 69 ہزار 198 شہریوں نے شکایات کے حل پر اعتماد کا اظہار کیا، پنجاب سے 2 لاکھ 13 ہزار 815 افراد نے اطمینان کا اظہار کیا، بلوچستان سے 3 ہزار 575 افراد نے جبکہ سندھ سے 16 ہزار 477 افراد نے شکایات حل ہونے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ عوامی رائے کے تحت وزارت خارجہ امور کیلئے مجموعی طور پر 7390 فیڈ بیکس موصول ہوئے جن میں سے 3549 افراد نے اطمینان کا اظہار کیا۔ اس طرح اطمینان کی شرح 48 فیصد رہی۔ پورٹل پر منفی فیڈ بیک والی شکایات کا پرائم منسٹر ڈیلیوری یونٹ جائزہ لیتا ہے۔ اگر شکایات کو میرٹ پر حل نہیں کیا جاتا تو انہیں دوبارہ کھولا جاتا ہے۔ اس وقت تک پرائم منسٹر ڈیلیوری یونٹ کی جانب سے 1 لاکھ 67 ہزار 665 شکایات کو دوبارہ اوپن کیا گیا۔ ری اوپن ہونے کے بعد 28 فیصد منفی فیڈ بیک مثبت میں تبدیل ہوئے۔ ری اوپن ہونے والی 1 لاکھ 67 ہزار 665 شکایات میں سے 1 لاکھ 53 ہزار 425 شکایات کو حل کیا گیا۔ اس حوالے سے 27 ہزار 193 فیڈ بیکس موصول ہوئے جن میں سے 7 ہزار 535 فیڈ بیکس میں اطمینان کا اظہار پایا گیا۔ عوامی رویئے کی نگرانی کیلئے شکایات کو طریقہ کار کے مطابق سسٹم سے نکال دیا جاتا ہے۔ شہریوں کی ذمہ داری کا انڈیکس (سی آر آئی) برقرار رکھا جاتا ہے۔ شکایات کو ختم کرنے کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں جن میں شہریوں کی اپنی درخواست پر، غیر واضح مبہم مواد، ڈپلی کیٹ شکایات، نان ایشوز، عدالتی امور، سروس کے معاملات، ملازمت سمیت مختلف امور شامل ہیں۔ پاکستان سٹیزن پورٹل پر موصول ہونے والی شکایات پر عوامی مفاد میں اہم پالیسی اصلاحات بھی کی گئی ہیں جن میں فنگر پرنٹس ضائع ہونے والے افراد کی سہولت کے لئے ایس او پیز کا نفاذ کیا گیا جو نادرا کے ذریعے نافذ کر دیا گیا ہے۔ ود ہولڈنگ ٹیکس سے سمندر پار پاکستانیوں کو استثنیٰ دیا گیا، 282 شکایات پر 29 ہزار انٹرنیز کو 941 ملین روپے کے واجبات کی ادائیگی کی گئی۔ خواتین اور معذور افراد کی سہولت کے لئے ایف پی ایس سی کی جانب سے امتحانی مراکز تبدیل کئے گئے۔ سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لئے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی، اسلام آباد ایکسائز میں طریقہ کار کو آسان بنانے کے لئے اصلاحات لائی گئیں۔ مہلک بیماریوں کے علاج کے پروگرام کو بحال کیا گیا۔ اس پورٹل کے ذریعے وزارتوں اور ڈویڑنوں میں بھی اصلاحات لائی گئیں۔ 1322 اسامیوں کے لئے بھرتی کے قوانین تشکیل دیئے گئے جن سے 16 ہزار 343 افسران مستفید ہوں گے۔ 3333 افسران کے طویل عرصہ سے پروموشنز کے معاملات کو حل کیا گیا۔ طویل عرصہ سے زیر التوائ سنیارٹیز کا اعلان کیا گیا جس سے 8384 افسران مستفید ہوں گے۔ وفاقی حکومت کے اداروں میں 946 زیر التوائ ڈسپلنری انکوائریز کو حتمی شکل دی گئی۔ 1815 افراد کو دوسرے عہدوں پر لگایا گیا یا ہٹایا گیا۔ 6758 خالی اسامیوں کو پ±ر کیا گیا۔ اس پورٹل کے ڈیزائن اور تیاری پر کسی قسم کی لاگت نہیں آئی جبکہ دو سال کے دوران اس پروگرام کو چلانے پر 53 ملین روپے خرچ ہوئے۔ ایک شکایت کے حل پر حکومت کو آنے والی لاگت 20 روپے ہے۔ مستقبل میں پاکستان سٹیزن پورٹل کو مزید بہتر اور باسہولت بنانے کے لئے اس میں مزید خصوصیات شامل کرنے کا منصوبہ ہے۔ مزید فراہم کئے جانے والے فیچرز میں عوامی رائے، نوٹیفیکیشنز اور اعلانات، آل پاکستان فون ڈائریکٹری، خصوصی ایونٹس، کارکردگی اور آڈٹ کا نظام اور دیگر شامل ہیں۔ پاکستان سٹیزن پورٹل کی دو سالہ کارکردگی کے حوالے سے ایک خصوصی تقریب جمعہ کو منعقد ہوئی جس میں وزیراعظم عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سٹیزن پورٹل مدینہ کی ریاست کی جانب ایک اہم قدم ہے، اس سے اداروں، بیورکریسی اور وزرائ کی کارکردگی جانچنے میں مدد مل رہی ہے۔ مقامی حکومتوں کے نئے نظام سے انقلاب آئے گا اور عوام کے مسائل ان کے اپنے شہر میں حل ہوں گے۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ وہ اپنے آپ کو بااختیار بنانے کے لئے اس پورٹل کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ 


Tuesday, November 17, 2020

علامہ اقبال اور علامہ خادم حسین رضوی

 

آج میں جو لکھ رہا ہوں، یہ سعیِ نامشکور ہے، اس سے اہلسنّت کے حلقوں میں نہ تحریک لبیک کے حامی اور محبین خوش ہوں گے اورنہ ان کے وہ معاصرین جو تحریک کے میدانِ عمل میں آنے سے بے اثر ہوکر رہ گئے ہیں۔ لیکن میں کافی دنوں سے اس کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ یہ تاریخ کا قرض ہے جو چکا دینا چاہیے، امیرمینائی نے کہا ہے:

امیر جمع ہیں احباب، حالِ دل کہہ لے

پھر التفاتِ دل دوستاں رہے، نہ رہے
تحریک کا مثبت پہلو علامہ خادم حسین رضوی کی کرشماتی شخصیت ہے، وہ علمی اعتبار سے مستحکم ہیں، حفظِ قرآنِ کریم پر انہیں مکمل عبور ہے، قرآن وحدیث کے حوالہ جات ازبر ہیں، سیرت نبوی، سیرت صحابہ اور تاریخ اسلام پر انہیں عبور ہے۔ علامہ اقبال کا اردو وفارسی کلام انہیں ازبر ہے، ذہانت کے ساتھ ساتھ حافظہ اور استحضار غضب کا ہے اور سب جانتے ہیں کہ اردو خطابت کے لیے کلامِ اقبال سے زیادہ اکسیر چیز کوئی اورنہیں ہے، وہ علامہ اقبال کو قلندر لاہوری کہتے ہیں، اقبال نے کہا ہے:
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
علامہ خادم حسین اپنے من میں ڈوبے ہیں یا نہیں، اقبال کے من میں واقعی ڈوب چکے ہیں، بلکہ پنجابی زبان کے محاورے میں کھُب چکے ہیں۔ ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے ایڈیٹر جناب سلیم منصور خالد نے علامہ خادم حسین رضوی کا ایک ویڈیو کلپ مجھے بھیجا، کبھی کبھی اُن کے ساتھ تبادلۂ خیال ہوتا رہتا ہے، کہنے لگے: ’’میں نے اوریا مقبول جان سے کہا ہے: الحمراہال میں خادم حسین رضوی کی اقبال پر لیکچرز سیریز ہونی چاہیے، اس میں یونیورسٹیوں کے اساتذہ وطلبہ کو بلایا جائے تاکہ وہ اقبال کے پیغام اور ان کی روح میں جو امت کا درد تھا، اس کو سمجھیں، پھر انہوں نے یہ عنوانات تجویز کیے: توحید واقبال، علماء ومشایخ اور اقبال، مغرب اور اقبال، انسانیت اور اقبال، اتحادِ امت اور اقبال (عصبیتِ جاہلیہ کی نفی بھی شامل ہو)، مسلم امہ کی حالت ِ زار اور اقبال، علم اور اقبال، مولانا روم اور اقبال، قرآن اور اقبال، جہاد اور اقبال، پاکستان اور اقبال، عشقِ رسالت اور اقبال‘‘ وغیرہ۔
اقبالیات میں کسی یونیورسٹی کی اردو فیکلٹی میں نہ کوئی ان کا ہمسر ہے اور نہ شاید اقبال اکیڈمی کے مسند نشین ان کے پائے کے ہوں، واللہ اعلم بالصواب،
علامہ خادم حسین رضوی نے اقبال کو خوب سمجھا، پڑھا اور ایسا برتا ہے کہ جب وہ اپنے خطبات میں اقبال کا حوالہ دیتے ہیں تو لگتا ہے: شاید اقبال نے یہ اشعار اسی موقعے کے لیے کہے ہوں۔
ان میں خود اعتمادی غضب کی ہے، بے دھڑک اور بے لحاظ ہیں۔ ان کے ساتھ صاحبزادگی، سجادگی اور موروثیت کا کوئی سابقہ یا لاحقہ نہیں ہے، انہوں نے اپنی صلاحیت ومحنت سے اپنی دنیا آباد کی ہے، کسی کے مرہونِ منَّت نہیں ہیں، غالب نے کہا تھا:
درد منّت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا
دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں میں کوئی شہبازِ خطابت ان کے قد کاٹھ کا نہیں ہے، ان کا ابلاغ غضب کا ہے۔ ان کو دوسروں پر ایک برتری یہ بھی حاصل ہے کہ اُن کے مخاطَبین خاص وضع قطع کے لوگ نہیں ہیں، معاشرے کے ہر طبقے کے لوگ ہیں، اس سے میری مراد برگر کلاس نہیں ہے، بلکہ معاشرے کا وہ حصہ ہے جن کی ذہنی ساخت اپنے مذہب، تہذیب وثقافت، روایات اور اقدار کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے، بس وہ سازو آواز اور لَے چاہیے جو ان کے تارِ نفَس کو چھیڑ دے اور ان کے ضمیر خُفتہ کو بیدار کرکے اس میں کرنٹ دوڑادے۔ علامہ اقبال کے کلام میں اثر آفرینی غضب کی ہے، جب وسطی ایشیائی ریاستیں کمیونزم کے پون صدی کے تسلّط سے آزاد ہوئیں تو تاجکستان کے پرجوش نوجوانوں نے اقبال کے ان اشعار کو اپنا ترانہ بنایا تھا، اگرچہ بعد میں وہ اپنی بے تدبیری کی نذر ہوگئے:
اے غنچۂ خوابیدہ چو نرگس نِگَراں، خیز
کاشانۂ ما، رفت بتَاراجِ غماں، خیز
از نالۂ مرغِ چمن، از بانگِ اذاں، خیز
از گرمیِ ہنگامۂ آتش نفَساں، خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خیز
فریاد ز افرنگ و دل آویزیِ افرنگ
فریاد ز شیرینی و پرویزیِ افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزیِ افرنگ
معمارِ حرم، باز بہ تعمیرِ جہاں، خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خیز
مفہوم: ’’اے سوئے ہوئے غنچے، نرگس کی طرف دیکھتے ہوئے اٹھ، ہمارا گھرغموں اور مصیبتوں نے برباد کر دیا، اٹھ، چمن کے پرندے کی فریاد سے اٹھ، اذان کی آواز سے اٹھ، آگ کی مانند گرم سانسوں کی حرارت سے اٹھ، (غفلت کی) بہت گہری نیند سے اٹھ۔ اہلِ یورپ اور اُن کی دل آویزی، شیرینی وشان وشوکت کی فریاد ہے، یورپ کی چنگیزی سے ساری کائنات ویران ہے، اے حرم کے معمار! غفلت کی نیند سے اٹھ اور ایک بار پھر تعمیر ِ جہاں کے لیے کمر کس کر میدانِ عمل میں اتر آ‘‘۔
اب آتے ہیں تحریکِ لبیک کے منفی پہلوئوں کی جانب، انہیں ہم کمزور پہلوئوں سے تعبیر کرسکتے ہیں: ایک تو یہ تنظیم تھنک ٹینک یعنی مجلسِ مفکّرین سے محروم ہے، دوسری ان کی پوری اپروچ غیر سیاسی ہے، مذہبی ومسلکی رنگ بے انتہا غالب ہے، جبکہ پورے معاشرے میں سیاسی نفوذ کے لیے سیاسی اپروچ کا ہونا ضروری ہے۔ جوش وجذبہ فراواں ہے، عشقِ مصطفیؐ سے ان کو ایسی مہمیز ملتی ہے جو وقتی طور پر انسان کو فرش سے اٹھا کر عرش پہ پہنچا دیتی ہے، لیکن یہ کیفیت عارضی ہوتی ہے، دیرپا نہیں ہوتی، اس کے لیے شعوری تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، جس کا اگر پوری طرح فقدان نہیں ہے تو فکری خوراک بہت کم ہے جو نعروں میں دب جاتی ہے، چنانچہ ایک ہی جھٹکا لگا تو سہم گئے۔ اس تنظیم میں بلاشبہ تشدّد نہیں ہے جو وصفِ مذموم ہے، تصلّب ہے جو وصفِ حمید ہے، لیکن زیادہ نعرے فضا میں تحلیل ہوجاتے ہیں، قلب وروح میں جذب نہیں ہوپاتے، پس سیلِ رواں کے ساتھ ٹھیرائو کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ رسول اللہؐ کی تعلیمات میں یہ دونوں چیزیں تھیں، اس لیے غبار میں دبے ہیرے نکھر کر کندن بن جاتے، کسی نے خوب کہا ہے:
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا، تب نگیں ہوا
اصحابِ عزیمت کی قلت ہے، اس کے لیے تربیت درکار ہوتی ہے، ہر ایک کی صلاحیت کو پرکھ کر اُسے صحیح جگہ فِٹ کیا جاتا ہے، ہر نگینے کو تاج میں اس کی مناسب جگہ پر جَڑا جاتا ہے۔ صحابۂ کرام کی جماعت میں جہاں بانی کے خوگر بھی تھے، معرکۂ حق وباطل کے سپہ سالار بھی تھے، بعض وہ تھے جن پر منصبِ عدالت کو ناز تھا، بعض مفسر تھے، بعض محدّث تھے، بعض فقیہ اور مجتہد تھے، بعض صائم النّھار اور قائم اللّیل تھے، بعض کامیاب تاجر تھے، بعض صوفیِ باصفا تھے، الغرض کوئی شعبۂ حیات ایسا نہ رہا جس کے لیے آپؐ نے رجالِ کار تیار نہ کیے ہوں۔ صلاحیتوں کو پرکھنے اور ہر ایک کے باطن میں جھانکنے کے لیے جوہری کی نظر درکار ہوتی ہے:
قدر زر، زرگر شناسد، قدر گوہر، گوہری
ہمارے ہاں دوسرے کی قیادت کو تسلیم کرنے کی روایت کم ہے اور قیادتوں کا مجموعہ کوئی مہم سر نہیں کرسکتا، بلکہ تشُّتت وافتراق کا باعث بنتا ہے، ارتقاء کے لیے وحدتِ امارت شرطِ اول ہے، مگر ہمارے ہاں اس کاچلن نہیں۔ تعدُّدِ امارات تباہی وبربادی کے سوا کچھ نہیں ہے، بزرگانِ دین کے آستانے موروثیت نے ہی ویران اور بے فیض کردیے، تنظیموں اور جماعتوں میں موروثیت کے شعار کی مثال تالاب میں ٹھیرے ہوئے پانی کی سڑاند اور بساند کی سی ہے، بات تلخ ہے مگر سچ یہی ہے۔ ایک عربی شعر کا مفہومی ترجمہ درج ذیل ہے: ’’ایسی قوم فلاح نہیں پاسکتی جس میں سب لوگ ہم مرتبہ ہوں اورکسی کی سیادت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوں یا قیادت پر جاہل مسلّط ہوجائیں تو ایسی قیادت بھی قوم کوکامیابی سے ہمکنار نہیں کرسکتی‘‘۔
اگر علامہ خادم حسین کی جماعت ایک منظّم تنظیم میں ڈھل جائے تو نتائج بالکل مختلف ہوں۔ ایک مشکل یہ ہے کہ علامہ خادم حسین رضوی اپنی ذات میں بے پناہ قائدانہ صلاحیت اور عزم وہمت کے باوجود جسمانی معذوری کے سبب طوفانی دوروں اور برق رفتاری سے کوئی مہم چلانے سے قاصر ہیں۔ مزید یہ کہ اُن کا جو مقامِ ارتفاع تھا، اُس میں ایک ایسا پہلو مضمر تھاکہ اُس کا ذکر نہ میرے بس میں ہے اور نہ تحریک کے مفاد میں ہے۔ نیز چوراہے پر کسی سوچ بچار، دلیل ومشاورت اور حکمت ومصلحت کے بغیر علامہ پیر محمد افضل قادری کا فتویٰ پوری تنظیم پر خود کش حملہ ثابت ہوا، اس کی بروقت تلافی کی ایک ہی صورت تھی کہ علامہ صاحب موقع پر ہی اعلان کردیتے کہ یہ تنظیم کا موقف نہیں ہے، حضرت کا ذاتی موقف ہے۔
یہ جبر بھی دیکھا ہے، تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی
تنظیم کے لیے مختلف کیڈر زکی ضرورت ہے، ہم خیال علمائے کرام اور مشایخِ عظام سے رابطے کے لیے ایک خصوصی سیل کی ضرورت ہے، نیز ایک سیل ایسے افراد کا ہونا چاہیے جو مذہبی رسوخ اور تصلّب کے ساتھ ساتھ ملکی اور عالمی سیاست کا شعور بھی رکھتے ہوں۔ اسی طرح ہر سطح پر قیادت کے دوتین پرت ہونے چاہییںکہ کسی ناگہانی صورتِ حال میں خلا پیدا ہونے پر تنظیم جامد وساکت نہ ہوجائے، بلکہ اپنی رفتار سے چلتی رہے۔ سیاست میں رہتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے ساتھ بعض اوقات مشترکہ اور متفقہ مقاصد کے لیے اشتراکِ عمل کرنا پڑتا ہے، تحریکِ لبیک میں اس تجربے کا سرے سے فقدان ہے۔ اسی طرح اہم مذہبی اہداف کے لیے بھی مذہبی جماعتوں کے ساتھ کسی نہ کسی سطح کا اشتراکِ عمل کرنا پڑتا ہے، ابھی تک تحریک اس شعار سے نا آشنا ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے لوگوں کی تربیت اپنے امتیازات کے ساتھ کی ہے۔ چونکہ کارکنوں کی ایسی تربیت نہیں ہے، اس لیے ایسا کوئی مرحلہ آنے پر وہ بکھر سکتے ہیں، کیونکہ وہ ماحول کو اپنے لیے اجنبی سمجھیں گے، بے دل ہوجائیں گے اور گھر جا بیٹھیں گے۔ پس سوشل میڈیا سے ہٹ کرکارکنوں کی طویل تربیتی نشستوں کی ضرورت ہے، یہ مبدا سے معاد تک کا سفر ہے، اس میں کٹھن راہیں اور رکاوٹیں بھی آئیں گی، خطرات بھی درپیش ہوں گے، یقینا اچھے لمحات بھی آتے ہیں، پس ’’بہترین کی امید رکھو اور بدترین کے لیے تیار رہو‘‘۔

 


Tuesday, November 10, 2020

طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کے اسباب

 

سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے آپؐ نے فرمایا: ’’زیادہ مبغوض اور زیادہ بری حلال چیزوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک طلاق ہے‘‘۔(ابنِ ماجہ، الحاکم و ابو داؤد)
حدیثِ نبوی ہے ’’نکاح کرو اور طلاق نہ دو اس لیے کہ طلاق دینے سے عرش ہلتا ہے‘‘۔ دور حاضر میں گھر کی اساس کو ’’مغربی تمدن‘‘ اور ’’نئی تہذیب‘‘ نے پاش پاش کردیا ہے اور گھریلو اور معاشرتی نظام میں جو بگاڑ پیدا ہوا ہے اور جس سے گھریلو پرسکون ماحول فاسد ہوا ہے جس سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ عورتوں کو گھر کے پرسکون ماحول سے باہر نکال کر دفاتر اور این جی اوز کی زینت بنا کر بچوں اور شوہروں کے حقوق پامال کیے گئے ہیں۔

دور حاضر میں گھر کی اساس کو ’’مغربی تمدن‘‘ اور ’’نئی تہذیب‘‘ نے پاش پاش کردیا ہے اور گھریلو اور معاشرتی نظام میں جو بگاڑ پیدا ہوا ہے اور جس سے گھریلو پرسکون ماحول فاسد ہوا ہے جس سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہوا ہے

’’الرجال قوامون علی النساء‘‘ کے بجائے مساوات کا سبز باغ دکھا کر صنفِ نازک پر ظلم ڈھایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد وعورت کو تخلیق کیا ان کو وجود بخشا اس لیے وہ اس کے مزاج وفطرت سے بخوبی واقف ہے۔ پھر قرآن مجید کی تعلیمات میں اپنے نبی محمدؐ کی زبانی ازدواجی رشتے کو استوار کرنے کے طریقے بتاکر امہات المؤمنین کے ساتھ خوشگوار زندگی گزار کر امت مسلمہ کو تعلیم بھی دی۔ میرے نبیؐ نے اپنے سے پندرہ سال بڑی خاتون سے شادی کی اور بے مثال ازدواجی زندگی گزاری اماں خدیجہؓ نے بھی بیوی ہونے کا حق ادا کردیا اور عورتوں کو سمجھا دیا کہ شادی کے بعد اس کا شوہر ہی سب کچھ ہے۔ اپنا تن من دھن آپؐ پر نثار کردیا۔ سب سے پہلے آپؐ پر ایمان لائیں اور نبوت کے بار گراں میں بھی قدم بقدم اپنے عظیم شوہر کے ساتھ رہیں۔ اسی طرح تمام امہات المومنین نے بھی مقدور بھر پیارے نبیؐ کے ساتھ بہترین ازدواجی زندگی گزاری۔ امی عائشہ صدیقہؓ نے بھی محبوب بیوی ہونے کے باوجود کنیز کی موجودگی کے باوجود اپنے محبوب عظیم شوہر کی ہر ممکن خدمت کی۔ دوسری طرف میرے نبیؐ نے بھی شوہر ہونے کا حق ادا کر کے بتایا کہ گھر بنانے میں میاں بیوی دونوں کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ گھر جنت بن سکے۔ یعنی والدین صرف بیٹی ہی کی نہیں بلکہ بیٹے کی بھی ایسی دینی و دنیاوی تربیت کریں کہ بہترین معاشرہ جنم لے، لیکن ناس ہو میڈیا کا جس نے فحش اور نازیبا ڈرامے دکھا کر اور رشتوں کا احترام ختم کرکے گھر توڑنے کے نت نئے طریقے بتاکر گھر کے پاکیزہ ماحول کو درہم برہم کر دیا ہے۔


حدیثِ نبوی ہے ’’کہ عورت جب پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہو، اپنے ناموس و عزت کی حفاظت کرتی ہو اور شوہر کی اطاعت کرتی ہو تو وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے۔ ( ابنِ حبان ترغیب) صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ’’میرے نبیؐ نے جہنم میں عورتوں کو مردوں سے زیادہ دیکھا۔ جب آپؐ سے اس کی وجہ پوچھیں گئی تو معلوم ہوا ’’تکفرن العشیر‘‘ یعنی شوہر کی ناشکری کرنے کی وجہ سے‘‘۔ غرضیکہ طلاق اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے اگرچہ حلال ہے۔ بلا ضرورت طلاق شدہ گھرانے کے مرد وعورت دونوں ہی پریشان رہتے ہیں۔ بہت سے دوسرے گناہوں کا راستہ نکل آتا ہے، دین ودنیا خراب ہو جاتے ہیں جوڑ اور ربط محمود ہے۔ سو جہاں تک ہوسکے میاں بیوی اسلامی زندگی گزاریں اور جہاں تک ہوسکے طلاق کی صورت پیدا نہ ہونے دیں۔ خیال رہے کہ صرف عورتوں پر ہی مردوں کے حقوق نہیں ہیں بلکہ مردوں پر بھی عورتوں کے حقوق ہیں کہ وہ بھی اپنی بیویوں کے راحت و آرام کا خیال رکھیں۔ ہر وقت ان سے جانوروں کی طرح کام لینا بلاوجہ سب کے سامنے بے عزت کرنا، حقارت سے بات کرنا، اس کے گھر والوں کی بے عزتی کرنا، بات بات پر طعنے دینا یہ وجوہات بھی طلاق کا سبب بن سکتی ہیں اس لیے میرے نبیؐ کی ازدواجی زندگی کو مثال بنا کر عمل میں لائیں تاکہ گھر ٹوٹنے سے بچ سکیں


Monday, November 9, 2020

خالق سے وفاداری اور مخلوق کی خیرخواہی

 خالق سے وفاداری اور مخلوق کی خیرخواہی

جودہ عالمی ماحول اپنی بیش تر صورتوں میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے گویا چلینجز کا ایک انبار ہے۔ یہ انبار ایسا ہے کہ اس کا ہر دانہ کشتِ وجود کے لیے ایک انگارہ ہے۔ اس ماحول میں اس سے موافقت پیدا کر کے رہنے کے لیے دین و مذہب ہی نہیں بلکہ آدمی کو اپنے آدمیت سے بھی پیچھا چھڑانا ہو گا۔ اب خدا کا انکار کافی نہیں مانا جائے گا، تنسیخِ آدم (dehumanization) کے تقاضے بھی پورے کرنے ہوں گے۔ آدمی خدا کا منکر ہو جائے تو جو بگاڑ پیدا ہو گا عارضی ہو گا، لیکن آدمی اپنے ہی انکار پر آمادہ اور کمر بستہ ہو جائے تو یہ فساد اپنے دائرے میں مستقل ہو گا۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر یہ صورتِ حال پیدا ہو گئی کہ آدمی خود ہی تارک ہے اور خود ہی متروک، تو خدا کو ماننے اور نہ ماننے کی کشاکش ہی ختم ہو جائے گی۔ اگر ہمیں اس انجام کو پہنچنے سے بچنا ہے تو دو اصولوں پر خود کو غیر متزلزل استقامت کے ساتھ قائم رکھنا ہے۔ وہ دو اصول یہ ہیں: اللہ سے جڑے رہو وفاداری کے ساتھ اور مخلوق سے متعلق رہو خیر خواہی کے ساتھ۔

ہم ان دونوں بنیادوں پر خود کو آسانی اور ثابت قدمی کے ساتھ استوار کر سکتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ استغفار میں جی لگنا چاہیے اور شکر سے دل کو نہال رہنا چاہیے۔ شکر اور استغفار کے لیے احساسات اور جذبات کی کمی نہ ہو۔ اللہ سے استغفار اس طرح کرو کہ اس کے دستِ بخشش کی تھپک محسوس کر لو، اور شکر اس طرح ادا کرو کہ گویا اللہ کو عطا کرتے ہوئے دیکھنے کے عمل سے گزر رہے ہو۔ شکر اور استغفار کو خالص کر کے اپنے احساسات میں داخل کرو اور دنیا میں دوسروں کو شریک رکھو۔ اپنی دنیا میں دوسروں کو شریک نہ رکھنے والا آخرت میں فلاح پانے کی قابلیت کھو بیٹھتا ہے۔ اپنے وسائل، اپنے اختیارات، ان سب کو دوسروں کے فائدے کے لیے استعمال کرو اور دوسروں کے فائدے کو اتنی اہمیت دینے کی کوشش کرو کہ کبھی کبھی اپنا نقصان بھی خوشی سے گوارا ہو جائے۔ اس روٹی سے زیادہ لذیذ کوئی روٹی نہیں ہوتی جو میں خود بھوکا رہ کر آپ کو کھلا دیتا ہوں۔ شکر و استغفار کے باطنی آداب اچھی طرح بجا لانے کے لیے کچھ عادات و معمولات کو بدلنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر موبائل فون وغیرہ کے استعمال میں بہت ہوشیار اور محتاط رہنا چاہیے۔ یہ چیزیں ہمارے اندر ایک ایسا خلا پھونک رہی ہیں جس میں انسان سانس نہیں لے سکتا۔ ان سے اپنی تنہائی کی بھی حفاظت کرو اور اپنی مجلسوں میں بھی انہیں دراندازی نہ کرنے دو۔ یہ سب وہم ہے کہ علم نیٹ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ علم استاد سے حاصل کیا جاتا ہے۔ ایسی معلومات جن کے صحیح اور غلط ہونے کا تعین میرے بس میں نہیں ہے، وہ علم نہیں ہیں بلکہ جہلِ مرکب ہیں۔ اس مرض میں مبتلا شخص اس خوش فہمی میں رہتا ہے کہ وہ صاحبِ علم ہے۔ تو بھائی، تنہائی کی بھی حفاظت کرو اور معاشرت کی بھی۔ ایک موبائل فون ہی نے ہمارے اندر ان دونوں کو غارت کر کے رکھ دیا ہے۔ تعلق کا پورا نظام تہس نہس ہوتا جا رہا ہے۔ تنہائی میں یہ ہمیں خود سے دور کر دیتا ہے اور معاشرت میں دوسروں سے۔ غضب خدا کا، چار دوست پانچویں کے گھر آئے، جلدی جلدی علیک سلیک ہوئی اور سب نے مل کر بیہودہ اور بھونڈا سا قہقہہ لگایا اور پھر بیٹھتے ہی اپنے اپنے فون پر مشغول ہو گئے۔ اسی طرح سب گھر والے بیٹھے ہیں لیکن یہ موبائل انہیں ایک دوسرے کی طرف متوجہ نہیں ہونے دے رہا۔ آپ ہی بتائیے کہ یہ کبھی ہوسکتا تھا کہ باپ بیٹھا ہو اور بیٹا اپنے کسی شغل میں محو رہے! لیکن جب باپ ہی اس لت میں مبتلا ہو تو بیٹے کو کیا کہا جائے۔ اب یہ احساس ہی مفقود ہوتا جا رہا ہے کہ یہ مشغولیت دوسروں کی اہانت کا باعث بن چکی ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ میں بھری مجلس میں اپنے فون سے کھیلتا رہوں۔ یہ اہلِ مجلس کی بدترین توہین ہے۔ یہ تو بالکل سامنے کی باتیں ہیں، ان سائبر ایجادات اور آلات کے منفی اثرات کا ذرا گہرائی میں جا کر جائزہ لیا جائے تو ہر وہ آدمی اپنے ڈرنے کی سکت سے زیادہ ڈر جائے گا جسے اپنا ایمان اور اپنی آدمیت تاحال عزیز ہے۔ سچی بات ہے، کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ وجود کی ساری طاقت معدومیت کی تعمیر میں صرف ہو رہی ہے۔

ان نحوستوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے استغفار کے ساتھ قلبی ہم آہنگی کا اہتمام بہت ضروری ہے۔ ایسی توبہ کرنے والا اللہ کو خوش رکھتا ہے اور اس کی برکت سے خود بھی اطمینانِ نفس کی کیفیت رکھنے والی خوشی سے شرابور رہتا ہے۔ یہ یاد رکھنا کہ توبہ سے حاصل ہونے والی طمانیت کسی نیکی سے بھی میسر نہیں آ سکتی۔ سب جانتے ہیں کہ توبہ صرف بخشش کی التجا نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف محبت اور خشیت کو ایک کر کے لپکنے کا مسلسل عمل اور مستقل حال ہے۔ ایک بندہ تائب ہی کہہ سکتا ہے کہ میں اللہ کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تم جانتے ہو کہ یہ کتنی بڑی بات ہے! اللہ نے ہمیں دنیا میں جس آزمائش میں سرخرو ہونے کی ذمے داری دے کر بھیجا ہے اس کی انتہا یہی ہے کہ ہم خود کو سچائی کے ساتھ یہ کہنے کے قابل بنا کر دکھائیں کہ یا اللہ! آپ خود دیکھ لیجیے کہ ہم دنیا کے بغیر رہ سکتے ہیں، اپنے آپ کے بغیر رہ سکتے ہیں لیکن آپ کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ تو مختصر یہ کہ توبہ بندگی کا بینادی اور مرکزی حال ہے۔ یہ حال جتنا پختہ ہوتا جائے گا، دیگر احوالِ بندگی بھی اسی حساب سے حاصل ہوتے جائیں گے۔

ہماری معاشرت یہ تھی کہ اذان کی آواز بلند ہوتے ہی گویا کائنات پر سکتہ چھا جاتا تھا۔ اب یہ حال ہے کہ اذان ہو رہی ہے اور وہ شخص جو پانچ وقت کا نمازی ہے، وہ بھی اپنی کاروباری یا فضول گفتگو کو روکنا گوارا نہیں کرتا۔ فوراً نماز کی تیاری کی طرف متوجہ ہونا تو دور کی بات ہے، اذان کا جواب دینا جو واجب کے درجے میں ہے، یہ آدمی اْس کی طرف سے بھی غافل ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں، اذان یا تو ’الارم‘ ہے یا زلزلہ۔ ان دو کے سوا اس کو محسوس کرنے کا کوئی اور زاویہ ہے ہی نہیں۔ یہ یا تو غفلت کے ماحول میں زلزلے کی طرح آتی ہے اور مجھے بیدار کرتی ہے، یا الارم کی طرح گونجتی ہے کہ بس اب بہت ہوچکا، اللہ کی طرف چلو۔ اس پس منظر میں دیکھیں تو صاف نظر آتاہے.

Sunday, November 8, 2020

مصر کے فوجی ڈکٹیٹر نے فرانس کے بائیکاٹ کو جرم بنادیا

مصر کے فوجی ڈکٹیٹر نے فرانس کے بائیکاٹ کو جرم بنادیا

مصر پر مسلط جنرل عبدالفتاح سیسی کی اسلام دشمن حکومت نے اپنے جرائم میں پیش قدمی کرتے ہوئے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی دعوت دینے کو جرم قرار دے دیا۔ مصر کے معروف عالم دین اور مبلغ شیخ مصطفی عدوی نے فرانس میں ریاستی سرپرستی سے جاری توہین اسلام کے خلاف مسلمان حکمرانوں کو عملی اقدام کرنے کی دعوت دی تھی۔ انہوں نے اپنے ایک وڈیو پیغام میں کہا تھا کہ مسلمان حکمران اسلام سے برسرپیکار 



ممالک کے بجائے غیرمتحارب ممالک سے اسلحہ خریدیں، کیوں کہ فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ عام مسلمانوں ہی کا نہیں حکمرانوں اور سیاست دانوں کا بھی فریضہ ہے۔ مغربی آقاؤں کے اشاروں پر ناچنے والی سیسی حکومت کو شیخ مصطفی عدوی کا یہ جرأت مندانہ بیان پسند نہ آیا اور پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا۔ سیسی حکومت کی جانب سے اگرچہ یہ مغرب نوازی اور اسلام پسندوں سے دشمنی کی پہلی مثال نہیں ہے، تاہم ایک ایسے موقع پر جب فرانس میں توہین رسالت کی پے در پے ناپاک جسارت کے باعث پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل چھلنی ہیں، مصری آمریت کا یہ اقدام ناقابل قبول اور امت مسلمہ کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ مصر میں پہلے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کا تختہ الٹنے کے بعد سیسی حکومت نے انسانیت کے خلاف جرائم میں فرانس ہی کی پیروی کرنے کی کوشش کی ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد شہید، گرفتار اور لاپتا ہوچکے ہیں۔ اخوان المسلمون سمیت فوجی حکومت کی ناقد تمام ہی جماعتوں کے رہنما اور کارکن قیدوبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ سیکڑوں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس لیے سیسی حکومت کی جانب سے فرانس کی گستاخانہ سرگرمیوں کے حمایت میں یہ اقدام کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ لیکن یہ باعث افسوس ضرور ہے کہ ایسے وقت میں جب مسلمانوں کی جانب سے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ نے متعصب صدر عمانویل ماکروں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے، مصر پر قابض فوجی حکومت اس بائیکاٹ اور احتجاج کو دبانے کے لیے اپنے ہی شہریوںاور شخصیات کے خلاف صف آرا ہوگئی ہے۔ مسلمانوں کے ہاتھوں معاشی دھچکا لگنے کے بعد سے فرانسیسی صدر دنیا کو وضاحتیں دیتا پھر رہا ہے کہ ذرائع ابلاغ میں ان کے بیانات کو توڑ موڑ کر نشر کیا گیا۔ فرانس کی جنگ اسلام نہیں شدت پسندی کے خلاف ہے۔ نیز یہ کہ اس کی حکومت مسلمانوں کے خلاف نسل پرستی کو بڑھاوا نہیں دے رہی۔ ماکروں نے ایک انٹرویو میں یہ تک بہانا تراشا کہ وہ اب سمجھا ہے کہ خاکے بعض لوگوں کے لیے اس قدر تکلیف دہ ہوسکتے ہیں۔ غرض فرانس کی اسلام دشمن اور نسل پرست حکومت نے مسلمانوں کے عملی احتجاج کو جتنا سنجیدہ لیا، اتنا اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے مذمتی اور صلح کل انداز کے بیانات کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ممالک ریاستی سطح پر فرانس کو لگام ڈال کر برسوں سے جاری توہین مذہب کا یہ سلسلہ بند کراسکتے ہیں۔ مسلمانوں کے ممالک کی اکثریت ایسی ہے، جہاں حکمرانِ وقت، حکومت، مقتدر حلقوں اور افواج کو تنقید کا نشانہ بنانا، ناقابل معافی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح حلیف غیرمسلم ممالک کے خلاف بیان بازی بھی برداشت نہیں کی جاتی۔ اس جرم کی پاداش میں مختلف ممالک میں لاکھوں شہری پابند سلاسل اور لاپتا ہیں۔ لیکن بات جب توہین اسلام اور ناموسِ رسالت کی آتی ہے، تو یہی حکومتیں مذمتی بیانات داغ دینے پر اکتفا کرتی نظر آتیں ہیں۔ ان ممالک کے دستور میں اسلام کو سرکاری مذہب کا درجہ تو دیا جاتا ہے، لیکن ان کی سرزمین پر عملاً اس دین کے خلاف اقدامات کیے جاتے ہیں۔ اپنے ممالک میں قرآن وسنت کے نفاذ کا خواب دیکھنے کو ’’سیاسی اسلام‘‘ کا نام دے کر اسلام پسندوں کو ختم کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے، کیوں کہ امریکا اور یورپی یونین سے چین اور روس تک ہر خودساختہ عالمی ٹھیکے دار کو مسلمانوں کا یہ روپ خوف زدہ کرتا ہے۔ تاہم ان حکمرانوں کو اندازہ نہیں کہ یہ دین غالب ہونے کے لیے آیا ہے اور اللہ تعالیٰ جلد مسلمانوں کی یہ خواہش پوری کردیں گے۔ اس لیے بحیثیت مسلمان عالم اسلام کے حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس سمت میں پیش رفت کریں اور مغرب کے آلہ کار نہ بنیں


Monday, June 29, 2020

کمیونزم سے بدتر نظریہ


کمیونزم سے بدتر نظریہ

کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ دنیا میں کبھی کوئی کمیونزم سے بدتر نظریہ بھی آئے گا؟ ذرا دیکھیے تو پولینڈ کے صدر آن زے دُودا کیا کہہ رہے ہیں۔
پولینڈ کے صدر آن زے دُودا نے پولینڈ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ LGBT افراد کا نہیں ایک نظریے کا نام ہے۔ کمیونزم سے بھی زیادہ بدتر نظریے کا۔ بعض لوگ پوچھ سکتے ہیں کہ یہ LGBT کیا بلا ہے؟ اس فقرے میں سب نے اہم لفظ ’’بلا‘‘ ہے۔ LGBT واقعتا ایک بلا ہے۔ اس اصطلاح میں ’’L‘‘ ہم جنس پرست عورت یا ’’Lesbian‘‘ کی علامت ہے۔ ’’G‘‘ ہم جنس پرست مرد یا ’’Gay‘‘ کا استعارہ ہے۔ ’’B‘‘ bisexual یا ذوجنسیت کا نشان ہے ’’T‘‘ زنخے یا ’’Transgender‘‘ کے لیے بروئے کار آنے والا حرف ہے۔ اب آپ کو معلوم ہوا کہ LGBT جیسی معصوم سی اصطلاح کو ہم نے بلا کیوں کہا ہے۔ لیکن اصل بات تو یہ تھی کہ LGBT افراد کا نہیں ایک نظریے کا نام ہے۔ پولینڈ کے صدر آن زے دُودا LGBT کو صرف ایک نظریہ قرار دے کر نہیں رہ گئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے والدین کی نسل نے کمیونزم سے اس لیے نجات حاصل نہیں کی کہ وہ کمیونزم کی گرفت سے نکل کر LGBT کی گرفت میں چلے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ کمیونسٹ عہد میں حکومتیں نئی نسل کو کمیونزم کی پٹی پڑھا کر اپنا دفاع کرتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ LGBT والے لوگ بھی یہی کررہے ہیں۔ حکومتی جماعت کے ایک اہم رہنما نے کہا کہ پولینڈ LGBT کے بغیر خوبصورت لگتا ہے۔ (روزنامہ ڈان کراچی، 14 جون 2020)
عیسائی دنیا جدیدیت کے تصورات، رویوں، رجحانات، عقاید اور نظریات کے آگے ہتھیار ڈالنے والوں کی دنیا ہے۔ اس دنیا نے ’’عقل پرستی‘‘ کے آگے ہتھیار ڈالے اور ’’وحی‘‘ کی روایت کو بے توقیر کیا۔ اس دنیا نے سیکولر ازم کے آگے ہتھیار ڈالے، لبرل ازم کے آگے ہتھیار ڈالے۔ کمیونزم کے آگے ہتھیار ڈالے۔ اس دنیا نے طاقت کی پوجا کی۔ جذبات کی پوجا کی۔ اب یہ دنیا ’’جنسی جبلت‘‘ کی پوجا کررہی ہے۔ فرائیڈ صاف کہتا ہے کہ مذہب اور معاشرہ انسان کی جنسی جبلت پر پابندی لگا کر انسان کو بیمار بنا دیتا ہے۔ مگر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ ہم نے گزشتہ چالیس برسوں میں مغرب کے کسی اہم آدمی کو جنسی انحراف پر سرِعام اعتراض کرتے نہیں دیکھا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ یورپ کے ایک ملک کا صدر کہہ رہا ہے کہ LGBT افراد کا نہیں ایک نظریے کا نام ہے۔ سوال یہ ہے کہ پولینڈ کے صدر نے LGBT کو نظریہ کیوں کہا ہے؟
ہر نظریے کی ایک الٰہیات ہوتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ خدا کا اقرار بھی نظریہ ہے اور اس کا انکار بھی نظریہ ہے۔ ہر نظریے کا ایک تصور علم یا Epistemology ہوتی ہے۔ ہر نظریے کا ایک تصور انسان ہوتا ہے۔ ہر نظریے کا ایک تصور زندگی ہوتا ہے۔ LGBT لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسا تصورِ زندگی اور ایک ایسا تصورِ کائنات رکھتے ہیں جس کا کوئی خدا نہیں ہے۔ ان کا تصور علم یہ ہے کہ انسان کی انفرادی عقل بلکہ اس کے نفس کی خواہش جو کہے وہی علم ہے اور اس علم پر عمل کرنا چاہیے۔ جنسی انحرافات مذہبی معاشروں میں بھی ہوتے ہیں مگر ان معاشروں میں جنسی انحرافات، ’’انحرافات‘‘ اور ’’گناہ‘‘ سمجھے جاتے ہیں اس لیے کہ وہ ایک کُل کا جزو ہوتے ہیں۔ لیکن جدیدیت نے جنسی انحرافات کو پوری زندگی بنادیا ہے۔ اس لیے LGBT لوگ افراد نہیں ایک نظریہ ہیں۔ جدید مغربی تہذیب میں Will to Power اور Will to Pleasure سے بڑی کوئی چیز نہیں۔ لذت میں جنسی لذت کا مقام اہل مغرب کے نزدیک سب سے بلند ہے۔ یہ ایسی لذت ہے جو کسی مذہب، کسی اخلاق، کسی تہذیب، کسی سماجیات، کسی عقل اور کسی منطق کی پابند نہیں۔ اس کے نزدیک انسانی رشتوں تک کی کوئی تقدیس نہیں۔ چناں چہ مغرب میں تحریم کے رشتوں میں جنسی تعلقات کافی عام بات ہیں۔ مغرب میں آپ کو ایسے گھر مل جاتے ہیں جہاں باپ بیٹی کے جنسی تعلقات ہوتے ہیں۔ جہاں بھائی بہن کے درمیان جنسی تعلقات موجود ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا تصور زندگی اور ایک ایسا تصور انسان ہے جو انسانی تاریخ میں پہلے کبھی موجود نہیں رہا۔
خاندان انسانی تہذیب کی بنیاد ہے۔ خاندان نہیں تو تہذیب بھی نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو LGBT لوگ اس لیے بھی ایک نظریہ ہیں کہ مغرب اور مغرب کے زیر اثر بعض مشرقی معاشروں میں بھی اب ہم جنس پرست مرد اور ہم جنس پرست عورتیں ’’خاندان‘‘ تشکیل دے رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ نہ مردوں، مردوں کے درمیان شادی سے انسانی نسل کی بقا ممکن ہوسکتی ہے نہ خواتین اور خواتین کے درمیان شادی یا جنسی تعلق سے نسل انسانی کی بقا کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ چناں چہ LGBT لوگ خاندان اور نسل انسانی کی بقا کے خلاف ایک بھیانک سازش کررہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ مغرب میں ہم جنس پرستوں کی تعداد سیکڑوں میں تھی۔ پھر ایک وقت آیا کہ ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ اس وقت مغرب میں ہم جنس پرستوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ایک نظریہ بنے بغیر ہم جنس پرستوں اور دیگر کی تعداد کروڑوں تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔
آج سے تیس چالیس سال پہلے تک مشرق کیا مغرب میں بھی ہم جنس پرستی اور جنسی انحراف کی دوسری صورتیں ’’Abnormal‘‘ سمجھی جاتی تھیں لیکن آج مغربی دنیا میں LGBT لوگ اور ان کے رجحانات کو ’’Normal‘‘ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ مغرب میں مذہب کا ادارہ بدترین زوال سے دوچار ہوچکا ہے۔ برطانیہ کے ممتاز جریدے ’’دی اکنامسٹ‘‘ کے ایک قدرے پرانے سروے کے مطابق مغربی یورپ میں 75 فی صد افراد کسی خدا اور کسی مذہب پر ایمان نہیں رکھتے۔ مشرقی یورپ میں خدا اور مذہب پر ایمان نہ رکھنے والوں کی تعداد تقریباً 80 فی صد ہے۔ مغرب میں LGBT لوگ اور ان کے رجحانات کو ’’Normal‘‘ سمجھنے کی دوسری بڑی وجہ ان کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔ مغرب میں تعداد ایک سطح پر ’’سیاسی‘‘ یا ’’جمہوری‘‘ مسئلہ بن جاتی ہے۔ جمہوریت کا اصول اکثریت ہے۔ مغرب کی اکثریت کو LGBT لوگوں پر کوئی اعتراض نہیں تو مسئلہ ہی ختم ہوگیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بھی LGBT لوگ ’’افراد‘‘ سے کہیں زیادہ ایک ’’نظریہ‘‘ نظر آتے ہیں۔ مغرب میں ہم جنس پرستی کس حد تک قابل قبول ہوگئی ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ دی اکنامسٹ کے ایک سروے کے مطابق مغرب میں اب 25 سے 30 فی صد ایسے ’’مسلمان‘‘ پائے جاتے ہیں جو ہم جنس پرستی کے بارے میں منفی رائے نہیں رکھتے۔ ہم سے مغرب میں آباد کئی مسلم تارکین وطن پوچھ چکے ہیں کہ اگر ہم پر اچانک اپنے بھائی یا بہن کے ہم جنس پرست ہونے کا انکشاف ہو تو ہم اس کے ساتھ کیا رویہ اختیار کریں؟ ہم اسے سمجھائیں؟ ڈانٹیں؟ ترک کردیں؟ یا اسے تقدیر سمجھ کر قبول کرلیں؟ LGBT لوگ مغرب میں ایک نظریہ نہ بنتے تو یہ صورت حال کبھی رونما نہیں ہوسکتی تھی۔
مغرب کو انسان کے احترام کی ہوا بھی نہیں لگی مگر بہرحال وہاں انسانی حقوق کے سلسلے میں کافی شور و غوغا مچا ہوا ہے جیسے ہی کوئی گروہ سیاسی یا جمہوری اعتبار سے اہم ہوتا ہے اس کے ’’حقوق‘‘ کے تحفظ کا سوال اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ چناں چہ مغرب میں LGBT لوگوں کے ’’حقوق‘‘ کے تحفظ پر بڑا زور دیا جارہا ہے۔ یہ صورت حال اس امر کا ثبوت ہے کہ مغربی دنیا میں LGBT لوگ ’’افراد‘‘ نہیں رہے وہ ایک نظریہ بن کر زندگی کے مرکزی دھارے میں شامل ہوگئے ہیں۔
مشرق بالخصوص مسلم دنیا کے بہت سے لوگ اس گمان میں مبتلا رہتے ہیں کہ مغرب کی شیطنت صرف مغرب تک محدود رہے گی۔ ایسے لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مغرب اب کسی جغرافیے کا نام نہیں۔ مغرب ایک نظریے کا نام ہے۔ ایک تناظر کا نام ہے۔ ایک اقداری نظام کا نام ہے۔ ایک تصور انسان کا نام ہے۔ ایک تصورِ زندگی کا نام ہے۔ یہ چیزیں صرف مغرب میں موجود نہیں ہر جگہ موجود ہیں۔ آپ کے اخبار میں۔ آپ کے رسالے میں۔ آپ کے ٹی وی اسکرین پر۔ آپ کے پسندیدہ ڈرامے میں۔ آپ کی پسندیدہ فلم میں۔ آپ کی پسندیدہ موسیقی میں۔ آپ کے انٹرنیٹ کنکشن میں۔ آپ مغرب سے بچ کر کہاں جائیں گے۔ آج سے سو سال پہلے اقبال نے ہندوستان کی ’’روحانیت‘‘ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ہندوئوں کے دیوتا شری رام کو ’’امام ہند‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ انہوں نے ہندوئوں کے دیوتا شری کرشن کے فلسفہ عمل کو سراہا۔ انہوں نے گوتم بدھ کی تعریف کی۔ آج اُسی ہندوستان کی سپریم کورٹ ہم جنس پرستی کو ’’قانونی‘‘ قرار دیے ہوئے ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے جب ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دیا تو بھارت کی قدیم ترین جماعت کانگریس نے اس کا ’’خیر مقدم‘‘ کیا۔ بی جے پی اس پر ’’خاموش‘‘ رہی۔ ہندوستان کی اہم روحانی شخصیت شری روی شنکر نے فیصلے کو دل و جان سے قبول کیا۔ ہم نے اسی صورت حال پر فرائیڈے اسپیشل کے لیے مضمون لکھنا شروع کیا تو ہمیں خیال آیا کہ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں بھی کوئی نہ کوئی لبرل اور سیکولر اس فیصلے کی حمایت ضرور کرے گا۔ ہمارا خیال غلط نہ تھا۔ ریما عمر نے روزنامہ ڈان میں پورے صفحے کا مضمون لکھ کر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو سراہا۔ ہمیں گمان تھا کہ علما اور مذہبی و سیاسی رہنمائوں میں سے کوئی نہ کوئی ریما عمر کے مضمون کا نوٹس لے گا مگر ہمارے علما اور مذہبی و سیاسی رہنما اپنے عہدوں، مناصب، اپنے Status، اپنی شہرت کو ’’Enjoy‘‘ کرنے میں اتنے مصروف ہیں کہ ان کے پاس قوم کی موجودہ اور ممکنہ اخلاقی حالت پر توجہ دینے کے لیے وقت ہی نہیں۔ ہمیں یہ سوال بار بار پریشان کرتا ہے کہ جب اللہ قیامت میں ہمارے علما اور مذہبی و سیاسی رہنمائوں سے پوچھے گا کہ تم نے مغرب کی شیطنت کے مقابلے کے لیے فکری اور عملی طو رپر کیا کیا تو یہ لوگ کیا جواب دیں گے؟۔


بھارت میں امریکی فوج اتارنے کی تیاریاں


بھارت میں امریکی فوج اتارنے کی تیاریاں
بھارت چین تنازع پاکستان کے لیے خطرات کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ پاکستانی حکام وزیر خارجہ، وزیراعظم اور فوج کے خیال میں چین نے بھارت کی پٹائی کردی ہے اور اس کا دماغ درست کر دیا ہے ۔ اتوار کے اخبارات کی خبریں دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ہماری سوچ اب بھی یہی ہے کہ چین بھارت کا دماغ درست کر رہا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی فرماتے ہیں کہ بھارت کے پاس لداخ کا کوئی جواب نہیں ہے۔ یعنی اسے وہاں جو شرمندگی اٹھانی پڑی ہے اس لیے داخلی دبائو سے بچنے کے لیے جھوٹے فلیگ آپریشن کے ذریعے پاکستان کو علاقائی کشیدگی میں گھیر سکتا ہے لیکن مسئلہ صرف یہی نہیں ہے اگر بھارت کو لداخ میں شرمندگی ہوئی ہے تو پاکستانی حکمرانوں کو بھی کشمیر میں شرمندگی کی صورتحال کا سامنا ہے لیکن وہ کسی صورت شرمندہ ہونے کو تیار نہیں اور اس حوالے سے کسی سوال کو اپنے لیے تصور ہی نہیں کر رہے۔ ان کے خیال میں اب کشمیر آزاد نہ ہونے کا سوال بھی چین سے پوچھا جائے گا۔ سب باتوں سے بڑی خبر یہ ہے کہ امریکا نے بھارت کی مدد کے لیے بھارت اور جنوب مشرقی ایشیا میں اپنی فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے کہا ہے کہ امریکا اس بات کو یقینی بنائے گا کہ چینی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کی افواج ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیا میں مناسب طور پر موجود ہوں۔ اس پر طرہ یہ ہے امریکی نائب معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز کو اسامہ بن لادن کو شہید کہنے پر فکر لاحق ہو گئی ہے۔ کہتی ہیں کہ بن لادن پر بحث کے بجائے پاکستان اور امریکا کو افغانستان میں امن تجارت، سرمایہ کاری کے مثبت ایجنڈے کی ضرورت ہے۔ قومی اسمبلی سے خطاب میں وزیراعظم نے ایک جملے میں یہ کہا کہ امریکا نے ایبٹ آباد آ کر اسامہ بن لادن کو شہید کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں شرمساری کے دو دن آئے ہیں۔ ایک جب امریکا نے ایبٹ آباد آکر اسامہ بن لادن کو شہید کردیا۔ دوسرا امریکی ڈرون حملے تھے۔ ہمارا اتحادی پاکستان میں اسامہ کو مارنا بھی ہے اور ہم پر تنقید بھی کرتا ہے۔ حیرت ہے وزیراعظم نے پاکستان کی تاریخ میں شرمساری کے دو واقعات کا تذکرہ کیا۔ ممکن ہے ان کے خیال میں 16 دسمبر سقوط ڈھاکا، بھارت کے سامنے 93 ہزار فوج کا ہتھیار ڈالنا شرمساری کا باعث نہ ہو۔ ان کے نزدیک کشمیر پر بھارتی کنٹرول شرمساری کی بات نہیں ہے۔ آرمی پبلک اسکول میں 150 بچوں کا قتل شرمساری کی بات نہیں۔ روز بھارت کے پیچھے دوڑ رہے ہوتے ہیں چمچہ گیری کے انداز میں اور بھارت دھتکار رہا ہوتا ہے اسے شرمساری کے واقعات میں شمار نہیں کیا جارہا۔ خیر شرم ہو تو شرمساری کا واقعہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ان کی زبان سے شہید کا لفظ کیا نکل آیا۔ امریکا کو فکر لاحق ہو گئی اور جی ایچ کیو کے سائے میں اسامہ بن لادن کے آرام سے رہنے پر تکلیف کا اظہار کردیا۔ لیکن یہ بات ایک طرف رکھی جائے تو امریکا کا بھی بھلا ہے۔ پاکستان کے کئی دشمن بھارت اور امریکا میں چھپے بیٹھے ہیں کیا پاکستان کو امریکا یہی حق دے سکتا ہے کہ پاکستان امریکا یا بھارت جا کر انہیں ہلاک کر دے۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے۔ اس لیے امریکی نائب معاون وزیر خارجہ کی بات درست ہے کہ اس موضوع پر بات نہ کی جائے ورنہ بہت سے معاملات کھلیں گے ان میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر ایبٹ آباد کا سارا واقعہ ہی غلط بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن مائیک پومپیو نے جو موضوع چھیڑا ہے وہ پورے جنوب مشرقی ایشیا کو ڈبونے کے لیے خطرناک علامت ہے۔ امریکا 20 برس تک افغانستان کے مفادات کا تحفظ کرتا رہا لیکن اس عرصے میں افغانستان کے مفادات کے سوا سارے کام کیے۔ اردگرد کے تمام ممالک کو نقصان پہنچایا۔ پاکستان خصوصی نشانہ رہا۔ اسی طرح اب اگر بھارت کی حمایت میں چین کے مقابلے پر امریکی افواج بھارت اور جنوب مشرقی ایشیا میں کہیں موجود ہوں گی تو اس کا مطلب خطے میں غیر ملکی قوتوں کا نیا میدان جنگ سجانے کی تیاریاں ہیں۔ میدان جنگ بھی ایسا کہ اس میں بھارت کا فائدہ ہو گا نہ چین کا نقصان بلکہ سارا نقصان کمزوروں کو ہوگا۔ شیطان صفت بھارتی قیادت چین سے پاکستان کی دوستی کی وجہ سے سارا وبال پاکستان پر ڈالے گی۔ پاکستان کو امریکیوں سے مزید پٹوائے گی۔ امریکیوں کو بھی اطمینان ہے کہ پاکستان بھارت یا جنوب مشرقی ایشیا میں طالبان کہیں نہیں اس لیے یہاں وہ زیادہ بہتر طریقے سے اپنے کام کر سکیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ کون جانے بنگلا دیش، نیپال، کشمیر اور پاکستان ہی کے کچھ حصوں سے سخت مزاحمت شروع ہو جائے۔ لیکن ہمیں پاکستانی حکمرانوں کی طرح نہیں سوچنا چاہیے۔ خطرناک حقیقت یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنی شکست کا ذمے دار پاکستان کو بھی سمجھتا ہے۔ وہ ضرور اپنے زخموں کا بدلہ لینے کی کوشش کرے گا۔ چین کو بھی اس سے کیا غرض کہ پاکستان کا کتنا نقصان ہوتا ہے۔ یہ بالکل وہی صورتحال پیدا ہونے والی ہے جو شام اور یمن میں ہے۔ غیر ملکی قوتیں وہاں جا کر لڑ رہی ہیں اور مقامی لوگ نقصان اٹھا رہے ہیں۔ گویا یہ شارجہ میں پاک بھارت کرکٹ میچ ہے یا کسی ملک میں کرکٹ کا عالمی کپ، کہ سب ٹیمیں کھیلنے پہنچ گئیں۔ پاکستانی حکمرانوں کی خارجہ پالیسی ہمیشہ ایسی رہی ہے کہ پاکستان کو بالاخر نقصان ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ آج کل ہمارے حکمران چین کی وکالت میں بڑھ چڑھ کر بول رہے ہیں اور جب میدان سجے گا تو پاکستان چین ہی کا ساتھی تصور کیا جائے گا۔ پھر ہمارے وزیراعظم (اگر رہے تو) کہہ رہے ہوں گے کہ بھارت کے لیے شرمساری کا مقام ہے کہ وہ امریکا کی مدد سے ہمیں نقصان پہنچا رہا ہے۔ پاکستان چین کے ساتھ اپنے بہترین تعلقات استعمال کرتے ہوئے بھارت چین تنازع ختم کرائے اور امریکا کو جنوب مشرقی ایشیا یا بھارت میں اپنی افواج اتارنے کا موقع نہ دے۔ ورنہ بھارت، چین، امریکا لڑائی کا سارا نقصان پاکستان کو ہوگا۔