بعض مسلم عالمی رہنماکی شہادت کے حوالے سے پاکستانی ذرائع ابلاغ میں تین اصطلاحیں استعمال ہوتی ہیں۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کی اکثریت نے ان کو ”ہلاک“ قرار دیتی ہے۔ بعض جگہوں پر ان کے لیے ”جاں بحق“ کی اصطلاح استعمال ہوتی نظر آ تی ہے۔ بہت کم مقامات پر انہیں ”شہید“ کے اعزاز سے نوازا جاتاہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان اصطلاحوں کا مفہوم کیا ہے؟
ہلاک کی اصطلاح بنیادی طور پر بے معنی موت کے لیے استعمال ہوتی ہے چنانچہ جن اخبارات اور ٹی وی چینلز مجاہدین کوہلاک قرار دے کر یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ عالمی رہنما(مجاہدین) کی زندگی بے معنی ہے اور ایک بے معنی زندگی ہی بے معنی موت سے دوچار ہوتے ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو ہلاک کے تصور میں دہشت گردی کا مفہوم بھی پوشیدہ ہوتاہے۔ چنانچہ جن لوگوں نے مجاہدین کو ہلاک قرار دیتے ہیں یہ لوگ دہشت گرد کی اصطلاح استعمال کیے بغیر انہیں دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہلاکت کے تصور میں یہ مفہوم بھی موجود ہے کہ مرنے والے کی موت میں دکھ‘ ملال یا افسوس کا کوئی پہلو نہیں ہوتا۔ اس معاملے کا ایک زاویہ یہ ہے کہ جب کسی کو ہلاک کہتے ہیں تو ہم یہ بتارہے ہوتے ہیں کہ ہم اس موت کو فرد سے غیرمتعلق ہوکر دیکھ رہے ہیں اور ہمارا اس موت سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔
اگرچہ جاں بحق کی اصطلاح پر مذہبیت کا سایہ ہے لیکن اسامہ بن لادن کے سلسلے میں یہ اصطلاح جس بیانیے اور جس تناظر میں استعمال ہوئی اس نے اس اصطلاح کی مذہبیت کو زائل کرکے اسے ”غیرجانبداری“ کی علامت بنادیا۔ یعنی جن لوگوں نے اسامہ بن لادن کے حوالے سے جاں بحق کی اصطلاح استعمال کی انہوں نے اساسی طور پر یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ نہ اسامہ کے حامی ہیں نہ مخالف۔ وہ اسامہ کی زندگی کو نہ بامعنی سمجھتے ہیں نہ بے معنی۔ انہیں اسامہ کی موت سے نہ خوشی ہوئی ہے نہ اس سے دکھ ہوا ہے۔ لیکن یہ اس اصطلاح کے مفہوم کی محض ایک سطح ہے۔ اس اصطلاح کے مفہوم کی ایک اور سطح وہ ہے جہاں یہ اصطلاح بیک وقت دو کشتیوں کی سواری کا منظر پیش کررہی ہے۔ لیکن اس بات کا مطلب کیا ہے؟ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ جاں بحق کی اصطلاح استعمال کرنے والا اسامہ کو ہلاک بھی کہہ رہا ہے اور شہید بھی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جاں بحق کی اصطلاح موقع پر لی گئی علامت ہے۔ ایسے لوگ اگر اس ماحول میں چلے جائیں جہاں اسامہ کو ہلاک کہنے والوں کی اکثریت ہے تو وہ جاں بحق کی اصطلاح ترک کرکے اچانک ہلاک کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کردیں گے اور اگر ایسے لوگ اس حلقے میں چلے جائیں جہاں اسامہ بن لادن کو اکثر لوگ شہید قرار دے رہے ہوں تو یہ لوگ جاں بحق جاں بحق کی گردان ترک کرکے شہادت‘ شہادت پکارنے لگیں گے۔
شہید کی اصطلاح کا مفہوم واضح ہے۔ جن لوگوں نے اسامہ بن لادن کو شہید کہا انہوں نے اعلان کیا کہ ان کے نزدیک اسامہ کی زندگی بھی بامعنی تھی اور ان کی موت بھی بامعنی ہے۔ انہوں نے کھل کر کہا کہ اسامہ کی شہادت کا دکھ ان کا ذاتی دکھ ہے۔ اسامہ کی شہادت کا نقصان ان کا ذاتی نقصان ہے۔ ایک اور سطح پر دیکھا جائے تو اسامہ کو شہید قرار دینے والوں نے کتمان حق سے انکار کردیا۔ انہوں نے ماحول کے جبر کو چیلنج کردیا اور اپنے دین اپنی تاریخ اور اپنی تہذیب کے تقاضوں کا ساتھ دیا۔ ایک اور زاویے سے دیکھا جائے تو اسامہ کو شہید قرار دینے والوں نے اعلان کردیا کہ وہ اسامہ کو شہید قرار دے کر ہر طرح کے خطرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ہلاک‘ جاں بحق اور شہید محض لفظ نہیں ہیں بلکہ ان کے اندر معنی کی ایک دنیا آباد ہے۔ اس دنیا کو سمجھے بغیر ہم ان لفظوں کے استعمال اور اس کے اثرات کو نہیں سمجھ سکتے۔ لیکن یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ یہ صورتحال ہمیں پاکستانی ذرائع ابلاغ کے بارے میں کیا بتارہی ہے؟
اس صورتحال سے ایک بات تو یہی ثابت ہورہی ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ بالخصوص ٹیلی وژن چینلز کی اکثریت امریکا زدہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکا زدہ ہونے کا مفہوم کیا ہے؟ بعض حلقوں کے نزدیک اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں بڑے پیمانے پر ڈالر چل رہا ہے۔ چنانچہ یہ ڈالر ہے جس نے پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اسامہ کو ”ہلاک“ کہا۔ یہ ڈالر ہے جس نے پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اسامہ کو دہشت گرد باور کرایا۔ لیکن ڈالر کے پہلو کو نظر انداز کردیا جائے تو بھی پاکستانی ذرائع ابلاغ پر اسامہ کے حوالے سے امریکی اثرات کا غلبہ ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ اسامہ کے حوالے سے امریکا کے تھوکے ہوئے نوالے چباتے رہے۔ امریکا کے تناظر کو اختیار کیے رہے۔ امریکا کے تجزیے کو دہراتے رہے۔ تجزیہ کیا جائے تو امریکا کے تناظر اور تجزیے کو قبول کرنا ڈالر کے زیر اثرچلے جانے سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستانی ذرائع ابلاغ کی آزادی ایک ”واہمے“ کے سوا کیا ہے؟
ان حقائق کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کی بصیرت مانگے کا اُجالا ہے اور ہمارے دانشوروں اور صحافیوں کی اکثریت اپنا عالمی تناظر تخلیق کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ اپنا عالمی تناظر خلق کرنے کے لیے صرف علم ہی کی نہیں اپنے جداگانہ تشخص کے شدید احساس کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ تمام چیزیں ہمارے ذرائع ابلاغ کے پاس نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہے تو سوال یہ ہے کہ ہمارے ذرائع پھر کس طرح معاشرے کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ کیا امریکا کے بنائے ہوئے راستوں پر چلنا اور امریکا کی بتائی ہوئی منزل تک رسائی پانا ہی رہنمائی ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ذرائع ابلاغ معاشرے کا آئینہ ہوتے ہیں۔ جو کچھ معاشرے میں ہوتا ہے ذرائع ابلاغ اس کی جھلکیاں پیش کرتے ہیں۔ لیکن اسامہ بن لادن کی شہادت کے حوالے سے ثابت ہوگیا کہ ہمارے ذرائع ابلاغ تو معاشرے کا آئینہ بھی نہیں ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اسامہ بن لادن پاکستان کے عوام میں انتہائی مقبول ہیں اور لوگوں کی عظیم اکثریت ان کی موت کو شہادت تصور کرتی ہے۔ لیکن عوام کی اکثریت جس موت کو شہادت تصور کرتی ہے پاکستانی ذرائع ابلاغ کی غالب اکثریت اسے ”ہلاکت“ قرار دیتی رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ معاشرے کی کیسی عکاسی ہے؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ اگر ہمارے ذرائع ابلاغ معاشرے کی عکاسی بھی نہیں کرسکتے تو پھر وہ کرہی کیا سکتے ہیں؟
No comments:
Post a Comment