-1857
ء کی جنگ آزادی برصغیر کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے لیکن اس کے پس منظر
اور ناکامی کے اسباب پرکم ہی غور کیا گیا ہے۔ عام طور پرکہا یہ جاتا ہے کہ
انگریزوں نے مسلمانوں کو خنزیر اور ہندوئوں کو گائے کی چربی پر مشتمل
کارتوس استعمال کرنے کو دیے جس سے مقامی فوجیوں میں اشتعال پیدا ہوا اور اس
کی بنیاد پر بغاوت پھوٹ پڑی۔ لیکن 1857ء کی جنگ آزادی جیسے واقعات کے
محرکات کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔ سرسید احمد خان انگریزوں کے زبردست حامی
تھے۔ اور انہوں نے جنگ آزادی کو بغاوت اور غدر کہا ہے لیکن وہ بھی اس جنگ
آزادی کو وسیع تناظر میں دیکھنے پر مجبور ہوئے۔
بلاشبہ انگریز برصغیر کے ’’فاتح تھے مگر وہ فاتح بن کر نہیں آئے تھے۔
برصغیر میں انہوں نے تاجروں کی حیثیت سے قدم رکھا تھا۔ اور پوری انسانی
تاریخ میں تاجروں نے کبھی کسی ملک پر قبضہ نہیں کیا تھا۔ لیکن انگریزوں نے
اپنی تجارتی طاقت کو دیکھتے ہی دیکھتے سیاسی اور عسکری طاقت میں تبدیل
کرلیا۔ وہ برصغیر کے معاملات اور داخلی سیاست میں دخیل ہوتے چلے گئے اور
انہوں نے پورے ہندوستان میں فساد برپا کردیا۔ انہوں نے ایک کو کمزور کرکے
دوسرے کو طاقت ور کیا اور پھر خود طاقت ور کے سر پر سوار ہوگئے۔ ٹیپو سلطان
ہندوستان کا آخری حصار تھا۔ یہ حصار گرتے ہی انگریز پورے ہندوستان کے مالک
بن گئے۔ ان کا یہ ’’امیج‘‘ ہندوستان کے لوگ کبھی اپنے ذہن سے نہ نکال سکے۔
اسی امیج میں فاتح کی ساکھ والی کوئی بات نہیں تھی۔ اس ساکھ میں انگریزوں
کے لیے ایک حقارت ایک نفرت اور ایک شدید ردعمل پوشیدہ تھا۔
فاتحین کی نفسیات طاقت کی نفسیات ہوتی ہے لیکن مسلمانوں نے بھارت پر ایک
ہزار سال حکومت کی لیکن ایک ہزار سال کی تاریخ میں جلیانوالہ باغ جیسا ایک
بھی واقعہ نہیں ہے۔ تاہم انگریزوں نے دوسو سال میں طاقت کے بہیمانہ استعمال
کو ’’معمول‘‘ بنائے رکھا۔ جلیانوالہ باغ میںکچھ بھی نہیں ہورہا تھا۔ چند
ہزار افراد انگریزوں کے خلاف پرامن احتجاج کے لیے جمع ہورہے تھے اور انہیں
معمولی لاٹھی چارج کے ذریعے تتّربتّر کیا جاسکتا تھا لیکن جنرل ڈائر نے
چپّل کی جگہ گرز استعمال کیا اس نے پرامن اور نہتے لوگوں پر براہ راست
فائرنگ کا حکم دیا اور چند منٹ میں تین سو سے زائد لوگ ہلاک ہوگئے۔ یہ
انگریز ہی تھے جن کے دور میں جیل کی سزا ناکافی ہوئی اور انگریزوں نے
’’کالاپانی‘‘ ایجاد کیا۔ انگریزوں کے زمانے کا ’’گوانتانا موبے‘‘ تھا۔ اور
اس سے پہلے انسانی تاریخ میں ایسی سزا کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ بلاشبہ
’’بغاوت‘‘ بڑا جرم ہے لیکن انگریزوں نے باغیوں کوگولی مارنا کافی نہ
سمجھا۔ انہوں نے باغیوں کو توپوں کے دہانوں سے باندھ کر گولوں سے اڑایا۔
انہوں نے انفرادی پھانسی کی جگہ ’’اجتماعی پھانسی‘‘ دریافت کی۔ انہوں نے
جنگ آزادی کے سپاہیوں کو جگہ جگہ سیکڑوں کی تعداد میں درختوں سے لٹکانے کی
رسم ایجاد کی۔ بہادر شاہ ظفر بوڑھا تھا اور قلعے میں قید تھا اور اس کی
مزاحمتی اہلیت صفر تھی۔ یہاں تک کہ اسے مزاحمت کا خیال بھی نہ آتا تھا۔
ایسا قیدی ہر اعتبار سے بہتر سلوک کا مستحق تھا۔ مگر انگریزوں نے شہزادوں
کے سرکاٹ کر بہادرشاہ ظفرکے سامنے پیش کیے۔ یہاں تک کہ انگریزوں نے بہادر
شاہ ظفر جیسے بے بس انسان کو دلّی میں مرنے اور دفن ہونے تک کی اجازت نہ
دی۔ طاقت کے بہیمانہ استعمال نے برطانوی حکومت کی اخلاقی ساکھ کو کبھی
استوار نہ ہونے دیا اور برطانوی سامراج کے خلاف عوام کا غصہ کبھی ٹھنڈا نہ
پڑسکا۔
برطانوی حکمرانوں کا احساس برتری حد سے بڑھا ہوا تھا اور اس کی ایک صورت
وہاں مقامی افراد کے مذہب تہذیب یہاں تک کہ خود مقامی افراد کو بھی حقیر
جانتے تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ایک جانب وہ مقامی افراد کو اپنے رنگ میں
رنگنا چاہتے تھے اور دوسری جانب انہیں یہ بھی قبول نہیں تھا کہ مقامی لوگ
ان جیسے نظر آئیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وہ مقامی افراد کو اپنے لباس‘
تراش خراش وضع قطع زبان اور طور طریقوں کی نقل کرتے دیکھتے تو انہیں Baboon
یعنی بندر کہتے۔ اردو زبان کا لفظ ’’بابو‘‘ دراصل Baboon کے ’’n‘‘ کے غائب
ہونے کا حاصل ہے۔ یہ تحقیر کی انتہا تھی اور مقامی افراد کی عظیم اکثریت
اس تحقیر کو ہمیشہ محسوس کرتی تھی۔ ان تمام چیزوں نے مل جل کر جنگ آزادی کو
ممکن بنایا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ برطانوی سامراج کی اتنی خراب ساکھ کے
باوجود جنگ آزادی کیوں کامیاب نہ ہوسکی۔؟
جنگ آزادی کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس جنگ کی کوئی مرکزی
قیادت نہیں تھی۔ مسلمانوں میں مزاحمت کی سب سے بڑی علامت جنرل بخت خان تھے۔
ہندوئوں میں نانا صاحب اور جھانسی کی رانی نے انگریزوں کے خلاف داد شجاعت
دی لیکن یہ لوگ صرف مقامی اثرات کے حامل تھے جنرل بخت خان نے بہادر شاہ ظفر
کی مزاحمت کی قیادت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ اس کوشش میں کامیاب
نہ ہوسکے۔ چنانچہ پوری جنگ آزادی مرکزی قیادت کے بغیر مقامی اسلوب میں لڑی
گئی۔ اس کے مقابلے پر انگریز فوج مقامی سطح پر بھی منظم تھی اور مرکزی سطح
پر بھی اس کا نظم موجود تھا۔
یوپی‘ دلّی اور کئی دوسرے علاقوں میں برطانوی فوج کے مقامی اہلکاروں نے
انگریزوں کے خلاف بغاوت کی اور اس بغاوت نے کئی مقامات پر جنگ آزادی کو
تقویت پہنچائی لیکن بیشتر مقامات بالخصوص ممبئی‘ مدارس‘ اور پنجاب کی
چھائونیوں میں مقامی فوجی برطانوی سامراج کے وفادار رہے۔ ان مقامات پر بھی
فوجی بغاوت ہوجاتی تو انگریزوں کی شکست یقینی ہوجاتی۔
اگرچہ جنگ آزادی میں ہندوئوں نے بھی حصہ لیا لیکن جنگ آزادی کا مجموعی تاثر
یہ تھا کہ یہ مسلمانوں کی جنگ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس جنگ میں مسلمانوں
اور ہندوئوں کے درمیان باہمی تعاون کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی اور دونوں
اپنے اپنے دائروں میں لڑتے رہے۔
جنگ آزادی خواص بلکہ بعض مقامات پر خواص الخواص کی جنگ بن گئی اور مزاحمت
کرنے والے اسے عوامی رنگ دینے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ انگریزوں کو معلوم تھا
کہ دلّی کی علامتی اہمیت غیر معمولی ہے چنانچہ انہوں نے دلّی کے دفاع پر
غیر معمولی توجہ دی اور مزاحمت دلی میں سب سے زیادہ ناکام ہوئی۔
No comments:
Post a Comment