جب کسی قوم میں خدا کی نافرمانی کی وجہ سے بے حیائی ‘
زنا‘ سودی کاروبار ‘شریعت کا مذاق اور فحاشی حد سے بڑھ جاتی ہے تو پہلے ہلکے ہلکے عذاب تنبیہ کے انداز میں نازل ہوتے ہیں پھر اگر غفلت کا پردہ آنکھوں سے نہیں ہٹے تو یہ جھٹکے قہر الٰہی کی شکل میں نازل ہوتے ہیں۔ آج اجتماعی اموات اور پھر زلزلے کے جھٹکے سیلاب کا آنا یہ انتباہ ہی تو ہے۔ زمین اپنے اوپر ہونے والی رب کی نافرمانی رب کو زلزلوں کے ذریعہ بوجھ کو ہٹاپھینکتی ہے۔
پوری دنیا میں اس وقت بے حیائی اور بدکاری کا سیلاب آیا ہوا ہے غیرمسلم ممالک اسکو اپنا کلچرکہہ کر اپنائے ہوئے ہیں اور مسلم ممالک ان کی تقلید میں اپنا مذہب بھلا بیٹھے ہیں یہ تمام مسلم ممالک شعوری اور لاشعوری طور پر ان برائیوں میں ملوث ہیں۔ اسلامی ممالک میں اسلامی قوانین پر عمل نہیں ہورہا ہے حکمراں خود ڈالروں کی جھنکار میں غیروں کے اشارے پر ہر غیر اسلامی طریقے کو پھلتے پھولتے دیکھ رہے ہیں بلکہ اس کو بڑھانے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا یہ بات قصہ پارنیہ بنتی جارہی ہے حکومتی سطح پرا س کی مخالفت جاری ہے۔ پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک اس ملک میں ہر حکمراں اللہ اور اس کے رسول کے احکام کو نظرانداز کرکے امریکا اور بھارت کی شریعت کو نافذ کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہا۔
ہر آنے والا حکمراں اس ملک کے نظام کو بد سے بدتربنانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
مشرف دور میں آغا خان بورڈ کے نصاب کو جس میں خاندانی منصوبہ بندی جیسی فحش باتیں روشناس کرانے کی کوشش کی گئی تھی اس کے خلاف علماءحق دینی جماعتوں طلبہ و طالبات کی تنظیموں نے بھرپور احتجاج کیا۔ یہاں تک کے قومی اسمبلی میں ارکان نے جن میں خواتین اور مرد دونوں شامل تھے احتجاجی بل بھی پیش کیا جس کے نتیجہ میں وقتی طور پر یہ طوفان تھم گیا لیکن شیطان صفت لوگوں نے اندر خانہ اپنی منصوبہ بندی جاری رکھی حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ دو سالوں سے یہ نصاب گورنمنٹ اسکولوں کے طلبہ و طالبات کو پڑھایا جارہا ہے۔
اخبارامت کی 11 فروری 2011 ءکی خبر کتاب کے سرورق کے ساتھ موجود ہے۔ کتاب کا نام ہے ”زندگی گزارنے کی مہارتوں پر مبنی تعلیم“ یہ کتاب ہم لوگوں نے باقاعدہ اسکول سے حاصل کی اور اس کا کچھ مطالعہ کیا جو فحش قصوں‘ خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں‘ جنسی تعلقات‘ تولیدی نظام صحت‘ کم عمری کی شادی کے نتائج‘ شادی و زچگی پر مضامین تیار کیے گئے ہیں۔ ایڈز‘ متعدی امراض سے بچاﺅ کے طریقے اور خاص کر دو مخصوص بیماریوں کا ذکر ایچ آئی وی ایڈز اور ہیپاٹائٹس شامل ہیں ۔ اس کی تعلیم دی جارہی ہے اور اس کے لیے اساتذہ کی تربیت کی گئی ہے ان کی پہلے برین واشنگ کی گئی ہے اور معاوضہ دے کر جو کہ الگ سے ہے کلاسوں میں طلبہ و طالبات کو پڑھایا جارہا ہے گزشتہ دو سال سے اس میں گورنمنٹ کے 78 اسکول شامل ہیں جن میں 25 گرلز اور بوائز اسکول ہیں ‘4 کوایجوکیشن ہیں (L.S.B.E) کے تحت عالمی اداروں کے تعاون سے تیار کی گئی یہ کتاب یورپی یونین کی معاونت اور ورلڈ پاپولیشن فاﺅنڈیشن اور آہنگ نامی این جی او کے اشتراک سے سرکاری اسکولوں میں ساتویں سے دسویں تک کے طلبہ و طالبات کو پڑھائی جارہی ہے۔
14 گرلز اور 14 بوائز اسکول ابراہیم علی بھائی اسکولوں میں خاص کر پڑھانے کا انتظام ہے۔
پروگرام (L.S.B.E) کراچی ‘ مٹیاری‘ ملتان میں بیک وقت شروع کیا گیا ہے۔
والدین کے شدید احتجاج کے باوجود اساتذہ کاکہنا ہے کہ ہم بچوں کو ذہنی او رجسمانی طور پر تیار کررہے ہیں۔
ہمارے مذہب اور معاشرے میں الحیاءوالاسلام‘ حیا ایمان کا جزو ہے پر عمل کرکے بے حیائی سے بچنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خود سورہ نور میں بے حیا مردوں اور بے حیا عورتوں کو الگ کیٹیگری میں رکھا ہے۔ بے حیائی کی گفتگو سے اجتناب کا حکم ہے سورہ المومنون میں فلاح پانے والے ان افراد کا ذکر ہے جو لغو اور بے ہودہ گفتگو سے اجتناب کرتے ہیں جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ہمارے بچوں کے سامنے والدین بھائی بھاوج ایسی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں جن سے کچے ذہنوں میں غلط باتیں پیدا ہوں۔
لیکن میڈیا کے ذریعہ فیس بک‘ موبائل اور لٹریچر کے ذریعہ فحاشی پھیلانے کا حکومتی سطح پر انتظام ہے یہ ملک خدا کی قہر کی لپیٹ میں اگر نہیں آرہا ہے تو شاید کچھ نیک لوگوں کی دعائیں ہیں۔ ورنہ جاپان کا زلزلہ ‘ سونامی‘ ایٹمی تنصیبات میں آگ اس بات کا ثبوت ہے کہ لمحوں میں اللہ بڑی سے بڑی قوت کو ملیامیٹ کرسکتا ہے ہمارے حکمراں تو دولت اور ڈالروں کی چمک میں خدا کو بھول بیٹھے ہیں عوام کی مہنگائی کرپشن ‘ قتل و غارت گری میں پھنسا دیا گیا ہے۔ اگر ہم اب بھی نہ اٹھے اور آواز نہ اٹھائی تو صفحہ ہستی سے ہمارا نام و نشان بھی مٹ جائے گا۔
کراچی کے سمندر میں آنے والا کوئی زلزلہ (سونامی) پورے کراچی کو لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ بلکہ اطراف کے شہر بھی تباہ ہوجائیں گے۔
ابھی 2005 ءکا زلزلہ اور 2010 ءکا سیلاب ہم نہیں بھولے ہیں اور اگر بھول چکے ہیں تو اس بے حسی کا کیا کیا جائے۔ اللہ سے توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ ماحول کو بدلنے کی کوشش کرنا ہمارا فرض ہے اٹھیں اور اس فرض کو پورا کریں۔
No comments:
Post a Comment