تبدیلی کہنے کو ایک چھ حرفی لفظ ہے لیکن قوموں کی زندگی میں تبدیلی کا عمل کبھی کبھی صدیاں کھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ مولانا ظفر علی خان نے ایک شعر میں بیان کی ہے۔ ظفر علی نے کہا ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ظفر علی خان کا یہ شعر قرآن مجید کی ایک آیت مبارکہ کا آزاد ترجمہ ہے اس پر غور و خوص انسانی ذہن اور تاریخ کے کئی اہم پہلوﺅں کا انکشاف بن سکتا ہے۔
انسان کی مشکل یہ ہے کہ وہ جس ماحول میں رہتا ہے اس کا عادی ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ ماحول اسے ”فطری“ نظر آنے لگتا ہے۔ اُسے لگتا ہے زندگی جیسی ہے ویسی ہی ہے اور اس کو ایسا ہی رہنا چاہیے۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ نے اس حوالے سے ایک بڑی اور اہم بات کہی ہے۔ شیخ اکبر نے فرمایا ہے گُو کا کیڑا گُو میں خوش رہتا ہے اور خوشبو کا کیڑا خوشبو میں خوش رہتا ہے۔ یعنی انسان اگر آلودہ ماحول میں پلا بڑھا ہو تو وہ اسی ماحول میں مسرت محسوس کرنے لگتا ہے اور اگر کوئی انسان پاک صاف ماحول میں رہتا ہو تو وہ اسی ماحول میں فرحت محسوس کرتا ہے۔ ماحول کی یہ عادت انسان کو تبدیلی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہونے دیتی اور چونکہ انسان تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اس لیے اللہ تعالیٰ بھی اس کے حال کو تبدیل نہیں کرتے۔
تاریخ کا یہ مطالعہ بتاتا ہے کہ کبھی کبھی انسان ماحول کا اتنا زیادہ اسیر ہو جاتا ہے کہ وہ تبدیلی کو ناممکن سمجھ کر غلامی تک کو پسند کرنے لگتا ہے غلامی کے عشق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال سرسید ہیں جنہوں نے لکھا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے کہ ہم ملکہ ¿ برطانیہ کی رعیت ہیں۔ چنانچہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ ہر صورت میں سلطنت برطانیہ کے وفادار رہیں اور جہاں تک ممکن ہو اس کی خدمت بجا لائیں۔ سرسید نے ان خیالات کی وجہ سے مجاہدین یعنی ”تبدیلی“ کے خواہشمندوں کو برا بھلا کہا ہے۔ انہیں بدمعاش‘ ڈاکو اور نمک حرام لکھا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سرسید کو یقین تھا کہ انگریز قیامت تک کے لیے آئے ہیں وہ یہاں سے کبھی واپس نہیں جائیں گے۔ اس سلسلے میں سرسید کو یہ تک یاد نہیں رہا کہ تاریخ میں کسی قوم کو کبھی دائمی غلبہ حاصل نہیں رہا اور تاریخ میں قوموں کے عروج و زوال کا سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے۔ آج جو قوم عروج پر ہے کل وہی قوم زوال سے دوچار ہوگی۔
تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ ماحول کا غلبہ انسان کو ”غیرذمے دار“ بھی بنا دیتا ہے‘ فرانس کے ممتاز فلسفی اور ادیب ژاں پال سارتر نے ایک جگہ لکھا ہے کہ جب فرانس پر جرمنی کا قبضہ ہوگیا اور ہم لوگ قید کرلیے گئے تو قید میں ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ زندگی اور ملک و قوم کے سلسلے میں ہماری اب کوئی ذمے داری باقی نہیں رہی۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ تبدیلی کا عمل کیا ہے؟ یہ کن مراحل سے گزرتا ہے؟
تبدیلی کے عمل کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ کسی انسان یا کسی قوم میں تبدیلی کی ”خواہش“ پیدا ہوجاتی ہے۔ خواہش کے پیدا ہونے کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ انسان نے اپنے ماحول کی ”ناکافیت“کو محسوس کیا ہے اور اس نے اپنے ماحول کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کی ابتدا کردی ہے۔ لیکن خواہش کا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں استقلال نہیں ہوتا۔ پائیداری نہیں ہوتی۔ خواہش بدلتی رہتی ہیں۔ بلکہ ایک خواہش دوسری خواہش سے ٹکرا جاتی ہے اور لمحہ ¿ موجود میں جو خواہش طاقتور ہوتی ہے یا ماحول جس خواہش کے لیے زیادہ سازگار ہوتا ہے وہ خواہش غالب آجاتی ہے۔ اس میں اچھی یا بری یا مثبت اور منفی کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی۔ چنانچہ خواہش کو صرف خواہش نہیں رہنا چاہیے بلکہ انسان کی ”آرزو“ بن جانا چاہیے۔ لیکن آرزو کا مطلب کیا ہے۔
کہنے کو خواہش اور آرزو ہم معنی الفاظ ہیں مگر ان میں فرق ہے۔ خواہش میں استقلال نہیں ہوتا اور وہ وجود کے محض کسی ایک گوشے کی علامت ہوتی ہے لیکن آرزو میں قدرے استقلال پیدا ہوجاتا ہے اور وہ انسانی وجود کے ایک بڑے حصے کی علامت ہوتی ہے۔ تبدیلی کے حوالے سے خواہش کے آرزو میں ڈھل جانے کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ انسان نے اب تبدیلی پر توجہ مرکوز کرنی شروع کردی ہے۔ اگرچہ اس مرحلے میں بھی آرزو کی ضد دوسری آرزو کی صورت میں اُبھر سکتی ہے لیکن آرزو کی ضد کے اُبھرنے کا امکان خواہش کی ضد کے مقابلے پر بہت کم ہوجاتا ہے۔ چنانچہ انسان تبدیلی کے بارے میں زیادہ سوچنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ لیکن خواہش کے آرزو بن جانے کا عمل کافی نہیں۔ آرزو کو ترقی کرکے ”تمنا“ بن جانا چاہیے۔
تمنا دائمی استقلال کا دوسرا نام ہے۔ تمنا کا دوسرا خاص پہلو یہ ہے کہ تمنا انسان کے پورے وجود کی علامت ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ تبدیلی کی خواہش اب پورے وجود پر چھاگئی ہے اور اب تبدیلی کا کوئی متبادل موجود نہیں۔ انسانی وجود میں تبدیلی کی خواہش کی کوئی ضد فراہم نہیں۔ زندگی میں انسان کا اب صرف ایک ہی ہدف ہے اور وہ ہدف تبدیلی ہے۔ اگرچہ انسان اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر تبدیلی کی ”خواہش“ بھی نہیں کرسکتا لیکن تمنّا دراصل وہ مقام ہے جہاں انسان اللہ کی خاص رحمتوں کا حقدار بن جاتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ تمنّا تبدیلی کا تقاضا ہے بجائے خود تبدیلی نہیں۔
تبدیلی کے سفر میں تمنّا کے بعد کا مرحلہ عملی جدوجہد کا ہے۔ تمنا کو عمل میں ڈھالنے کا ہے۔ اس کے بغیر تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔ عملی جدوجہد انسان اور زندگی کے امکانات کو ظاہر کرتی ہے اور انہیں ٹھوس بناتی ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو تمنا اور عملی جدوجہد میں ایک تکمیلی یا Complimentary تعلق ہے۔ تمنا کے بغیر عملی جدوجہد ممکن نہیں ہوسکتی اور عملی جدوجہد کے بغیر تمنا عمل نہیں بن سکتی۔ لیکن تبدیلی کے سفر میں انسان کی آزمائش یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ انسان جدوجہد سے تھک بھی جاتا ہے۔ اکتا بھی جاتا ہے۔ چنانچہ عملی جدوجہد کے سلسلے میں ”استقامت“ بھی ناگزیر ہے۔ اس کے بعد انسانوں اور قوموں پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور عنایات کی بارش برستی ہے اور خواب حقیقت بن جاتے ہیں۔ ظفر علی خان کے شعر میں اپنی حالت کو بدلنے کے ”خیال“ کا یہی مفہوم ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ تبدیلی کا عمل شروع کیسا ہوتا ہے؟
اس کی ایک وجہ پہلے ہی بیان کی جاچکی اور وہ یہ کہ انسان کو اپنے ماحول کی ”ناواقفیت“ کا احساس ہوتا ہے اور وہ اس کو تنقیدی نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔ لیکن اس کی زیادہ بنیادی‘ زیادہ اہم اور زیادہ بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان کو ایک ایسا ”معیار“ فراہم ہوجاتا ہے جو ماحول کی تمام خرابیوں کو آشکار کردیتا ہے۔ مسلمانوں کی زندگی میں قرآن و سنت‘ رسول اکرم اور صحابہ کرامؓ کے ادوار کی یہی اہمیت ہے کہ وہ مسلمانوں کو زندگی کا اعلیٰ ترین ”معیار“ فراہم کرتے ہیں۔ ایسا معیار جس کو دیکھ کر مسلمان اندازہ کرسکتے ہیں کہ وہ ”اصل“ سے کتنی دور کھڑے ہیں؟ یہ معیار مسلمانوں کو بتاتا ہے کہ وہ کتنے Normal یا کتنے Abnormal ہوگئے ہیں؟ یہ معیار مسلمانوں کو آگاہ کرتا ہے کہ انہیں کیسی اور کتنی تبدیلی کی ضرورت ہے؟
اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ محض اتفاق نہیں کہ تمام اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کو ان کے ”ماضی“ سے کاٹ دینا چاہتی ہیں۔ یہ طاقتیں مسلمانوں میں ان کے ماضی کی تحقیر پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ طاقتیں جانتی ہیں کہ مسلمانوں کا ماضی ہی ان کے لیے ”معیار“ ہے۔ جب تک مسلمان اس معیار کے شعور کے حامل رہیں گے انہیں بگاڑ کر بھی بگاڑا نہیں جاسکے گا۔ وہ زندگی کے سفر میں کسی نہ کسی مرحلے پر توبہ کرکے اپنی اصل کی طرف پلٹ آئیں گے۔ چنانچہ اسلام دشمن طاقتوں کے تمام حملوں کا ہدف مسلمانوں کا ماضی ہوتا ہے۔ دنیا میں کتنی ہی اقوام ہیں جو اپنے ماضی سے اپنا رشتہ منقطع کرکے ماحول کی اسیر ہوچکی ہیں۔ ان کی اسیری اتنی زبردست ہے کہ آزادی انہیں غلامی نظر آتی ہے اور غلامی انہیں آزادی دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ ان میں ”تبدیلی“ کی خواہش موجود نہیں بلکہ وہ اپنی غلامی کو مسلسل مستحکم سے مستحکم تر کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ وہ ایک گمراہی کے بعد دوسری گمراہی ایجاد کررہی ہیں اور اس کو اپنا تخلیقی کارنامہ سمجھتی ہیں۔ آیئے ظفر علی خان کے شعر کو ایک بار پھر ملاحظہ کرلیں۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
No comments:
Post a Comment