Wednesday, April 27, 2011

تعلیم کس کے لیے ؟

شہر کراچی میں ایجوکیشن سٹی کے نام نامی سے ایک پروگرام ہر ایک کی توجہ اپنی طرف مبذول کررہا ہے۔ واقعتا وقت کی اس سے بڑی کوئی اور ضرورت نہیں ہوسکتی کہ قوم کو اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیںکہ مستقبل کا دارومدار علوم کی ترویج اور اشاعت سے ہی ممکن ہے۔ لیکن اس ایک بہت بڑی بات سے ایک چھوٹی سی بات کا بھی کچھ تعلق بنتا ہے اگر اس پر غور کرلیا جائے۔ جھوٹی اس وجہ سے کہ تعلق اس طبقہ سے ہے جو چھوٹا سا ہے تعداد کے لحاظ سے نہیں معیار کے حوالے سے اور ذکر ہے اس نظام اور ان سہولیات کا جو حکومتی سرپرستی میں قائم تعلیمی ادارے فراہم کررہے ہیں۔ کہانی طویل ہی نہیں انتہائی دردناک اور مایوس کن بھی ہے۔ مختصر ترین حوالوں سے صرف صوبہ میں قائم سرکاری اسکولوں کی تعداد آبادی کے تناسب سے ان کا نظام عملی صورتحال۔ کارکردگی پر ایک طائرانہ نظر کافی ہے۔ فی الحال صرف کراچی کا ذکر کافی ہے جو صوبہ کا صدر مقام ہی نہیں ملک عزیز کی ایک پہچان بھی ہے۔ ڈیڑھ کروڑ آبادی والے اس شہر میں سرکاری پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کی تعداد کا تو ذکر ہی فضول ہے کہ وہ کسی طرح بھی شہر کی ضرورت سے مطابقت نہیں رکھتے لیکن جو موجود ہیں ان کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان ہے۔ عمارات جو مختلف ادوار میں بڑے اہتمام سے بنائی گئیں اور رقبہ اور معیار تعمیر کے حوالہ سے تعلیمی ادارہ کہلانے کی مستحق تھیں وہ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے کھنڈروں میں تبدیل ہوتی جارہی ہیں۔ مزید فرنیچر فنڈ فراہم نہ ہونے کی وجہ سے اکثر جگہ معدوم ہوچکا ہے۔ اس صورتحال کا مظاہرہ اس وقت میٹرک کے امتحان کے موقع پر کھل کر ہورہا ہے۔ جہاں بیچارے وہ طالب علم جو کیمرج کی سطح پر آنے سے محروم رہے زمین پر بیٹھ کر پرچہ حل کرتے پائے جارہے ہیں ساتھ ہی دیگر ضروریات پینے کا پانی‘ روزمرہ کی صفائی‘ کلاس میں مناسب بلیک بورڈ اور استعمال کے لیے چاک کی فراہمی بھی مسئلہ بن چکی ہے۔ ایک اچھے علاقہ میں قائم نامی گرامی اسکول سے جب یہ اطلاع فراہم ہوئی کہ اسکول انتظامیہ بلیک بورڈ پر استعمال کے لیے چاک فراہم کرنے سے معذور ہے تو دل کی کیفیت کیا ہوئی ہوگی۔ مزید آگے بڑھئے تو اساتذہ اور طلباءکی تعداد کا تناسب اور اساتذہ کی تدریس سے دلچسپی۔ اکثر جگہ طلباءکو کھیل کود کے زبردست مواقع حاصل ہیں کہ اساتذہ صرف اسکول رجسٹر میں پائے جاتے ہیں لیکن طلباءان کی زیارت سے محروم ہی رہتے ہیں۔ اکثر ایسے ادارے بھی موجود ہیں جہاں طلباءکا اندراج نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ اساتذہ کی تعداد ضرورت سے زیادہ ہے نتیجہ یہ ہے کہ مفاہمتی پالیسی کے تحت ٹائم ٹیبل بن گیا ہے کس کو کس دن آنا ہے۔ آگے حد ادب۔ طلباءکی معدوم ہونے کی حد تک تعداد پر استفسار کا ٹکڑا توڑ جواب فراہم ہوتا ہے کیا کریں پرائیویٹ ایجوکیشن کراچی کا کلچر بن چکا ہے۔ یہ کلچر کیوں بنا اس کا جواب ایسا مشکل نہیں”پیلے اسکول“ کی اصطلاح کہاں سے برآمد ہوئی۔ تقرری کی لیے مستند تعلیمی اسناد رکھنے والے اساتذہ حرام و حلال کے تصور سے اتنے ناآشنا کیسے ہوگئے؟ نہ معلوم کتنے سوالوں کا جواب اس نظام اور معاشرہ پر قرض ہے۔ دوسری طرف رخ کیجیے تو ایک خوش آئند بات یہ نظر آتی ہے کہ ہر سطح کے والدین باپ ہی نہیں مائیں بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے شدید خواہشمند نظر آتے ہیں۔ یہ جملہ اکثر سننے میں آتا ہے کہ ہم تو پڑھ نہیں سکے لیکن ہم اپنے بچوں کو جاہل نہیں رکھنا چاہتے۔ اس سوچ کا بھرپور فائدہ وہ حاصل کررہے جنہوں نے تجارتی مفادات کے تحت پورے تعلیمی نظام پر تسلط حاصل کرلیا ہے۔ مختلف علاقوں کے معیار کے مطابق قائم یہ اسکول والدین کے اس جذبہ کو جس طرح کیش کروارہے ہیں وہ ایک الگ داستان ہے ”کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں“ اس سلسلہ میں ایک اسکول وین ڈرائیور صاحب کا مطالبہ خاصا اہم ہے بچوں کو اسکول لانے لے جانے کے عمل میں ان کو ”اسکول ایجوکیشن“ کی چاہت میں بری طرح مبتلا کردیا ہے اس حوالہ سے جو دھکے کھائے ہیں اس کے بعد ان کا مطالبہ کچھ بے جا بھی نہیں تھا۔ آپ لوگ سب کام چھوڑیں اور بس اسکول کھولنے پر لگ جائیں ہر جگہ ہرعلاقہ میں۔ ہم نے ان سے دعا کی استدعا کرتے ہوئے اپنی جان چھڑائی۔ اس داستان کو ایک طرف رکھ کر دوسرا رخ مجوزہ ایجوکیشن سٹی 8 ہزار 9 سو 21 ایکڑ پر پھیلا ہوگا۔ اس میں 50 بہترین شہرت رکھنے والے ادارے قائم ہوں گے جن میں ایک لاکھ 50 ہزار طلباءتعلیم حاصل کریں گے۔ اس منصوبہ کے ڈھانچے کے لیے ورلڈ کلاس پلانرز کو بلایا جائے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس منصوبے سے 1,92,520 افراد کو روزگار ملے گا(نامعلوم ان ایک لاکھ پچاس ہزار طلباءمیں سرکاری اسکولوں اور سرکاری تعلیمی بورڈ کے فارغ التحصیل سند یافتہ کتنے طلباءہوں گے) یہ صرف ایک پروجیکٹ کی بات ہے تعلیم ہی کے حوالہ سے اب تک متعدد اسکیمیں سامنے آچکی ہیں حساب کون لگائے گا کہ اب تک ملک عزیز کی کتنے فیصد آبادی فیضیاب ہوئی ہے اور فی الوقت خواندگی کا تناسب کیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کا بندوبست بے شک ضروری ہے کہ مقابلہ سخت ہے لیکن یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ علم کا حصول ہر پید اہونے والے بچے کے بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ کیا گیارہ تعلیمی پالیسیوں اور بے شمار دیگر اسکیموں کو مرتب کرتے ہوئے اس بنیادی حق کا اہتمام کیا گیا اور جو کچھ اہتمام کاغذ کے پرزوں میں کیا بھی گیا تھا اس پر عملدرآمد کتنا ہوا۔ تعلیمی تناسب کس حد تک بڑھا اور جو بڑھا بھی اس میں سرکاری اداروں کا کتنا حصہ رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس شعبہ میں اگر مخلص اور دیانتدار پرائیویٹ تعلیمی ادارے آگے نہ بڑھتے اور ان اداروں کو مخلص عوام کا تعاون حاصل نہ ہوتا تو ہم کہاں کھڑے ہوتے۔

ثریا اقبال
www.nasikblog.com

No comments:

Post a Comment