ملک حکمراں کتنے عےار ہےں اس کا اندازہ ذاکر نائک قضےہ سے ہوتا ہے۔ انہےں ےہاں کے عوام کو بے وقوف بنانے مےں ماسٹر کی ڈگری ہی نہےں بلکہ پی اےچ ڈی حاصل ہے اور ےہ لوگ پی ڈی اےف (پوسٹ ڈاکٹوریل فےلوشپ ) کرنے کی جانب سے رواں ہےں۔ ملک کے عوام کا جس طرح مزاج ہے ےہ حکمراں ٹولہ پی ڈی ایف آسانی سے کرلےں گے۔ اس مےں ساتھ دےنے کے لئے ملک کا مےڈےا زرخرےد غلام کی طرح ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔ میڈےا کے کرتوت کی وجہ سے اس کی معتبرےت پوری طرح ختم ہوگئی ہے۔ےکم جولائی کو جس دن سے بنگلہ دےش کے اےک رےستوراں پر حملہ ہوا اور تقرےباَ 22لوگ مارے گئے اور ےہ بات سامنے آئی کہ حملہ آوروں مےں سے دو ذاکر نائک کو جانتے تھے ےا ان سے متاثر تھے۔ اسے بنےاد بناکربنگلہ دےش حکومت کے بےان کی تصدےق کئے بغےر ملک، وزارت داخلہ، پورے ملک کا مےڈےا اور اسلام دشمن طاقتیںذاکر نائک کو پھانسی دےنے پر آمادہ ہےں۔ جو بھی کسی مےدان مےں ہوتا ہے اس کے متبع اور فلور ہوتے ہےں۔ اگر ان مےں سے کوئی جرم کرے گا تو جس سے متاثر تھا اسے سزا دی جائے گی۔ اگر اس فارمولہ پر عمل کےا جائے گا تو ملک کا کوئی بھی شخص جو کسی حےثےت کا حامل نہےں بچ سکتا۔ شردھا کپور بھی اسی زمرے آئےں گی کےوں کہ حملہ آور شردھا کپور کے بھی پرستار تھے۔ مےڈےا مےں کام کرنے والے ہزاروں لوگوں سے ہزاروں لوگ ملتے ہےں ان سے وزےٹنگ کارڈ لےتے ہےںاگر ان مےں کوئی جرائم مےں ملوث پاےا جاتا ہے تو کےا ان کو بھی پکڑا جائے گا جس کے پاس ان کا کارڈہوگا۔ اگر اےسا ہے تو پہلے اس کی زد مےں ہمارے وزےر اعظم نرےندر مودی بھی آتے ہےں جو مکہ مسجد کے دھماکے ملزم اسےمانند کے ساتھ دےکھے جاسکتے ہےں، ملک کے وزےر داخلہ راج ناتھ سنگھ سادھوی پرگےہ، سنگھ کے دےکھتے جاسکتے ہےں۔ مدھےہ پردےش کے وزےر اعلی شےوراج سنگھ بھی پرگےہ ٹھاکر کے ساتھ دےکھے جاسکتے ہےں۔ اگر ذاکر نائک کے ساتھ کارروائی محض اس بنےاد پر ہوسکتی ہے تو ان لوگوں کے خلاف نہےں کیوںہوسکتی ۔ جب کہ ذاکر نائک کے خلاف اب تک کوئی کےس بھی نہےں ہے۔ جب کہ اسےمانند اور پرگےہ ٹھاکر کے خلاف دہشت گردی کے الزام ہےں اور مقدمہ بھی چل رہا ہے اور اےن آئی اے فرد جرم داخل کی ہے، ثبوت پےش کئے ہےں، اقبالےہ بےان ہے ۔اگرذاکر نائک کے اشتعال انگےز تقرےر کو بنیاد بنا ےا جارہا ہے جس مےں اےسی کوئی بات نہےں ہے وہ اےک مثال دےکر لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہےں، لےکن اسے اشتعال انگےز اور نفرت پھےلانے والی تقرےر قرار دی جارہی ہے تو ، سادھوی نرنجن جےوتی، سادھوی پراچی، رکن پارلےمنٹ ےوگی آدتےہ ناتھ، امت شاہ، پروےن توگڑےا، گری راج کشور،کےلاش ورگےہ وجے اور اس طرح سنگھ پرےوار اور اس کے بازو رہنما ¶ں کی اشتعال انگےز تقرےر کو کےا کہا جائے گا۔ ےہ رات دن مسلمانوں کو بھگانے، مارنے، ختم کرنے، مسلم مکت بھارت اور اسی طرح کے دلخراش بےانات دےکر ماحول کو خراب کرتے ہےں اور مسلمانوں کودہشت زدہ کرتے ہےں ان کے خلاف کےا کارروائی ہوگی۔ کےا ےہاں کی عدلےہ کا ےہ فرض نہےں ہے کہ وہ ازخود کارروائی کرکے ان لوگوں کی زبان پر لگام لگائے۔ ےہ ملک مےں متوازی حکومت چلا رہے ہےں لےکن ان پر ملک کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج نہےں ہوتا اور ان سے اس طرح جرائم کے سلسلے مےں پوچھ گچھ ہوتی ہے۔ ان کی تنظےموں کی فنڈنگ کی بات کبھی نہےںکی جاتی۔ان کے سرپرستوں پر کبھی ہاتھ نہےں ڈالا جاتا، ان کا کبھی مےڈےا ٹرائل نہےںہوتا جس طر ح ذاکر نائک کا ہورہا ہے۔ بغےر کسی ثبوت کے ان کے خلاف ساری کارروائی شروع کردی گئی ہے، وزےر دااخلہ کارروائی کی بات کر رہے ہےں۔ پرانے معاملے جس مےں انہےں کلےن چٹ مل چکی ہے پھر جانچ کی جارہی ہے تاکہ حکومت کی مرضی کے مطابق رپورٹ پےش کی جاسکے۔
اسلامی مبلغ ذاکر نائک کا این جی او اسلامک ریسرچ فاو ¿نڈیشن (آئی آرایف ) ان الزامات کے درمیان وزارت داخلہ کی نگرانی میں آ گیا ہے کہ اس نے بیرون ملک سے حاصل چندے کا استعمال سیاسی سرگرمیوں اور لوگوں کو بنیاد پرست خیالات کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے کیا۔وزارت داخلہ کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ آئی آرایف کی سرگرمیوں کی تحقیقات کا حکم دیے گئے ہیں۔آئی آرایف غیر ملکی چندہ ریگولیشن قانون کے تحت درج ہے۔اس معاملے میں ذاکر نائک نے باقاعدہ ایک ویڈیو شوٹ کرکے صفائی دی ہے۔ انہوں نے اپنے اوپر لگ رہے الزامات کوبی بنیاد بتاتے ہوئے کہا کہ ایک بنگلہ دیشی اخبار نے بغیر کسی ثبوت کے دہشت گردوں کو مجھ شامل کر دیا اورہندوستانی میڈیا نے بھی بغیر تحقیق کے مجھے ذمہ دار ٹھہرا دیا۔نائک نے کہا کہ اگر میڈیا نے ذرا سی بھی ریسرچ کر لی ہوتی تو انہیں حقیقت پتہ چل جاتا۔(اب ےہ اخبار اپنے سابقہ بےان پلٹ گےا ہے) یہی نہیں انہوں نے کہا، ’دنیا میں میرے کروڑوں مداح ہیں۔ بنگلہ دیش میں 90 فیصد لوگ مسلمان ہیں اور ان میں سے بھی 50 فیصد سے زیادہ میرے پرستار ہیں. لیکن میں دہشت گردی پھیلا رہا ہوں یہ باتیں غلط ہیں۔ اسلامی تعلیم دینے والے ذاکر نائیک نے ہندوستانی میڈیا پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ بغیر حقائق کی جانچ کئے بغیر ان کے بارے میں غلط خبریں دکھائی جا رہی ہیں۔ ذاکر نے میڈیا کو چیلنج کیا ہے کہ وہ بنگلہ دیشی حکومت کا سرکاری بیان دکھا دیں کہ ڈھاکہ کے حملہ اس نے متاثر تھے۔ذاکر نے کہا ہے کہ میں نے بنگلہ دیش میں فوجی حکام سے بات کی، جنہوں نے مجھے بتایا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ وہاں کے ایک اخبار نے اس طرح کی خبر کو بغیر کسی حقیقت کے ساتھ شائع کیا تو ہندوستانی میڈیا بھی اسی کو چلانے لگا۔ کسی نے خبر چلانے سے پہلے اس حقائق کی جانچ پڑتال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی۔انہوں نے اپنے آپ کو بہت سے ممالک میں پابندی کئے جانے کی خبر کو بھی غلط قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں صرف ایک بار برطانیہ جانے سے روکا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ 3 سال پہلے ان ملیشیا کے کنگ اور وہاں کے وزیر اعظم نے 2013 میں مجھے ملائیشیا کے وزیر اعظم نے اعلی ترین اعزاز سے نوازا۔وہاں کا سب سے اعلی شہری اعزاز دیا تھا، جو عام طور پر ملائیشےائی شہریوں کو ہی دیا جاتا ہے اور کبھی کبھار ہی کسی غیر ملکی کو دیا جاتا ہے۔ تو وہ اسے کیسے بین کر سکتا ہے۔۔مہاراشٹر حکومت بھی مسلم مبلغ کی تقاریر کی تحقیقات کا حکم دے چکی ہے۔ اگر اسے تحقیقات کے لئے مضبوط وجہ مان لیا جائے تو سوامی اسیمانند سے لے کر سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، سنیل جوشی وغیرہ تک تمام لوگ آر اےس اےس کے لئے فعال رکن رہے تھے۔آر اےس اےس کی ایڈیالوجی سے متاثر تھے۔ لیکن ان دہشت گردانہ واقعات میں ملوث ہونے کے الزام طے ہونے کے باوجودآر اےس اےس کے کسی لیڈر کے خلاف کوئی جانچ ایجنسی فعال کیوں نہیں ہوئی؟میڈیا اور بنگلہ دےش حکومت کے کہنے پر ہم یہ مان بھی لیں کہ بنگلہ دیش میں قرآن کی آیتیں پڑھ نہ سکنے والے غیر مسلموں کے قتل کرنے والے دہشت گرد لڑکے ذاکر نائیک کی مذہبی تقریروں سے متاثر تھے، تو یہ بات کون بتائے گا کہ بنگلہ دےش میں عید نماز پڑھ رہے نمازیوں کو مارنے والے، دو دن پہلے مدینہ کے مقدس مسجد میں دھماکے کرنے والے اور رمضان کے مقدس مہینے میں عراق سمیت کئی ممالک میں سینکڑوں مسلمانوں کو قتل کرنے والے دہشت گرد کس شخص یا کس مذہب سے متاثر تھے؟ملک و دنیا کے تمام مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہماری سمجھ میں یہ موٹی سی بات کیوں نہیں آرہی ہے کہ ہمارے اپنے ملک میں ہندوو ¿ں اور مسلمانوں کے درمیان فاصلے کو اس حد تک بڑھانے کی سازشیں چل رہی ہیں کہ ملک میں خانہ جنگی کی نوبت آ جائے۔ظاہر ہے اگر اس میں کوئی سازش ہے تو اسے سامنے آنا چاہئے، لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو بھی پھر یہ کوئی گہری سازش ہے، جو ملک کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تئیں ہمیں چوکننا کرتی ہے، کیوں کہ عوام کو یاد رکھنا چاہئے کہ نفرت کی کمائی اور فسادات کی ملائی سے شیطانی سیاستدانوںاوربدعنوان لوگوں کو ہی فائدہ ہو گا۔جنہیں الگ تھلگ کر ان سے لڑنے کے بجائے بلاوجہ ذاکر نائیک کو لے کر یک طرفہ فیصلہ سنانانے میں ہر طرح سے جلد بازی ہوگی۔جبکہ نقصان اٹھانا پڑے گا عام عوام کو، جن کے دلوں میں ایک دوسرے کے تئیں مذہب کے نام پر ایک ایسی نفرت کی آگ جلے گی جس سے ممکن ہوکہ ملک ہی جھلس جائے۔
ذاکر نائک پر مےڈےا ، سےکورٹی اےجنسےوں، سےاست دانوں، سنگھ پرےوار سے وابستہ تنظےموں، مےڈےا اہلکاروں اور کچھ مرفوع القلم قسم کے مسلمانوں کا حملہ اےسے وقت ہورہا ہے جب وہ ملک مےں نہےں ہےں اور عمرہ کے لئے سعودی عرب مےں ہےں۔ مےں ان کے نظرےات و خےالات اور انداز سے اتفاق نہےں رکھتا لےکن انہےں کسی طرح غےر سماجی سرگرمےوں مےں بھی ملوث نہےں مانتا۔وہ جو کچھ کہتے ہےں سب کے سامنے کہتے ہےں، دلائل کی روشنی مےں کہتے ہےں، بہت لوگ ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرتے ہےں۔ قران کے ساتھ گےتا، بائل اور دےگر مذہبی کتابوں کا حوالہ بھی دےتے ہےں۔ وہ امن کی بات کرتے ہےں۔ مسلمانوں کو قرآن اور ہندو ¶ں کو گےتا اور عےسائےوں کو بائبل پڑھنے کی دعوت دےتے ہےں۔اس سے نام نہاد مذہبی رہنما ¶ں، مذہب کے نام پر دکان چلانے والوں اور پاکھنڈےوں کی تجارت پر خطرہ منڈلانے لگا ہے ۔ وہ اس بہانے سے ذاکر نائک کے خلاف مےدان مےں آگئے ہےں۔ ٹےررسٹ والے جس وےڈےو کو ےہاں معتبرےت کے معاملے مےں طوائفوں سے بھی بدتر مےڈےا ،بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری مےں ماہر خفےہ اےجنسی اور دےگر لوگ بنےاد بنا رہے ہےں۔اس کے پس منظر کو دےکھنا چاہئے اور اس کو سمجھنے کے لئے سےاق سباق کو دےکھنا ضروری ہے۔ وہ خوف زدہ کرنے کی بات کہہ رہے ہےں جرائم کے خلاف، مجرموں کے دلوں مےں خوف پےدا ہوجائے۔ اس خوف کی بات کررہے ہےں جس سے جرائم کم ہوجائے اور مجرموں کو جرم انجام دےتے ہوئے سو بار سوچنا پڑے۔اگر ان کی بات سے کچھ لوگ غلط سمت مےں جارہے ہےں جو کہ مےڈےا کا مفروضہ ہے تو ہزاروں لوگ راہ راست پر بھی آرہے ہےں۔
ڈاکٹر ذاکر نائک کے معاملے کو اچھالنے کے پےچھے اےک بات صاف نظر آرہی ہے کہ اس کو اچھالنے مےں حکومت کی شہہ ہے اور وہ 45 ہزار کروڑ کے اسپےکٹر م گھپلے کو عوام سے چھپانا چاہتی ہے۔ اس لئے اس نے اس وقت ذاکر نائک کے معاملے اس قدر اچھالا ہے۔ جس ٹےلی وےژن کو کھولئے ذاکر نائک پر بے سر پےر کی خبرےں دکھائی دےں گی۔ اےسا محسو س ہوتا ہے کہ کوئی چندر کانتاکا سےرےل چل رہا ہو ،ےا دےومالائی پر مبنی دےگر پروگرام، دےومالائی عقےدے کے حامل مےڈےا اور کچھ لوگ اس کے سہارے حکومت کی کالی کرتوت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہےں۔جےسے ہی کانگرےس نے مودی حکومت کے گھپلے کے پول کھولے اور سی اے جی کی رپورٹ کی بنےاد پر کئی گھپلے سامنے آنے والے ہےں، فوراَ ذاکر نائک کے معاملے کو اچھال دےا۔ اس وقت اےسا محسوس ہورہا ہے کہ ذاکر نائک سے کوئی بڑامعاملہ نہےںہے۔ پورے ملک مےں سےلاب سے تباہی مچی ہوئی ہے، اتراکھنڈ کا کئی گا ¶ں بہہ گےا ہے، مدھےہ پردےش کے کئی اضلاع سےلاب تباہ حال ہےں، آسام مےں صورت حال بہت بھےانک ہے، عوام مہنگائی کی مار سے پرےشان ہےں، سبزیاں اور دےگر لازمی اشےا کی قےمتےں آسمان چھورہی ہےں۔ لےکن مےڈےا کو ےہ سب نظر نہےں آتا۔ دلالی کھانے والا مےڈےا کو ےہ سب کےسے نظر آسکتا ہے۔الےکٹرونک اور پرنٹ مےڈےا کے اہلکاروںکو سےکس ورکروں کی معتربےت قائم کرنے کے لئے مبارکباد ۔ڈاکٹر ذاکر نائک پر ہندوستان مےں چہار جانب سے اس طرح حملہ کےا جارہا ہے جےسے اس سے بڑا کوئی مجرم ہی نہ ہو۔ مےڈےا، پولےس، خفےہ اےجنسی، حکومت سب نے تلوار میان سے نکال لی ہے اور ان کو قتل کرنا ہی چاہتے ہےں، اس کے لئے تمام اسباب مہےا کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، جال بچھائے جارہے ہےں، بھاڑے کے مظاہرےن بھےجے جارہے ہےں، بھاڑے کے ٹٹو سے بےان دلوائے جارہے ہےں، مسلمانوں کو گھاس نہ ڈالنے والا مےڈےا آج ٹی وی چےنل پر بلاکر ان سے اپنی مرضی کے مطابق بےان دلوارہا ہے۔ہندوستانی مےڈےا کا روےہ مسلمانوں کے تئےں پائخانہ پر بےٹھنے والی مکھی کا ہے، ہندوستانی مےڈےا کی شرشت مےں نہےں ہے کہ وہ مسلمانوں کے لئے شہد مکھی بن سکے۔ مسلمان کے لئے اس وقت زبردست بھیانک صورت حال ہے، اسلام اور مسلم دشمن طاقتےں مسلمانوں کے انتشار فائدہ اٹھارہی ہےں اور ہم انہےں آسانی سے فائدہ اٹھانے دے رہے ہےں۔اس وقت متحد ہوکر مقابلہ کرنے کا وقت ہے، مسلکی انتشار سے گرےز کرتے ہوئے ذاکر نائک کی حماےت اٹھ کھڑے ہونے کا وقت ہے، ےاد رکھئے اس وقت ہم نے ذاکر نائک کا ساتھ نہےں دےا تو آنے والے وقت میں ہمارے ساتھ کوئی نہےں ہوگا۔ہم الگ الگ کرکے مار دئے جائےں گے اور کوئی آنسو بہانے والا بھی نہےں ہوگا۔ مسلم دشمن طاقتےں اونچی اور نےچی ٹوپی نہےں دےکھتیں اور نہ دےکھتی ہےں کہ ہاتھ سےنے پر باندھتا ہے ےا اس کے نےچے،نماز مےں کون کس وقت کھڑا ہوتا ہے، نماز کے بعد کون سلام پڑھتا ہے اور کون نہےں پڑھتا ، ان کےلئے مسلم ہونا ہی کافی ہے خواہ وہ دہرےہ ہی کےوں نہ ہو۔
عابد انور


No comments:
Post a Comment