جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بجا طورپر کہاہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی بقاءکے لیے آزاد عدلیہ ناگزیر ہے۔ بھارت کے شہرحیدرآباد میں 17 ویں دولت مشترکہ قانون کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے غیر آئینی اقدامات کے خلاف عدلیہ کی طویل جدو جہد پر بھی روشنی ڈالی اور 3نومبر2007ءکے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات کا حوالہ بھی دیا جس کے خلاف وکلا اور عوام نے تاریخی جدو جہد کی ۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری کاکہنا تھا کہ آئین کے تحت منتخب حکومت ہی گڈ گورننس قائم کرسکتی ہے اور شہریوں کے حقوق کا تحفظ سب سے زیادہ عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ لیکن پاکستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں آئین کے تحت ایک منتخب حکومت ہے جس کو جمہوری کہاجاتاہے مگر یہ آئینی اور جمہوری حکومت گڈ گورننس قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے ثبوت یوں تو گلی گلی میں بکھرے ہوئے ہیں لیکن خود عدلیہ اس کی سب سے بڑی گواہ ہے کہ گڈ گورننس توکیا گورننس ہی عنقا ہے۔ عدلیہ کا تبصرہ ہے کہ چوروں کو بچانے کے لیے چور جمع ہو گئے ہیں۔ یہ اشارہ انہی کی طرف ہے جو گڈ گورننس کے ذمہ دار ہیں۔ اس جمہوری آئینی حکومت کے ستونوں کے خلاف کئی مقدمات عدالتوں میں ہیں اور اہم ترین مناصب پر فائز افراد الزامات کی زد میں ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ عدلیہ بڑی حد تک آزادانہ فیصلے کررہی ہے لیکن عدلیہ کے فیصلوں کا انحصارثبوتوں اور گواہوں پر ہوتاہے۔ حکمرانوں کے خلاف ثبوت درکارہوں تو یہ کام سرکاری ایجنسیاں ہی کر سکتی ہیں مگر وہ اپنی سرکار کے خلاف ثبوت کیوں پیش کریں گی۔ ہر ایک کو اپنی ملازمت عزیز ہوتی ہے۔ عدالت یہ تبصرہ بھی کرچکی ہے کہ جن افسران کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی ہے وہ حکام بالا کے خلاف کس طرح دل جمعی سے کام کریں گے۔ اس حوالے سے عدالت نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے وسیم احمد کی کار کردگی پر برہمی کا ظہار کیا تھا۔ بد عنوانی اور بد انتظامی کے جتنے بھی بڑے بڑے معاملات ہیں سب کے ڈانڈے حکمرانوں سے جاکر ملتے ہیں۔ جناب صدر آصف علی زرداری کے قصے تو پرانے ہوئے‘ عوام کو ایک منتخب وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی سے بڑی توقعات تھیں مگر عام تاثر یہ ہے کہ میرٹ کی دھجیاں اڑادی گئی ہیں‘اقربا پروری اور دوستوں کو نوازنا عام ہے۔ معمولی سی تعلیم اور قابلیت سے عاری افراد کو اہم مناصب سونپ دیے گئے ۔ ایسے بے شمار واقعات ریکارڈ پر ہیں۔ وزیر اعظم صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ خواہ انہوںنے اپنی پارٹی کے سربراہ کی اطاعت کی ہو لیکن ساری ذمہ داری انہی پر آئے گی کیونکہ وہ آئینی اور قانونی طورپر سربراہ حکومت ہےں۔ ان کا تین سالہ دور حکومت بد نظمی‘ بد انتظامی اور اقربا پروری سے عبارت ہے۔ چنانچہ یہ کلیہ پاکستان کی حد تک غلط ثابت ہورہاہے کہ آئین کے تحت منتخب حکومت ہی گڈ گورننس قائم کرسکتی ہے۔ پاکستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ غیر آئینی حکومتیں تو ہر قسم کی جوابدہی سے ماورا ہوتی ہیں اور ان سے گڈ گورننس کی توقع ہی نہیں ہوتی مگر منتخب حکومتیں بھی اسی راہ پر چل پڑتی ہیں ۔ منتخب عوامی نمائندوں میں سے کئی جعلی ڈگریاں لیے بیٹھے ہیں اور خود جعل سازی کے مرتکب ہوئے ہیں ایسی منتخب پارلیمنٹ سے کیسے اچھی توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ درحقیقت یہ حکومت این آر او کی پیداوار ہے جسے عدلیہ کا لعدم قرار دے چکی ہے مگر حکومت اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جاکر یہ ثابت کر چکی ہے کہ اسے این آر او عزیز ہے یہی وجہ ہے کہ کئی این آر او زدہ افراد کو اہم مناصب دے دیے گئے۔ مثلاً ریاض احمد شیخ‘ جن کو 11برس کی سزا ہوئی تھی ‘ عدالت کے حکم پر دوبارہ گرفتار کرکے جیل بھیجاگیا تو صدر صاحب نے اپنے اختیارات استعمال کرکے رہا کردیا۔ ان حالات میں پاکستان کے عوام نے اپنی تمام توقعات اور امیدیں عدلیہ سے وابستہ کرلی ہیں جو بڑی حد تک بنیادی حقوق کا تحفظ کررہی ہے۔ عدلیہ کو بار بار ایسے معاملات میں سوموٹو ایکشن لینا پڑتاہے جو ایک فعال حکومت کی موجودگی میں عدالت تک پہنچنے ہی نہیں چاہئیں چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ جمہوری حکومت نے فوجی حکمران کے اقدامات کی توثیق نہیں کی مگر ختم بھی نہیں کیا۔ شاید اسی لیے تبصرہ نگار موجودہ حکومت کو جنرل پرویز کی غیر آئینی حکومت کا تسلسل قراردیتے ہیں۔ عدلیہ تو ماضی کی غلطیوں اور غلط فیصلوں کے داغ دھورہی ہے مگر حکمران اپنے دامن پر مزید داغ لگائے چلے جا رہے ہیں۔ سابق آمر مطلق پرویز مشرف پربھری محفل میں دو مرتبہ جوتے اچھالے جا چکے ہیں کیا موجودہ حکمران اس سے بھی سبق حاصل نہیں کرتے کہ کبھی نہ کبھی تو ایوان اقتدار سے باہر آناہی ہے۔ دو سال کی مہلت باقی ہے۔ اب تو ایسا کچھ کر جائیں کہ عوام اچھے نام سے یاد کریں۔ شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہر اچھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ کام ہوجائے تو سب کچھ عدلیہ کو نہ کرنا پڑے ۔
No comments:
Post a Comment