اردو صحافت میں کالم نویسی کی ابتدا مولانا ابوالکلام آزاد نے کی۔ انہوں نے اپنے اخبار ”الہلال“ میں طنز ومزاح کے پیرائے میں کالم نویسی کا آغاز کیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت اور ان کے طنز و مزاح پر مبنی اسلوب نے ایک ”دلچسپ تضاد“ پیدا کیا۔ مولانا عام صحافی نہیں تھے۔ وہ مفسرِ قرآن تھے، صف ِاوّل کے سیاسی رہنما تھے، انشاپرداز تھے، صاحب ِطرز ادیب تھے، لیکن اس کے باوجود وہ ہلکے پھلکے انداز میں کالم تحریر کررہے تھے۔ چنانچہ مولانا کی بھاری بھرکم شخصیت کا یہ اثر ہوا کہ کالم نویسی کا مفہوم طنز و مزاح کے پیرائے یا ہلکے پھلکے اسلوب میں لکھی جانے والی تحریریں قرار پایا۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ مولانا جیسی ثقہ مذہبی شخصیت نے کالم نویسی کے لیے طنز و مزاح کا پیرایہ کیوں اختیار کیا؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ انگریزوں کی غلامی نے ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں چھوٹے بڑے ہزاروں تضادات پیدا کردیے تھے۔ ان تضادات پر تبصرے اور ان کے تجزیے کا حق سنجیدہ اسلوب میں ادا نہیں ہوتا تھا۔ سنجیدہ اسلوب تضادات کی تمام سطحوں اور تمام پہلوﺅں پر حاوی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تضادات کے تقاضوں نے ہماری تہذیبی اور لسانی روایت کو اکبرالٰہ آبادی جیسی عظیم شخصیت پیدا کرنے پر مجبور کیا۔ اکبر الٰہ آبادی کا شاعرانہ جوہر اقبال کی سطح کا ہے۔ اکبر نے تضادات کو علم اور خبر کو ایسی نظر بنادیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ اکبر کے اسلوب کا ایک اثر یہ ہے کہ اقبال جیسی شخصیت نے اکبر کے اسلوب کی مقلدانہ پیروی کی ہے۔ اکبر کے انتقال پر اقبال نے اکبر کے بیٹے کے نام تعزیتی خط میں گہری عقیدت سے لکھا ہے کہ پورے ایشیا میں اکبر الٰہ آبادی جیسی شخصیت موجود نہیں۔ بلاشبہ مغربی ادب میں طنز و مزاح کے بڑے نمونے موجود ہیں مگر یہ نمونے تہذیبی تصادم نے خلق نہیں کیے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ایشیا کیا پوری دنیا کے ادب میں اکبر کی نظیر موجود نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مولانا ابوالکلام آزاد کی فکاہیہ کالم نویسی کی معنویت اور مقبولیت کا راز آشکار ہوکر سامنے آجاتا ہے۔ لیکن اردو کالم نویسی مولانا ابوالکلام آزاد کے نمونے پر ٹھیر نہیں گئی۔
زندگی اور صحافت کی ضروریات نے کالم نویسی کے دائرے کو وسیع کیا اور اس میں تنوع پیدا کیا۔ یہاں تک کہ فکاہیہ کالم نویسی کالم نگاری کی محض ایک قسم بن کر رہ گئی۔ اِس وقت صورت حال یہ ہے کہ زندگی کے جتنے شعبے ہیں اتنی ہی طرح کے کالم لکھے جارہے ہیں۔ اس صورت حال نے کالم نویسی کو صحافت کی مقبول ترین صنف بنادیا ہے۔ اس مقبولیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اخبارات کے قارئین کی بڑی تعداد اخبار بعد میں ملاحظہ کرتی ہے کالم پہلے پڑھتی ہے۔ اس مقبولیت کا ایک اور زاویہ یہ ہے کہ ”مرا ہاتھی سوا لاکھ کا“ کے مصداق گئے گزرے کالم نویس بھی لاکھوں کما رہے ہیں۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ کالم نویسی اپنے ”مواد“ کی وجہ سے تو نہیں البتہ اپنی ”قیمت“ کی وجہ سے ”فائیواسٹار“ ہوگئی ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ صحافت کی ایک صنف کے اعتبار سے کالم کی مقبولیت کی وجوہ کیا ہیں؟
کالم کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ قلتِ فہم اور شعور کا بحران ہے۔ اس منظرنامے میں ”رائے“ نایاب ہوگئی ہے۔ چنانچہ لوگ مختلف معاملات پر رائے قائم کرنے کے لیے کالموں سے رجوع کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کالم نویسوں نے کوچہ ¿ صحافت کے مفتیوں کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر یہ شعر یاد آجاتا ہے
یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
مطلب یہ کہ رائے کالم نویسوں کے پاس بھی نہیں ہوتی، اس لیے کہ رائے وہی ہوتی ہے جو ”صائب“ ہو۔ لیکن بہرحال لوگوں کے ذہن میں جس رائے کا تصور ہے وہ انہیں کالموں سے فراہم ہوجاتی ہے۔ چنانچہ پیاسے کو پانی، بھوکے کو روٹی اور مسائل کی دھوپ میں تپتے ہوئے لوگوں کو سائبان فراہم ہوجاتا ہے۔ لیکن کالم نویس صحافت کے مفیانِ کرام بن گئے ہیں تو اس کا ایک حوالہ منفی بھی ہے۔ قارئین کی ایک بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ کالم نویس اقتدار کی غلام گردشوں میں رسوخ رکھتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ سیاست کی بساط پر کون کیسی چال چل رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایجنسیوں سے وابستگی کا حوالہ بھی لوگوں کے ذہنوں میں جڑ پکڑتا جارہا ہے اور پڑھنے والے بہت سے لکھنے والوں کو اسٹیبلشمنٹ کے ترجمانوں کے طور پر پڑھتے ہیں۔ ہماری صحافت کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس میں تحقیقاتی رپورٹنگ اور اچھے انٹرویوز کمیاب ہیں۔ دنیا کے جن ملکوں میں تحقیقاتی رپورٹنگ اور اچھے انٹرویوز کی روایت موجود ہے وہاں تحقیقاتی رپورٹرز اور انٹرویو نگار کالم نویسوں سے کم اہم نہیں ہوتے، لیکن ہمارے یہاں چونکہ تحقیقاتی رپورٹنگ اور انٹرویوز کا خانہ تقریباً خالی ہے اس لیے قارئین کی ساری توجہ کالم نویسوں پر مرکوز ہوکر رہ گئی ہے۔
صحافت کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ خبر کی زبان غیر شخصی اور معروضی ہوتی ہے، چنانچہ قارئین کو خبر کی زبان اور بیان میں اپنی شخصی تسکین کا کوئی سامان نظر نہیں آتا۔ اداریہ اخبار کی جان ہوتا ہے لیکن اداریے کا اسلوب بھی غیر شخصی ہوتا ہے۔ لیکن کالم پر اول و آخر انفرادیت کی مہر لگی ہوتی ہے اور قارئین کا خود کو کالم نویس کے ساتھ متشخص یا Identify کرنا آسان ہوتا ہے، اس لیے قارئین کی بڑی تعداد کالم کی طرف راغب ہوتی ہے۔
پاکستانی قوم کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے اعصاب پر ”سیاست“ سوار ہے۔ ہم سیاست کھاتے ہیں، سیاست پیتے ہیں، سیاست اوڑھتے ہیں، سیاست بگھارتے ہیں۔ ایسا بلا سبب نہیں ہے۔ ہماری سیاست انتہائی بیمار ہے۔ اسے دنیا کے بڑے بڑے امراض لاحق ہیں۔ چنانچہ ہماری صحافت پر بھی سیاست کا غلبہ ہے اور کالم نویسی کا 98 فیصد سیاست کے لیے وقف ہوگیا ہے۔ چونکہ قارئین کے اکثر مسائل سیاسی ہوتے ہیں اس لیے انہیں کالم نویسی کی محفل سے اپنی آواز بلند ہوتی محسوس ہوتی ہے۔
کالم کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ صحافت کے یکسانیت زدہ ماحول میں تنوع کا احساس دلاتا ہے۔ یہ تنوع دو سطحوں پر محسوس ہوتا ہے، (1) موضوعات کی سطح پر، اور(2) اسلوب کی سطح پر۔ لیکن تنوع کا یہ احساس سطحی ہے۔ بڑے اخبارات کے ادارتی صفحات ملاحظہ کیے جائیں تو ہماری کالم نویسی تنوع کے بجائے تضاد کا منظر پیش کررہی ہے۔ ان صفحات پر موجود ایک کالم دوسرے کالم کی، دوسرا کالم تیسرے کالم کی اور تیسرا کالم چوتھے کی تردید کررہا ہوتا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ تنوع اور تضاد کا فرق کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تنوع اصولِ وحدت کا حاصل ہوتا ہے، اور جہاں اصولِ وحدت موجود نہ ہو وہاں تنوع کے بجائے تضاد نمودار ہوجاتا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو ہماری کالم نویسی کا کوئی تصور ِوحدت ہی نہیں ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر قارئین کی اکثریت کالم نویسی میں کیوں دلچسپی لیتی ہے؟ اس سوال کے دو جوابات ہیں۔ ایک یہ کہ قارئین کو تنوع اور تضاد کا فرق معلوم نہیں، چنانچہ وہ تضاد ہی کو تنوع سمجھتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ قارئین کی اکثریت خود زندگی کے تضاد آلود منظر نامے کو پسند کرتی ہے۔ اس کے ذہن میں معمول کی زندگی یا Normal life کا یہی تصور ہے۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ انگریزوں کی غلامی نے ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں چھوٹے بڑے ہزاروں تضادات پیدا کردیے تھے۔ ان تضادات پر تبصرے اور ان کے تجزیے کا حق سنجیدہ اسلوب میں ادا نہیں ہوتا تھا۔ سنجیدہ اسلوب تضادات کی تمام سطحوں اور تمام پہلوﺅں پر حاوی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تضادات کے تقاضوں نے ہماری تہذیبی اور لسانی روایت کو اکبرالٰہ آبادی جیسی عظیم شخصیت پیدا کرنے پر مجبور کیا۔ اکبر الٰہ آبادی کا شاعرانہ جوہر اقبال کی سطح کا ہے۔ اکبر نے تضادات کو علم اور خبر کو ایسی نظر بنادیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ اکبر کے اسلوب کا ایک اثر یہ ہے کہ اقبال جیسی شخصیت نے اکبر کے اسلوب کی مقلدانہ پیروی کی ہے۔ اکبر کے انتقال پر اقبال نے اکبر کے بیٹے کے نام تعزیتی خط میں گہری عقیدت سے لکھا ہے کہ پورے ایشیا میں اکبر الٰہ آبادی جیسی شخصیت موجود نہیں۔ بلاشبہ مغربی ادب میں طنز و مزاح کے بڑے نمونے موجود ہیں مگر یہ نمونے تہذیبی تصادم نے خلق نہیں کیے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ایشیا کیا پوری دنیا کے ادب میں اکبر کی نظیر موجود نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مولانا ابوالکلام آزاد کی فکاہیہ کالم نویسی کی معنویت اور مقبولیت کا راز آشکار ہوکر سامنے آجاتا ہے۔ لیکن اردو کالم نویسی مولانا ابوالکلام آزاد کے نمونے پر ٹھیر نہیں گئی۔
زندگی اور صحافت کی ضروریات نے کالم نویسی کے دائرے کو وسیع کیا اور اس میں تنوع پیدا کیا۔ یہاں تک کہ فکاہیہ کالم نویسی کالم نگاری کی محض ایک قسم بن کر رہ گئی۔ اِس وقت صورت حال یہ ہے کہ زندگی کے جتنے شعبے ہیں اتنی ہی طرح کے کالم لکھے جارہے ہیں۔ اس صورت حال نے کالم نویسی کو صحافت کی مقبول ترین صنف بنادیا ہے۔ اس مقبولیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اخبارات کے قارئین کی بڑی تعداد اخبار بعد میں ملاحظہ کرتی ہے کالم پہلے پڑھتی ہے۔ اس مقبولیت کا ایک اور زاویہ یہ ہے کہ ”مرا ہاتھی سوا لاکھ کا“ کے مصداق گئے گزرے کالم نویس بھی لاکھوں کما رہے ہیں۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ کالم نویسی اپنے ”مواد“ کی وجہ سے تو نہیں البتہ اپنی ”قیمت“ کی وجہ سے ”فائیواسٹار“ ہوگئی ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ صحافت کی ایک صنف کے اعتبار سے کالم کی مقبولیت کی وجوہ کیا ہیں؟
کالم کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ قلتِ فہم اور شعور کا بحران ہے۔ اس منظرنامے میں ”رائے“ نایاب ہوگئی ہے۔ چنانچہ لوگ مختلف معاملات پر رائے قائم کرنے کے لیے کالموں سے رجوع کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کالم نویسوں نے کوچہ ¿ صحافت کے مفتیوں کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر یہ شعر یاد آجاتا ہے
یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
مطلب یہ کہ رائے کالم نویسوں کے پاس بھی نہیں ہوتی، اس لیے کہ رائے وہی ہوتی ہے جو ”صائب“ ہو۔ لیکن بہرحال لوگوں کے ذہن میں جس رائے کا تصور ہے وہ انہیں کالموں سے فراہم ہوجاتی ہے۔ چنانچہ پیاسے کو پانی، بھوکے کو روٹی اور مسائل کی دھوپ میں تپتے ہوئے لوگوں کو سائبان فراہم ہوجاتا ہے۔ لیکن کالم نویس صحافت کے مفیانِ کرام بن گئے ہیں تو اس کا ایک حوالہ منفی بھی ہے۔ قارئین کی ایک بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ کالم نویس اقتدار کی غلام گردشوں میں رسوخ رکھتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ سیاست کی بساط پر کون کیسی چال چل رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایجنسیوں سے وابستگی کا حوالہ بھی لوگوں کے ذہنوں میں جڑ پکڑتا جارہا ہے اور پڑھنے والے بہت سے لکھنے والوں کو اسٹیبلشمنٹ کے ترجمانوں کے طور پر پڑھتے ہیں۔ ہماری صحافت کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس میں تحقیقاتی رپورٹنگ اور اچھے انٹرویوز کمیاب ہیں۔ دنیا کے جن ملکوں میں تحقیقاتی رپورٹنگ اور اچھے انٹرویوز کی روایت موجود ہے وہاں تحقیقاتی رپورٹرز اور انٹرویو نگار کالم نویسوں سے کم اہم نہیں ہوتے، لیکن ہمارے یہاں چونکہ تحقیقاتی رپورٹنگ اور انٹرویوز کا خانہ تقریباً خالی ہے اس لیے قارئین کی ساری توجہ کالم نویسوں پر مرکوز ہوکر رہ گئی ہے۔
صحافت کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ خبر کی زبان غیر شخصی اور معروضی ہوتی ہے، چنانچہ قارئین کو خبر کی زبان اور بیان میں اپنی شخصی تسکین کا کوئی سامان نظر نہیں آتا۔ اداریہ اخبار کی جان ہوتا ہے لیکن اداریے کا اسلوب بھی غیر شخصی ہوتا ہے۔ لیکن کالم پر اول و آخر انفرادیت کی مہر لگی ہوتی ہے اور قارئین کا خود کو کالم نویس کے ساتھ متشخص یا Identify کرنا آسان ہوتا ہے، اس لیے قارئین کی بڑی تعداد کالم کی طرف راغب ہوتی ہے۔
پاکستانی قوم کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے اعصاب پر ”سیاست“ سوار ہے۔ ہم سیاست کھاتے ہیں، سیاست پیتے ہیں، سیاست اوڑھتے ہیں، سیاست بگھارتے ہیں۔ ایسا بلا سبب نہیں ہے۔ ہماری سیاست انتہائی بیمار ہے۔ اسے دنیا کے بڑے بڑے امراض لاحق ہیں۔ چنانچہ ہماری صحافت پر بھی سیاست کا غلبہ ہے اور کالم نویسی کا 98 فیصد سیاست کے لیے وقف ہوگیا ہے۔ چونکہ قارئین کے اکثر مسائل سیاسی ہوتے ہیں اس لیے انہیں کالم نویسی کی محفل سے اپنی آواز بلند ہوتی محسوس ہوتی ہے۔
کالم کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ صحافت کے یکسانیت زدہ ماحول میں تنوع کا احساس دلاتا ہے۔ یہ تنوع دو سطحوں پر محسوس ہوتا ہے، (1) موضوعات کی سطح پر، اور(2) اسلوب کی سطح پر۔ لیکن تنوع کا یہ احساس سطحی ہے۔ بڑے اخبارات کے ادارتی صفحات ملاحظہ کیے جائیں تو ہماری کالم نویسی تنوع کے بجائے تضاد کا منظر پیش کررہی ہے۔ ان صفحات پر موجود ایک کالم دوسرے کالم کی، دوسرا کالم تیسرے کالم کی اور تیسرا کالم چوتھے کی تردید کررہا ہوتا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ تنوع اور تضاد کا فرق کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تنوع اصولِ وحدت کا حاصل ہوتا ہے، اور جہاں اصولِ وحدت موجود نہ ہو وہاں تنوع کے بجائے تضاد نمودار ہوجاتا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو ہماری کالم نویسی کا کوئی تصور ِوحدت ہی نہیں ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر قارئین کی اکثریت کالم نویسی میں کیوں دلچسپی لیتی ہے؟ اس سوال کے دو جوابات ہیں۔ ایک یہ کہ قارئین کو تنوع اور تضاد کا فرق معلوم نہیں، چنانچہ وہ تضاد ہی کو تنوع سمجھتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ قارئین کی اکثریت خود زندگی کے تضاد آلود منظر نامے کو پسند کرتی ہے۔ اس کے ذہن میں معمول کی زندگی یا Normal life کا یہی تصور ہے۔
No comments:
Post a Comment