اقتدار میں آنے کے3 سال بعد ذوالفقار علی بھٹو کی 32 ویں برسی کے موقع پر صدر زرداری نے بھٹو کی سزائے موت کے فیصلہ پر نظر ثانی کا ریفرنس سپریم کورٹ کو بھیجا ہے ۔ اس وقت اس اقدام کی کوئی ’تک سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ بے نظیر بھٹو دو بار وزارت عظمیٰ پر فائز رہی ہیں انہوں نے اپنے والد کی پھانسی کی سزا کو” عدالتی قتل،، قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ کے سامنے کوئی ریفرنس کیوں پیش نہیں کیا۔ نہ معلوم ذوالفقار علی بھٹو کے داماد زرداری کو اچانک اس کا خیال کیوں آیا؟ صدر زرداری کے وزیر قانون بابر اعوان نے یہ تاویل پیش کی ہے کہ بے نظیر بھٹواپنے والد کے مقدمہ پر نظر ثانی کا ریفرنس اس بناءپر پیش نہیں کر سکیںکیونکہ صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت جلد برطرف کر دی اور صدر فاروق لغاری نے بھی مہلت نہیں دی۔ یہ تاویل اس بنا پر خام نظر آتی ہے کہ صدر غلام اسحاق خان کے دور میں جب بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیر اعظم بنیں تو وہ برطرفی سے پہلے 20 ماہ تک اس عہدہ پر فائز رہی تھیں۔ بے نظیر بھٹو کے لیے یہ وافر وقت تھا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ ناانصافی کے ازالہ کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دایر کرتیں۔ بلکہ ان کے برسر اقتدار آتے ہی سب سے پہلا اقدام یہی ہونا چاہئے تھالیکن اس کے بجائے انہوں نے سب سے پہلے فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ کو جمہوریت کا تمغا عطا کیا۔ پھر جب بے نظیر بھٹو 1993ءمیں دوبارہ وزیر اعظم بنیں تو اس وقت تو صدر خود ان کی جماعت کے رہنما اور ان کے منتخب کردہ فاروق لغاری تھے اور شروع شروع میں ان کے درمیان زبردست ہم آہنگی تھی۔ اسوقت ان کے درمیان نہ تو اختلافات پیدا ہوئے تھے اور نہ اتنی کشیدگی بڑھی تھی کہ صدر لغاری نے ان کی حکومت کو بدعنوانیوں کے سنگین الزامات عاید کر کے برطرف کر دیا۔
وزیر قانون بابر اعوان نے دعوی کیا ہے کہ بھٹو مرحوم کے خلاف مقدمہ پر نظر ثانی کا ریفرنس عدالتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے اور قانون کی سر بلندی کے لیے دایر کیا گیا ہے ۔یہی بابر اعوان تھے جنہوں نے اپنے عہدہ پر فائز ہوتے ہی سپریم کورٹ سے معرکہ کے لیے آستینیں چڑھا لی تھیں اورسپریم کورٹ کی ہدایت پر صدر زرداری کے خلاف سوئس عدالت میں مقدمہ کے بارے میں خط لکھنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ خط ان کی لاش ہی کو پھلانگ کر بھیجا جاسکے گا۔ اس وقت انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ عدالتی نظام کو بہتر بنانے کا واحد راستہ عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کا ہے اور اس کے لیے انہیں چاہئے تھا کہ وہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر صدر زرداری کے مقدمہ کے بارے میں سوئس عدالت کو خط لکھ کر یہ اطلاع دیتے کہ ملک کی اعلی ترین عدالت نے اس NROکو کالعدم قرار دے دیا ہے جس کے تحت صدر زرداری کے خلاف مقدمات واپس لے لیے گئے تھے۔ اس وقت نظر ثانی کا ریفرنس دایر کرنے کا اصل مقصد عدلیہ کو مضبوط بنانے کے بجائے عدلیہ سے انتقام لینا اور اس سے معرکہ آرائی کی کوشش نظر آتی ہے۔
تین سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد اب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمہ پر نظر ثانی کا ریفرنس دائر کرنے کا اقدام دراصل زرداری کی اس بنیادی سیاسی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے جس کا مقصد ملک میںیکے بعد دیگرے ایک نیا مسئلہ یا بحران پیدا کرنا ہے تاکہ اس میں قوم کو الجھا کر ان کے سنگین مسائل سے ان کی توجہ ہٹا دی جائے اور اپنی ناکامی پر پردہ ڈال دیا جائے ۔
کیفیت ایسی ہے ناکامی کی اس تصویر میں
جو اتر سکتی نہیں آئینہ تحریر میں
بر سر اقتدار آنے کے فورا بعد صدر زرداری نے سپریم کورٹ اور معزول آمر پرویز مشرف کے درمیان معرکہ آرائی کو عمداً طول دیا اور پرویز مشرف کی معزولی کے بعد بھی وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ان کے ساتھی ججوں کو بحال کرنے سے انکار پر ایسے اٹل رہے جیسے یہ ان کی سیاسی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے لیکن آخر کار مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومت سے علاحدگی کی قربانی ’لانگ مارچ کی ہل چل اور فوج کے سربراہ جنرل کیانی کی مداخلت کے نتیجہ میں صدر زرداری کو منہ کی کھانی پڑی اور چیف جسٹس اور ان کے ساتھی ججوں کو بحال کرنا پڑا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب تک اس ہزیمت کی خفت نہیں بھلا سکے ہیں اور ہر ہر قدم پر عدلیہ سے انتقامی معرکہ کی راہیں تراشتے رہتے ہیں۔
ایک عرصہ تک صدر زرداری نے معزول آمر پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمہ کے مطالبہ کو بھی ہوا دی جب کہ وکی لیکس کے انکشاف کے مطابق انہوں نے صدر منتخب ہونے سے پہلے امریکی سفیر این پیٹرسن کو یقین دلایا تھا کہ پرویز مشرف کو مقدمات سے استثنیٰ قرار دیا جائے گا اور انہیں با وقار طور پر ان کے عہدہ سے سبکدوش کر دیا جائے گا۔ 23 اگست 2008 ءکو امریکی سفیر این پیٹر سن نے واشنگٹن کو بھیجے جانے والے اپنے خفیہ پیغام میں کہا تھا کہ انہوں نے آصف زرداری اور وزیر اعظم گیلانی اور فوج کے سربراہ جنرل کیانی سے الگ الگ ملاقاتوں میںاس بات پر زور دیا تھا کہ سابق صدر مشرف کو قانوی اقدامات سے استثنی دینے کے بارے میں فوری کاروائی کی جائے۔ امریکی سفیر کے مطابق‘ زرداری اور گیلانی نے نہایت واضح الفاظ میںیقین دلایا تھا کہ وہ مشرف کو استثنیٰ دینے کے پیمان کے پابند ہیں لیکن 6 ستمبر کو صدارتی انتخاب سے پہلے اس پر عمل نہیں کر سکتے کیونکہ اس کی وجہ سے زرداری کا انتخاب خطرہ میں پڑ سکتا ہے۔ امریکی سفیر نے اپنے پیغام میں کہا کہ جنرل کیانی نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ اگر استثنیٰ کا معاملہ ججوں کے مستبقل کے مسلئہ سے وابستہ کیا گیا تو یہ معاملہ کبھی طے نہیں ہو سکے گا۔
صدر زرداری کی سیاسی حکمت عملی میں ایک نمایاں پہلو دوغلے پن کا ہے ۔ پاکستان پر امریکی ڈرون حملوں کے بارے میں زرداری کا رویہ اس دوغلے پن کو صریح طور پر بے نقاب کرتا ہے ۔ صدر منتخب ہونے کے فورا بعد ستمبر 2008 ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں آصف علی زرداری نے نہایت شدت سے امریکی ڈرون حملوں کی مذمت کی تھی لیکن اسی دورہ میں انہوں نے امریکی حکام سے ڈرون حملوں کی مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق کیا جس کے بارے میں انہوں نے پاکستان کے عوام کو تاریکی میں رکھا حتی کہ اس وقت جب پارلیمنٹ نے ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد منظور کی صدر زرداری کو ہمت نہ ہوئی کہ وہ اس بات کا اعتراف کرتے کہ انہوں نے ڈرون حملوں کے بارے میں امریکی حکام سے خفیہ سمجھوتا کیا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2008ءکے بعد سے جب کہ صدر زرداری نے امریکیوں سے خفیہ سمجھوتا کیا ڈرون حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 2004 ءسے 2007 ءتک چار برسوں میں صرف 9 ڈرون حملے ہوئے تھے لیکن 2008 ءمیں اچانک ان حملوں کی تعداد 33 ہو گئی ۔ جن میں 313 افراد ہلاک ہوئے۔ 2009 ءمیں 53 ڈرون حملے ہوئے جن میں 724افراد جاں بحق ہوئے اور 2010ءمیں ان ڈرون حملوں کی تعداد 118 تک پہنچ گئی اور ہلاک ہونے والوں کی بھی تعداد 993 تک پہنچ گئی۔ اس سال 3 مہینوں کے دوران اب تک 21 ڈرون حملے ہوئے ہیں جن میں 141افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اب تک پاکستان پر امریکی ڈرون حملے 2283 پاکستانیوں کی جانیں لے چکے ہیں۔ ان پاکستانیوں کا خون صرف امریکیوں کے ہاتھوں ہی پر نہیں خود ہمارے حکمرانوں کے ہاتھوں پر بھی ہے۔کس قدر سفاکانہ انداز تھا پاکستان کے وزیر اعظم گیلانی کا امریکی سفیر کو یقین دلاتے ہوئے کہ آپ ڈرون حملے جاری رکھیں ۔ ہم پارلیمنٹ میں شور مچائیں گے اور ان حملوں کو نظر انداز کر دیں گے۔
پھر یہ جانتے ہوئے کہ اس معاملہ پرزبردست مخالفت ہوگی اور ہنگامہ برپا ہوگا صدر زرداری نے پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر غیر قانونی طور پر قومی احتساب بیورو کے سربراہ کی حیثیت سے پیپلز پارٹی کے پرانے حامی دیدار حسین شاہ کو مقرر کر کے ایک ایسا بحران پیدا کردیا جس سے حکومت اور عدلیہ کے درمیان معرکہ آرائی بھڑکنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔اس تقرر کے لیے پارلیمنٹ سے قطعی کوئی منظوری حاصل نہیں کی گئی تھی اور تمام تر عمل غیر قانونی تھا اور آخر کار سپریم کورٹ نے بھی اس تقرر کو غیر آئینی قرار دے دیا ۔
سوال یہ ہے کہ بھٹو مرحوم کے قتل کے مقدمہ پر نظر ثانی کر کے اور یہ ثابت کر کے کہ ان کا ” عدالتی قتل،، ہوا ہے ’ کیا ملک کے عوام کو درپیش مسائل کے حل اور مداوے کے دروازے کھل جائیں گے؟ اس وقت ملک کے عوام اقتصادی ابتری کا شکار ہیں’ بے روزگاری کا مسئلہ روز بروز سنگین ہوتا جارہا ہے‘ کراچی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے ’ دہشت گردی کی آگ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے اور حکومت یکسر ناکام ہو کر ٹھپ پڑ گئی ہے یہ بات ثابت کر کے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ناانصافی ہوئی تھی کیا یہ تمام مسائل حل ہو جائیں گے؟ امیر جماعت اسلامی منور حسن صاحب نے صحیح کہا ہے کہ بھٹو کیس ری اوپن کرنے کے بجائے زرداری کو اپنی اہلیہ کے قاتل کو سامنے لانا چاہئے۔
بلاشبہ اس وقت عوام ذوالفقار علی بھٹو کے کیس پر نظر ثانی سے زیادہ اہمیت اس کو دیتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا سراغ لگایا جائے اور ان کے قاتل یا قاتلوں کو بے نقاب کیا جائے۔بہت سے لوگ تو یہ بھی کہیں گے کہ بے نظیر کے بھائی مرتضی بھٹو کے قتل پر پڑے راز کے پردے بھی ہٹائے جائیں اور ان کے قاتلوں کو بے نقاب کیا جائے۔
No comments:
Post a Comment