Wednesday, May 4, 2011

پہلے امریکی ایجنسیاں جواب دیں

واہ رے میڈیا وا.... اس سے جو چاہو کہلوالو.... جو چاہو لکھوادو.... خاص طور پر پاکستانی الیکٹرانک میڈیا سے پاکستان کے خلاف جو چاہو چلوالو.... بس پیسہ ٹھیک ٹھاک ملنا چاہیے۔ اسامہ بن لادن ہویا 9/11 اور اس کے بعد کے واقعات ہمارا میڈیا صرف ڈاکیہ بنا ہوا ہے۔ ڈاک بابو نیا لفافہ کھلتے ہی اس میں لکھی ہوئی عبارت زور زور سے پڑھنے لگتا ہے۔ اسامہ بن لادن کے معاملہ میں بھی یہی ہوا ہے۔ امریکا سے خبر آئی اور ہمارے ملک کے ڈاک بابوﺅں نے اس کو پیٹنا شر وع کردیا۔ کسی نے زحمت نہیں کی کہ کوئی سوال اٹھاتا۔ 
امریکی کہانی شروع سے آخر تک مبہم ہے۔ امریکا نے دعویٰ کیا ہے کہ اسامہ بن لادن اس مکان میں مقیم تھا۔ رات گئے آپریشن کیا گیا۔ اس کے گھر والے حراست میں ہیں۔ لیکن نہ تو اسامہ کی تصویر جاری ہوئی نہ ہی اس کے گھر والوں کو کسی سے ملنے دیا گیا۔ پاکستان کے کسی میڈیا جن نے یہ سوال نہیں کیا کہ یہاں بھی ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ کسی ملک کے باشندے کو حراست میں لینے کے 24 گھنٹے کے اندر اندر اس کی قونصلر رسائی ممکن بنانی چاہیے لیکن امریکا نے کسی فرد کے ملک سے سرکاری رابطہ نہیں کیا‘ ان سب کو اپنا مجرم قرار دے کر ساتھ لے گیا لیکن ایک کی میت سمندر برد کردی۔ ایسا نہیں کہ اسے میت کے بارے میں کچھ پتا ہی نہیں اس لیے اسے سمندر برد کیا گیا ہے بلکہ اصل مقصد ثبوت مٹانا تھا۔
امریکیوں نے خود کہا ہے کہ ہم نے بی 2 طیاروں سے بمباری یا کروز میزائل سے حملے پر بھی غور کیا گیا تھا اس صورت میں وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ لاش ملبے تلے دفن ہوگئی۔ لیکن اس میں یہ خدشہ تھا کہ جن لوگوں کو وہ مارنا یا مرا ہوا بتانا چاہتے ہیں ان میں سے کسی کا چہرہ بچ جاتا۔ یا چہرہ کسی کا تباہ نہ ہوتا تو ڈراما ختم ہوجاتا لہٰذا اس ڈرامے کو مکمل کنٹرول میں رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ اسامہ کی موجودگی‘ فائرنگ کا تبادلہ‘ گرفتاری اور لاش کو ٹھکانے لگانے تک کا سارا معاملہ اپنے قبضے میں رکھا اور اب کوئی ثبوت نہیں کہ انہوں نے کس کو مارا اور کس کو سمندر میں پھینکا ہے۔ اسامہ 2002 ءسے کسی کے رابطے میں نہیں تھے۔ ان کا ڈائلسیس ہوتا تھا اور ڈائلیس اچھے حالات میں ہفتے میں ایک دن اور خراب حالات میں روزانہ ہوتاہے۔ اسامہ جن حالات میں بھی ہوں ان کو ڈائلسیس کی ضرورت تو تھی او ریہ بھی امریکیوں کی اطلاع ہے کہ وہ دس دن سے زیادہ ایک جگہ نہیں رہے تو کیا ان کے ساتھ ساتھ ڈائلسیس مشینیں چلتی تھیں کیا اس گھر سے ڈائلسیس مشین برآمد ہوئی یا وہ روزانہ کہیں جاکر ڈائلسیس کرواتے تھے۔
پتا نہیں ہمارا میڈیا ہمارا ہے یا نہیں لیکن جو رویہ ہے وہ یہ ہے کہ مغرب سے آنے والی خبر کو مصدقہ اور اپنے ملک کی آنکھوں دیکھی خبر کو غیرمصدقہ قرار دیتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا‘ حکومت فوجی ترجمان سب گنگ ہیں کوئی بات دل مضبوط کرکے صاف صاف نہیں کہہ پارہے۔ یعنی یہ کہ سب جھوٹ ہے بکواس بند کرو۔ لیکن یہ کہنے کے لیے تو بہت بڑا دل چاہیے۔ ہمارے ایجنسی کے ایک ذمہ دار نے امریکی رپورٹ کو تسلیم کرلیا اور کہا کہ ایبٹ آباد میں اسامہ کی موجودگی ہمارے لیے ہزہمیت کا باعث بنی اس لاعلمی پر شرمندہ ہیں۔ اب کیوں کیا گیا.... جب تک کہ اسامہ کی وہاں موجودگی اور ان کی شہادت کے ٹھوس ثبوت نہ مل جائیں یہ ردعمل تو دینا ہی نہیں چاہیے تھا۔ نتیجہ سامنے ہے۔ امریکی اٹارنی جنرل نے کہہ دیا کہ 6 رہنما مزید ہیں۔ امریکی رکن کانگریس نے کہہ دیا کہ اسامہ کی موجودگی سے متعلق پاکستان سے سوالات کا حق رکھتے ہیں۔ اس وقت پاکستانی فوج 9/11 کے بعد کے حالات سے بھی زیادہ سخت مشکل میں ہے کیونکہ اس وقت پاکستانی فوج 9/11 کے بعد کے حالات سے بھی زیادہ سخت مشکل میں سے کیونکہ اس وقت تو صرف امریکا کی مدد کرنے یا نہ کرنے کا مسئلہ تھا اب تو کاکول ملٹری اکیڈمی سے چند قدم کے فاصلے سے اسامہ کی برآمدگی کے دعوے نے پاک فوج کو بہت نیچے لاکھڑا کیا ہے۔ ساری دنیا میں پاک فوج کو نشانہ بنارہی ہے بھارت بھی اب یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم حافظ سعید کی تلاش میں کارروائی کرسکتے ہیں اور افغانستان یا ایران بھی یہی کہہ سکتے ہیں اور امریکی پہلے سے یہ کررہے تھے اور کر دکھایا۔
وہائٹ ہاﺅس نے اسامہ کے خلاف مبینہ آپریشن کو تصاویر جاری کی ہیں ان میں ایک مکان کی امریکی صدر‘ دیگر اعلیٰ حکام اور وزیر خارجہ براہ راست انٹرنیٹ کے ذریعہ آپریشن دیکھ رہے ہیں۔ ڈرون اس قدر زور دار ہے کہ ہیلری بھی پریشان دکھائی دے رہی ہیں۔ دنیا میں کسی صدر کے دفتر یا رہائش گاہ میں جنگ کا کمرہ نہیں ہوتا لیکن امریکی وہائٹ ہاﺅس میں جنگ کا کمرہ بھی ہے سب وار روم میں بیٹھے یہ ڈراما دیکھ کر ڈرامے کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ پاک فوج کے خفیہ قداروں کے حوالے سے جہاں جہاں سے بیانات آرہے ہیں انہیں بغور دیکھا جانا چاہیے۔ بھارت سے یہاں آیا ہے امریکا سے آیا ہے اور امریکا میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کا بیان تو ایسا لگ رہا ہے کہ ایک ریجن کے ایجنٹ کا دوسری ریجن کے خلاف بیان ہے۔ یہ جو شور مچایا جارہا ہے کہ پاکستان اسامہ کی موجودگی سے لاعلم تھا اس پر سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ پاکستانی قوم اور ساری دنیا بھی تو یہ حق رکھتی ہے کہ امریکا سے پوچھا جائے کہ 9/11 کے 19 حملہ آوروں کی امریکا میں موجودگی سے ان کی خفیہ ایجنسیاں کیوں لاعلم تھیں۔ تین طیاروں کے اپنی پرواز کے دوران روٹ تبدیل کرنے سے امریکا کی انٹیلی ایجنسیاں اور ایسوسی ایشن کا نظام کیوں لاعلم رہی۔ اور یہ فاصلے دوچار منٹ کے نہیں تھے بلکہ پندرہ سے چالیس منٹ تک یہ طیارے فضا میں غلط راستوں پر جارہے تھے امریکی ایجنسیوں نے کیا کیا.... گویا پاکستانی خفیہ ایجنسیوں سے زیادہ اور ان سے بہت پہلے وہ خود نااہل ثابت ہوچکے۔ اگر یہ نااہل ہے تو .... اور اگر پاکستانی ایجنسیوں پر ملی بھگت کا الزام ہے تو پھر امریکی ایجنسیاں پہلے ہی ملی بھگت کرچکی ہیں تو پہلے اس کا حساب دے دیں دنیا کو جواب دیں کہ 9/11 کے بعد جو لاکھوں لوگ مارے گئے وہ کس جرم میں مارے گئے ان کا کیا جرم تھا جبکہ 9/11 تو امریکی ایجنسیوں کی ملی بھگت تھی اور یہ کہ اتنے بڑے سانحہ کے بعد کون کون سی امریکی ایجنسیوں کے سربراہوں کے خلاف کارروائی ہوئی تھی۔ سارا ملبہ مسلمانوں پر ہی کیوں ڈالا گیا؟ یہ بات بالکل صاف نظر آرہی ہے کہ امریکا کا نشانہ پاکستان میں سب سے مضبوط ادارہ فوج ہی ہے۔ اب یہ فوج کی ذمہ داری ہے کہ وہ ڈٹ کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کریں کہ اسامہ کہاں ہے یا جس کو سمندر میں پھینکا ہے اس کو لاﺅ ورنہ ہم ڈراما نہیں مانتے۔ دوسری بات یہ کہ اسامہ کا ڈی این اے کتنی د یر میں ہوا اور اس میں عام طور پر کتنی دیر لگتی ہے اور اس کے نمونے کو کس نمونے سے ملایا گیا۔ صرف تین گھنٹے میں آپریشن‘ ایبٹ آباد افغانستان‘ وہاں سے بحیرہ عرب اس دوران ڈی این اے بھی شاباش امریکا میڈیا کے لیے صرف اتنا ہی ہے کہ جن ڈرامے کی وہ تصدیق کررہے ہیں یا اسے بغیر تصدیق پھیلارہے ہیں اس کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ ایک فلم میں ہم نے بھی کام کیا ہے ایک سین میں ملاقاتی آتا ہے تو ملازم کہتا ہے کہ صاحب سورہے ہیں اور یہ مکالمہ ملاقاتی اور ملازم میں ہے۔ دوسرے سین میںصاحب کا چالیسواں ہورہا ہے اور پھر پوری کہانی صاحب کے گرد گھوم رہی ہے۔ آپ نے دیکھا ہے ہمیں اس فلم میں.... ایسی کئی فلمیں دنیا میں چل رہی ہیں۔

No comments:

Post a Comment