Monday, May 9, 2011

اسامہ، اوباما ڈراما

کل ٹیپو سلطان غدار تھا‘آج اسامہ بن لادن دہشت گرد !لیکن تاریخ دونوں کو شہید اور بہادر شخص کے نام سے یاد کرے گی


وقت نیوز پر ایک رپورٹ میں ”مرحوم اسامہ اور ”صدر“ اوباما کی مماثلتوں اور مطابقتوں پر بات کی گئی۔ دونوں کی آنکھیں بڑی ملتی جلتی ہیں۔ اوباما داڑھی رکھ لے تو بالکل اسامہ ہوگا۔ یہ تصویر بھی امریکی سی آئی اے جھوٹ اور دھوکے کے لیے استعمال کرسکتی ہے اور کرے گی۔ اسامہ داڑھی منڈوالے تو بالکل اوباما لگے گا۔ مگر وہ ایسا نہیں کرے گا۔ امریکی جو ایک جھوٹی خبر پر جشن منا رہے ہیں، بے وقوفی کی حد تک سادہ ہیں۔ اس سے پہلے صدر بش نائن الیون کے فراڈ سے امریکی قوم کو یرغمال بناچکا ہے۔ تب امریکیوں کو ماتم کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
نوائے وقت میں مقتول اسامہ اور مقبول اسامہ کی تصویریں ساتھ ساتھ شائع ہوئی ہیں۔ کمزور نظر والے بندے کو بھی پتا چل رہا ہوگا کہ یہ دو مختلف آدمیوں کی تصویریں ہیں۔ صدر بش کی دوسری بار انتخابی کامیابی کے لیے جو تقریر جس اسامہ نے کی تھی اُس کی تصویر الگ ہے۔ اب صدر اوباما کی دوسری بار کامیابی کے لیے اسامہ کی یہ تصویر ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اوباما سے داڑھی رکھواکے اس کی تصویر سے وہ اسامہ کا کام لیں گے۔ نجانے کیوں مجھے صدر اوباما کے انجام سے ڈر لگتا ہے۔ پھر ایک شخص کالم لکھے گا جس کا عنوان ہوگا: ”اوباما کا انجام“۔ ایک گمنام اخبار میں داڑھی سمیت صدر اوباما کا کارٹون چھپا ہے۔ نیچے لکھا ہے: ”ابھی امریکی سی آئی اے کی نظر اس تصویر پر نہیں پڑی۔ اسامہ اوباما ڈراما۔ مجیب الرحمان شامی کے اخبار میں ”رات گئے آپریشن“ کو امریکی شب خون کا نام دیا گیا ہے۔ جس انداز میں اس ڈرامے کا اسکرپٹ تیار کیا گیا ہے وہ بہت احمقانہ ہے۔ کم از کم ہالی وڈ سے فلمی ٹریننگ امریکی دہشت گردوں کو لینا چاہیے تھی۔ اسامہ کے نام سے امریکی ڈرتے ہیں اور دنیا والوں کو ڈرا کے رکھا ہوا ہے۔ ایک آدمی جس کے پاس نہ ملک ہے، نہ فوج ہے، نہ مورچہ ہے، نہ میدان ہے، اس آدمی سے واحد سپر پاور امریکا ڈرتا ہے۔ وہ افغانستان کو فتح نہ کرسکا اور افغانستان سے ”عزت مندانہ“ نکلنے کے لیے یہ ڈراما رچایا گیا۔ وہ ویت نام سے ذلیل و خوار ہوکر نکلا تھا تو کمبوڈیا کو پھنسا گیا۔ اب افغانستان سے بھاگے گا تو پاکستان کو اجاڑ کے زخم زخم کرے گا۔ اسامہ امریکیوں کی طرح طاقت کے نشے میں بدحواس نہیں کہ ایبٹ آباد میں پناہ لیتا۔ شمالی وزیرستان میں امریکی اور نیٹو فورسز داخل نہیں ہوسکتیں۔ افغانستان کے کئی علاقوں میں ان کا کوئی کنٹرول نہیں۔ پہاڑوں میں اپنا مسکن بنانے والا ایک گھر میں کیوںچھپتا! اپنی افغان حکومت پٹھانوں نے ملا عمر کی قیادت میں تباہ کرلی مگر اسامہ پہ آنچ نہ آنے دی۔ اب وہ اسے بے یارومددگار کیوں چھوڑیں گے! امریکی ملاعمر تک نہیں پہنچ سکے۔ ایبٹ آباد ایسا شہر ہی نہیں، القاعدہ کا وہاں نام و نشان نہیں۔ ایبٹ آباد کے لیے یہ مطمئن صورت حال امریکیوں کے لیے سازگار تھی کہ وہ نہتے دشمن پر حملہ کرتے ہیں۔ یہ بھی تسلی تھی کہ ان کے ہی منظور کرائے گئے نام خیبر پختون خوا صوبے کا شہر ہے۔ صوبہ سرحد کے کسی شہر میں امریکیوں کی جرا ¿ت نہ تھی۔ اسفندیار سے امریکا کا سودا ہوچکا ہے۔ یہ پاکستان مخالف خاندان بھارت کے ساتھ ہے۔ وہ روس کے ساتھ تھا تو یہ روس کے غلام تھے۔ اب امریکا کے نوکر ہیں۔ ایبٹ آباد کے لیے دوسری پسندیدگی یہ تھی کہ اس طرح پاک فوج اور آئی ایس آئی کو بدنام کرنے میں آسانی تھی کہ کاکول اکیڈمی کا پڑوس اس شہر کو حاصل ہے۔ وہ جو آدمی قتل ہوا ہے اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اسامہ کا ہم شکل تھا۔ باقی کام پلاسٹک سرجری اور جدید ٹیکنالوجی سے کرلیا گیا۔ اس کا کریڈٹ یہ بھی ہے کہ اس نے آخر وقت تک مزاحمت کی کہ مجھے امریکی ظالموں نے اسامہ بنادیا ہے تو مجھے بزدلی نہیں دکھانا چاہیے۔ صدر صدام حسین بھی امریکا کا کارکن تھا۔ اس کا ایران پر حملہ ایک ناقابلِ معافی گناہ ہے جو اس سے امریکا نے کرایا، مگر وہ تختہ ¿ دار پر جس شان سے گیا امریکا شرمندہ ہوگیا اور صدام زندہ ہوگیا۔ اسے کہتے ہیں نئی زندگی....
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں
مسلمانوں کی تاریخ ایسی شاندار اموات سے بھری پڑی ہے۔ موت کی طرف جانے کے لیے زندگی کی راہ سے ہوکر جانا پڑتا ہے۔ مجھے لگتا ہے جو کوئے یار سے نکل کے نہیں جاتا وہ سوئے دار جانے کے قابل ہی نہیں ہوتا۔ رومانس یعنی عشق و مستی زندگی اور موت دونوں کے لیے ضروری ہے۔ صدر اوباما کمپلکس کا مارا ہوا ناکام اور کمزور امریکی صدر ہے۔ ریمنڈ کے لیے اس کی اپیل شرمناک تھی اور اب اسامہ کی شہادت کی خبر دینے کے لیے قوم سے خطاب اسے زیب نہیں دیتا تھا۔ امریکا کو کوئی شکست نہیں دے سکتا مگر وہ خود تو شکست پہ شکست کھائے چلا جارہا ہے۔ کتنے سال سے اسامہ کی طلسماتی شخصیت امریکیوں کے حواس پر حاوی ہے۔ 
صدر اوباما کا یہ جملہ صدر بش کی ظالمانہ، بزدلانہ اور احمقانہ پالیسیوں کی یاد دلاتا ہے: ”اسامہ کی ہلاکت (شہادت) سے دنیا محفوظ ہوگئی ہے۔“ عراق کو جھوٹ بول کر ”فتح“ کرنے والے امریکی صدر کو ایک نہتے صحافی نے جوتا مار کر مبارک باد پیش کی تھی۔ اب صدر اوباما کس طرح کی مبارک باد کا منتظر اور مستحق ہے؟ جھوٹ بول کر افغانستان اور پاکستان سے باعزت اور بامراد نکلنا اس کے مقدر میں نہیں اور اوباما کے لیے صدر بش بننا بھی ممکن نہیں۔
وہ تقریر میں لطیفوں سے کام چلاتا ہے۔ نقلی اسامہ کی جعلی ہلاکت کا سن کر سادہ مگر مظلوم امریکی ناچتے کودتے گھروں سے باہر نکل آئے۔ مجھے ایک نوجوان کے کندھوں پر سوار شوخ امریکی لڑکی اچھی لگی، وہ بڑھکیں لگا رہی تھی۔ صدر اوباما قوم سے خطاب کرسکتا ہے تو صدر زرداری کیوں نہیں کرسکتا تھا! جنرل (ر) جاوید نے کہا کہ مشکوک صورت حال میں امریکی پاگل ہیں، دو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے چھپ کر کی جانے والی کارروائی کو عظیم فتح قرار دے رہے ہیں۔ اس طرح اسامہ کو مزید ہیرو بنایا جارہا ہے۔ اسے صرف حکمران اوباما کیش کرائے گا جیسے پاکستان میں ہورہا ہے۔ مگر جب تک امریکا اپنے ملک میں معاشی صورت حال کے لیے معاملات ٹھیک نہیں کرلیتا اسے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ نان ایشو کی سیاست تو پاکستانی سیاست ہے۔ جنرل(ر) جاوید کے بقول صدر زرداری نے اپنی خاموشی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ وزیراعظم گیلانی نے سوچے سمجھے بغیر امریکی کارروائی کو اپنی فتح قرار دے دیا۔ وہ دوسروں کے مارے ہوئے شکار پر گزارا کرنے والا آدمی ہے۔ ہمارے سیاست دان نہیں جانتے کہ خاموشی بیان سے اچھی ہوتی ہے۔ جنرل کیانی نے واقعہ کے بعد برسلز جانے سے انکار کردیا مگر وزیراعظیم گیلانی فرانس چلاگیا!
پاکستانی میڈیا اس سے غافل ہے کہ یورپی، امریکی اور بھارتی میڈیا کیا کیا بکواس کررہا ہے۔ پاکستانی میڈیا صرف امریکا کی زبان بول رہا ہے۔ ایک ٹی وی چینل یہ کریڈٹ لے رہا تھا کہ اسامہ کی ہلاکت کی خبر سب سے پہلے اس نے دی ہے۔ ڈرون حملوں کے بعد مرنے والوں کو ہمارا میڈیا فوراً دہشت گرد کہہ دیتا ہے۔ سارے اینکر پرسن امریکا کے لیے ایک دوسرے پر بازی لے جانے کو بے قرار رہتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں۔ اسامہ شہید کی لاش سمندر میں بہانے کی خوف زدگی کیا ہے؟ بڑے لوگوں کی قبریں دلوں میں ہوتی ہیں۔ پورا سمندر اسامہ کی قبر ہے۔ وہ بھی امریکا کا دوست تھا۔ امریکا اپنے دوستوں کے لیے یہی کچھ کرتا ہے۔ پھر بھی لوگ اس کی دوستی پر اعتبار کرلیتے ہیں۔ مجھے اسامہ کے طریق کار سے اختلاف ہے مگر میں اس کے لیے اعتراف بھی دل میں رکھتا ہوں کہ ظالم امریکا اسامہ کی لاش سے بھی ڈر رہا ہے۔ بہادر عرب کے لیے بحیرہ ¿ عرب ہی مناسب تھا۔ لیکن اگر اسامہ شہید کل کسی پہاڑ پر اپنی چھڑی لیے چڑھتا ہوا نظر آگیا تو امریکا بہادر کیا کرے گا؟

1 comment:

  1. ab uh silsila band nahi hona cahiya ap likhta rahn

    ReplyDelete