logwww
پارلیمان کے بند کمرے کے اجلاس میں عسکری قیادت ایبٹ آباد آپریشن کے بارے میں تفصیلات بیان کرچکی ہے۔ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس امریکا کے ساتھ تعلقات اور دہشت گردی کی امریکی جنگ پر نظر ثانی کی قرارداد منظور کرچکا ہے۔ قرارداد میں آئندہ ڈرون حملوں پر افغانستان پر قابض امریکی اور ناٹو افواج کی رسد کی بندش کی تجویز بھی شامل ہے۔ اس واقع کے بعد سے پاکستان کی سیاسی قیادت اور امریکی قیادت کے درمیان ابھی تک کوئی براہ راست رابطہ نہیں ہوا ہے۔ جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں دورہ ¿ امریکا منسوخ کرچکے ہیں۔ وزیراعظم گیلانی نے بھی کہا ہے کہ امریکا کی طرف سے جو کچھ مطالبات آرہے ہیں وہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے آئے ہیں۔ امریکی قیادت کے ارکان نے براہ راست کوئی مطالبہ نہیں کیا ہے۔ امریکی سفیر برائے پاکستان کیمرون منٹر، سیکرٹری خارجہ، وزارت خارجہ کے عہدیداران، حکومتی عہدیداران کے علاوہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے بھی ا مریکی پیغامات دے رہے ہیں۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے ذریعے جو اشارے مل رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان پر امریکی دباﺅ سخت ہوتا جارہا ہے۔ ایبٹ آباد آپریشن سے قبل امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی شائع شدہ رپورٹ میں کہا تھا کہ اب ایک بار پھر موقع آگیا ہے کہ پاکستان کو اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے، یا ہمارے خلاف گویا پاکستان کے لیے ایک اور نائن الیون آگیا ہے۔ یہ ایسی بات ہے جس کی پیش بینی امریکی اور پاکستانی تعلقات پر نظر رکھنے والوں نے کرلی تھی۔ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی اور ان کے خلاف امریکی کمانڈو اور فوجیوں کا یکطرفہ آپریشن پاکستان کے لیے نائن الیون سے بڑھ کر ثابت ہوا ہے۔ نائن الیون کے موقع پر امریکا نے بغیر کسی تحقیق اور تفتیش کے نائن الیون کے واقع کا ذمہ دار القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو قرار دے دیا۔ امریکا نے افغانستان کے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کردے۔ اس وقت تک پاکستان کی حکومت کا موقف تھا کہ پہلے امریکا یہ ثابت کرے کہ افغانستان کے پہاڑوں میں پناہ گزین اسامہ بن لادن ایک ایسے منصوبے پر عمل درآمد کرسکتے ہیں جس کی استطاعت بڑی بڑی حکومتوں اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کو بھی حاصل نہیں ہے۔ امریکا پہلے ہی یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ اسے افغانستان پر حملہ آور ہونا ہے کیونکہ افغانستان میں ”یونوکال“ کی سرمایہ کاری ڈوب گئی تھی۔ طالبان کے سربراہ ملا عمر کا موقف بھی یہی تھا کہ اگر امریکا ثابت کردے کہ نائن الیون کے حادثے کا ذمہ دار ملا عمر ہے تو وہ اسے قانون کے حوالے کردیں گے لیکن جبر و زبردستی قبول نہیں کریں گے۔ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ اور امریکی فوج کے سابق سربراہ جنرل کولن پاﺅل نے صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف سے پوچھا کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف، امریکی نائب وزیر خارجہ رچرڈ آرمٹیج نے اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود کے ذریعے پاکستان کودھمکی دی کہ ہم آپ کو پتھر کے دور میںبھیج دیں گے۔ امریکی دھمکی کے نتیجے میں حکومت پاکستان نے امریکی الزامات کو قبول کرلیا اور افغانستان اور طالبان کے دشمنوں یعنی امریکا اور یورپی اقوام کے اتحادی بن گئے۔ آج دس سال بعد یہ مرحلہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق پھر آگیا ہے۔ امریکا نے ایبٹ آباد آپریشن کے ذریعے ایک ”شہادت“ تخلیق کرلی ہے کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں پاکستانی فوج کی ناک کے نیچے پناہ گزین تھا۔ ہمارے حکمرانوں نے بظاہر امریکی مدد کی لیکن اسے بھی امریکا نے پاکستان کے خلاف ”فرد جرم“ میں شامل کرلیا ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات ایک بار پھر اسی مرحلے پر پہنچ گئے ہیں، فرق یہ ہے کہ اب امریکا میں ڈیموکریٹک سیاہ فام بارک اوباما کی حکومت ہے۔ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی جانشینی جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل شجاع پاشا کو منتقل ہوچکی ہے، جبکہ امریکی نگرانی میں ایک ایسا سیاسی ڈھانچہ موجود ہے جسے پارلیمانی اور سیاسی قیادت کہا جاتا ہے۔ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پہلی بار امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر جان کیری پاکستان آرہے ہیں وہ اسلام آباد، افغانستان سے ہوتے ہوئے آرہے ہیں، سینیٹر جان کیری پاکستان کے لیے امریکی امداد کے قانون کیری لوگر بل کے محرک ہیں۔ امریکا میں پاکستان پر پابندیاں عائد کرنے کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ سینیٹر جان کیری ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والے تنازعے کو حل کرنے کے لیے بھی آئے تھے۔ جان کیری کی آمد سے قبل پاکستان کی پارلیمان مشترکہ قرارداد منظور کرچکی ہے۔ اب تک ”وارآن ٹیرر“ کے حوالے سے سارے فیصلے عسکری قیادت نے ہی کیے ہیں اور امریکی و پاکستانی فوج کے ساتھ ساتھ سی آئی اے اور آئی ایس آئی بھی مشترکہ کارروائیاں کررہی ہے۔ اب پہلی بار فوج نے پالیسی سازی کا اختیار پارلیمان کو دے دیا ہے۔ سیاسی قیادت کا المیہ یہ ہے کہ اسے حالات کا ادراک بالکل بھی نہیں ہے۔ سیاسی قیادت نے بھی امریکی غلامی کو قبول کرلیا ہے، بالخصوص اے این پی اور ایم کیو ایم جیسی امریکا نواز تنظیمیں بھی موجود ہیں جن کے رشتے پاکستان سے زیادہ امریکا سے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں بھی صرف امریکی موقف کی ترجمانی کی جارہی ہے۔
اب بھی وقت ہاتھ سے گیا نہیں ہے، سیاسی قیادت جنرل پرویز مشرف کی روش کو ترک کرے۔ وزیراعظم گیلانی اگر اپنے کہنے کا ذرا بھی پاس رکھتے ہیں کہ وہ ایسے ایوان کوجوابدہ ہیں جہاں امریکا کے خلاف جذبات شدید ہیں اور جنرل کیانی بھی اس بات سے واقف ہیں فوجی کمانڈر اور جوان امریکی جنگ نہیں لڑنا چاہتے تو وہ ہمت پکڑیں اور مضبوط موقف اختیار کریں۔ معاصر سیاست کا تجزیہ یہ ہے کہ امریکا آج تک اپنے کسی دشمن کو نقصان نہیں پہنچا سکا۔ ایران، کیوبا، وینزویلا اور شمالی کوریا اس کی مثالیں ہیں، جبکہ صدام حسین، حسنی مبارک، معمر قذافی اورشاہ ایران جیسے حکمرانوں کو امریکا عبرت کی مثال بنا چکا ہے۔ صدام حسین نے امریکی اشارے پر دس برس تک ایرانی انقلاب کے اثرات کو روکنے کے لیے جنگ کی۔ ایران تو مستحکم ہے جبکہ عراق کا وجود صرف دنیا کے نقشے پر قائم ہے۔ ملا عمر نے امریکی حکم پر اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ اپنی حکومت قربان کردی آج دس برس بعد امریکی غلامی کی وجہ سے پاکستان کو پتھروں کے دیس میں چلا گیا ہے اور امریکا طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے۔ اگر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت ڈٹ کر اور کھل کر یہ کہے کہ عالمی سیاست میں امریکی جنگ جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے۔ امریکی جھوٹ ہم پر کھل گیا ہے۔ اب آپ پر کوئی اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا افغانستان میں جنگ ہار گیا ہے۔ قیادت امریکا کے مقابلے پر کھڑی ہوجائے تو عوام پشت پر ہوں گے۔
www.nasikblog.com
Kindle, Wi-Fi, Graphite, 6" Display with New E Ink Pearl Technology - includes Special Offers & Sponsored Screensaversاب بھی وقت ہاتھ سے گیا نہیں ہے، سیاسی قیادت جنرل پرویز مشرف کی روش کو ترک کرے۔ وزیراعظم گیلانی اگر اپنے کہنے کا ذرا بھی پاس رکھتے ہیں کہ وہ ایسے ایوان کوجوابدہ ہیں جہاں امریکا کے خلاف جذبات شدید ہیں اور جنرل کیانی بھی اس بات سے واقف ہیں فوجی کمانڈر اور جوان امریکی جنگ نہیں لڑنا چاہتے تو وہ ہمت پکڑیں اور مضبوط موقف اختیار کریں۔ معاصر سیاست کا تجزیہ یہ ہے کہ امریکا آج تک اپنے کسی دشمن کو نقصان نہیں پہنچا سکا۔ ایران، کیوبا، وینزویلا اور شمالی کوریا اس کی مثالیں ہیں، جبکہ صدام حسین، حسنی مبارک، معمر قذافی اورشاہ ایران جیسے حکمرانوں کو امریکا عبرت کی مثال بنا چکا ہے۔ صدام حسین نے امریکی اشارے پر دس برس تک ایرانی انقلاب کے اثرات کو روکنے کے لیے جنگ کی۔ ایران تو مستحکم ہے جبکہ عراق کا وجود صرف دنیا کے نقشے پر قائم ہے۔ ملا عمر نے امریکی حکم پر اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ اپنی حکومت قربان کردی آج دس برس بعد امریکی غلامی کی وجہ سے پاکستان کو پتھروں کے دیس میں چلا گیا ہے اور امریکا طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے۔ اگر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت ڈٹ کر اور کھل کر یہ کہے کہ عالمی سیاست میں امریکی جنگ جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے۔ امریکی جھوٹ ہم پر کھل گیا ہے۔ اب آپ پر کوئی اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا افغانستان میں جنگ ہار گیا ہے۔ قیادت امریکا کے مقابلے پر کھڑی ہوجائے تو عوام پشت پر ہوں گے۔
www.nasikblog.com
No comments:
Post a Comment