اسامہ بن لادن اور امت مسلمہ کا فرضِ کفایہ شاہنواز فاروقی مسلمانوں کی گزشتہ ایک ہزار سالہ تاریخ میں صرف دو افراد ہوئے ہیں جنہوں نے وقت کی سپر پاور کو چیلنج کیا ہی: جلال الدین خوارزم اور اسامہ بن لادن شہید۔ جلال الدین خوارزم کا زمانہ چنگیز خان اور تاتاریوں کی یلغار کا زمانہ تھا۔ چنگیز خان وقت کی سپر پاور تھا۔ اس کی عسکری قوت بے پناہ تھی۔ تاتاری بہت بہادر اور ماہر سپاہی نہیں تھی، لیکن ان کی غیر معمولی عسکری قوت نے انہیں قہرالٰہی بنادیا تھا۔ قوت اور اس کے بہیمانہ استعمال پر انحصار چنگیز کی فوجی حکمت عملی تھی۔ وہ حریفوں پر پانچ اور دس لاکھ فوج کے ساتھ یلغار کرتا اور چند گھنٹوں میں بڑے بڑے لشکروں کو کاٹ کر رکھ دیتا۔ میدانِ جنگ میں اس کا لشکر پہلے دشمن کو روندتا ہوا ایک سمت نکل جاتا اور پھر واپسی اختیار کرکے دشمن کی رہی سہی قوت کا خاتمہ کردیتا۔ چنگیز کی اس عسکری قوت اور فوجی حکمت عملی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے حریف اس سے لڑے بغیر ہی اپنی شکست تسلیم کرنے لگے۔ چنگیز خان کا لشکر آتا تو شہروں اور بستیوں کے مسلم معززین اپنے شہر اور اپنی بستیاں رضاکارانہ طور پر چنگیز کے حوالے کردیتے۔ اس منظرنامے میں جلال الدین خوارزم پوری امتِ مسلمہ کا فرضِ کفایہ ادا کرنے کے لیے تاریخ کے افق پر نمودار ہوا۔ جلال الدین بادشاہ نہیںتھا صرف خوارزم کا شہزادہ تھا۔ وہ چنگیز کی مزاحمت کے سلسلے میں حکمت عملی پر اختلاف کی وجہ سے اپنے والد سے الگ ہوگیا تھا۔ اس نے چنگیز کے مقابلے کے لیے اپنی اہلیت اور اپنے وسائل سے عسکری قوت فراہم کی اور ریاستی قوت کے بغیر چنگیز خان کو چیلنج کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس نے کئی معرکوں میں چنگیز خان کو شکست دی۔ لیکن جلال الدین فرد تھا ریاست نہیں تھا۔ اس کی قوت کم تھی اور اسے مزید وسائل اور طاقت کی ضرورت تھی۔ اس نے فوجی کمک کے لیے خلیفہ ¿ بغداد سے مدد طلب کی۔ خلیفہ نے ایک لاکھ فوجی فراہم کرنے کا وعدہ کیا مگر چنگیز خان کے سفیر نے خلیفہ کو چنگیز کی طاقت سے ڈرا دیا۔ چنگیز کے سفیر نے کہا کہ جلال الدین تو آج کی اصطلاح میں دہشت گرد ہے۔ اس کا کوئی ٹھور ٹھکانہ نہیں۔ وہ بغداد کو چنگیز سے لڑا کر خود بغداد کی خلافت پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ چنانچہ خلیفہ ¿ بغداد نے وعدے کے باوجود جلال الدین کی مدد سے انکار کردیا۔ لیکن جلال الدین بغداد اور چنگیزخان کی یلغار کے درمیان آخری چٹان تھا۔ یہ چٹان ہٹی تو تاتاریوں نے دیکھتے ہی دیکھتے بغداد پر یلغار کردی اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اسامہ بن لادن کی اہمیت یہ ہے کہ انہوں نے وہ بار اٹھایا جو بار حکومتیں، ریاستیں، تہذیبیں اور امتیں اٹھاتی ہیں۔ اس حوالے سے وہ جلال الدین خوارزم کے مماثل ہیں۔ مگر جلال الدین کا مقابلہ چنگیز خان سے تھا اور اسامہ کے مقابل امریکہ اور یورپ تھی، اور امریکہ اور یورپ کی قوت چنگیز خان کی قوت سے ہزار گنا زیادہ تھی۔ پھر چنگیز ایک مقامی حقیقت تھا لیکن امریکہ اور یورپ ایک عالمگیر حقیقت ہیں۔ چنگیز سے بچنا آسان تھا، امریکہ اور یورپ سے بچنا محال ہے۔ چنگیز سے چھپ کر ساری زندگی بسر کرنا سہل تھا لیکن امریکہ اور یورپ سے چھپ کر ایک سال بسر کرنا بھی ناممکن ہے۔ اس فکے باوجود اسامہ بن لادن نے امریکہ بلکہ مغرب کی اجتماعی طاغوتی طاقت کو چیلنج کیا اور 20 سال سے زیادہ عرصہ بسر کرکے دکھا دیا۔ یہ ”کارنامہ“ عنایت ِالٰہی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اسامہ بن لادن نے مغرب کی طاغوتی طاقت کو چیلنج کیا تو یہ بھی ان کی ذاتی خوبی نہیں تھی۔ یہ اسلام کی شان ہے کہ وہ مومن کو کبھی باطل کی قوت سے مرعوب اور اس کے آگے سرنگوں نہیں ہونے دیتا۔ اسلام زندگی کے نارمل تجربے کو الٹ دیتا ہے۔ زندگی کا نارمل تجربہ یہ ہے کہ موت زندگی کا تعاقب کرتی ہی، لیکن اسلام زندگی کو موت کے تعاقب پر لگادیتا ہے۔ اسامہ بن لادن کی 1989ءسے 2011ءتک کی زندگی اس امر کی علامت ہے۔ اس علامت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا تھا کہ جنرل پرویزمشرف اسلامی دنیا کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت کے سربراہ تھے۔ وہ دنیا کی دوسری بڑی اسلامی ریاست کے صدر تھے۔ وہ 17 کروڑ انسانوں کے حکمران تھی، مگر انہوں نے ایک ٹیلی فون کال پر پوری ریاست امریکہ کے حوالے کردی۔ اس کے برعکس اسامہ بن لادن نے ایک فرد ہوکر صرف افغانستان اور پاکستان نہیں بلکہ پوری امت ِمسلمہ کا فرضِ کفایہ ادا کرکے رکھ دیا۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ اسلام کا جلال و جمال اپنے ظہور میں لازمانی ہے اور وہ اپنے اظہار کے لیے ریاست کا محتاج نہیں۔ اسامہ بن لادن کی شخصیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے 20 ویں اور 21 ویں صدی میں جہاد کو امریکی ٹھپے سے پاک کردیا۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد 20 ویں صدی کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ لیکن اس جہاد کے بارے میں یہ تاثر عام ہوا کہ یہ جہاد امریکہ کے ہتھیاروں، اس کے سرمائے اور اس کی عسکری حکمت عملی سے لڑا گیا ہے۔ اس تاثر نے جہاد کے عمل کو Americanized کردیا۔ یہ صرف افغانستان اور پاکستان کا نہیں پوری امت مسلمہ کا ایک بڑا نقصان تھا۔ اسامہ بن لادن نے امریکہ کو چیلنج کرکے جہاد کو ”امریکی ساختہ“ ہونے سے بچا لیا اور ثابت کردیا کہ سوویت یونین کے خلاف جہاد امریکہ کی عسکری قوت اور ڈالر کا کارنامہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے تصورِ جہاد اور شوقِ شہادت کا معجزہ تھا، اور مسلمان اس معجزے کو دوہرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شکست اس کا ثبوت ہے۔ امریکہ نے اسامہ بن لادن کے سر کی قیمت 5 کروڑ ڈالر مقرر کی تھی۔ لیکن یہ رقم اسامہ بن لادن کے ایک بال کی قیمت بھی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسامہ بن لادن 21 ویں صدی کی سب سے قیمتی شخصیت ہے۔ اس کا ثبوت علامہ اقبال کے اس شعر کی وہ عملی تفسیر ہے جو ملا عمر نے پیش کی۔ اقبال کا شعر ہے اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائی تو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی یہ شعر اقبال کا ہے اور اقبال مصورِ پاکستان ہیں۔ اس لیے اس شعر کی تفسیر بھی پاکستان میں سامنے آنی چاہیے تھی، لیکن اس شعر کی عملی تفسیر ملاعمر نے پیش کی۔ انہوں نے اپنی حکومت اور اپنی ریاست کی قربانی دے دی مگر اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ بلاشبہ یہ عظیم کارنامہ ملاعمر نے انجام دیالیکن اس کا مرکزی حوالہ اسامہ بن لادن کی شخصیت ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو انسانی تاریخ میں ایسی کوئی شخصیت موجود نہیں جس کے لیے حکومت اور ریاست کی قربانی دی گئی ہو۔ اسامہ بن لادن کی قیمت کا مزید اندازہ کرنا ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان کوئی عام ریاست نہیں، یہ وہ ریاست ہے جس نے 30 برسوں میں وقت کی دو سپر پاورز کو شکست دی ہے۔ ملاعمر نے حق کی پاسداری میں اسامہ کے لیے ایسی ریاست بھی قربان کردی۔ ظاہر ہے یہ قیمت اسامہ کی قیمت نہیں، بلاشبہ یہ ”مومن“ کی قیمت ہے۔ لیکن بلاشبہ مومن کا تشخص اسامہ کی صورت میں جلوہ گر ہوا۔ مسلم دنیا کی ایک حقیقت یہ ہے کہ اس میں جہاد ایک تصور ہے۔ ایک نعرہ ہے۔ ریاست کی سرپرستی فراہم ہو تو ایک ”پارٹ ٹائم جاب“ ہی، لیکن ”طرزِ حیات“ نہیں ہے۔ اسامہ بن لادن کی سعادت یہ ہے کہ انہوں نے جہاد کو ایک ”طرزِ حیات“ یا Way of life بناکر دکھادیا۔ بلاشبہ یہ کارنامہ انجام دینے والے وہ واحد شخص نہیں ہیں۔ گل بدین حکمت یار اور ملا عمر کے لیے بھی جہاد ایک طرزِ حیات ہی، لیکن اسامہ بن لادن کا تعلق ایک ارب پتی خاندان سے تھا، ان کے لیے امیرانہ ٹھاٹ باٹ کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا امکان ہر وقت موجود تھا۔ مگر انہوں نے شعوری طور پر اس زندگی کو ترک کیا اور جہاد کو ایک طرزِحیات کے طور پر پسند کیا۔ اس کے بغیر نہ ان کی شخصیت عالمگیر ہوسکتی تھی، نہ اس کے اثرات عالمگیر ہوسکتے تھے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی شہادت امریکہ کا ڈراما ہے۔ امریکہ اسامہ کی شہادت کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے آنکھیں دی ہیں انہیں مغرب کے حکمرانوں کی اجتماعی پیشانی پر ”دجال“ لکھا ہوا صاف نظر آرہا ہی، چنانچہ ان کے حوالے سے ہر طرح کے ڈرامے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسامہ بن لادن اور ملا عمر اب افراد کا نہیں ”علامتوں“ کا نام ہیں۔ اور علامتوں کے زندہ رہنے یا شہید ہوجانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ اسامہ اور ملا عمر کو افغانستان میں جو نتائج پیدا کرنے تھے وہ کرچکے۔ انسان فانی ہے لیکن حق لافانی ہے۔ انسان مر جاتا ہی، حق باقی رہ جاتا ہے اور اپنے اثرات مرتب کرتا رہتا ہے۔ اسامہ بن لادن اور ملا عمر نے حق کو جتنا بسر کیا ہے اس کے کچھ نتائج سامنے آچکے اور مزید کچھ کو سامنے آنا ہے۔ یہاں اسامہ کے حوالے سے اقبال کے کچھ شعر یاد آرہے ہیں ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے زندگی کی قوتِ پنہاں کو کردے آشکار تابہ چنگاری فروغِ جاوداں پیدا کرے خاکِ مشرق پر چمک جائے مثالِ آفتاب تابدخشاں پھر وہ لعلِ گراں پیدا کرے
No comments:
Post a Comment