Saturday, May 28, 2011

معجزے


رسالت کی تاریخ معجزے کی تاریخ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ رسالت کا تصورمعجزے کے بغیر نہیں کیاجاسکتا۔ مولانا ایوب دہلوی نے ایک جگہ فرمایاہے کہ معجزہ رسالت کی حجت ہے ۔ یعنی رسالت کا رسالت ہونا معجزے سے ثابت ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جتنے نبی اورجتنے رسول آئے معجزے کے ساتھ آئے بادی النظرمیں مولانا کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے لیکن رسالت کی تاریخ میں معجزے کے حوالے سے ایک فرق بھی پایاجاتاہے اور وہ یہ ہے کہ رسالت کی تاریخ میں کہیں رسالت صرف معجزے کا اظہارہے اور کہیں معجزے پر رسالت کا انحصارہے۔ مثال کے طورپر سیدنا حضرت عیسیٰؑ کی رسالت میں معجزے کو مرکزیت حاصل ہے اور حضرت عیسیٰؑ کی نبوت معجزے پہ انحصارکرتی نظرآتی ہے۔ اس کے برعکس رسول اکرم ﷺ کی رسالت میں تواترکے ساتھ معجزے کا اظہارتوہے مگر اس پر انحصار نہیں ہے۔ رسول اکرمﷺ کی رسالت میں انحصار قرآن اور اس کے عملی اظہاریعنی سیرت طیبہ پرہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلامی روایت میں قرآن مجید اور سیرت طیبہ قیامت تک کے لیے سب سے بڑے معجزے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
معجزے کی روایت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ انبیاءاورمرسلین سے معجزے کا مطالبہ ہمیشہ ”عوام “ نے کیا۔ یعنی ان لوگوں نے جن کی روحانی استعدادکم تھی اور جو معجزے کے بغیر حق کو پہچاننے اور اس سے تعلق استوارکرنے کے اہل نہیں تھے۔ خود اس کا انحصار ہمیشہ انبیاءاورمرسلین کے لائے ہوئے پیغام اور ان کی سیرتوں پررہاہے۔ صحابہ کرام ؓ اس کی بہت اچھی مثال ہیں۔ ممتاز صحابہؓ میں سے کسی ایک سے بھی یہ بات منسوب نہیں کہ اس نے ایمان لانے کے لیے معجزے کا مطالبہ کیاہو۔ بلکہ ان حضرات کا معاملہ یہ تھا کہ ان کے لیے معجزہ ”معمول“ کی بات تھا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت حضرت ابوبکرصدیقؓ کا واقعہ ہے۔ حضوراکرم ﷺ کو معراج ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ نے بغیرکسی تاخیر اور بغیرکسی سوال کے معراج کا یقین کیا اور انسانی تاریخ کے اتنے بڑے واقعے کو معمول کا واقعہ بنادیا۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ رسالت کی تاریخ میں عام لوگوں نے معجزے کا مطالبہ کیا تو کیوںکیا؟۔
اس سوال کا ایک جواب جزوی طورپر سامنے آچکا اور وہ یہ کہ عام لوگ اپنی کمزور روحانی بنیاد کی وجہ سے حق کو پہچاننے اور اس سے تعلق استوارکرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس جواب کی مزید تفصیل یہ ہے کہ معجزے کے ذریعے عام لوگ اپنی سطح پر رہتے ہوئے الوہیت کے تجربے سے گزرتے ہیں۔ وہ اپنے اندرموجود حق کو دریافت کرتے ہیں۔ ان پر اپنا اصل آشکارہوتاہے ۔ مطلب یہ کہ معجزہ انہیں ایک لمحے میں عام سے خاص بنادیتاہے ۔
انبیاءاورمرسلین اپنی جسمانی ساخت اور اپنے ظاہرکے اعتبارسے عام انسانوں کی طرح ہوتے تھے جس سے عام لوگوں کو اس بات میں شبہ لاحق ہوجاتا تھا کہ یہ لوگ واقعتاً خدا کے بھیجے ہوئے ہیں یا نہیں۔ معجزہ اپنی اصل میں آسمانی مداخلت کی علامت ہے اور انبیاءکے وسیلے سے اس کے سامنے آتے ہی ثابت ہوجاتاتھا کہ انبیاءاپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں خدا کی طرف سے ہوتاہے۔ اس طرح معجزہ نبوت اور رسالت کو شخص اورپیغام دونوں کی سطح پر اس کی آسمانی اصل یا Divine origin سے منسلک کردیتاتھا۔
عام لوگوں کی زندگی سطحی‘ سرسری اور اتھلی ہوتی ہے۔ اس میں گہرائی اور گیرائی نہیں ہوتی۔ چنانچہ عام لوگوں کی زندگی پریقین سے زیادہ ”گمان“ کا غلبہ ہوتاہے۔ گمان خیال کی ناجائزتوسیع یا Exaggeration ہوتاہے۔ اس لیے اس پر شیطانی اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ چنانچہ شیطان گمانوں کی قوت سے انسان کو ادھر ادھربھٹکاتارہتاہے۔ اس کے مقابلے پر معجزہ انسان کو یقین سرمایہ عطاکرتا تھا اور اس کے وسیلے سے لوگوں کی زندگی میں گہرائی اورگیرائی پیدا ہوجاتی تھی۔ ایک اور سطح پر معجزہ ناممکن کو ممکن بنانے کا عمل ہوتا تھا اور اس سے یقین میں مزید گہرائی اور صلابت پیدا ہوجاتی تھی۔
دین کی روایت فکر اور عمل کی روایت ہے۔ انسان فکر کرتاہے اور عمل اختیارکرتاہے اور ان دونوں قوتوں کے استعمال کے ذریعے زندگی میں کمال اور جمال پیداکرتاہے ۔ لیکن عام لوگ فکر میں بھی کمزورہوتے ہیں اور عمل میں بھی۔چنانچہ ان کی زندگی میں اول تو فکروعمل پیدا نہیں ہوتے۔ ہوتے ہیں تو پائیدار نہیں ہوتے۔ لیکن معجزے کی قوت اتنی بے پناہ اور اس کا اثر اتنا غیرمعمولی تھا کہ کمزور سے کمزور انسان بھی فکروعمل پر مائل ہوجاتاتھا اور اس کے باوجود کی پوری قوت متحرک ہوجاتی تھی۔
معجزہ ایک جانب اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا اظہارہے اور دوسری جانب اس سے انسان کی فکرو عمل کا عجزہی پر ظاہرہوتاہے۔ اس طرح معجزہ خدا اور بندے کے درمیان ایک مثالی تعلق پیدا کرنے کا سبب بنتاتھا۔ یہ تعلق خدا کی قدرت اور بندے کے عجز سے عبارت ہوتا تھا۔ ظاہرہے کہ خدا کی سب سے بڑی صفت اس کی قدرت کاملہ ہے اور خدا کے ساتھ تعلق میں بندے کی سب سے بڑی خوبی اس کی عاجزی ہے۔
غورکیاجائے تو معجزے کا مطالبہ اپنی نہاد میں غیب کو ”حاضروموجود“ اور تصورکو ”حقیقت“ بنانے کا مطالبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسالت کی تاریخ میں معجزہ طلب کرنے اور معجزہ دیکھ کر ایمان نہ لانے والوں پر اکثر سخت عذاب نازل کیاگیاہے۔ یہاں تک کہ انہیں فناکردیاگیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ معجزہ کے بعد بھی ایمان نہ لاکر ثابت کردیتے تھے کہ ان کا وجود لایعنی ہے اور اس کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے اندر حق کی رمق بھی موجود نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھاجائے تو رسالت کی تاریخ میں معجزے کا مطالبہ ایک بڑی آزمائش کی حیثیت رکھتاتھا۔ ایسی آزمائش کی حیثیت جو معجزے کی تصدیق یا اس کے انکار کی صورت میں انسانی تقدیرپر فیصلہ کن اثر مرتب کرتی تھی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ رسول اکرمﷺ کے بعد معجزے کی روایت کا مفہوم کیاہے؟۔
اس سوال کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر رسالت ختم ہوگئی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر معجزے کی روایت بھی تمام ہوئی۔ اس تناظرمیں دیکھاجائے تو حضوراکرمﷺ کے بعد معجزے کی روایت کا ایک مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رسول اکرم ﷺ کے بعد اپنے ولیوں کو کرامتیں عطاکرتارہے گا اور کرامت کی روایت ایک اعتبار سے معجزے کی روایت کی قائم مقام ہے۔ دوسری سطح پر اس سوال کا جواب ایک صوفی کے واقعے میں موجود ہے۔ ایک صاحب اس صوفی کی شہرت سن کر ان کے پاس رہنے لگے مگر کافی عرصے تک ان کے ساتھ رہنے کے باوجود انہوں نے صوفی صاحب سے اس کرامت کا صدور ہوتے نہ دیکھا۔ اس صورت حال نے ان صاحب کو مایوس کیا اور انہوں نے واپسی کا قصدکیا۔ وہ واپس لوٹنے لگے تو صوفی صاحب نے ان سے لوٹنے کی وجہ پوچھی ان صاحب نے کہاکہ آپ کے صاحب کرامت ہونے کی بڑی شہرت تھی مگر میں اتنا عرصہ آپ کے ساتھ رہا اورکوئی کرامت نہ دیکھ سکا۔ یہ سن کر وہ صوفی صاحب مسکرائے اور انہوں نے پوچھاکہ اچھا یہ بتاﺅ کہ تم نے اتنے عرصے میں مجھے کوئی خلاف شریعت کام کرتے دیکھاہے؟ مطلب یہ کہ شریعت پر عمل اور رسول اکرمﷺ کی کامل پیروی سے بڑی کوئی کرامت نہیں۔ 

No comments:

Post a Comment