خروٹ آباد میں ایف سی کے ہاتھوں پانچ چیچن باشندوں اور کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں سرفراز شاہ کی ہلاکت نے پاکستانی معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہلاکتیں نہیں، ان کی ٹیلی وژن پر پیش کش ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ٹیلی وژن کی پیش کش میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ اس نے معاشرے کو ہلا دیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ٹیلی وژن اسکرین پر لوگ قتل و غارت گری کے لاکھوں واقعات دیکھ چکے ہوتے ہیں، مگر یہ واقعات ”فلمی“ ہوتے ہیں۔ ان فلمی واقعات کے درمیان ایک دو ”حقیقی“ واقعات سامنے آجاتے ہیں اور لاکھوں فلمی مناظر کی قوت ان حقیقی مناظر کی پشت پر آکر کھڑی ہوجاتی ہے۔ ناظرین کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ فلموں میں دیکھتے رہے ہیں، وہ اتنا غیر حقیقی نہیں ہے جتنا کہ وہ سمجھتے رہے ہیں۔ اس طرح ”افسانے“ اور ”حقیقت“ کے درمیان موجود فرق مٹ جاتا ہے اور حقیقت لاکھوں افسانوں کی قوت کے ساتھ منسلک ہوکر خود بھی لاکھوں گنا طاقت ور ہوجاتی ہے۔ اس تناظر کے بغیر خروٹ آباد اور کراچی کے واقعات کے بارے میں یہ سمجھنا دشوار ہوسکتا ہے کہ ان واقعات نے پاکستانی معاشرے میں ایٹم بم کی طرح تابکاری کیوں پھیلائی ہے؟ لیکن یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ طاقت اور اس کے استعمال کی نفسیات کیا ہے؟
طاقت اور اس کے استعمال کی نفسیات کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ طاقت اخلاقیات سے بے نیاز ہوجائے تو وہ کسی بھی جواز کے بغیر اظہار پر مائل ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ اس میں ایک طرح کی نمائش پسندی پیدا ہوجاتی ہے، حتیٰ کہ ”طاقت کی فحاشی“ اور اس کے مظاہر دنیا کے سامنے آجاتے ہیں۔ ہم جب جامعہ کراچی میں تھے تو آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا ”ظہور“ شروع ہورہا تھا۔ اے پی ایم ایس او کے کئی لڑکوں کے پاس پستول ہوتے، وہ انہیں بار بار کسی نہ کسی بہانے سے نکالتے اور ان کی نمائش کرتے۔ لڑکیاں آس پاس ہوتیں تو ان کی نمائش پسندی اور بڑھ جاتی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آدمی کی اخلاقیات کمزور ہو تو ایک پستول بھی آدمی پر حکم چلانے لگتا ہے، اسے Dictate کرنے لگتا ہے اور انسان کے لیے ایک پستول سنبھالنا دشوار ہوجاتا ہے۔
یہ چند افراد کا معاملہ نہیں.... گروہوں، تنظیموں، یہاں تک کہ اقوام کا معاملہ بھی یہی ہے۔ دنیا کی تاریخ یہ ہے کہ انسان نے جیسے جیسے ہتھیاروں میں ترقی کی ہے طاقت کا اظہار، طاقت کی نمائش، طاقت کی تباہی، یعنی طاقت کی فحاشی بڑھتی چلی گئی ہے۔ مغربی دنیا کے ممتاز ماہر نفسیات ایرخ فرام نے اپنی تصنیف ''The Anatomy of Human Destructivness'' میں یورپی طاقتوں کے درمیان ہونے والی جنگوں کی تفصیل پیش کی ہے۔ ایرخ فرام کے مطابق 1480ءسے 1499ءکے درمیان یورپی طاقتوں کے درمیان صرف 9 جنگیں لڑی گئیں۔ 1500ءسے 1599ءکے درمیان یورپی طاقتوں نے مجموعی طور پر 87 جنگیں لڑیں، 1600ءسے 1699ءکے درمیان یورپی اقوام نے ایک دوسرے پر 239 جنگیں مسلط کیں۔ 1700ءسے 1799ءکے دوران یورپی قوتوں نے ایک دوسرے کے خلاف 781 جنگوں میں حصہ لیا۔ 1800ءسے 1899ءکے درمیان یورپی طاقتوں نے 651 جنگیں ایجاد کیں، جبکہ 1900ءسے 1945ءتک یورپی اقوام نے آپس میں 892 جنگیں لڑیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے جیسے آلات جدید ہوتے گئے انسانی ذہن پر آلات کا غلبہ بڑھتا چلا گیا اور انسان کی خون آشامی میں اضافہ ہوتا گیا۔
طاقت کے استعمال کی نفسیات کا ایک پہلو یہ ہے کہ طاقت ور طاقت کے استعمال کے ذریعے خود کو درست ثابت کرنا چاہتا ہے۔ وہ طاقت کے غلبے کو حق کا غلبہ باور کراتا ہے۔ طاقت کی فتح کو سچائی کی فتح ظاہر کرنے کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔ اس طرح وہ طاقت کو اخلاقیات کا ہم پلہ بلکہ اس کا ہم معنی بنادیتا ہے۔ دنیا میں غالب اور مغلوب کی تاریخ بتاتی ہے کہ مغلوب ہونے والوں میں سے بہت سے لوگ طاقت کے غلبے کو حق کا غلبہ تسلیم کرلیتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر ہمارے آقا حق پر نہ ہوتے اور انہیں ہم پر اخلاقی برتری حاصل نہ ہوتی تو انہیں ہم پر غلبہ کیوں حاصل ہوتا؟ یہ احساس تاریخ میں غلاموں کی غلامی کے لیے جواز جوئی کرتا رہا ہے اور غلاموں کی غلامی کو زیادہ سنگین بناتا رہا ہے۔ آخر اس سے بڑا ظلم کیا ہوسکتا ہے کہ مظلوم خود ظالم کا مقدمہ لڑنے لگے؟ تاریخ میں ایسے مناظر بھی بار بار دیکھے گئے ہیں کہ طاقت وروں نے طاقت کو اخلاقیات کا ہم معنی بنانے کے لیے طاقت کے استعمال کے ساتھ بڑے انسانی مقاصد وابستہ کیے۔ اس کی ایک مثال یورپی اقوام کی نوآبادیاتی مہم جوئی ہے۔ اس مہم جوئی میں یورپی اقوام نے سفید فاموں کے بوجھ کا نظریہ ایجاد کیا، جس کا مطلب یہ تھا کہ یورپ کی سفید فام اقوام مہذب ہیں اور ان پر اللہ تعالیٰ نے یہ بوجھ ڈالا ہے کہ وہ دنیا کی سیاہ فام اور غیر مہذب اقوام کو مہذب بنائیں۔ عام زندگی میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جب طاقت کا بہیمانہ استعمال کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں تو وہ یہ کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہوں نے ایسا اس لیے کیا تاکہ قانون کی بالادستی اور امن و امان کے قیام کو یقینی بنایا جائے۔ اس دلیل کے ذریعے وہ طاقت کو اخلاقی چہرہ عطا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مسائل کے حل کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان مسائل کے حل کے لیے بات چیت کرتا ہے، مکالمے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ لیکن طاقت ور مکالمہ پسند نہیں کرتا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس میں کمزور کو مساوی حیثیت دے کر اپنے ساتھ بٹھانا پڑتا ہے۔ پھر مکالمے کا انحصار دلیل پر ہوتا ہے، اور دلیل کمزور کے پاس زیادہ قوی ہوسکتی ہے۔ اس طرح دلیل کے ذریعے کمزور کے ہاتھوں طاقت ور کی شکست کا اہتمام ہوجاتا ہے۔ مکالمے کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ صبر طلب ہوتا ہے اور اس میں وقت بہت صرف ہوتا ہے۔ طاقت کا استعمال ان تمام ”الجھنوں“ سے طاقت ور کو نجات دلا دیتا ہے۔ طاقت کم وقت میں زیادہ اور بہتر نتائج پیدا کرنے کا دھوکا تخلیق کرتی ہے۔ اور بادی النظر میں یہ دھوکا، دھوکا بھی نظر نہیں آتا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں امریکا نے جاپان کے خلاف ایٹم بم استعمال کیا، حالانکہ اس کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جاپان جنگ ہار رہا تھا، البتہ روایتی ہتھیاروں سے یہ جنگ دو تین ہفتے مزید جاری رہ سکتی تھی، اور ممکن تھا محاذوں پر امریکیوں کو جاپانیوں سے بات چیت بھی کرنی پڑتی، لیکن ایٹم بم کے استعمال نے سارے مسائل حل کردیے۔ ایٹم بم کا استعمال جنگ میں فتح کا مختصر راستہ یا Short cut بن گیا۔
اپنی انتہائی صورتوں میں طاقت، طاقت ور کے دل میں کمزور کی ”حقارت“ پیدا کرتی ہے۔ اس سطح پر طاقت ور کے لیے طاقت کا استعمال ایک ”کھیل“ بن جاتا ہے۔ اس کھیل میں وقت بھی اچھا گزرتا ہے اور پست ترین جذبات کی تسکین کا سامان بھی اچھی طرح ہوجاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کھیل میںکوئی احساسِ ندامت نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کھیل تو کھیل ہے، خواہ وہ انسانوں کی ہلاکت کا کھیل ہی کیوں نہ ہو۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایریل شیرون نے صابرہ و شتیلا میں پانچ ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کرڈالا۔ بوسنیا کے علاقے سربرنیکا میں سرب درندوں نے آٹھ ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کردیا۔ بھارتی گجرات میں ہندو بلوائیوں نے سینکڑوں مسلمانوں کو زندہ جلا دیا۔ ان تمام مثالوں میں طاقت کا استعمال ایک کھیل تھا۔ اس کھیل کو ہم انفرادی زندگی سے بین الاقوامی زندگی تک ہر سطح پر ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
بشکریہ: جے اے ایس اے آر اے ٹی
No comments:
Post a Comment