http://www.divinerevelations.info/muslim/?gclid=CKGb4raH6KkCFUkT3wod2jWGZQ
واپڈا نے اعلان کیاہے کہ 2018ءتک بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے خاتمہ ممکن نہیں کالفظ استعمال کیاہے۔ قومی اسمبلی کا خاتمہ کمیٹی برائے پانی وبجلی کے نمائندے نے بتایاکہ ایک تو 2018ءتک لوڈشیڈنگ کاخاتمہ ممکن نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ 2030ءتک طلب ایک لاکھ 30 ہزار میگاواٹ ہوگی۔ گلگت‘ بلتستان میں 60 ہزار میگاواٹ صلاحیت ہے۔ چیئرمین واپڈا نے بتایاکہ گلگت ‘ بلتستان سے پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت ایک روپے 5 پیسے فی یونٹ ہوگی۔ چیئرمین واپڈا موجودہ ہوں یا سابقہ یاحکومت پاکستان کا کوئی بھی وزیر پانی وبجلی ہو اس کی باتیں ایسی ہی ہوتی ہیں اور واپڈا اور سابقہ موجودہ حکومتوں کے وزراءبھی ایسی ہی باتیں کرتے رہے ہیں لیکن ان اداروں اور وزراءوحکومتوں کی جوکارکردگی رہی ہے اس کی روشنی میں ہم بھلا خوف تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ 2018ءنہیں 3018تک جاری رہے گی کیونکہ تیس‘ چالیس سال کے عرصے میں بجلی پیدا کرنے کا کون سا منصوبہ ہے جوشروع کیاگیاہے اور بجلی کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے کون سا کام کیاگیاہے۔ یہاں تک کہ ہماری معلومات کی حدتک آج تک 1970ءسے اب تک پاکستان نے اپنی صلاحیت کے مطابق پیداوار شروع ہی نہیں کی۔ 2010ءتک پاکستان کی صلاحیت اس کی ضروریات سے زیادہ تھی لیکن یہی واپڈا یہی حکومتیں اس ملک کو صلاحیت کے مطابق بجلی نہیں دے سکے۔ توپھر آنے والے دنوں میں جب طلب زیادہ اور رسد کم ہوتی چلی جائے گی اور بجلی پیدا کرنا مزید مشکل ہوجائے گا تو پھر یہ رننگ کمنٹری کرنے والے حکمران اور واپڈا کے چیئرمین کیاکریںگے۔ ایک اورپیشن گوئی کردیں گے کہ 2020ءتک لوڈشیڈنگ جاری رہے گی۔
ہماری سوچی سمجھی رائے ہے اورپاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت اس سے یقیناً اتفاق کرے گی کہ جب تک پاکستانی قوم پر ذاتی مفادات مال ودولت‘ پلاٹ پرمٹ اور کمیشن کی بات کرنے والے رشوت خور سرکاری افسران اور سیاستدان مسلط ہیں جو درحقیقت پاکستانی قوم پر سب سے بڑا لوڈبنے ہوئے ہیں۔ کبھی پاکستانی سیاست‘ معیشت اور نظام پر لوڈ بنے ہوئے ان مجرموں کے ٹولے کی لوڈشیڈنگ کردی جائے تو ساری لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے گی۔ حقیقت یہی ہے کہ پاکستانی نظام پر سب سے زیادہ لوڈ اس کرپٹ مافیا کاہے۔ جب تک یہ لوڈ اتارا نہیں جاتا پاکستان کو نجات نہیں ملے گی۔ سب کو یاد ہوگا کہ پاکستان کی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کالاباغ ڈیم بنانے کی فیزیبلٹی بن رہی تھی پھر یہ فیزیبلٹی بن چکی تو اس پر عمل کی بات شروع ہوئی اور اچانک کا منصوبہ سیاسی اختلافات کا شکارہوگیا۔ پھر تو کوئی دورایسا نہیں رہا جب اس منصوبے کے بارے میں قوم کو متفق کیاجاسکاہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے بڑے بڑے فیصلے قومی اتفاق رائے کے بغیرکرڈالے۔ فوج کا اقتدار سنبھالنا ہو یا سیاچن بھارت کے حوالے کرنا یا کارگل سے اترنا .... کشمیرکو قومی کاز سے بھارت کے مفادات کے مطابق حل کرنا ہو۔ یا تین دریاﺅںکو بھارت کے حوالے کرنا ان میں سے کسی میں بھی نہ تو حکمرانوں نے قومی اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی کوئی رائے حاصل کی بس فیصلے کرڈالے۔ لیکن قومی اہمیت کے منصوبے کالاباغ ڈیم کو اتفاق رائے کی نذر کردیا گیا ۔ ہاں کبھی کبھی حکمرانوں کو قوم میں انتشارپیداکرنا ہوتو کالاباغ ڈیم کا شوشا چھوڑدیاجاتاہے اورڈالرحاصل کرنے ہوں تو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی اور افغان جہادکو دہشت گردی قراردیاجاتاہے۔ ڈاکٹرعافیہ کو فروخت کردیا جاتاہے۔ ایٹمی پروگرام کے خالق کو قید کردیاجاتاے ہے۔ کسی معاملے کو لے لیں چیف جسٹس کو معزول کرنا ہو یا آئین کو معطل کرنا کسی معاملے میں قومی مفاد ‘ قومی اتفاق رائے کی بات نہیں کی گئی۔ صرف بجلی ہی ایسا معاملہ کیوں ہے کہ اس کے لیے قومی اتفاق رائے کا شوشا چھوڑاجاتاہے۔
یہ بات بہت سے پاکستانی جانتے ہیں کہ سندھ وبلوچستان اس وقت قدرتی گیس اور تیل کے وسیع ذخائر سے بھرے پڑے ہیں۔ کوئلے کے وسیع ترین ذخائرموجودہیں جوپاکستان کی سیکڑوں برس کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔ پانی کے علاوہ کوئلے سے سستی ترین بجلی خود بنائی جاسکتی ہے لیکن یہاں فرنس آئل سے بننے والی رینٹل پاورکی خریداری کی جارہی ہے یہ سارا لوڈ پاکستانی قوم پر حکمران‘ بیوروکریٹس اورکمیشن مافیا نے ہی توڈالا ہے۔ لہٰذا جب تک ان کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی اس وقت تک لوڈشیڈنگ کاخاتمہ ممکن نہیں۔ جولوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ممکن نہیں وہ صرف اس لیے وہی بات کرتے ہیں کہ انہیں پتا ہے کہ ان کی جیب سے کچھ نہیں جارہا جو کچھ خرچ ہوگا جتنا ٹیکس لیناہے عوام سے لیناہے۔ اور جب عوام سے ہی سب کچھ لینا ہے۔ ارکان اسمبلی کی مراعات میں اضافہ ہوتاہے وزرا کی مراعات کو بڑھانا ہے ۔ ہرسودے میں کمیشن کھاناہے اور جتنے چاہیں قرضے لے لیں سب کے سودکی ادائیگی بھی عوام کو کرنی ہے تو پھر....یہی ہوگا ہم سمجھتے ہیں کہ آنے والے دن بہت اہم ہیں پاکستانی قوم نے ہرایک حکمران ہر سیاستدان کی اصل شکل دیکھ لی ہے۔ روٹی کپڑا مکان والوں کو بھی دیکھ لیاہے۔ بے دم کے شیربھی دیکھے ہیں اور حق پرستوں کی زرپرستی بھی دیکھی ہے۔ جرنیلوں کی شجاعت وبہادری اور انتظامی صلاحیتوں کے لشکارسے بھی بھگت رہی ہے لہٰذا آنے والے دنوں میں انہیں ایک اور موقع ملنے والا ہے زیادہ نہیں سال بھرمیں یہ موقع آنے والا ہے بس اس موقع پر گروہی لسانی اور علاقائی عصبیتوں سے نکل کر قومی مفاد میں صرف اپنے مفاد میں اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر اپنی قوم پر مسلط اس لوڈکی لوڈشیڈنگ کردیں۔ آئندہ کبھی لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی۔
ہماری سوچی سمجھی رائے ہے اورپاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت اس سے یقیناً اتفاق کرے گی کہ جب تک پاکستانی قوم پر ذاتی مفادات مال ودولت‘ پلاٹ پرمٹ اور کمیشن کی بات کرنے والے رشوت خور سرکاری افسران اور سیاستدان مسلط ہیں جو درحقیقت پاکستانی قوم پر سب سے بڑا لوڈبنے ہوئے ہیں۔ کبھی پاکستانی سیاست‘ معیشت اور نظام پر لوڈ بنے ہوئے ان مجرموں کے ٹولے کی لوڈشیڈنگ کردی جائے تو ساری لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے گی۔ حقیقت یہی ہے کہ پاکستانی نظام پر سب سے زیادہ لوڈ اس کرپٹ مافیا کاہے۔ جب تک یہ لوڈ اتارا نہیں جاتا پاکستان کو نجات نہیں ملے گی۔ سب کو یاد ہوگا کہ پاکستان کی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کالاباغ ڈیم بنانے کی فیزیبلٹی بن رہی تھی پھر یہ فیزیبلٹی بن چکی تو اس پر عمل کی بات شروع ہوئی اور اچانک کا منصوبہ سیاسی اختلافات کا شکارہوگیا۔ پھر تو کوئی دورایسا نہیں رہا جب اس منصوبے کے بارے میں قوم کو متفق کیاجاسکاہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے بڑے بڑے فیصلے قومی اتفاق رائے کے بغیرکرڈالے۔ فوج کا اقتدار سنبھالنا ہو یا سیاچن بھارت کے حوالے کرنا یا کارگل سے اترنا .... کشمیرکو قومی کاز سے بھارت کے مفادات کے مطابق حل کرنا ہو۔ یا تین دریاﺅںکو بھارت کے حوالے کرنا ان میں سے کسی میں بھی نہ تو حکمرانوں نے قومی اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی کوئی رائے حاصل کی بس فیصلے کرڈالے۔ لیکن قومی اہمیت کے منصوبے کالاباغ ڈیم کو اتفاق رائے کی نذر کردیا گیا ۔ ہاں کبھی کبھی حکمرانوں کو قوم میں انتشارپیداکرنا ہوتو کالاباغ ڈیم کا شوشا چھوڑدیاجاتاہے اورڈالرحاصل کرنے ہوں تو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی اور افغان جہادکو دہشت گردی قراردیاجاتاہے۔ ڈاکٹرعافیہ کو فروخت کردیا جاتاہے۔ ایٹمی پروگرام کے خالق کو قید کردیاجاتاے ہے۔ کسی معاملے کو لے لیں چیف جسٹس کو معزول کرنا ہو یا آئین کو معطل کرنا کسی معاملے میں قومی مفاد ‘ قومی اتفاق رائے کی بات نہیں کی گئی۔ صرف بجلی ہی ایسا معاملہ کیوں ہے کہ اس کے لیے قومی اتفاق رائے کا شوشا چھوڑاجاتاہے۔
یہ بات بہت سے پاکستانی جانتے ہیں کہ سندھ وبلوچستان اس وقت قدرتی گیس اور تیل کے وسیع ذخائر سے بھرے پڑے ہیں۔ کوئلے کے وسیع ترین ذخائرموجودہیں جوپاکستان کی سیکڑوں برس کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔ پانی کے علاوہ کوئلے سے سستی ترین بجلی خود بنائی جاسکتی ہے لیکن یہاں فرنس آئل سے بننے والی رینٹل پاورکی خریداری کی جارہی ہے یہ سارا لوڈ پاکستانی قوم پر حکمران‘ بیوروکریٹس اورکمیشن مافیا نے ہی توڈالا ہے۔ لہٰذا جب تک ان کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی اس وقت تک لوڈشیڈنگ کاخاتمہ ممکن نہیں۔ جولوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ممکن نہیں وہ صرف اس لیے وہی بات کرتے ہیں کہ انہیں پتا ہے کہ ان کی جیب سے کچھ نہیں جارہا جو کچھ خرچ ہوگا جتنا ٹیکس لیناہے عوام سے لیناہے۔ اور جب عوام سے ہی سب کچھ لینا ہے۔ ارکان اسمبلی کی مراعات میں اضافہ ہوتاہے وزرا کی مراعات کو بڑھانا ہے ۔ ہرسودے میں کمیشن کھاناہے اور جتنے چاہیں قرضے لے لیں سب کے سودکی ادائیگی بھی عوام کو کرنی ہے تو پھر....یہی ہوگا ہم سمجھتے ہیں کہ آنے والے دن بہت اہم ہیں پاکستانی قوم نے ہرایک حکمران ہر سیاستدان کی اصل شکل دیکھ لی ہے۔ روٹی کپڑا مکان والوں کو بھی دیکھ لیاہے۔ بے دم کے شیربھی دیکھے ہیں اور حق پرستوں کی زرپرستی بھی دیکھی ہے۔ جرنیلوں کی شجاعت وبہادری اور انتظامی صلاحیتوں کے لشکارسے بھی بھگت رہی ہے لہٰذا آنے والے دنوں میں انہیں ایک اور موقع ملنے والا ہے زیادہ نہیں سال بھرمیں یہ موقع آنے والا ہے بس اس موقع پر گروہی لسانی اور علاقائی عصبیتوں سے نکل کر قومی مفاد میں صرف اپنے مفاد میں اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر اپنی قوم پر مسلط اس لوڈکی لوڈشیڈنگ کردیں۔ آئندہ کبھی لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی۔
No comments:
Post a Comment