مذاہب ِعالم کی تاریخ میں رہبانیت یا ترک ِدنیا کی ایک طویل روایت موجود ہے۔ رہبانیت کا سب سے معروف مظہر عیسائیت ہے۔ عیسائیت میں ترک ِدنیا کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ عیسائیت کی تاریخ کے ایک مرحلے میں حکومت کیا، شادی کرنے کو بھی برا سمجھا گیا۔ لیکن شادی کا ادارہ نسل انسانی کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ چنانچہ جب عیسائیوں کو محسوس ہوا کہ شادی نہ کرنے سے عیسائیت فنا ہوجائے گی تو انہوں نے شادی کو ”ناگزیر گناہ“ قرار دیتے ہوئے اختیار کرلیا۔ اس دور میں دنیا پرستی کے تصور سے ایسی بیزاری پیدا ہوگئی تھی اور دنیا کا تصور اتنا پست ہوگیا تھا کہ عیسائی راہب نہانے تک کو ”دنیاداری“ سمجھتے تھے۔ چنانچہ راہبوں کی ”روحانیت“ کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاتا تھا کہ راہب کتنے دن سے نہیں نہایا۔ مثلاً بعض راہب ایسے تھے کہ ایک ایک سال تک نہیں نہاتے تھے۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے تھے جو پوری زندگی نہیں نہاتے تھے۔ ایسے راہبوں کو روحانیت میں بڑے مرتبے کا حامل سمجھا جاتا تھا۔
ہندو ازم میں ”سنیاس“ یا ترک ِدنیا کا تصور قدیم ہے۔ لیکن ہندوﺅں میں رہبانیت کا تصور تقسیمِ کار کی بنیاد پر وجود میں آیا اور پروان چڑھا۔ ہندوﺅں کا اعلیٰ ترین طبقہ برہمن ہے، اور برہمنوں میں اعلیٰ ترین برہمن شوریے ونشی برہمن ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ ان کی روحانی استعداد تمام انسانوں سے زیادہ ہوتی ہے اور یہ لوگ اسی لیے کلام مقدس کی تشریح و تعبیر کا عظیم الشان کام کرتے ہیں۔ اگرچہ ترک ِدنیا کی روایت ہندوﺅں کی تمام ذاتوں میں پائی جاتی ہے لیکن برہمنوں اور خاص طور پر شوریے ونشی برہمنوں میں اس روایت کی جڑیں سب سے گہری ہیں۔ ہندوﺅں کی تاریخ میں ریاست و سیاست کا کام ہندوﺅں کی دوسری اعلیٰ ذات کے ہندوﺅں یعنی اکشتریوں نے کیا ہے۔ ہندوﺅں کی تاریخ میں ریاست و سیاست کی سب سے بڑی علامت ”رام“ برہمن نہیں اکشتری تھے۔
بدھ ازم کے بانی گوتم شہزادے تھے اور ان کی زندگی محل تک محدود تھی۔ لیکن نوجوانی میں انہیں بالآخر محل سے باہر نکلنا پڑا۔ وہ محل سے باہر نکلے تو ان کی نظر پہلی بار ایک بیمار شخص پر پڑی۔ گوتم نے اس سے پہلے بیمار شخص کو نہیں دیکھا تھا، چنانچہ اپنے مصاحبوں سے حیرت کے ساتھ پوچھا کہ یہ کون شخص ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ ایک بیمار شخص ہے۔ گوتم نے حیرانی سے پوچھا کہ کیا انسان بیمار بھی ہوتا ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ انسان بیمار بھی ہوتا ہے۔ کچھ دن بعد گوتم نے محل سے باہر ایک بوڑھے کو دیکھا اور حیرت سے پوچھا: یہ کون ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ یہ ایک بوڑھا ہے اور انسان ایک عمر میں آکر بوڑھا ہوجاتا ہے۔ گوتم ایک روز محل سے نکلے تو انہوں نے ایک ارتھی یعنی جنازہ جاتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ گوتم کو بتایا گیا کہ یہ شخص مر گیا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ ہر انسان مرجاتا ہے۔ گوتم کے ذہن پر ان واقعات کا گہرا اثر ہوا۔ انہوں نے سوچا کہ زندگی اور انسان کی حقیقت اگر یہی ہے تو راج پاٹ یا سیاست و حکومت بے کار ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محل، یہاں تک کہ اپنے بیوی بچوں کو بھی چھوڑ دیا اور گیان دھیان کے لیے ویرانوں کا رخ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بدھ ازم کے معنی ہی ترک ِدنیا کے ہوگئے۔ بدھ ازم کی تاریخ میں اشوک کی اہمیت بنیادی ہے۔ اشوک بھارت کے بڑے راجاﺅں میں سے ایک تھا اور اس کی حکومت ہندوستان کے ایک بڑے علاقے پر تھی۔ ایک بڑی جنگ میں اسے فتح ہوئی تو اس نے دیکھا کہ اس کی فتح ہزاروں انسانوں کے قتل کا نتیجہ ہے۔ اس واقعہ نے اشوک کے دل کی دنیا بدل دی۔ اشوک نے بادشاہت ترک کردی، بدھ ہوگیا اور جنگلوں کا باسی بن گیا۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ان مذاہب میں ترکِ دنیا کی روایت کیوں پیدا ہوئی؟
مذاہب کی تاریخ کی بنیادی بات یہ ہے کہ اسلام کے سوا تمام مذاہب ایک مخصوص زمانے اور ایک مخصوص علاقے کے لیے تھے، چنانچہ ان کے کمال کا دائرہ محدود تھا۔ مثال کے طور پر ہندوازم اپنی پانچ چھ ہزار سال کی تاریخ میں کبھی ہندوستان کی جغرافیائی حدود سے باہر نہیں نکلا۔ بدھ ازم ہندوستان کی حدود سے باہر نکلا لیکن اس کی وجہ کمال کی تلاش نہیں، مجبوری تھی۔ برہمنوں نے بدھ ازم کو ایک باغی تحریک کے طور پر لیا اور اسے ہندوازم کے مراکز سے نکال باہر کیا۔ چنانچہ بدھ ازم مجبوری کے تحت اپنے مراکز سے باہر نکلا۔ عیسائیت بھی ایک زمانی شریعت تھی اور اسے اسلام کے ظہور کے ساتھ ہی منسوخ ہوجانا تھا۔ چنانچہ عیسائیت میں طریقت تو تھی مگر شریعت نہیں تھی۔
کمال کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کا تعلق جامعیت کے ساتھ ہوتا ہے، اور چونکہ اسلام کے سوا تمام مذاہب زمانی اور مکانی تھے اس لیے ان میں جامعیت نہیں تھی۔ اس کے نتیجے میں مذہب کو ٹکڑوں میں بانٹ لینا اور دنیا کو ترک کردینا آسان ہوگیا۔
مذاہبِ عالم کی تاریخ میں ترک ِدنیا کا ایک سبب بنیادی اور بلند ترین انسانی نمونوں کی نوعیت ہے۔ مثال کے طور پر حضرت عیسیٰ ؑ نے حکومت نہیں کی اس لیے عیسائیت کی تاریخ حکومت کے پیغمبری نمونے سے محروم ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے کبھی جہاد نہیں کیا اس لیے عیسائیت کی تاریخ پیغمبر کے جہادی نمونے سے خالی ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے شادی نہیں کی اس لیے عیسائیت کی تاریخ پیغمبر کے نمونے کی روشنی میں یہ بتانے سے قاصر ہے کہ شادی کی زندگی میں کیا اہمیت و معنویت ہے اور شوہر اور بیوی کے تعلقات کا مثالی نمونہ کیا ہے؟
ہندوﺅں کی تاریخ میں یہ مسئلہ ہوا کہ ہندوﺅں پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک حکومت کی۔ پھر انگریز آگئے اور انہوں نے دو سو سال تک ہندوﺅں کو اپنا غلام بنائے رکھا۔ اس کے نتیجے میں ہندوﺅں کی مذہبی تاریخ کا پورا عمل معطل ہوگیا اور قدیم ہندو ازم کا عہد ِجدید سے کوئی تعلق نہ رہ گیا۔ چنانچہ ہندوﺅں کی تاریخ نمونے یا ماڈل کے خلا سے دوچار ہوگئی۔ اس خلا کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بار گاندھی جی سے پوچھا گیا کہ آپ ”رام راج“ کی بات کرتے ہیں اور اسے ہندوستان میں لانا چاہتے ہیںتو اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اس سوال کے جواب میں گاندھی جی نے کہاکہ ہم دراصل حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی حکومت کا تجزیہ کرنا چاہتے ہیں۔ رام راج سے ہماری یہی مراد ہے۔
تجزیہ کیا جائے تو ان تمام عوامل نے مل جل کر عصرِ حاضر میں مذاہب کو ایک بڑے سانحے سے دوچار کردیا ہے اور وہ یہ کہ اسلام کے سوا ہر مذہب کے دائرے میں سیکولرازم ہی کا سکہ چل رہا ہے اور مذاہب نے بلاچوں چرا کیے سیکولرازم کی حتمی اور فیصلہ کن بالادستی کو قبول کرلیا ہے۔ تاریخی اور نفسیاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو ترک ِدنیا کی روایت نے سیکولرازم کی قبولیت کو آسان اور برق رفتار بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اسلام کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اسلام میں رہبانیت کا کوئی وجود نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام کی رہبانیت جہاد ہے۔ جہاد کا تصور ایک جانب دین اور دنیا کا جامع ہے، داخلی معنوں میں جہاد باطن کو دین کے تابع کرنے کی جدوجہد ہے اور ظاہر میں دنیا کو دین کے تابع بنانے کی ایسی کوشش جس میں انسانی وجود کی پوری توانائی صرف کی جاتی ہے۔ دوسری جانب جہاد جدوجہد کی شدت اور کمال کا مظہر ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام میں دنیا کے اندر رہتے ہوئے دنیا کو ترک کیا جاتا ہے، اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے فکر و عمل کا ہر پہلو اللہ کے لیے مخصوص ہوجائے۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو فکری سطح پر اسلام کے کمال اور اس کی جامعیت، اور عملی سطح پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمہ جہتی اور ہمہ گیری نے مسلمانوں کو کبھی رہبانیت کی طرف مائل نہیں ہونے دیا۔ آخر وہ امت رہبانیت میں کیسے مبتلا ہوسکتی ہے جسے زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے معاملے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ ¿ حسنہ کی کامل اور ٹھوس رہنمائی فراہم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے لیے سیکولرازم ایک اجنبی چیز ہے اور مسلمان سیکولرازم کی جزیات کی سطح پر بھی اور کلیات کی سطح پر بھی شدید مزاحمت کررہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment